Tag: نقصان

  • لگتا ہے بھارت پانی جمع کر کے پاکستان بھیج رہا ہے تاکہ نقصان زیادہ ہو، احسن اقبال

    لگتا ہے بھارت پانی جمع کر کے پاکستان بھیج رہا ہے تاکہ نقصان زیادہ ہو، احسن اقبال

    نارووال (27 اگست 2025): احسن اقبال نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ لگتا ہے بھارت پانی جمع کر کے پاکستان بھیج رہا ہے تاکہ نقصان زیادہ ہو۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور کرتارپور کا ہنگامی دورہ کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے اور پانی کو ہتھیار بنایا، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔

    احسن اقبال نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کیساتھ ورکنگ انفارمیشن رکھتا تو نقصان کم ہوتا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ پانی جمع کر کے پاکستان بھیج رہا ہے تاکہ نقصان زیادہ ہو۔

    ان کا کہنا تھا کہ نارووال تاریخ کی بدترین سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصل تباہ اور اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ وہ آفت ہے اسےموسمیاتی تبدیلی کہتے ہیں۔ 2022 میں ہم نے بدترین سیلاب دیکھا تھا، جس نے سندھ اور بلوچستان کو سمندر میں تبدیل کر دیا تھا۔

    وفاقی وزیر منصوبہ بندی ہے کہ یہ وہ نئی آفت ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر اور سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا اور صف بندی کرنی ہے۔ ہمیں مستقبل کی آفتوں سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنا ہوگی۔

    انہوں نے کرتارپور کے دورے کے موقع پر وہاں ریسکیو کاموں کی نگرانی کی اور بتایا کہ میں بعض زائرین پانی کے ریلوں کے باعث محصور ہو گئے، جنہیں بحفاظت ریسکیو کیا جا رہا ہے۔

  • ویسٹ انڈیز سے صرف ایک میچ ہارنے سے پاکستان ٹیم کو کیا نقصان ہوا؟

    ویسٹ انڈیز سے صرف ایک میچ ہارنے سے پاکستان ٹیم کو کیا نقصان ہوا؟

    پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ میزبان ٹیم نے جیت لیا اس ہار سے قومی ٹیم کو نقصان پہنچا۔

    پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جاری تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں گرین شرٹس نے فتح حاصل کی۔ تاہم گزشتہ روز بارش سے متاثرہ میچ میں مہمان ٹیم نے پہلی شکست کا بدلہ چکاتے ہوئے میچ اپنے نام کیا اور سیریز کا توازن ایک، ایک سے برابر کر دیا۔

    پاکستان کو اس ایک میچ میں شکست کیا ہوئی، وہ آئی سی سی ٹیم رینکنگ میں پھسل کر چوتھے سے پانچویں نمبر پر پہنچ گئی جب کہ ویسٹ انڈیز جو سیریز کے آغاز سے قبل دسویں نمبر پر تھیں ایک رینکنگ بہتری کے ساتھ نویں پوزیشن پر آ گئی ہے۔

    سیریز کا فیصلہ کن میچ کل (منگل) کو ٹرینیڈاڈ میں کھیلا جائے گا۔ جو میچ جیتے گا سیریز بھی اس کے نام رہے گی۔

    تاہم اگر پاکستان سیریز جیت بھی جاتا ہے تو اس کی رینکنگ میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔

    https://urdu.arynews.tv/mohammad-rizwan-on-loss-against-west-indies-11-august-2025/

  • اے آئی چیٹ باٹ ”چیٹ جی پی ٹی“ کے استعمال کا بڑا نقصان سامنے آ گیا

    اے آئی چیٹ باٹ ”چیٹ جی پی ٹی“ کے استعمال کا بڑا نقصان سامنے آ گیا

    آج کل ہر کوئی اے آئی چیٹ باٹ ’چیٹ جی پی ٹی‘ استعمال کر رہا ہے تاہم اس کا مسلسل اور زیادہ استعمال کا بڑا نقصان سامنے آ گیا ہے۔

    سائنس وٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے بعد اب اے آئی چیٹ باٹ ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ ہماری روزہ مرہ کی زندگی میں شامل ہوتا جا رہا ہے اور ہر عمر کا انسان اس کا استعمال کرنے لگا ہے۔

    تاہم ایک حالیہ تحقیق جو اوپن اے آئی اور ایم آئی ٹی میڈیا لیب نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ اس میں یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ اے آئی چیٹ باٹ ”چیٹ جی پی ٹی“ (ChatGPT) کے باقاعدہ اور زیادہ استعمال کرنے والے افراد میں تنہائی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    چیٹ جی پی ٹی کو لانچ ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور یہ عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے، جسے ہر ہفتے 40 کروڑ سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔

    اگرچہ یہ پلیٹ فارم ایک اے آئی ساتھی کے طور پر متعارف نہیں کرایا گیا، لیکن کچھ صارفین اس کے ساتھ جذباتی طور پر جُڑ جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر یہ تحقیق کی گئی۔

    تحقیق کیسے کی گئی؟

    ماہرین نے تحقیق کے لیے دو طریقے اپنائے۔ پہلے مرحلے میں، لاکھوں چیٹس اور آڈیو تعاملات کا تجزیہ کیا گیا، جبکہ 4,000 سے زائد صارفین سے ان کے چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ طرزِ عمل پر سوالات کیے گئے۔

    دوسرے مرحلے میں، ایم آئی ٹی میڈیا لیب نے 1,000 افراد کو ایک چار ہفتے کے تجربے میں شامل کیا، جس میں شرکاء کو روزانہ کم از کم پانچ منٹ تک چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ گفتگو کرنے کو کہا گیا۔

    نتائج کیا نکلے؟

    تحقیق کے مطابق، اگرچہ تنہائی اور سماجی تنہائی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن وہ شرکا جو چیٹ جی پی ٹی پر زیادہ بھروسہ کرتے اور ”جذباتی طور پر جُڑتے“ نظر آئے، ان میں دوسروں کی نسبت تنہائی کے زیادہ آثار پائے گئے۔

    مطالعہ میں بتایا گیا کہ یومیہ زیادہ استعمال، خواہ کسی بھی انداز یا گفتگو کی نوعیت میں ہو، زیادہ تنہائی، انحصار اور غیر معمولی استعمال سے جُڑا ہوا تھا، جبکہ سماجی میل جول میں کمی دیکھی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن یہ گفتگو کا آغاز کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی صارفین کی ذہنی صحت پر کیا اثر ڈال سکتی ہے۔

    تحقیق میں شامل اوپن اے آئی کے سیفٹی ریسرچر جیسن فانگ کا کہنا تھا، ہم ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، لیکن ہمارا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ ہم کن اثرات کو ماپ سکتے ہیں اور مستقبل میں ان کے طویل مدتی اثرات کیا ہوں گے۔

    یہ تحقیق اس وقت سامنے آئی ہے جب اوپن اے آئی نے GPT-4.5 ماڈل متعارف کرایا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنے پیشرو اور حریف ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ ذہین اور جذباتی طور پر حساس ہے۔

  • چیمپئنزٹرافی کی میزبانی کرنے پر پی سی بی کو نقصان ہوا یا نہیں؟ اہم انکشاف

    چیمپئنزٹرافی کی میزبانی کرنے پر پی سی بی کو نقصان ہوا یا نہیں؟ اہم انکشاف

    بھارتی میڈیا پر چیمپئنزٹرافی 2025 کی میزبانی سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو مالی نقصان ہونے کی خبروں پر ذرائع نے ردعمل دے دیا۔

    چیمپئنزٹرافی کی میزبانی کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد کے حوالے سے تمام اخراجات کیے، آئی سی سی نے ایونٹ کےلیے 70 ملین ڈالرز کا بجٹ رکھا تھا، پاکستان میں ہونے والی ایونٹ کےلیے آئی سی سی نے اسی بجٹ کا استعمال کیا۔

    تاہم پاکستان کے بجائے دبئی میں جو 5 میچز منعقد ہوئے ان کی میزبانی کا معاملہ ابھی مکمل ہونا باقی ہے، معاملات آئی سی سی کی طرف سے واضح ہونے کے بعد پی سی بی کو مالیاتی وضاحت ملے گی۔

    چیمپئنز ٹرافی اختتامی تقریب میں میزبان پاکستان کو نظر انداز کرنے پر پی سی بی کا بڑا فیصلہ

    ذرائع نے بتایا کہ چیمپئنزٹرافی کی میزبانی کے سلسلے میں پی سی بی کو 6 ملین ڈالرز کی فیس بطور میزبان ملی، تاہم یہ فیس ہر میزبان ملک کو ملتی ہے اور میزبان اس میں سے اخراجات نہیں کرتا۔

    اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں 29 سال بعد ہونے والے آئی سی سی ایونٹ کے انعقاد پر اپ گریڈیشن کی گئی، پاکستان کرکٹ بورڈ نے ضرورت محسوس کی تھی اس لیے اسٹیڈیم بنائے گئے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایونٹ کی گیٹ منی بھی میزبان ملک کے حصے میں ہی آتی ہے تاہم اس کے تمام معاملات ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/no-bus-parade-for-indias-champions-trophy-heroes-upon-return-heres-why/

  • سندھ میں سیلاب سے 1.8 ٹریلین کا نقصان ہوا ہے: وزیر اعلیٰ

    سندھ میں سیلاب سے 1.8 ٹریلین کا نقصان ہوا ہے: وزیر اعلیٰ

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے 1.8 ٹریلین کا نقصان ہوا ہے، ورلڈ بینک کے ساتھ مذاکرات کے بعد 56.9 ملین ڈالرز منظور کروائے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا۔

    اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ 18 سے 25 اگست تک تباہ کن بارشیں ہوئیں، نقصان کا شکار گھروں کا سروے جاری ہے، جو جانی نقصان ہوا ہے اس کی بھی ویری فکیشن کا کام جاری ہے۔

    وزیر آب پاشی جام خان شورو کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے سے 70 فیصد پانی کی نکاسی ہوچکی ہے، نومبر تک 85 فیصد پانی کی نکاسی ہوجائے گی۔

    وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے 1.8 ٹریلین کا نقصان ہوا ہے، ورلڈ بینک کے ساتھ مذاکرات کے بعد 56.9 ملین ڈالرز منظور کروائے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 27 ملین ڈالرز کراچی کی سڑکوں کی بحالی کے لیے منظور ہوئے ہیں، 7.9 ملین ڈالرز پی ڈی ایم اے کے لیے منظور کروائے ہیں جبکہ 22 ملین ڈالرز فلڈ کے مسائل کے حل کے لیے منظور کروائے ہیں۔

  • بجلی کمپنیوں کی نااہلی اور کام چوری قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے لگی

    بجلی کمپنیوں کی نااہلی اور کام چوری قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے لگی

    اسلام آباد: ملک بھر کی بجلی کمپنیاں اپنی نااہلی اور کام چوری سے بجلی فراہم کرنے میں ناکامی کے بعد، قومی خزانے کو بھی سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچانے لگیں۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کمپنیوں کی نا اہلی سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

    حال ہی میں جاری کی گئی ایک دستاویز کے مطابق بجلی کمپنیوں کے زائد نقصانات اور عدم وصولیوں سے 1 سال میں 343 ارب روپے کا نقصان ہوا، بجلی کمپنیوں نے نقصانات کی مد میں قومی خزانے کو 113 ارب، اور صارفین سے واجبات وصول نہ کرنے کی مد میں قومی خزانے کو 230 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

    سال 22-2021 میں بجلی کمپنیوں کے نقصانات نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے طے کردہ اہداف سے 3.72 فیصد زیادہ رہا۔

    دستاویز میں کہا گیا کہ بجلی کمپنیوں کی واجبات کی وصولی کی شرح 90.51 فیصد تک ہے، گزشتہ سال کی نسبت واجبات وصولی کی شرح مزید 7 فیصد کم ہوگئی۔

    واجبات کی عدم وصولی اور نقصانات سے گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے، بجلی کمپنیوں میں گورننس کے مسائل بھی گردشی قرضہ بڑھنے کی وجہ ہیں۔

    سال 22-2021 میں پشاور کی بجلی کمپنی پیسکو میں نقصانات کی شرح 37.47 فیصد رہی، حیدر آباد کی حیسکو میں نقصانات کی شرح 32.88 اور سکھر کی سیپکو میں نقصانات کی شرح 35.62 فیصد رہی۔

    کوئٹہ کی کیسکو میں نقصانات کی شرح 28.07، ملتان کی میپکو میں 14.84، لاہور کی لیسکو میں 11.52، گوجرانوالہ کی گیپکو میں 9.07 فیصد اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی بجلی کمپنی آئیسکو میں نقصانات کی شرح 8.18 فیصد رہی۔

    دستاویز میں کہا گیا ہے کہ نیپرا نے نقصانات والے فیڈرز کو آؤٹ سورس کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

  • ’ابتدائی سروے کے مطابق 102 ارب کا نقصان ہوچکا ہے‘

    ’ابتدائی سروے کے مطابق 102 ارب کا نقصان ہوچکا ہے‘

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ابتدائی سروے کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے 102.3 ارب کا نقصان ہوا ہے، سوات میں 34 جاں بحق افراد کے خاندانوں کو 4 لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ابتدائی سروے کے مطابق 102.3 ارب کا نقصان ہوا ہے، 1400 کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئی ہیں، صوبے میں سیلاب اور بارشوں سے 289 اموات ہوچکی ہیں۔

    شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ سوات میں سب سے زیادہ 34 اموات ہوئی ہیں، جن کی اموات ہوئی ہیں ان کےخاندان کو 4 لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا ہے، زخمی ہونے والے افراد کا معاوضہ 1 لاکھ 60 ہزار کر دیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے شروع دن سے اپنا ہیلی کاپٹر مہیا کیا ہے، ہیلی کاپٹر سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ریسکیو کیا گیا۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے نمائندے صرف تصاویر بنوانے آئے، انہوں نے صرف ریلیف کی رقم کا اعلان کیا ہے۔

  • کیا پاکستان کے کلائمٹ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

    کیا پاکستان کے کلائمٹ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

    رواں برس مون سون کی بارشوں نے ملک کے بڑے حصے کو سیلابی صورتحال سے دو چار کردیا ہے، ملک کے ہر حصے میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوچکی ہے اور اس بربادی سے المیوں کی داستانیں جنم لے رہی ہیں۔

    اس سال ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے سینکڑوں افراد کی جانیں لیں، مکانات، کھڑی فصلیں، انفرااسٹرکچر، مال مویشی سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ لاکھوں لوگ ان قیامت خیز بارشوں میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور اب بے سرو سامانی کی حالت میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک بھر میں مجموعی طور پر 210 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں، سب سے زیادہ بارشیں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوئیں جہاں بارشوں کی شرح بالترتیب 508 اور 506 فیصد زائد رہی۔

    گلگت بلتستان میں 148 فیصد، پنجاب میں 86 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔

    نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔

    ملک بھر میں اب تک سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق اب تک 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔

    غیر معمولی بارشوں کی وجہ کیا بنی؟

    دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والے تبدیلی (کلائمٹ چینج) اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں اسی نوعیت کے شدید موسمی ایونٹس رونما ہورہے ہیں، تاہم ترقی پذیر ممالک ان آفات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو بظاہر تو قدرتی آفات ہیں، لیکن اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔

    ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق انسانی سرگرمیوں (خاص طور پر صنعتی سرگرمیوں) کی وجہ سے ہماری فضا میں کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج کہیں زیادہ ہوگیا ہے، جو زمین کا مجموعی موسم تبدیل کر رہی ہیں، نتیجتاً قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    اور نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ گئی ہے اور ان سے ہونے والے نقصانات کی شرح بھی کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

    بلوچستان میں 506 فیصد زائد بارشیں ہوئیں

    اس وقت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار چین اور امریکا ہیں، چین نے سال 2019 میں 9 ہزار 877 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کیا، امریکا 4 ہزار 745 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مطابق عالمی طور پر خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسز میں چین 27 فیصد اور امریکا 15 فیصد کا حصے دار ہے۔

    دوسری جانب پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 1 فیصد سے بھی کم صرف 0.6 فیصد ہے، تاہم جب کلائمٹ رسک انڈیکس کی ان ممالک کی درجہ بندی دیکھی جائے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، تو پاکستان وہاں آٹھویں نمبر پر ہے، یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

    اور صرف پاکستان ہی نہیں، اس فہرست میں شامل تمام ممالک گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے تقریباً نہ ہونے کے برابر ذمے دار ہیں۔ یہ امیر ممالک کی ترقی اور صنعتی سرگرمیاں ہیں جو بڑے پیمانے پر پوری زمین کا موسم تبدیل کر رہی ہیں اور اس کا خمیازہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

    پرائم منسٹر ٹاسک فورس آن کلائمٹ چینج کے سابق رکن ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مفروضہ نہیں رہا، یہ حقیقت بن چکا ہے اور نہایت خوفناک طریقے سے سامنے آرہا ہے۔

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہم دہائیوں سے اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کلائمٹ چینج سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بے تحاشہ نقصانات ہوں گے، اور اب یہ خطرات حقیقت بن چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشیں معمول کی بارشیں نہیں اور یہ مون سون کا پیٹرن بھی نہیں، یہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس قدر غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں کہ سب کچھ بہا کر لے گئیں۔

    محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور کئی بین الاقوامی جامعات میں ایٹموسفرک فزکس کی تعلیم دینے والے ڈاکٹر غلام رسول اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ کچھ سالوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو کلائمٹ چینج کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔

    ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ بہار کا موسم آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ موسم گرما نے لے لی ہے، موسم گرما کا دورانیہ اور شدت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جو ہماری زراعت کو متاثر کر رہا ہے، آبی ذخائر کو خشک کر رہا ہے، اور گلیشیئرز کو بھی پگھلا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شمال مشرق سے شروع ہوتا تھا اور خیبر پختونخواہ اور پھر جنوب کی طرف آتا تھا، لیکن اس سال مون سون شروع ہی جنوب سے ہوا۔

    سیلاب سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے

    ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق اب ان علاقوں میں بھی بارشوں کا سلسلہ دیکھا گیا جہاں مون سون کی بارشیں عموماً نہیں ہوتی تھیں، جیسے گلیشیئرز کے اطراف کے علاقے، اگر یہاں پر بھی بارشیں ہورہی ہیں تو پھر اس کا براہ راست خطرہ گلیشیئرز کو ہے جو پہلے ہی گرمی سے پگھل رہے ہیں، اور اب بارشوں کی وجہ سے مزید پگھلیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج نے غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، اب مون سون کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے، اس کی شدت بھی زیادہ ہوسکتی ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ہمیں کس قدر نقصانات سہنے ہوں گے۔

    کیا امیر ممالک اس کی ذمہ داری قبول کریں گے؟

    گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے بڑے حصے دار اور امیر ممالک کی صنعتی سرگرمیاں کلائمٹ چینج کے ذریعے کس طرح ترقی پذیر ممالک کو متاثر کر رہی ہیں، صرف پاکستان اس کی ایک مثال نہیں، متعدد ایشیائی ممالک گزشتہ کچھ سال سے کم و بیش اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

    پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت (بھارت خود بھی گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا ایک بڑا حصے دار ہے) اور دیگر ایشیائی، افریقی اور کیریبیئن ممالک گزشتہ کچھ سالوں سے شدید ہیٹ ویوز، طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں اور ہر سال بے تحاشہ جانی و مالی نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    تو کیا امیر ممالک اس تباہی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان نقصانات کے ازالے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ امیر ممالک ان نقصانات کی بحالی کے لیے دی گئی رقوم کو قرض یا امداد کا نام دینے کے بجائے اسے اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں گے؟

    ہر سال ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں جب ماحولیاتی نقصانات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور امیر ممالک کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ دار ان کی صنعتی سرگرمیاں ہیں، تو یہ ممالک کندھے اچکا کر اپنا کاربن اخراج کم کرنے کے وعدے کرلیتے ہیں، لیکن اگر وہ اس وعدے کو وفا بھی کرلیتے ہیں تو یہ کمی اتنی کم ہوتی ہے، کہ اگلے سال تک ہونے والا ماحولیاتی نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    سنہ 2009 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی یونائیٹڈ نیشنز کلائمٹ چینج کانفرنس میں (جسے COP بھی کہا جاتا ہے)، کئی سول سوسائٹی تنظیموں نے مل کر ایک تحقیقی ڈیٹا پیش کیا اور کہا کہ امریکا اور یورپی یونین، افریقہ، ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے آنے والی آفات میں ہونے والے 54 فیصد مالی نقصان کے ذمہ دار ہیں۔

    اور پھر اسی سال ایک ازالہ جاتی فنڈ کا قیام عمل میں لانے کی منظوری دی گئی، لیکن اس کے پیچھے ترقی پذیر ممالک کی کئی سالہ کوشش تھی۔

    یہ ازالہ جاتی فنڈ کون سا ہے؟

    طویل عرصے تک جب اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ وہ امیر ممالک جن کی صنعتی سرگرمیوں سے کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج ہورہا ہے، اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور پھر یہ اضافہ پوری دنیا میں قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، ایسے ممالک کو ان آفات اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اخلاقی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے، تو بالآخر ان امیر ممالک نے ازالے کی رقم دینے کی ہامی بھرلی۔

    سنہ 1992 میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی باڈی یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج (یو این ایف ٹرپل سی) کے تحت ایک فنڈنگ ادارہ قائم کیا گیا جسے گرین کلائمٹ فنڈ کا نام دیا گیا۔

    سنہ 2010 میں قائم کی جانے والی اس فنڈنگ باڈی کا مقصد ہے، ترقی پذیر ممالک کو گلوبل وارمنگ میں کمی اور اس سے ہم آہنگی کرنے والے اقدامات کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔

    یہ فنڈ ترقی یافتہ امیر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کلائمٹ چینج سے متاثر ہونے والے ممالک کے نقصانات کا ازالہ کریں۔

    اس فنڈ کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امیر ممالک، غریب ممالک کے ماحول دوست پالیسیز کی طرف منتقل ہونے میں مالی مدد کریں، کیونکہ ماحول دوست ذرائع مثلاً سولر انرجی بنانا، توانائی کے عام ذرائع یعنی کہ پیٹرول یا کوئلے وغیرہ کی نسبت خاصا مہنگا ہے، غریب ممالک مہنگا ہونے کے باعث ماحول دوست ذرائع نہیں اپنا سکتے اور مجبوراً وہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے امریکا، یورپی ممالک اور دیگر امیر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک مقررہ رقم اس فنڈ میں جمع کروائیں۔

    پاکستان اس فنڈ کے قائم ہونے سے اب تک اس سے نہایت ہی معمولی سا فائدہ اٹھا سکا ہے۔ گرین کلائمٹ فنڈ کے تحت اب تک پاکستان کو صرف 4 منصوبوں کے لیے فنڈ مل سکا ہے جن کی مالیت 131 ملین ڈالرز ہے، ان 4 منصوبوں میں سے ایک کراچی کا گرین بی آر ٹی منصوبہ بھی ہے۔

    شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس حساب سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے نقصانات ہو رہے ہیں، اس حساب سے پاکستان اس فنڈ سے مستفید ہونے میں ناکام رہا ہے۔

    کلائمٹ فنانس کی ایکسپرٹ کشمالہ کاکاخیل اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ پروگرام کسی نقصان کی صورت میں فوری ازالہ کرنے والے اقدامات کے لیے نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہمیں متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف کے لیے اب تک جو بھی رقم ملی ہے وہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کے تحت ملی ہے۔

    کشمالہ کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی اور پائیدار ترقیاتی منصوبے مکمل جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ پیش کریں۔

    انہوں نے کہا کہ اس فنڈ کے لیے مختلف ممالک اپنے پروجیکٹس پیش کرتے ہیں اور اس میں سے چند پروجیکٹس کو منتخب کر کے انہیں فنڈنگ دی جاتی ہے۔ پروجیکٹ بنانے سے قبل اس کا جائزہ لینا اور تحقیق کرنا، اسے تمام اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، اس میں کمی بیشی کو دور کرنا، اور پھر اس کی منظوری ہونا اور اس کے بعد اس پر کام شروع ہونا، یہ سب سالوں کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔

    یہ پروجیکٹس کون سے ہوں گے؟

    چنانچہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں، طویل المدتی ہوں، پائیدار ہوں، اور کسی قدرتی آفت کے بعد نقصان کی شرح کم سے کم کرسکیں، کون سے ہو سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ایسے منصوبے بنانے سے پہلے ملک میں جو مس مینجمنٹ موجود ہے، اسے ٹھیک کیا جانا ضروری ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہم کس منہ سے دنیا سے پیسے مانگیں گے؟ کہ ہم نے دریا کے راستے میں ہوٹل تعمیر کرلیے، سیلاب میں وہ ہوٹل گر گئے، اب ہمارے اتنے لاکھ لوگ بیروزگار اور تباہ حال ہیں، ان کے لیے ہمیں پیسے دیے جائیں تاکہ ہم پھر سے اسی سیلابی راستے میں تعمیرات کریں۔ اس طرح تو ہمیں کوئی پیسے نہیں دینے والا‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ بعد کی چیز ہے، پہلے ہمیں دنیا کی طرح ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں تاکہ کسی آفت کی صورت میں ہمارا کم سے کم نقصان ہو۔ لیکن ایسی پالیسیز بنانا ہماری ترجیحات نہیں، البتہ ڈیزاسٹر کے بعد ہم اس کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے ضرور اپنے وسائل استعمال کرلیتے ہیں۔

    دریا میں بنایا گیا کالام کا ہوٹل جو سیلاب میں بہہ گیا

    ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ ہمارا باقاعدہ کوئی ریسکیو سسٹم ہی نہیں، قدرتی آفات میں خیراتی ادارے ہی ہمارا واحد سہارا ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے۔

    وہ کہتے ہیں، کہ ایک تو عالمی طور پر رونما ہونے والا کلائمٹ چینج، پھر ہماری مس مینجمنٹ اور فطرت سے تصادم کا شوق، یہ سب مل کر ہمارے انسانی وسائل کو بے حد نقصان پہنچا رہے ہیں جن کی بڑی تعداد ویسے ہی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

    تو کیا پاکستان کے پاس ایسے پائیدار ترقیاتی منصوبے ہیں؟

    کشمالہ کاکا خیل کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال 4 سے 5 کلائمٹ ریزیلیئنٹ منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو جلد ہی گرین کلائمٹ فنڈنگ کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سیلاب سے فوری طور پر ریلیف کے لیے تو کئی ممالک کی امداد منظور ہوچکی ہے، اب آگے ہمیں ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ درکار ہے جس سے مستقبل میں ایسے قدرتی آفات کے دوران کم سے کم نقصان ہو، اور اس کے لیے طویل المدتی اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر ہم 2010 کے سیلاب کے بعد ایسے منصوبے بنا لیتے، جن میں قدرتی آفات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیرات اور آباد کاری کی جاتی تو اب شاید ہم اتنا نقصان نہ اٹھاتے۔

    کشمالہ کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ سیلاب کے راستے میں تعمیرات نہ کی جائیں، ارلی وارننگ سسٹمز کو مضبوط بنایا جائے، اور فطرت سے تصادم کا راستہ نہ اپنایا جائے، تب ہی ہمارے قیمتی انسانی اور مالی وسائل کی حفاظت ہوسکے گی ورنہ کچھ سال بعد ہم پھر اسی صورتحال سے گزر رہے ہوں گے اور ہمارے کلائمٹ متاثرین میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

  • کمر درد کی دوائیں کھانے والے ہوشیار

    کمر درد کی دوائیں کھانے والے ہوشیار

    کمر درد ایک عام مرض بن چکا ہے جس سے نجات کے لیے لوگ ادویات کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اب ان دواؤں کا ایک بدترین نقصان سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے کہا ہے کہ درد کش اور سوزش (انفلیمیشن) کم کرنے والی دوا بعض حالات میں شدید نقصان دہ ثابت ہو کر درد کو دائمی عارضے میں بدل سکتی ہیں۔

