Tag: نقیب اللہ قتل کیس

  • نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پرفرد جرم عائد

    نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پرفرد جرم عائد

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

    عدالت نے 11 اپریل کو کیس کے گواہان کو طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرمدعی مقدمہ اور عینی شاہدین کا بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو بھی طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں افسران سمیت 13 پولیس اہلکار عدالتی ریمانڈ پرجیل میں ہیں جبکہ راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمرسمیت 5 ملزمان ضمانت پر ہیں۔

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    یاد رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس : چشم دید گواہ لاپتہ ہوگیا، ملزمان کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست

    نقیب اللہ قتل کیس : چشم دید گواہ لاپتہ ہوگیا، ملزمان کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست

    کراچی : نقیب اللہ محسود قتل کیس میں تفتیشی افسر نے عدالت میں انکشاف کیا کہ کیس کا چشم دید گواہ شہزادہ جہانگیر لاپتہ ہوگیا یے، ملزمان بااثر ہیں ضمانت منسوخ کی جائے، اے آر وائی نیوز نے گواہ کا پتہ لگالیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔

    اس موقع پرتفتیشی افسر اے آئی جی ویلفیئر ڈاکٹر رضوان نے مؤقف اختیار کیا کہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کا واحد عینی شاہد اور چشم دید گواہ شہزادہ جہانگیر لاپتہ ہوگیا یے۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ اس کی گمشدگی ملزمان ملوث ہیں۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان انتہائی بااثراور طاقتور ہیں، ان افسران کی ضمانتیں منسوخ کی جائیں ورنہ تمام گواہان بھی منحرف ہوجائیں گے۔

    اے آر وائی نیوز نے غائب ہونے والے  چشم دید گواہ کا پتہ لگا لیا

    دریں اثناء نقیب اللہ محسود قتل کیس کے اہم گواہ کا اے آر وائی نیوز نے پتہ لگالیا، شہزادہ جہانگیر آج بھی قائد آباد تھانے میں ہیڈ محرر تعینات ہے، شہزادہ جہانگیر کی بطور ہیڈ محرر کی تعیناتی 6.11.2018 سے ہے۔

    مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس، عدالت کا 19 فروری کو ملزمان پرفرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

    علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مفرور ملزمان کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے کیس کی سماعت 19 فروری تک ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پر ملزمان پرفرد جرم عائد کی جائے گی۔

    تفتیشی افسر اے آئی جی ویلفیئر ڈاکٹر رضوان نے عدالت میں سماعت کے دوران بتایا کہ مفرورملزمان کو اشتہاری قراردینے کی کارروائی مکمل ہوگئی،انسداد دہشت گردی عدالت نے مفرور ملزمان کو باضابطہ طور پراشتہاری قرار دے دیا۔

    اشتہاری ملزمان میں سب انسپکٹر امان اللہ مروت، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، سب انسپکٹرشیخ محمد شعیب، عرف شعیب شوٹر، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ، راجہ شمس مختار، رانا ریاض احمد شامل ہیں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس:عدالت کا 19 فروری کو ملزمان پرفرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

    نقیب اللہ قتل کیس:عدالت کا 19 فروری کو ملزمان پرفرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مفروری ملزمان کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے کیس کی سماعت 19 فروری تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت میں نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت کے دوران سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے۔

    تفتیشی افسر اے آئی جی ویلفیئرڈاکٹر رضوان نے عدالت میں سماعت کے دوران بتایا کہ مفرورملزمان کو اشتہاری قراردینے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے مفرور ملزمان کو باضابطہ طور پراشتہاری قرار دے دیا۔

    اشتہاری ملزمان میں سب انسپکٹر امان اللہ مروت، اے ایس آئی گدا حسین، ہیڈ کانسٹیبل محسن عباس، سب انسپکٹرشیخ محمد شعیب، عرف شعیب شوٹر، ہیڈ کانسٹیبل صداقت حسین شاہ، راجہ شمس مختار، رانا ریاض احمد شامل ہیں۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت 19 فروری تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر ملزمان پرفرد جرم عائد کی جائے گی۔

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں بڑی پیش رفت کرتے ہوئے واقعے کو ماورائے عدالت قتل قراردیا تھا۔

  • مجھے امید ہے اسی وردی سے نقیب اللہ کو انصاف ملے گا: محمد خان

    مجھے امید ہے اسی وردی سے نقیب اللہ کو انصاف ملے گا: محمد خان

    اسلام آباد: کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان نے کہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف بات کرنے والا اصل میں پاکستان کے خلاف ہے، مجھے امید ہے اسی وردی سے نقیب اللہ کو انصاف ملے گا۔

    تفصیلات کے مطابق محمد خان محسود نے مقتول بیٹے نقیب اللہ محسود کے کیس سے متعلق خصوصی ویڈیو پیغام میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کو وردی کے خلاف نعرے لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    [bs-quote quote=”قوم صبر اور تھوڑا انتظار کرے، یہ قانونی معاملہ ہے، وزیرِ اعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف اپنے وعدے ضرور پورے کریں گے، مجھے کسی کی بھی نیت پر کوئی شک نہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”محمد خان محسود” author_job=”والد نقیب اللہ محسود”][/bs-quote]

