Tag: نقاد برسی

  • آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور: اردو کے سر بر آوردہ نقاد

    آل احمد سرور اردو کے سر بر آوردہ نقاد تھے جن کے تنقیدی مضامین نے ایک نسل کے ادبی مذاق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔

    9 فروری 2002ء پروفیسر آل احمد سرور اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ آل احمد سرور کے مطالعہ کی وسعت، فکر کی گہرائی، تخیل کی بلندی، تجزیاتی سوچ بوجھ اور طرزِ تحریر نے انھیں اردو ادب میں ممتاز کیا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کی ترویج و توسیع میں بھی ان کا حصہ رہا اور جب جدیدیت اپنا رنگ جمانے لگی تو سرور صاحب اس کے ہراول دستے میں رہے۔ آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ سرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ از حد وسیع ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں‌ تنقید کی نئی شمعیں روشن کیں۔ نقاد و مصنّف، شاعر اور ماہرِ اقبالیات ہی نہیں بحیثیت ادبی صحافی بھی انھوں نے خوب کام کیا۔ وہ اردو ادب، ہماری زبان اور کئی دوسرے جرائد سے وابستہ رہے۔

    سرور صاحب 9 ستمبر 1911ء کو شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے علاقہ پیلی بھیت کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ایک انٹرویو میں آل احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گزرا۔ میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔”

    آل احمد سرور کا بچپن اور نوعمری کا دور پیلی بھیت کے علاوہ بجنور، سیتا پور، گونڈہ اور غازی پور میں گزرا۔ کیونکہ اُن کے والد کرم احمد کو ملازمت کے سلسلے میں مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کرنی پڑی تھی۔ ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی اور بعد میں اسکول کی تعلیم مختلف شہروں‌ میں ہوتی رہی۔ غازی پور کے کوئن وکٹوریہ ہائی اسکول سے آل احمد سرور نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔

    سرور نے اپنی خود نوشت سوانح "خواب باقی ہیں” میں اپنے بچپن کے واقعات بیان کیے ہیں۔ جس سے اُن کے عادات و اطوار اور علمی استعداد و مشاغل کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا حافظہ بہت تیز تھا۔ پڑھائی میں آگے رہتے تھے۔ عام بچوں کی طرح ابتداً کھیل کود سے دل چسپی رہی لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جس میں ہر طرف شعر و ادب کا چرچا تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے گھروں میں مطالعہ اور بیت بازی کا رواج تھا اور اسی کا شوق سرور صاحب میں بھی پیدا ہوگیا۔ وہ کتب بینی کے عادی ہوگئے۔ ان کے والد کی انگریزی اور اُردو کی کتابیں مطالعہ کا ذوق بڑھاتی رہیں۔ بعد میں وہ اپنے چچا کے گھر آگرہ منتقل ہو گئے۔ سینٹ جانسن کالج میں ایف۔ ایس۔ سی (انٹرمیڈیٹ سائنس) میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا اور کالج میگزین میں اپنی تخلیقات شائع کروانے لگے جس نے انھیں ساتھی طالبِ‌ علموں میں‌ ممتاز کیا اور کالج میں ادبی انجمن کے ذمہ دار بنا دیے گئے۔ ایک موقع پر انجمن کے سالانہ مشاعرے میں سرور صاحب کی ملاقات فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، میکش اکبر آبادی سیماب اکبر آبادی، مخمورؔ اکبر آبادی اور مانیؔ جائسی جیسے با کمال شعرا سے ہوئی۔ اسی دوران سینٹ جانسن کالج کے زیر اہتمام انعامی مباحثہ ہوا جس میں سرور صاحب نے حصہ لے کر دوسرا انعام اپنے نام کیا۔ یوں حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر وہ بی- ایس۔ سی کا امتحان درجہ دوم میں پاس کرکے انگریزی میں ایم۔ اے کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ دراصل یہاں ان کے والد کا بھی تبادلہ چکا تھا۔ یہاں سرور نے علمی و ادبی مقابلوں اور مذاکروں سبھی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سرور نے جس وقت علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اُس وقت سر راس مسعود یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ اور یونیورسٹی میں اُن کے زیر نگرانی زائد از نصابی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ سرور کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے انھیں علی گڑھ میگزین (اُردو ) کا ایڈیٹر مقرر کردیا گیا۔ انگریزی میں‌ بڑی دستگاہ تھی اور یونیورسٹی میں ہونے والے مباحثوں میں وہ انعامات حاصل کرتے رہے۔ اس بارے میں‌ سرور لکھتے ہیں: "ہر سال ایک انگریزی میں اور ایک اردو میں آل انڈیا ڈبیٹ ہوا کرتا تھا۔ 1933ء کے آخر میں جب انعامی مقابلے ہوئے تو سب سے زیادہ مجھے اور میرے بعد خواجہ احمد عباس کو انعام ملے۔”

