Tag: نفسیاتی مسائل

  • کلاؤڈ برسٹ کے بعد بونیر میں متعدد افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے

    کلاؤڈ برسٹ کے بعد بونیر میں متعدد افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے

    پشاور (25 اگست 2025): بونیر میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب کے بعد مقامی لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں مون سون کے دوران کلاؤڈ برسٹ اور تباہ کن سیلابی ریلوں سے متاثر ہونے والے لوگوں میں نفسیاتی مسائل ابھرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

    اس سلسلے میں بونیر سے تعلق رکھنے والے سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر عبد الشکور نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بیشونڑی، گوکند، قدر نگر، بٹائی اور سیلاب سے متاثر دیگر علاقوں کے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ماہر نفسیات عبد الشکور نے بتایا کہ انھوں نے اب تک 120 سے زائد افراد کو سائیکلوجیکل فرسٹ ایڈ فراہم کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور پاکستان سائیکاٹریک سوسائٹی ان کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

    9 تا 14 سالہ بچیوں کو سروائیکل کینسر ویکسین کی کتنی ڈوزز لگائی جائیں گی؟

    ڈاکٹر عبد الشکور کے مطابق مقامی لوگوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے انھیں مرد اور خواتین ماہر ڈاکٹروں کا تعاون بھی حاصل ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب قدرتی آفت آتی ہے تو لوگ مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں، ایسی صورت حال میں بچوں کے ذہن پر زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    بونیر کلاؤڈ برسٹ نفسیاتی مسائل

    انھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں کے لوگ بے چینی، گھبراہٹ، اور چڑچڑے پن جیسے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں، پہلے سے ذہنی طور پر کمزور لوگ ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر عبد الشکور نے بتایا ’’ہم اس وقت لوگوں کو سائیکالوجیکل فرسٹ ایڈ فراہم کر رہے ہیں، بیشونڑی، قدر نگر، گوکند میں سیلاب سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں، متاثرہ بچوں کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘‘

  • شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ کے وقت کیا ہوتا ہے؟

    شدید ذہنی دباؤ نہ صرف ذہنی صحت بلکہ جسمانی صحت پر بھی بری طرح اثرات ڈالنے کا سبب بنتا ہے، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی کا حصول ضروری ہے۔

    جب کوئی شخص شدید ذہنی دباؤ کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت بے تحاشا منفی خیالات اور احساسات اس کے ذہن پر یلغار کرتے ہیں، لیکن آپ کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے تکلیف دہ اور منفی احساسات و خیالات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے۔

    لیکن اگر ہم ان خیالات اور احساسات میں الجھ جائیں تو یہ ہمارے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔

    یہ جاننا بھی اہم ہے کہ الجھ جانے سے کیا مراد ہے؟ دراصل الجھ جانے کی بہت سی اقسام ہیں۔ اگر کوئی چیز کھونٹی سے پھنس جائے تو وہ اس سے دور نہیں جا سکتی، کھونٹی اسے پھنسائے رکھتی ہے، جیسا کہ مچھلی، بالکل اسی طرح ہم بھی اپنے تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ جاتے ہیں۔

    یہ بھی ضرور پڑھیں: جسم پر ذہنی دباؤ کے کیا کیا اثرات پڑتے ہیں؟

    ایک لمحے آپ بچوں کے ساتھ خوش گوار موڈ میں کھیل رہے ہوں گے، لیکن اگلے ہی لمحے آپ تکلیف دہ خیالات اور احساسات میں الجھ سکتے ہیں۔ ابھی آپ مزیدار کھانے سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور اگلے ہی لمحے آپ شدید غصے والے خیالات اور احساسات میں پھنسے ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارۂ صحت) کی ایک گائیڈ کے مطابق یہ تکلیف دہ خیالات اور احساسات بری طرح پھنسا کر ہمیں ہماری اقدار سے دور کر دیتے ہیں، یعنی وہ گہری خواہشات جن کے مطابق ہم اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یعنی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہم اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے کی صلاحیت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ پیار کرنے والے، سمجھ دار ماں یا باپ ہیں، بچوں پر توجہ دیتے ہیں، اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، مستقل مزاجی کو پسند کرتے ہیں، باہمت ہیں، تو منفی احساسات و خیالات آپ کو پھنسا کر ان اقدار سے محروم کر سکتے ہیں۔

