Tag: نقیب اللہ قتل کیس

  • نقیب محسود مقابلہ جعلی تھا،راؤانوار مرکزی کردار قرار

    نقیب محسود مقابلہ جعلی تھا،راؤانوار مرکزی کردار قرار

    کراچی : نقیب اللہ قتل کے ضمنی چالان میں راؤانوار کو مرکزی کردارقرار دے دیا گیا،عدالت کو بتایا گیا راؤانوارقتل کے وقت جائےوقوعہ پرموجود تھا، نقیب محسودمقابلہ جعلی تھا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں نقیب اللہ قتل کا ضمنی چالان پیش کیا گیا۔

    عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا ضمنی چالان منظورکرلیا۔

    عدالت کو بتایا نقیب اللہ قتل کا مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جائے وقوعہ پر موجود تھا،جیو فینسنگ میں راؤ انوار کی موقع پر موجودگی ثابت ہوتی ہے۔

    ضمنی چالان کے مطابق ملزم راؤانوار دو بجکر تینتالیس منٹ پرجائےوقوعہ پرپہنچا، ملزم اہلکار ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔ بادی النظرمیں پولیس مقابلہ منصوبے کے تحت کیا گیا۔

    چالان مین کہا گیا کہ راؤانوارملوث نہ ہونے کے ثبوت پیش نہیں کرسکے، ملزم راؤانوار دوران تفتیش ٹال مٹول سے کام لیتے رہے، ملزم راؤ انوار مسلسل حقائق بتانے سے بھی گریز کرتے رہے، راؤ انوار کا جائے وقوعہ پر موجود ہونا جعلی مقابلہ ثابت کرتا ہے۔

    ضمنی چالان کے مطابق مقتولین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ہلاک کیا گیا، ملزمان کو ایک سے 5فٹ کے فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔

    تفتیش کے مطابق راؤانوارجھوٹے مقابلےکامرکزی کردارہے اور راؤانوار،ڈی ایس پی قمراحمدسمیت12ملزمان گرفتارہیں۔

    اس سے قبل نقیب محسود قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤانواربیمار ی کے باعث ریمانڈ ختم ہونے پرعدالت میں پیش نہ ہوئے، راؤ انوار کی عدم حاضری پر عدالت نے اظہاربرہمی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پرپیش کرنےکاحکم دیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نقیب محسودکیس، راؤانوار بیمار، عدالت میں پیش نہ ہوئے


    جیل حکام نے دوران سماعت میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ راؤانوار کو بیماری کے سبب عدالت میں پیش نہیں کرسکتے، راؤانوار علیل ہیں، کل ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا ہے۔

    یاد رہے کہ پولیس نے 21 اپریل کو راؤ انوار کا 30 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا جہاں عدالت نے انہیں 2 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

    نقیب اللہ جرگے کے ارکان نے راؤ انوار کی عدالت میں غیر حاضری پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی پولیس کا فٹ افسر ان فٹ کیسے ہوگیا بیماری کا بہانہ نہیں چلے گا راؤانوارکوہتھکڑی نہ لگی توشہربند کر دیں گے۔

    خیال رہے کہ نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا،  رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انوار اور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پر جھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

    واضح رہے کہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس: عدالت نےراؤ انوارکوجوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا

    نقیب اللہ قتل کیس: عدالت نےراؤ انوارکوجوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دیا

    کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو 2 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں پولیس نے راؤ انوار اور اس کے قریبی ساتھی شکیل فیروز سمیت 12 ملزمان کو سخت سیکورٹی میں عدالت میں پیش کیا۔

    عدالت میں کیس کی سماعت کے آغاز پرتفتیشی افسرایس ایس پی ڈاکٹررضوان نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے ابھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سفارشات کے بعد ہی حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

    پولیس نے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کی درخواست کی جس پر عدالت نے ملزم راؤ انوار اور شکیل فیروز کو 2 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے دیگر ملزمان کے ریمانڈ میں توسیع کردی۔


    احاطہ عدالت میں راؤ انوار کی میڈیا سے بات چیت

    احاطہ عدالت میں صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ نقیب اللہ دہشت گرد تھا؟ جس پر راؤ انوار نے جواب دیا کہ یہ میں بعد میں بتاؤں گا، مقدمے کا چالان جمع ہونے دیں سب پتہ چل جائے گا۔

    صحافی نے راؤ انوار سے سوال کیا کہ کراچی والے پولیس مقابلوں سے آپ کو ہیرو سمجھتے تھے، آپ کی اپنی پولیس کے مطابق آپ کے مقابلے جعلی تھے۔