    مک گل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس ضمن میں کمر کے نچلے حصے کے درد میں مبتلا بعض مریضوں کا جینیاتی جائزہ لیا ہے، ماہرین نے سب سے پہلے درد سے شفا پانے والے مریضوں کے جسم میں ہر جگہ موجود دفاعی نظام اور اس سے وابستہ خلیات کا جائزہ لیا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ دیرینہ درد میں مبتلا مریضوں کے بدن میں بھی یہی جین غیر سرگرم اور خوابیدہ تھے، سائنس دانوں نے درد میں مبتلا اور درد سے نجات پانے والے افراد کے جین، امنیاتی نظام، خون کی کیفیات اور بائیو مارکرز کا بغور جائزہ لیا، ان میں سب سے خلیات کو نیوٹرو فیلس کا نام دیا گیا تھا۔

    اس سے معلوم ہوا کہ اینٹی انفلیمنٹری ادویات جو کمر کے نچلے حصے میں درد کے لیے عام استعمال ہوتی ہیں وہ درحقیقت خلوی اور جینیاتی سطح پر درد کو طویل مدت تک بڑھاوا دے سکتی ہیں۔

    اس کی تصدیق کے لیے چوہوں کے ماڈل کو کمر کے نچلے درجے کے حصے کا مریض بنایا گیا، پھر انہیں روایتی دوائیں دی گئیں جو ہم بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے چوہوں کا درد وقتی کم ہوا لیکن بعد میں شدید اور مزید دیرینہ مرض میں بدل گیا جبکہ دیگر دواؤں سے یہ کیفیت سامنے نہیں آئی۔

    چنانچہ ثابت ہوا کہ حیرت انگیز طور پر بعض درد کش ادویات وقتی فائدہ پہنچا کر درد کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔

  • بیک کور آپ کے موبائل فون کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے

    بیک کور آپ کے موبائل فون کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے

    موبائل فون پر کور لگانا عام بات ہے جس کا مقصد موبائل فون کو اسکریچ لگنے اور نقصان ہونے سے بچانا ہے، لیکن اس کے کچھ نقصان بھی ہوسکتے ہیں۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ موبائل کے بیک کور کے کئی نقصانات ہوتے ہیں جو کہ موبائل فون کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ویسے تو یہ کور موبائل کو مزید خوبصورت بنانے اور کوئی اسکریچ لگنے سے بچاتے ہیں، لیکن موبائل فون سے نکلنے والی ہیٹ یا گرمی ان کی وجہ سے واپس موبائل کی طرف آجاتی ہے، یعنی اس ہیٹ کا انخلا صحیح طرح نہیں ہو پاتا کیونکہ بیک کور عام طور پر ربڑ کا ہوتا ہے جس کی وجہ ہیٹ کا پریشر بننا شروع ہو جاتا ہے۔

    بیک کور رکھنے کی وجہ سے سب سے پہلا نقصان موبائل فون کی پرفارمنس پر پڑتا ہے یعنی موبائل فون کی پرفارمنس گرتی جاتی ہے۔

    دوسرا نقصان یہ ہے کہ موبائل کے تمام پارٹس متاثر ہوتے ہیں، خاص کر موبائل فون کی بیٹری چونکہ ہیٹ کا اثر بیٹری پر زیادہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹری کی لائف ٹائم متاثر ہوتی ہے۔

    تیسرا نقصان یہ ہے کہ موبائل فون سگنلز کو صحیح طرح کیچ نہیں کر پاتا، چونکہ اینٹینا بیک سائیڈ پر ہوتا ہے جو کہ کیسنگ کے پچھلے حصے میں چھپا دیے جاتے ہیں بیک کور لگنے کی وجہ سے اینٹینا کو کام کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وائی فائی کو قبول کرنے والا ریسیور بھی کسینگ کے اندر پیچھے کی طرف ہوتا ہے اور بیک کور کی وجہ سے وائی فائی سگنلز کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