    اقدار یہ بتاتی ہیں کہ آپ کس طرح کے انسان بننا چاہتے ہیں، آپ خود سے، دوسروں سے اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے کس طرح پیش آنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ اقدار کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ اپنا اور دوسروں کا خیال رکھتے ہیں، اور ایسا کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن جب ہم منفی خیالات اور احساسات میں پھنس جاتے ہیں تو اقدار سے دور ہونے لگتے ہیں۔

    تکلیف دہ، منفی خیالات و احساسات کی اقسام

    اس کی بہت سی اقسام ہیں جو ہمیں الجھا سکتی ہیں، جیسا کہ ہار مان لینا، ہم کہنے لگتے ہیں:

    میں نے ہار مان لی

    یہ میرے لیے بہت مشکل ہے

    دوسروں کو الزام دینے کے بارے میں سوچنا یعنی یہ اس کی غلطی ہے، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا

    اپنے بارے میں انتہائی منفی رائے ہونا، یعنی میں کم زور ہوں، اور میں پاگل ہوں

    گزر جانے والے تکلیف دہ حالات کے بارے میں سوچتے رہنا

    مستقبل کے بارے میں اندیشے ہونا

    دوسروں کے بارے میں فکر مندی کے شدید احساسات محسوس کرنا

    یعنی کیا وہ ٹھیک ہے؟ اب وہ کہاں ہے؟

    جب ہم منفی خیالات و احساسات میں الجھ جاتے ہیں تو ہمارا رویہ بدل جاتا ہے، ہم اکثر ایسی چیزیں کرنے لگ جاتے ہیں جو ہماری زندگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔

    ہو سکتا ہے کہ ہم کسی لڑائی جھگڑے یا بحث میں الجھ جائیں، یا ہم خود کو ان سے دور کر لیں گے جن سے ہم پیار کرتے ہیں، یا بہت سارا وقت بستر میں لیٹے ہوئے گزار دیں گے۔

    عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ماہرین ان رویوں کو ‘دور کر دینے’ والے رویے کہتے ہیں، کیوں کہ جب ہم یہ رویے اپناتے ہیں تو ہم اپنی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں۔

  • کرونا وائرس سے صحتیاب مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں

    کرونا وائرس سے صحتیاب مریض نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں

    کرونا وائرس نے دنیا بھر کے طبی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور باوجود اس کے کہ اس سے صحتیاب ہوجانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہیں، اس کے دیرپا اثرات بھی کم خطرناک نہیں ہیں۔

    حال ہی میں برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس ذہنی امراض کی شرح میں اضافہ کردے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض سے صحتیاب ہوجانے والے طویل عرصے تک مختلف ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار رہ سکتے ہیں۔

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والا ہر 3 میں سے 1 شخص پوسٹ ٹرامیٹک ڈس آرڈر (حادثے کے بعد اس کا تناؤ اور خوف)، ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے سنہ 2002 کے سارس وائرس، 2012 کے مرس وائرس اور موجودہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کا جائزہ لیا، زیادہ توجہ سارس اور مرس وائرس سے متاثرہ افراد پر رکھی گئی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے اس کے اثرات مبہم ہوسکتے ہیں کیونکہ اول تو کرونا وائرس کا پھیلاؤ ان دونوں وائرسز سے کہیں زیادہ ہے، علاوہ ازیں کرونا وائرس سے صحتیابی کے بعد کے اثرات فی الحال نامعلوم ہیں، اور یہ اثرات سارس اور مرس جیسے ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ذہنی امراض کا سامنا کرونا وائرس کے تمام مریضوں کو نہیں ہوگا لیکن چونکہ اس کا شکار افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذہنی امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سے صحتیاب تقریباً 15 فیصد افراد کم از کم ایک سال تک ذہنی امراض کا شکار رہیں گے جس سے وہ صحتیابی کے بعد بھی معمول کی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔

    تحقیق میں برطانیہ کی ایک تنظیم کوویڈ ٹراما رسپانس ورکنگ گروپ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس سے صحتیاب مریض ذہنی امراض کا شکار ہونے والے گروپس میں پانچواں گروپ ہوں گے۔

    صحتیاب مریضوں کے علاوہ جو 4 گروپس ذہنی امراض سے متاثر ہوں گے ان میں طبی عملہ، وہ افراد جنہوں نے اس مرض کے ہاتھوں اپنے پیاروں کو کھو دیا، وہ جو پہلے سے دماغی مسائل کا شکار تھے اور وہ جو آئسولیشن میں رہتے ہوئے مختلف مسائل کا شکار ہوئے جیسے گھریلو تشدد، شامل ہیں۔

  • نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    نفسیاتی مسائل کی وجہ بچپن میں کیا جانے والا برا سلوک بھی ہوسکتا ہے

    تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ملک و معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد ثابت ہو اور ایک اچھی زندگی گزارے، اور اس کے لیے وہ تمام کوششیں بروئے کار لاتے ہیں۔

    اکثر والدین کو لگتا ہے کہ ہر وقت سختی کا رویہ بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ ان کے بچوں کو بڑے ہو کر شدید قسم کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنا، ان پر چیخنا چلانا، ان کی بات کو رد کرنا اور ان کے معصوم جذبات کا خیال نہ رکھنا ان پر ذہنی تشدد کے برابر ہے۔

    تحقیق کے مطابق بچپن میں اس طرح کا ذہنی تشدد سہنے والے بچے بڑے ہو کر بے شمار نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے اینگزائٹی، ڈپریشن، ٹراما اور خودکش خیالات کے حامل ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں کئی جسمانی مسائل جیسے سر میں درد،جسم میں درد اور ہاضمے کے مسائل بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف والدین ہی بچوں پر ذہنی تشدد کے باعث نہیں، والیدن کے علاوہ دیگر رشتے دار، پڑوسی، اسکول میں دوست یا ٹیچر یا باہر سے آنے والے افراد بھی والدین سے نظر بچا کر بچوں کے ساتھ برا سلوک کر سکتے ہیں۔

    ایسے افراد کے سامنے بچے نہایت غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ انجانے میں ایسے ضرر رساں افراد پر اپنے بچے کے حوالے سے بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں پر والدین کا چیخنا انہیں ذہنی طور پر شدید متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جب بچوں سے چیخ کر بات کی جائے، یا چلا کر انہیں ڈانٹا جائے تو ان کا ننھا ذہن انہیں سیلف پروٹیکشن یعنی اپنی حفاظت کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ اسی طرح ایسے موقع پر بچے کو دماغ کی جانب سے یہ سگنل بھی ملتا ہے کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرے۔

    یہ دونوں چیزیں ایک نشونما پاتے دماغ کے لیے نہایت مضر ہیں جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر واضح ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جن کا بچپن اس طرح گزرا ہو کہ انہوں نے چیختے چلاتے افراد کا سامنا کیا ہو، ایسے افراد اپنی زندگی میں شدید قسم کے نفسیاتی مسائل اور ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

  • کچے کانوں والے شوہرکو کس طرح ہینڈل کیا جائے؟

    کچے کانوں والے شوہرکو کس طرح ہینڈل کیا جائے؟

    ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد اپنی نفسیاتی گرہوں کے سبب کسی کی بھی بات پر فوراً یقین کرلیتے ہیں اوراس کے بعد اپنے اہل خانہ کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔

    اے آروائی ڈیجیٹل کے مارننگ شو ’’گڈ مارننگ پاکستان‘‘میں اس حوالے سے خصوصی سیگمنٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر عمران نے خصوصی شرکت کرکے سامعین کو مفید مشوروں سے نوازا۔

    پروگرام کےدوران ایک خاتون کالر نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے شوہر بے پناہ شکی مزاج کے ہیں اور کسی کی بھی بات کو فوراً ہی قبول کرکے گھر میں لڑائی جھگڑا شروع کردیتے ہیں۔ خاتون نے یہ بھی بتایا کہ ان کے شوہر نہ صرف یہ کہ گھر میں بدکلامی کرتے ہیں بلکہ لوگوں کے سامنے بھی ان کی بے عزتی کردیا کرتے ہیں۔

    خاتون کے سوال پر ڈاکٹر عمران نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس قسم کے لوگ درحقیقت ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے افراد بچپن میں احساسِ محرومی اور پیار کی کمی کا شکار رہے ہوتے ہیں۔

    ان کی زندگی میں ماضی کی مشکلات کے سبب پیدا ہونے والا یہ خلا ان افراد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا رویہ خراب کریں ، بدکلامی کریں اور اپنے زیر اثر افراد پر اپنی فرسٹریشن نکالیں۔

    ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کا حل آسان بھی ہے اور مشکل بھی ، سب سے پہلے تو متاثرہ فریق کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے مدمقابل جو شخص ہے اسے کچھ نفسیاتی مسائل درپیش ہیں جن کا تدارک بے حد ضروری ہے ۔ اگر ان مسائل کو حل کرلیا جائے تو زندگی خوش گوار ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے مشورہ دیا کہ اس معاملے میں متاثرہ فریق یعنی خاتون کچھ عرصہ اپنے صبر کے دامن کو مزید وسیع کرکے اپنے شوہر کو وقت دینا شروع کریں ۔ ان کے اعمال کی حد سے زیادہ تعریف شروع کردیں۔ ان کے ہر اچھے برے ، چھوٹے اور بڑے عمل کو سراہیں اور ان کو کسی حد تک سر پر بٹھا لیں۔

    احساسِ کمتری کا مارا ہو ا شخص جب دیکھے گا کہ اسے توجہ کا مرکز بنایا جارہا ہے تو رفتہ رفتہ آپ اس کے رویے میں تبدیلی دیکھیں گے اور وہ حد سے زیادہ تعریف جو اسے آپ کے ذریعے مل رہی ہے ، اس سے ہاتھ دھونے کے خوف کے سبب اپنے رویے کی اصلاح کرنا شروع کردے گا۔


    یہ ویڈیو اور تحریر مفادِ عامہ کے لیے شیئر کی جارہی ہے تاہم نفسیاتی مسائل میں کوئی بھی طریقہ حتمی نہیں ہوتا۔

  • حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

    حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

    حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

    رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

    child-2

    اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

    یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

    :دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

    یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

    رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

    واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔

  • اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت کا شکار کر رہی ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔

    امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے امراض کی بنیاد پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اس کے تحت چند اخبارت میں کچھ رہنما مضامین شائع کروائے۔

    ان ماہرین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔

    ماہرین نے جب ان بچوں کی روزمرہ عادات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ اسمارٹ فونز ان بچوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے جو ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    ان ماہرین کے مطابق بعض والدین خود بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب سے ان کے بچوں نے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے رویوں اور عادات میں منفی تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ البتہ کچھ والدین کو اس کا علم نہیں تھا اور وہ اس بات کو ماننے سے انکاری تھے کہ اسمارٹ فون ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ایک خوفناک مثال

    نیویارک کی رہائشی ایک والدہ سوزین کا کہنا تھا کہ اس کا 6 سالہ بیٹا ایک زندہ دل اور خوش مزاج بچہ تھا جو کھیلوں اور پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا تھا۔ پھر اسے اس کی ساتویں سالگرہ پر انہوں نے آئی پیڈ تحفہ میں دیا اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔

    سوزین کے مطابق انہوں نے یہ تحفہ اسے اس لیے دیا تاکہ وہ اپنی تعلیم کے لیے دنیا بھر کی ریسرچ سے استفادہ کرسکے۔ ساتھ ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔

    kids-3

    شروع میں ایسا ہی ہوا، انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگیا اور گفتگو کے دوران وہ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت کرنے لگا، لیکن پھر آہستہ آہستہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔

    اب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت خاموشی سے آئی پیڈ کے ساتھ گزارنے لگا۔ اس کے رویے میں تبدیلی آتی گئی۔ جس وقت آئی پیڈ اس کے پاس نہ ہوتا وہ گم صم رہتا۔ پڑھائی اور کھیلوں سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔

    مزید پڑھیں: فیس بک کا زیادہ استعمال بچوں کو بدتمیز بنانے کا سبب

    سوزین کا کہنا تھا کہ ایک دن رات کے وقت وہ یہ سوچ کر اس کے کمرے میں گئیں کہ وہ سورہا ہوگا، لیکن وہ جاگ رہا تھا اور اپنے آئی پیڈ پر جانوروں کو قتل کرنے والے ایک کھیل میں مشغول تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر آنکھیں پھاڑے، کسی حد تک ایب نارمل انداز میں اسکرین کو گھور رہا تھا اور جیسے ایک ٹرانس میں محسوس ہورہا تھا۔ سوزین کو اسے متوجہ کرنے کے لیے کئی دفعہ زور سے ہلانا پڑا تب وہ بری طرح چونک اٹھا۔

    سوزین کے مطابق اس صورتحال سے وہ بے حد خوفزدہ ہوگئیں اور اگلے ہی دن اسے ماہر نفسیات کے پاس لے آئیں۔