    نقیب اللہ کے والد کا کہنا تھا کہ کسی کو نقیب کیس کی آڑ میں ’لروبر پشتون‘ کے نعرے لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا، پشتون قوم پاکستان کا حصہ ہے اور پاک فوج اس کی بھی محافظ ہے، ’دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے‘ کی باتیں بند کی جائیں، وردی ملک میں امن و استحکام لا رہی ہے۔

    کیس کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ قوم صبر اور تھوڑا انتظار کرے، یہ قانونی معاملہ ہے، ہماری قوم کے لوگ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوں گے، وزیرِ اعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف اپنے وعدے ضرور پورے کریں گے، مجھے کسی کی بھی نیت پر کوئی شک نہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ ایک سال کے دوران میں نے کیس کا نتیجہ نکلتا دیکھا ہے، انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ضمانت منسوخ کر کے ملزموں کو جیل بھیج دیا، کیس کو ذاتی مفاد یا کسی کے خلاف استعمال کرنے سے اصل مقصد پیچھے چلا جائے گا، ہر کوئی انصاف چاہتا ہے، سارے لوگ آپ کے ساتھ اور دوست ہیں۔

    والد نقیب اللہ محسود نے کہا ’انشاء اللہ بہت جلد یہ کیس منطقی انجام تک پہنچے گا، میرے بیٹے کے نام پر کسی کو بھی فنڈ اکٹھے کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس کیس سے جو بھی مفاد اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے وہ ہمارے ساتھ نہیں، کوئی اس کیس کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا تو اس کا ذمہ دار خود ہے۔‘

    یہ بھی پڑھیں:  چار سو قتل کے بعد راؤانوار عمرہ کرنا چاہتا ہے؟ نقیب اللہ محسود کے والد

    محمد خان نے مزید کہا ’پاک فوج نے بیرونی دہشت گردوں کو بے نقاب کیا، ہمارے علاقے میں مکمل امن ہے کوئی دہشت گردی نہیں، پاک فوج چوکس ہے، ہمارا پس ماندہ علاقہ بھی ترقی کی جانب گام زن ہے۔‘

    انھوں نے احتجاج کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آئین و قانون کے اندر رہ کر اپنی بات اعلیٰ حکام تک پہنچائیں، پاکستان کے خلاف بات کرنے سے ملک اور فوج کم زور ہوتے ہیں، پاک فوج علاقے میں مارکیٹ، اسکول بناتی ہے، بچوں کی حفاظت کر رہی ہے، ہمارے تمھارے علاقے کی ضد چھوڑو، سارا ملک پاکستان ہے۔

    خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ سال اپریل میں نقیب کے والد سے ملاقات کی تھی، آرمی چیف نے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے پاک فوج کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا تھا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر

    نقیب اللہ قتل کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں نقیب اللہ قتل کیس اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی توہین عدالت کیس کی سماعت پیر کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 24 ستمبر کو نقیب اللہ قتل کیس اور مرکزی ملزم راؤ انوار کی توہین عدالت مقدمے کی سماعت پیر کو کرے گی۔

    اس ضمن میں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور آئی جی سندھ کو نوٹسز ارسال کردیے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے دیا گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ


    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

  • راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    راؤ انوار کا محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی کردار اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے محرم کے بعد اہم پریس کانفرنس کاعندیہ دے دیا اور کہا کہ جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر تک غلط درج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی ملیر راؤانوار نے کہا کہ محرم کےبعد اہم پریس کانفرنس کروں گا، 5اعلیٰ افسران بھی جے آئی ٹی میں تفتیش صحیح نہیں کرسکے۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں میرافون نمبرتک غلط درج کیا گیا، 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں پیش ہوا، میرا نمبر کراچی میں چل رہا تھا، یہ نمبر جب کراچی میں چل رہا تھا تو کسی کو کیوں نہیں پکڑا گیا۔

    اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی، عدالت نے مفرور ملزمان سابق ایس ایچ اوامان اللہ ، شعیب شوٹر سمیت12ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 3 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    سماعت میں تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ جمع کرائی ، رپورٹ میں کہا کہ مفرور ملزمان سابق ایس ایچ او امان اللہ ، شعیب عرف شوٹر سمیت دیگر روپوش ہیں،کوشش کررہے گرفتار کرلیا جائے۔

    یاد رہے نقیب اللہ قتل میں مبینہ طور پر ملوث مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا گیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس‘ مقتول کےوالد کا اے ٹی سی کےجج پرعدم اعتماد کا اظہار

    نقیب اللہ قتل کیس‘ مقتول کےوالد کا اے ٹی سی کےجج پرعدم اعتماد کا اظہار

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقلی کرنے کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی منتقلی سے متعلق درخواست کی سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    درخواست گزار کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت نے درخواست زیرسماعت ہونے کے باوجود راؤانوار کو ضمانت دی۔

