Tag: نقیب اللہ قتل کیس

  • نقیب اللہ قتل کیس: اہم گواہ کی مسلسل غیر حاضری سے مقدمہ التوا کا شکار، عدالت برہم

    نقیب اللہ قتل کیس: اہم گواہ کی مسلسل غیر حاضری سے مقدمہ التوا کا شکار، عدالت برہم

    کراچی (2 اگست 2025): سال 2019 میں قتل ہونے والے نقیب اللہ کے کیس میں اہم گواہ کی عدالت میں مسلسل غیر حاضری سے مقدمہ التوا کا شکار ہونے لگا۔

    انسداد دہشتگرد عدالت (اے ٹی سی) نے نقیب اللہ قتل کیس میں اہم گواہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ فوکل پرسن نے گواہ کی غیر حاضری پر رپورٹ جمع کروا دی۔

    اے ٹی سی نے آئندہ سماعت پر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیا۔

    یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں نیا موڑ

    نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران گرفتار سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت، شعیب شوٹر، گدا حسین، صداقت حسین، ریاض احمد، راجا شمیم اور محسن عباس نامی ملزمان پیش ہوئے۔

    عدالت نے گرفتار تمام ملزمان کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 9 اگست 2025 تک ملتوی کر دی۔

    پراسیکیوشن کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران اور اہلکاروں کو قتل سے بری کیا جا چکا ہے، سابق ایس ایچ او امان اللہ سمیت 7 پولیس افسران اور اہلکار مفرور تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ مفرور ملزمان نے عدالتی فیصلے کے بعد خود کو سرینڈر کیا، ایک ملزم شعیب شوٹر ضمانت پر جبکہ امان اللہ سمیت 6 ملزمان گرفتار ہیں۔

    یاد رہے کہ جون 2025 میں اے ٹی سی نے نقیب اللہ قتل کیس کے اہم گواہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کو آئندہ سماعت پر ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔

    تفتیشی افسر ڈی ایس پی غلام مرتضیٰ نے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی طبیعت خرابی کی رپورٹ جمع کروائی تھی کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، بیماری کے باعث وہ اپنا بیان ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔

    تفتیشی افسر نے استدعا کی تھی کہ گواہ کو پیش کرنے کیلیے مہلت دی جائے جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہ ہر صورت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ جنوری 2019 کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    پولیس ٹیم کا مؤقف تھا کہ خطرناک دہشتگردوں کی گرفتاری کیلیے کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں۔ سابق ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کر کے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

    نقیب اللہ قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو مقتول کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، بعد ازاں انسداد دہشتگردی عدالت نے ان کو رہا کر دیا تھا۔

  • اہم گواہ اور عینی شاہد کا بیان : نقیب اللہ قتل کیس نے نیا موڑ لے لیا

    اہم گواہ اور عینی شاہد کا بیان : نقیب اللہ قتل کیس نے نیا موڑ لے لیا

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس کے اہم گواہ اور عینی شاہد کے بیان کے بعد کیس نے نیا موڑ لے لیا ۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت ہوئی، سابق ایس ایچ اوامان اللہ مروت، شعیب شوٹرودیگرملزمان کوعدالت پیش کیا گیا۔

    دوران سماعت کیس نے نیا موڑ لے لیا، اہم گواہ اور عینی شاہد اپنے بیان سے منحرف ہوگیا، گواہ ہیڈ کانسٹیبل راجا جہانگیرنے7ملزمان کوشناخت کرنے سے انکار کردیا، امان اللہ مروت اور شعیب شوٹرسمیت 7 ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کیا۔

    گواہ راجاجہانگیر نے بیان میں کہا مجھ سے زبردستی بیان لیا گیا تھا، اعلیٰ حکام کے دباؤ پر پولیس کے تحریری بیان پر دستخط کیےتھے۔

    گواہ کے منحرف ہونے پر پراسیکیوشن کی گواہ کا نام واپس لینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم گواہ راجا جہانگیر کا نام واپس لینا چاہتے ہیں۔

    پراسیکیوشن نے بتایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس افسران و اہلکاروں کو بری کیا جاچکا جبکہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت 7 پولیس افسران و اہلکار مفرور تھے تاہم مفرور ملزمان نے اےٹی سی کے فیصلے کے بعد خود کو سرینڈر کیا تھا، شعیب شوٹر ضمانت پرہیں اور امان اللہ مروت سمیت 6 ملزمان گرفتار ہیں۔

    وکیل صفائی نے گواہ کا نام واپس لینے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گواہ کا نام واپس نہیں لیا جاسکتا ، گواہ کے بیان پر جرح کی ہدایت دی جائے۔

    عدالت نے وکیل کی گواہ کے بیان پر جرح سے متعلق درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا اور تمام ملزمان کو آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت 4 مئی تک ملتوی کردی۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، سابق ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد

    نقیب اللہ قتل کیس، سابق ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد

    کراچی:انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایچ او سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہائی پرفائل کیسز میں سے ایک نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ اس دوران عدالت نے سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کی۔

    ملزمان نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کردیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر اور گواہوں کو طلب کرلیا ہے۔

    امان اللہ مروت، گدا حسین، صداقت، ریاض، راجا شمیم اور محسن عباس کو پیش کیا گیا۔ ضمانت پر رہا مقدمے کا مرکزی ملزم سابق پولیس افسر شعیب شوٹر بھی پیش ہوا۔

    عدالت کی جانب سے جیل حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ سماعت پر گرفتار ملزمان کو بھی پیش کیا جائے۔

  • نقیب اللہ قتل کیس کے 7 اشتہاری ملزمان نے عدالت میں سرنڈر کر دیا

    نقیب اللہ قتل کیس کے 7 اشتہاری ملزمان نے عدالت میں سرنڈر کر دیا

    کراچی: نقیب اللہ محسود قتل کیس کے 7 اشتہاری ملزمان نے عدالت میں سرنڈر کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ محسود قتل کیس کے مقدمے میں اشتہاری ملزمان نے عدالت میں سرنڈر کر دیا، سب انسپکٹر امان اللہ مروت، شعیب شوٹر سمیت 7 ملزمان انسداد دہشت گردی عدالت پہنچ گئے۔

    ملزمان نقیب اللہ قتل کیس میں مقدمے کی ابتدا سے مفرور تھے، جس پر انھیں انسداد دہشت گردی کورٹ نے اشتہاری قرار دے دیا تھا، ملزمان سندھ ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار سمیت 18 ملزمان بری ہوئے تھے۔ نقیب اللہ محسود کو 13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں ایک جعلی مقابلے کے دوران مارا گیا تھا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس : مرکزی ملزم راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری

    کراچی : انسداد دہشت گردی نے نقیب اللہ قتل کیس میں مرکزی ملزم راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری کردیا اور کہا پراسیکیوشن ملزمان کیخلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ، راؤانوار سمیت دیگر ملزمان کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس جیل میں سیکیورٹی کے سخت انتطامات کئے گئے جبکہ غیرمتعلقہ افراد، میڈیا نمائندوں کی عدالتی احاطے میں داخلے پر پابندی ہے۔

    عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم راؤ انوار سمیت تمام ملزمان بری کردیا اور کہا پراسیکیوشن ملزمان کیخلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
    .
    اس سے قبل نقیب اللہ قتل کیس میں مدعی مقدمہ نے ملزمان کی ضمانت خارج کرنےسےمتعلق درخواست واپس لےلی تھی، جس پر عدالت نے کیس خارج کردیا تھا، نقیب اللہ کے مرحوم والد نےاے ٹی سی کےفیصلے کوسندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

    یاد رہے جنوری 2019 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا، ٹیم کا مؤقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا تھا، بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا تھا۔

    مقدمے میں استغاثہ کے 51 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے گئے، مقدمے میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 پولیس اہلکار نامزد تھے۔

    جے آئی ٹی نے پولیس مقابلے کا دعویٰ جھوٹا قرار دیا تھا ، ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد ہوئی تھی اور مقدمے کے مدعی نقیب اللہ کے والد انتقال کر چکے ہیں۔

  • نقیب اللہ  قتل کیس : مدعی مقدمہ نے مرکزی ملزم راؤ انوار کی ضمانت منسوخی کی درخواست واپس لے لی

    نقیب اللہ قتل کیس : مدعی مقدمہ نے مرکزی ملزم راؤ انوار کی ضمانت منسوخی کی درخواست واپس لے لی

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں مدعی مقدمہ نے ملزمان کی ضمانت خارج کرنے سے متعلق درخواست واپس لے لی، جس پر عدالت نے درخواست واپس لینے پر کیس خارج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں مرکزی ملزم راو انوار اور دیگر کی ضمانت منسوخی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

    جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے چیمبر میں سماعت کی، مدعی مقدمہ نے راو انور اور دیگر ملزمان کی ضمانت خارج کرنے سے متعلق درخواست واپس لے لی۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کیس کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے، ملزمان کے خلاف کیس مزید نہیں چلانا چاہتے، جس پر عدالت نے درخواست واپس لینے پر کیس خارج کردیا، د

    یاد رہے انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار ،ڈی ایس پی قمر اور دیگر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد نقیب اللہ کے والد نے اے ٹی سی کے فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

    خیال رہے انسداد دہشت گردی عدالت آج نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنائے گی ، فیصلہ ڈھائی بجےسنایاجائے گا۔

    اس موقع پر انسداد دہشتگردی عدالت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں جبکہ غیر متعلقہ افراد اور میڈیا نمائندوں کی عدالتی احاطے میں داخلے پر پابندی ہے۔

  • نقیب اللہ قتل کیس آخری مراحل میں داخل

    نقیب اللہ قتل کیس آخری مراحل میں داخل

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس آخری مراحل میں داخل ہوگیا ، وکیل نے کہا کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت راوٴ انوار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ، سابق ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار کے وکیل عامرمنسوب کے حتمی دلائل دیئے۔

    راؤ انوار کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ راوٴ انوار کیخلاف استغاثہ ایک بھی گواہ یا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا، جس مقابلے کا مقدمہ امان اللہ مروت نے درج کیا اسے بے کلاس کردیا گیا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ امان اللہ نے مقدمے میں میرے موکل کا ذکر تک نہیں کیا اور مقابلے وقت تین بجے سے تین بج کر بیس منٹ لکھا تھا، اس مقدمے کو بی کلاس کرکے جو مقدمہ عابد قائمخانی نے درج کرتے ہوئے راوٴ انوار کو اس میں نامزد کیا۔

    ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ میرے موکل کا اس مقابلے سے کوئی تعلق نہیں تھا، تفتیشی افسر عابد قائمخانی نے جو مقدمہ میرے موکل کو نامزد کرتے ہوئے درج کیا اس میں بھی وہی وقت لکھا جو امان اللہ نے لکھا تھا۔

    وکیل راوٴ انوار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت سی ڈی آر دیکھے جس میں راوٴ انوار کی لوکیشن تین بجکر بیس منٹ کے بعد کی ریکارڈ پر آئی ہے، ایک واقعہ کے مقدمہ درج کیئے جانے کے بعد دوسرا مقدمہ درج کیا گیا۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ مقدمہ درج کرنے ایک دن بعد یہ بتایا کہ آئی جی سندھ کی فائنڈنگز کے باعث راوٴ انوار کو نامزد کیا گیا اور غیر قانونی مقدمہ میں غیر قانونی طریقے سے راوٴ انوار کو شامل کیا گیا۔

    وکیل کے مطابق جس ہوٹل کا ذکر کیا گیا ہے وہ گنجان آباد علاقے میں ہے، چشم دید گواہ کے مطابق راوٴ انوار کو آواز سن کر شناخت کرسکتے ہیں، پیش کئے گئے شواہد، گواہوں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت راوٴ انوار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے مقدمے میں نامزد کیا گیا۔

    عدالت نے دیگر وکلا نے بھی اپنے موکلین سے متعلق حتمی دلائل دیئے، جس کے بعد عدالت نے سماعت 12 جنوری تک ملتوی کردی۔

  • نقیب اللہ قتل کیس میں نیا موڑ:  دو گواہوں کے اہم انکشافات

    نقیب اللہ قتل کیس میں نیا موڑ: دو گواہوں کے اہم انکشافات

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی، گواہوں شہزادہ جہانگیر اور آصف نے اہم انکشافات میں کہا کہ مرضی کا بیان دینے کے لئے پریشردیا گیا ، جو بیان ہم سے منسوب کیا کیا جارہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس پر سماعت ہوئی، سابق ایس ایس پی ملیر راوٴ انوار، ڈی ایس پی امر سمیت دیگر پیش ہوئے۔

    عدالت کے روبرو گواہوں شہزادہ جہانگیر اور آصف نے اہم بیان قلمبند کرایا، گواہ شہزادہ جہانگیرنے بتایا کہ میں جب پہنچا تھا تو مقابلہ ہوچکا تھا، ایس ایچ آوٴ کے کہنے پر مقابلے کے روز میں نے صرف فرد بنائی، مجھے عابد قائمخانی نے 17 فروری 2018 کو اپنے دفتر بلوایا، عابد قائمخانی کے پاس جانے کا اندراج روزنامچہ میں بھی ہے۔

    شہزادہ جہانگیر نے کہا کہ اس سے قبل بھی میں یہ بیان ریکارڈ کرا چکا ہوں، عابدقائمخانی نےمجھےاپنی مرضی کابیان دینے کے لئے پریشر دیا اور میرے انکار پر مجھےغیر قانونی حراست میں رکھا۔

    گواہ نے بیان میں کہا کہ مجھ پر11،12دن تک دباؤڈالااور کہاکہ ان کیخلاف بیان دو، بہت مجبورہوگیا تو میں نے ان کے کہنے پر بیان دیدیا، اس کے بعد جب گھرآیا تو دیکھا مستقل4 پولیس اہلکار گھرپر تعینات کردیےگئے، موقع دیکھ کر میں جب گاؤں گیا تو مجھےاحساس ہواکہ میں نےغلط کیا۔

    واپس آنے کے بعد اے ٹی سی 2 کی عدالت میں حلف نامہ جمع کرایا، حلف نامے میں کہا کہ میراپہلابیان سراسرجھوٹ اورزبردستی لیاگیاتھا،
    میرا یہ حلف نامہ عدالتی ریکارڈکاحصہ بھی ہے۔

    گواہ محمد آصف نے بیان دیتے ہوئے بتایا جوبیان مجھ سے منسوب کیا جارہا ہے وہ میرا نہیں، جس دن مقابلہ ہوااس دن میں ملیر کورٹ میں تھا۔

    عدالت نے کہا گواہوں کے بیان پر جرح آئندہ سماعت پرکی جائے گی اور سماعت 28 جولائی تک ملتوی کردی۔

  • نقیب اللہ قتل کیس ،  سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ

    نقیب اللہ قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ

    کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منسوخی کے لئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکردی گئی، جس میں کہا گیا راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں بے قصور نقیب کا قتل کیا، ملزم کی ضمانت منسوخ کی جائے۔

    تٍفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کےگرد گھیرا تنگ کردیا گیا ، راؤ انوار کی ضمانت منسوخی کےلئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکردی گئی، درخواست بیرسٹر فیصل صدیقی کی جانب دائر کی گئی۔

    دائردرخواست میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار نے جعلی مقابلے میں بےقصورنقیب کا قتل کیا، جس سے معاشرے میں خوف وہراس پھیلا، لہذا ملزم راؤانوار کی ضمانت منسوخ کی جائے۔

    یاد رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا، ٹیم کا مؤقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

    سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا تھا، بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا تھا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤ انوارعدالت میں پیش نہ ہوئے

    نقیب اللہ قتل کیس: ملزم راؤ انوارعدالت میں پیش نہ ہوئے

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملزمان کے وکلا کو 14مئی کوہرصورت دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منسوخہ کی درخواست پر سماعت کی۔

    سابق ایس ایس پی ملیرملزم راؤانوارعدالت میں پیش نہ ہوئے، ملزم پولیس اہلکارخضر حیات کے وکیل بھی پیش نہیں ہوئے۔

    مدعی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی طرف سے گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے، ملزمان کی جانب سے گواہوں کی جان کو خطرہ ہے، راؤ انوار اور دیگر کی ضمانتیں منسوخ کرکے جیل بھیجا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کے وکلا کو آخری مہلت دیتے ہوئے 14 مئی کو ہرصورت دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے کہ مقتول نقیب اللہ کے والد نے راؤ انوار و دیگر کی ضمانتیں منسوخ کرنے کے لیے درخواست دائر کررکھی ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے راؤ انوار ودیگر کی ضمانتیں منظور کی ہیں۔

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    یاد رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