    جدید دور کی ایجاد لت کیسے؟

    سوزین جیسے کئی اور والدین بھی تھے جنہوں نے کم و بیش اسی صورتحال سے گھبرا کر ماہرین نفسیات سے رجوع کیا۔ بعض والدین نے بتایا کہ اسمارٹ فونز میں موجود گیمز بچوں کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہوچکے ہیں کہ وہ خواب میں بھی انہیں ہی دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر بتاتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں کتنے دشمنوں کو مار گرایا۔

    ماہرین نفسیات نے جب اس سلسلے میں دیگر ماہرین سے رجوع کیا اور مزید تحقیق کی تو ان پر انکشاف ہوا کہ جدید دور کی یہ اشیا بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا کہ یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریوں کو خوش آمدید کہیئے

    طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس لت کا شکار بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزار، اداس اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچے چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہوگئے۔

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت کا شکار ہوگئے وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کا شکار شخص کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا (فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا۔

    بچوں کو کیسے بچایا جائے؟

    دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایجاد کی گئی یہ اشیا کس قدر مضر ثابت ہوسکتی ہیں، شاید اس کا اندازہ خود ان کے خالقوں کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیو جابز اپنے بچوں کو ایک ٹیکنالوجی سے دور رکھنے والا والد تھا۔ سیلیکون ویلی کے سرکردہ افراد اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہوتا ہے۔

    یہی حال امیزون کے خالق جیف بیزوس اور وکی پیڈیا کے خالق جمی ویلس کا بھی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کروایا جہاں  ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر 3 میں سے ایک بچہ بولنے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقف ہوجاتا ہے۔

    تو پھر آخر بچوں کو اس نشے سے کیسے بچایا جائے؟

    مزید پڑھیں: بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو اغوا ہونے سے محفوظ رکھیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نشے کے شکار افراد کی طرح ایسے افراد اور بچوں کی زندگی سے بھی ٹیکنالوجی کو بالکل خارج کردیا جائے۔ اسمارٹ فونز، کپیوٹر حتیٰ کہ ٹی وی کو بھی ممنوعہ بنادیا جائے۔

    آج کل کے دور میں یہ ایک نا ممکن بات تو ہے مگر بچوں کو بچانے کا واحد حل یہی ہے۔

    kids-2

    ماہرین نے مزید تجاویز دیں کہ بچوں کو 12 سال کی عمر سے قبل کسی قسم کی ٹیکنالوجی سے متعارف نہ کروایا جائے۔

    بچپن سے ہی بچوں کو کتابوں اور روایتی کھلونوں سے مصروف رکھا جائے۔

    انہیں باہر جا کر جسمانی حرکت والے کھیل جیسے کرکٹ اور فٹبال یا سائیکل چلانے کی ترغیب دی جائے۔

    مزید پڑھیں: باغبانی کے بچوں پر مفید اثرات

    قدرتی اشیا جیسے سبزہ زار، پھولوں، درختوں، سمندر اور ہواؤں سے روشناس کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی اور اہمیت بتائی جائے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    گھر کے اندر انہیں گفتگو میں مصروف رکھا جائے۔ ان سے روزمرہ کی مصروفیات، اسکول، دوستوں اور کھیلوں کے بارے میں باتیں کی جائیں۔

    گھر میں تمام افراد مل کر کھانا کھائیں اور اس دوران موبائل فونز کو دور رکھیں۔

    جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔

    ٹی وی دیکھتے ہوئے والدین میں سے کوئی ایک بچوں کے پاس رہے اور انہیں مثبت پروگرامز جیسے کارٹون، معلوماتی پروگرامز اور کھیلوں کے میچ وغیرہ دیکھنے کی جانب راغب کیا جائے۔ ایسا اسی صورت ہوگا جب والدین خود یہ پروگرامز دیکھیں گے۔

    بچوں کو کہانی سناتے ہوئے انہیں تصوراتی دنیا میں بھیجنے سے گریز کریں۔ انہیں حقیقی زندگی کی کہانیاں اور قصے سنائیں۔

    یاد رکھیں کہ جب بچے تنہا اور بوریت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ یہ جانے بغیر کہ کیا چیز ان کے لیے نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند، کسی بھی چیز کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں اور اس کے عادی بن سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور انہیں بھرپور وقت دیں۔