    نقیب اللہ کے والد نے انسداددہشت گردی کی عدالت کے جج پرعدم اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوئی درخواست نہیں سنی گئی، مقدمہ کسی اورعدالت منتقل کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس دوسری عدالت منتقلی کرنے کی درخواست پرمحکمہ داخلہ، پراسیکیوٹر جنرل اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی اور فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے راؤ انوار کی درخواست ضمانت پرپانچ جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور

    واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے 10 جولائی کو نقیب اللہ قتل کیس میں مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی تھی۔

  • راؤ انوار کی دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور

    راؤ انوار کی دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور

    کراچی :  انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو دوسرے مقدمے میں بھی ضمانت مل گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ملزم راو انوار کی دھماکہ خیز مواد اور غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کیس میں بھی ضمانت منظور کرلی اور ساتھ ہی 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

    راؤ انوار کی جانب سے 5،5 لاکھ روپے کے ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹس پیش کیے گئے، جس کی تصدیق کیلئے متعلقہ اداروں کو خط لکھ دیا گیا۔

    نقیب اللہ کے والد محمد خان کے وکیل نے اے ٹی سی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

    یاد رہے کہ 10 جولائی کو ملزم راو انوار کی ایک مقدمے میں پہلے ہی ضمانت ہو چکی ہے۔


    مزید پڑھیں :  نقیب اللہ محسود قتل کیس ، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور


    راؤانوار کی جانب سے عدالت سے ضمانت کی درخواست کی گئی تھی، جس میں سابق ایس ایس پی ملیرکی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جب نقیب اللہ کا قتل ہوا تو وہ جائے وقوعہ پرموجود نہیں تھے، کیس کے چالان جے آئی ٹی اور جیو فینسنگ رپورٹ میں تضاد ہے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، راؤ انوار

    پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، راؤ انوار

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا کہنا ہے کہ نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا سب ریکارڈ موجود ہے، پ پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی انسداد دہشتگردی عدالت میں سماعت ہوئی ، گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو دس دیگر ملزمان کے ساتھ انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    انسداد دہشتگردی عدالت نے مقتول کے وکلا کو دلائل کیلئے آخری مہلت دے دی اور کہا کہ آئندہ سماعت پر مقتول کے وکلا حاظر نہیں ہوئے تو ضمانت پر قانون کے مطابق فیصلہ کر دیں گے۔

    راؤ انوار آئی جی تبدیل ہوتے ہی اپنی پولیس پر پھٹ پڑے اور کہا کہ پولیس نے ذاتی گروپنگ کی وجہ سے مجھ پر قتل کا مقدمہ درج کیا، میرے خلاف نقیب اللہ قتل کیس میں بھی شواہد موجود نہیں ہیں۔

    سابق ایس ایس پی ملیر کا کہنا تھا کہ پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے میرے خلاف کارروائی کرائی گئی، جے آئی ٹی میں میرا فون نمبر بھی غلط ڈالا گیا ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ مجھ پر دو خود کش حملے ہو چکے ہیں، میرے گھر کو سب جیل قرار دینا فیور نہیں، ایک شخص نے میرے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی، جسے بعد میں گرفتار کیا گیا، مجھے ہر تنظیم کے دہشتگرد نے دھمکی دی ہے۔

    راؤ انوار کا کہنا تھا کہ مجھے غلط مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے ، نہ میں نے نقیب اللہ کو پکڑوایا، نہ مارا، ریکارڈ موجود ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    نقیب اللہ قتل کیس، ملزم راؤ انوار کو جیل میں بی کلاس دینے کی درخواست منظور

    کراچی : انسداد دہشتگردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں جیل میں ملزم راؤ انوار کو بی کلاس دینے کی درخواست منظور کرلی، عدالت کا کہنا تھا کہ سب جیل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، فیصلہ آتے ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان بھی پیش ہوئے جبکہ ملزم راؤ انوار کو بھی پیش کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل بنانے سے متعلق درخواست کا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے محفوظ کیا ہوا ہے، عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہی عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    عدالت نے ملزم راؤ انوار کی جانب سے جیل میں بی کلاس دینے کیلئے درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت چودہ جون تک کیلئے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں نامز سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب کونہ بھولاجاسکتا ہےاورنہ اس کےخون کا سودا کرسکتے ہیں‘ والد نقیب اللہ


    واضح رہے کہ ملزم راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کیخلاف نقیب اللہ محسود کے والد خان محمد کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ راؤ انوار قاتل ہے، اسے جیل منتقل کیا جائے، راؤ انوار کو سب جیل قرار دینا غیر قانونی ہے اور محکمہ داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔

    عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد نے کہنا تھا کہ وہ نہ نقیب کو بھول سکتے ہیں اور نہ اس کے خون کا سودا کرسکتے ہیں، اگر راؤ انوار طاقت ور ہے تو میں بھی محنت کش ہوں۔

    سندھ ہائی کورٹ نے راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں