Tag: نفیساتی مسائل

  • ہاتھوں کے انگوٹھے آپ کے بارے میں کیا کچھ بتاسکتے ہیں؟

    ہاتھوں کے انگوٹھے آپ کے بارے میں کیا کچھ بتاسکتے ہیں؟

    گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں کماری نائیک کا نام حال ہی میں درج کیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کے انگوٹھے اور انگلیاں ہیں۔

    اب وہ 63 سال کی ہیں۔ پیدائش کے بعد معلوم ہوا کہ ایک عام اور صحت مند انسان کی طرح کماری نائیک کے ہاتھوں کی پانچ انگلیاں اور دو انگوٹھے نہیں بلکہ 12 انگلیاں اور 19 انگوٹھے ہیں۔ یہ ایک طبی پیچیدگی اور جسمانی مسئلہ تھا اور انھیں اسی کے ساتھ عمر کی منازل طے کرنا پڑے۔

    کماری نائیک اور ان کے ورلڈ ریکارڈ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اب ہم ایک عام انسانی ہاتھ سے متعلق دل چسپ انکشافات کی طرف چلتے ہیں۔ یہ دراصل ہمارے ہاتھوں کے دو انگوٹھوں پر ماہرینِ نفسیات اور خاص طور پر پامسٹ حضرات کے تجربات اور مشاہدات ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ انگوٹھے کی لمبائی سے انسان کی خصوصیات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور انگوٹھے پڑھ کر یہ جان سکتے ہیں کہ کوئی انسان کس طرح کم زوری کا شکار ہورہا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس عضو کی مدد سے انسان کی موت سے متعلق بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں ضعف، کسی کم زوری اور اس کے موت کی طرف بڑھنے کا اندازہ انگوٹھے کی حالت میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے لگایا جاتا ہے اور ان کے درست ہونے کے بارے میں‌ حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ یہ صرف دماغ کو پڑھنے کی ایک کوشش ہے جس کے دوران ماہرِ نفسیات یا پڑھا لکھا اور قابل پامسٹ اس انسانی عضو کی مدد سے طبی مسائل کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

    چھوٹے، بھدے اور موٹے انگوٹھے والے افراد اپنے کاموں کو حیوانی زور سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے افراد کی عادت میں تحمل نہیں ہوتا، لمبے اور خوبصورت انگوٹھے والے افراد اچھی عادات کے حامل ہوتے ہیں اور ہمیشہ ذہانت سے کام لیتے ہیں اور مہذب ہوتے ہیں۔

  • والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    والدین کا مخصوص رویہ بچوں کو مجرم بنانے کا سبب

    بچوں کی تربیت ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے جو نرمی اور سختی دونوں کی متقاضی ہے۔ تاہم حال ہی میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ والدین کے 2 قسم کے ’شدت پسندانہ‘ رویے بچوں میں نفسیاتی مسائل جنم دے سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق نارویجیئن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام کی گئی۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے جیلوں میں بند خطرناک جرائم میں ملوث قیدیوں کا طبی و نفسیاتی معائنہ کیا۔ ان مجرمان کو خطرناک ترین قرار دے کر سخت سیکیورٹی میں رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں کی جانے والی غلطیاں

    ماہرین نے ان قیدیوں کے ماضی اور مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ان تمام مجرمان کے ماضی میں ایک بات مشترک تھی۔ یہ تمام لوگ یا تو والدین کی مکمل طور پر غفلت کا شکار تھے، یا پھر والدین کا رویہ ان کے ساتھ نہایت سختی اور ہر معاملے میں نگرانی اور روک ٹوک کا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ دونوں رویے بچوں کو تشدد پسندانہ خیالات اور رویوں کا مالک بنا سکتے ہیں جو ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اور ایک عام زندگی کو متاثر کر سکتا ہے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ مجرمان اپنے بچپن میں جسمانی یا نفسیاتی طور پر تشدد کا شکار بھی ہوئے۔

    مذکورہ تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر اینا گل ہیگن کا کہنا ہے، ’یہ افراد اپنے نگرانوں (والدین یا سرپرست) کے ہاتھوں جسمانی و ذہنی طور پر زخمی ہوئے‘۔ ان کے مطابق بچپن گزرنے کے بعد ان لوگوں کے اندر ابھرنے والا تشدد پسند اور مجرمانہ رویہ انہی زخموں کا ردعمل تھا۔

    ان کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کو بالکل نظر انداز کرنا، ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور یہ سوچنا کہ بچے خود ہی اپنی زندگی گزار لیں گے، یا والدین کا ہر بات پر روک ٹوک کرنا، ہر معاملے میں بچوں سے سختی سے پیش آنا اور بچوں کی مرضی اور پسند نا پسند کو بالکل مسترد کردینا، یہ 2 ایسے رویے ہیں جو بچوں کو بالآخر نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق والدین کو درمیان کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے، بچوں پر سختی بھی رکھنی چاہیئے اور ان کی پسند نا پسند کو اہمیت دیتے ہوئے ان کی بات بھی ماننی چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: باپ سے قربت بچوں کی ذہنی نشونما میں اضافے کا سبب

    ڈاکٹر اینا کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیق کے لیے جتنے بھی مجرمان سے ملیں وہ یا تو اپنے بچپن میں اپنے والدین کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیے گئے، یا پھر انہوں نے بے تحاشہ سختی اور درشتی برداشت کی اور انہیں اپنی پسند کا کوئی کام کرنے کی اجازت نہ تھی۔

    ماہرین کے مطابق کسی شخص کو مجرم بنانے میں حالات و واقعات کا بھی ہاتھ ہوتا ہے تاہم اس میں سب سے بڑا کردار والدین کی تربیت اور ان کے رویوں کا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