    آل احمد سرور نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کرنے کے بعد شعبۂ انگریزی میں بہ حیثیت لکچرر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں ایم۔ اے اُردو کیا۔ اور پھر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لکچرر ہوئے۔ اسی زمانے میں ریڈیو پر تقاریر کے لیے بلایا جانے لگا۔ سرور کی ریڈیو پر پڑھی گئی تقاریر کافی مقبول ہوئیں۔ بعد میں یہ زیور طباعت سے آراستہ کی گئیں۔ شعبۂ اُردو سے سبکدوشی کے بعد آل احمد سرور انجمن ترقی اُردو کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ پھر انہیں شملہ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو مقرر کیا گیا۔ وہ بھارت کے کئی شہروں میں آتے جاتے رہے اور اس دوران ان کے تنقیدی مضامین، شاعری اور مقالہ جات اردو دنیا میں ان کی شناخت اور پہچان بنتے رہے۔

    پروفیسر آل احمد سرور کے مضامین کی کتابی شکل اور ان کی دوسری تصانیف میں پہچان اور پرکھ، خواب باقی ہیں (خود نوشت سوانح)، خواب اور خلش (شعری مجموعہ)، خطبے کچھ، کچھ مقالے، دانشور اقبال، ( مجموعہ تنقیدات، اور افکار کے دیے، نئے اور پرانے نظریے، تنقید کیا ہے، ادب اور نظریہ، مسرت سے بصیرت تک، اقبال کا نظریہ اور شاعری، ذوقِ جنوں (شاعری) شامل ہیں۔

    بھارت میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے آل احمد سرور کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی جامعات نے سند و اعزاز سے نوازا جب کہ اتر پردیش اُردو اکیڈمی نے چار مرتبہ اور ساہتیہ اکیڈمی نے ایک انعام ان کو دیا۔ 1992 میں حکومتِ ہند نے آل احمد سرور کو پدم بھوشن کا خطاب دیا تھا۔

  • ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    ڈاکٹر عبادت بریلوی: اردو تنقید کا بڑا نام

    اردو زبان و ادب میں پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی کو ان کی تصنیف اردو تنقید کا ارتقاء نے بے مثال شہرت دی، لیکن یہی ایک کتاب نہیں بلکہ متعدد اصنافِ ادب میں ان کی کتابیں‌ ہمارے لیے کسی خزانہ سے کم نہیں۔ وہ نقاد بھی تھے، جیّد محقق، خاکہ نویس اور سفر نامہ نگار بھی۔ لیکن ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے اور انھیں صفِ اوّل کا نقاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آج ڈاکٹر عبادت بریلوی کی برسی ہے اور اس مناسبت سے ہم ان پر بھیّا کے نام سے لکھے گئے ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی شخصیت ہم پر کھلتی ہے۔ "وہ اپنی ذات میں اسم با مسمیٰ تھے، یوں کہ لوگ عبادت کی حد تک ان سے محبت اور عقیدت کرتے۔ ان کی نیکی، ہمدردی، خلو ص اور نرم رویے کے قصیدے پڑھے جاتے۔ دور دور تک ان کا طوطی بولتا۔ آپ اردو پڑھیں اور ان کا تذکرہ نہ ہو، ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا آبائی گھر تو بریلی میں تھا، لیکن ان کے والد بسلسلۂ روزگار لکھنو آگئے اور وہیں مستقل قیام کیا۔ ان کا کنبہ آٹھ بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل تھا۔ یہ سب سے بڑے تھے۔ ان سب بھائیوں نے لکھنؤ کے امین آباد اسکول سے تعلیم پائی۔ وہاں کے استاد محنت، لگن، شفقت اور محبت کی خصوصیات سے مالا مال تھے۔ یہی اثرات عبادت صاحب کی شخصیت میں بھی نظر آتے۔ امین آباد ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوبلی کالج، لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے انٹر کیا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں گئے جہاں سے ایم۔ اے اردو اور پی ایچ ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہوئی، تو اینگلو عریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ قائداعظم اور لیاقت علی خاں بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۴۴ء کا دور تھا۔”

    ڈاکٹر صاحب بابائے اردو مولوی عبدالحق کے مشورے پر پاکستان آئے تھے اور یہاں‌ لاہور میں‌ اورینٹل کالج سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں دوران قیام عبادت صاحب نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ گیارہ سال یہاں گزارنے کے بعد ’لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز یونیورسٹی لندن‘‘ چلے گئے۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان ان کے سامنے آئے۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔ ۱۹۶۶ء میں وطن واپس آئے، تو پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔۱۹۷۰ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے اور ۱۹۸۰ء میں ان کی ملازمت ختم ہوئی۔

    ان کا سنہ پیدائش 14 اگست 1920ء تھا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خاندانی نام عبادت یار خان رکھا گیا اور اردو ادب میں انھوں نے عبادت بریلوی کے نام سے پہچان بنائی۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے جب عبادت بریلوی کو ادب کا شوق ہوا تو مطالعہ شروع کیا اور پھر تصنیف و تالیف کا آغاز کیا۔ انھیں کئی بڑے ادیبوں اور شعراء کی صحبت نصیب ہوئی۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے علمی و تحقیقی کام شروع کرنے والے عبادت بریلوی کی تصانیف میں غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید’ کے نام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سفرنامے بھی لکھے جن میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری کے علاوہ ان کی ایک آپ بیتی بعنوان یادِ عہدِ رفتہ شامل ہیں۔ یہ کتابیں عبادت بریلوی کی کئی سال کی محنت، غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہیں اور انھیں اردو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔

    ڈاکٹر صاحب 19 دسمبر 1998ء کو لاہور میں‌ وفات پاگئے تھے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری: بلند پایہ نقّاد، یادگارِ‌ زمانہ شخصیت

    ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر نام اور قد آور شخصیت ہیں جن کی شہرت اور شناخت ایک ماہرِ لسانیات، بلند پایہ نقّاد اور محقّق کے طور پر ہے۔ 3 اگست 2013ء کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے اور ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر صاحب کی تاریخِ پیدائش 26 جنوری 1926ء ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر فتح پور میں پیدا ہوئے اور اس شہر کی نسبت ہمیشہ ان کے نام سے جڑی رہی۔ اُن کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ‌ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔

    فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں‌ قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر عنوانات سے خوب کام کیا۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ اس موضوع پر نہایت مستند مانی جاتی ہے۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ ان کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیش بہا خزانہ ہیں۔

    ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو حکومتِ‌ پاکستان ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔

  • سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور: ایک نکتہ شناس، سر بَر آوردہ نقاد

    سُرور صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ آلِ احمد سُرور ایک نکتہ شناس، بلند فکر کے حامل نثر نگار، شاعر، سوانح نگار، صحافی اور قابل استاد بھی تھے۔ اردو زبان میں تنقید کے میدان میں انھوں نے نئے چراغ روشن کیے اور اپنی تحریروں سے اردو زبان و ادب کو مالا مال کیا۔

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور ادب میں جدیدیت کو رنگ جماتے دیکھا اور اس کا اثر بھی قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں رہے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا اور وہیں وفات پائی۔ دنیائے شعر و ادب میں سُرور اپنے وسیع مطالعہ کے ساتھ تجزیاتی فکر اور منفرد طرزِ تحریر کے سبب بلند مقام رکھتے ہیں۔

    انھوں نے تنقید کے میدان خاص مقام بنایا اور برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال پر خوب کام کیا۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔ ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ ایک انٹرویو میں آلِ احمد سرور نے اپنے وطن کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ :

    "شاید یہ بات تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میرا آبائی وطن بدایوں ہے۔ بدایوں ایک تاریخی شہر ہے اور وہاں کے کھنڈر اور ٹوٹی پھوٹی حویلیاں اب بھی اُس کی گزشتہ عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بستی قدیم زمانے سے علماء و فضلا، شعرا اور صوفیائے کرام کا مرکز رہی ہے۔ میرے بچپن کا زمانہ وہیں گذرا میں نے جب آنکھ کھولی تو گھر گھر شعر و شاعری کا چرچا تھا۔ آئے دن مشاعرے ہوتے جس میں باہر سے مشہور شعرا شریک ہونے کے لیے آتے اور بدایوں کے چھوٹے بڑے سبھی اپنا کلام سناتے۔ وہاں بزرگوں کے مزار بڑی کثرت سے ہیں۔ جن کے عرس بڑی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ بدایوں کی تہذیبی و سماجی زندگی میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اس موقع پر کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے کے علاوہ مشاعروں کا بھی رواج تھا۔”

    پروفیسر صاحب کی تاریخ‌ِ پیدائش 9 ستمبر 1911ء ہے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں صدرِ شعبہ ہوئے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے قریب ہوئے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں رہے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کے مخالف سُرور نے ادب میں اس ہنگامی اور انقلابی تصور کا ساتھ نہیں دیا جس کا پرچار اس وقت جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سُرور کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں اترے تھے۔ اسی وصف کی بنیاد پر ان کی تنقید میں مغرب سے استفادہ اور مشرقی رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    بطور شاعر سُرور کو دیکھا جائے تو ہم ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری محسوس کرتے ہیں۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    وہ دلّی میں مقیم تھے اور وہیں 9 فروری 2002ء کو انتقال کیا۔ آلِ احمد سُرور کو پدما بھوشن اور ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    آج اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1976ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملےتھے۔

    وہ افسانوی ادب کے اوّلین نقّاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    وقار عظیم محقّق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ انھوں‌ نے متعدد کتب یادگار چھوڑیں جو علم و ادب کی دنیا کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان میں نثر اور نظم کی مختلف اصناف ہیں‌ جن پر انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    ان کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی علمی و ادبی تحریروں سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔

    وہ لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