    راؤ انوار نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی بننے کے بعد سب واضح ہوجائے گا، سب کو بتاؤں گا مقابلے جعلی تھے یا نہیں۔

    خیال رہے کہ رواں ماہ 6 اپریل کو نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتارمرکزی ملزم راؤ انوار نے اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواست دائرکی تھی۔


    راؤ انوار کا اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پر عدم اطمینان کا اظہار

    یاد رہے کہ 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا۔

    ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • راؤ انوار کا اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پر عدم اطمینان کا اظہار

    راؤ انوار کا اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پر عدم اطمینان کا اظہار

    اسلام آباد : نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتارمرکزی ملزم راؤ انوار نے اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نظرثانی کی درخواست  دائرکر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار نے اپنے خلاف بننے والی جے آئی ٹی پرعدم اطمینان کااظہار کردیا اور سابق ایس ایس پی ملیر کراچی نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائرکر دی۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کا تعلق ایک ہی ادارے سے ہے، قانون کے مطابق جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے لوگ ہوتے ہیں۔

    سپریم کورٹ سے اکیس مارچ کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی ہے۔

    اس سے قبل نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے ملزم راؤانوار نے اپنے ابتدائی بیان میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ماننے سے انکارکردیا تھا۔

    راؤ انوار کا اپنے ابتدائی بیان میں کہنا تھا کہ نہ مجھے نقیب اللہ کی گرفتاری کا علم تھا نہ ہی میں مقابلے کے دوران موقع پر تھا، میں جتنی دیر میں گڈاپ سے شاہ لطیف ٹاون پہنچا، مقابلہ ہوچکا تھا۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس ، راؤانوار کا الزامات ماننے سے انکار


    سابق ایس ایس پی ملیر کراچی کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتہ نقیب اللہ شاہ لطیف کیسے پہنچا، مجھے تو شاہ لطیف چوکی کےانچارج علی اکبرملاح نے مقابلے سے متعلق فون کیا اور صرف اتنا بتایا کہ ملزمان کی اطلاع ہے۔

    یاد رہے کہ 21 مارچ کو راؤانوار نقیب اللہ کیس کی سماعت میں اچانک پیش ہوگئے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیاتھا اور نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔

    چیف جسٹس نے  پولیس افسران پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنانے کی ہدایت کی تھی ، جس میں آفتاب پٹھان، ولی اللہ، ڈاکٹر رضوان اور آزاد ذوالفقار شامل ہیں جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ آفتاب پٹھان ہیں۔

    جہاں کراچی کی انسداددہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • نقیب اللہ قتل کیس ، راؤانوار کا الزامات ماننے سے انکار

    نقیب اللہ قتل کیس ، راؤانوار کا الزامات ماننے سے انکار

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس میں مرکزی ملزم راؤانوار نے الزامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ مقابلے کے دوران میں موقع پر موجود نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے ملزم راؤانوار کا ابتدائی بیان ریکارڈ کرلیا، جس میں راؤانوار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ماننے سے انکارکردیا ہے۔

    راؤ انوارنے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ نہ مجھے نقیب اللہ کی گرفتاری کا علم تھا نہ ہی میں مقابلے کے دوران موقع پر تھا۔

    بیان میں راؤ انوارکا کہنا تھا کہ میں جتنی دیرمیں گڈاپ سے شاہ لطیف ٹاون پہنچا، مقابلہ ہوچکا تھا، مجھے نہیں پتہ نقیب اللہ شاہ لطیف کیسے پہنچا، مجھے تو شاہ لطیف چوکی کےانچارج علی اکبرملاح نے مقابلے سے متعلق فون کیا اور صرف اتنا بتایا کہ ملزمان کی اطلاع ہے۔

    ذرائع کے مطابق نقیب اللہ کیس میں تحقیقاتی کمیٹی روازنہ کی بنیاد پر میٹنگزکررہی ہے اور گواہوں اور گرفتاراہلکاروں سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ کیس ، راؤانوار 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے


    یاد رہے کہ 21 مارچ کو راؤانوار نقیب اللہ کیس کی سماعت میں اچانک پیش ہوگئے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیاتھا اور نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔

    جہاں کراچی کی انسداددہشتگردی عدالت نے نقیب اللہ کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو 30روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس ، مرکزی ملزم راؤ انوار کو آج عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان

    نقیب اللہ قتل کیس ، مرکزی ملزم راؤ انوار کو آج عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان

    کراچی : نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو آج عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان ہے، جس کے باعث سندھ ہائیکورٹ اور کلفٹن میں اے ٹی سی کی سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو آج کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کئے جانے کا امکان ہے، سماعت میں راؤ انوار سے تفتیش کیلئے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی اور تفتیشی افسر راؤانوار کی گرفتاری سے متعلق عدالت کوآگاہ بھی کریں گے۔

    جرگہ عمائدین انسداددہشت گردی عدالت پہنچ گئے ہیں ، نقیب اللہ محسود کے وکیل کا کہنا ہے کہ راؤانوار کو آج ریمانڈ کے لئے پیش کیا جائے گا، نئی جےآئی ٹی سے متعلق نقیب کے والد سے بات نہیں ہوئی، نقیب کے والد اور ہم سب عدالت سے مطمئن ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ راؤ انوار سے مقدمے میں مفرور ملزمان تک رسائی کیلئے تفتیش کی جائے گی جبکہ نقیب قتل کیس کا حتمی چالان انسداددہشت گردی عدالت میں جمع ہوچکاہے۔

    خیال رپے کہ سابق ایس ایچ اوامان اللہ مروت سمیت12ملزمان تاحال مفرور ہیں، عدالت نے تمام مفرور ملزمان کو گرفتار کرنے کے احکامات دیے تھے جبکہ مقدمے میں ڈی ایس پی قمراحمد سمیت10ملزمان کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔


    مزید پڑھیں : راؤ انوار عدالت میں پیش، سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتار کرلیا گیا


    گذشتہ روز سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوار کو سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتارکیاگیاتھا اور نجی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعےاسلام آباد سے کراچی لایا گیا، سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم راؤانوار کو اسلام آبادسے کراچی لائی۔

    دوران سماعت راؤ انوار کے وکیل شمیم رحمٰن نے سابق ایس ایس پی ملیر کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی تھی ، جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے بھی حفاظتی ضمانت دی گئی تھی تاہم اب اسے مسترد کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے راؤ انور کے بینک اکاؤنٹس کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق ایس ایس پی ملیر کے بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے جائیں تاکہ ان کے بچوں کی روزی روٹی بحال ہو سکے اور جو تنخواہ انہیں جاتی تھی وہ بھی انہیں ملنی چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود کے والد اور ان کے چچا سے راؤ انوار کی زندگی کے لیے مشکلات پیدا نہ کرنے کے حوالے سے تحریری اقرار نامہ بھی طلب کرلیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے حکم دیا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل رہے گا۔

    چیف جسٹس نے پولیس افسران پر مشتمل نئی جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں آفتاب پٹھان، ولی اللہ، ڈاکٹر رضوان اور آزاد ذوالفقار شامل ہیں اور نئی جے آئی ٹی کے سربراہ آفتاب پٹھان ہوں گے۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کو موصول

    اسلام آباد : نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس میں راؤ انوار کا ایک اور خط سپریم کورٹ کوموصول ہوگیا،عدالت نے آئندہ سماعت پرڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرلیا، چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں نقیب اللہ قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، راؤ انوار کا ایک اورخط سپریم کورٹ کومل گیا۔

    چیف جسٹس نے بتایا کہ راؤانوار کا ایک اور خط ہمیں ملا ہے، خط میں ملزم نے بینک اکاؤنٹس کھولنے،اور میڈیا سے رابطے کی اجازت مانگی ہے۔

    راؤ انوار کی لوکیشن سے متعلق ایم آئی،آئی ایس آئی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے تمام اداروں نے میٹنگز کیں، ملزمان کے موبائل ڈیٹا کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قریبی رشتہ داروں کے موبائل نمبرز بھی ٹریس کئے، سندھ پولیس کو تمام سہولتیں فراہم کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ کیس میں کوئی پروگریس نہیں ہوئی، راؤانوار سے متعلق مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔

    آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کیلئے اقدامات کررہے ہیں، گرفتارملزمان کے خلاف چالان پیش کردیا، ملزم کی آخری لوکیشن لاہور آئی تھی، اس کے بعد نمبرز بند ہیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ممکن ہے ملزم کو کوئی شیلٹر دے رہا ہو؟چیف جسٹس نے آئی جی سے سوال کیا کہ راؤ انوار ملک سے فرارہونے کی کوشش کررہا تھا، کیا اُسوقت کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہیں؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ تمام فوٹیجز تفتیشی ٹیم کو فراہم کی ہیں،جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم فوٹیجز دیکھ سکتےہیں،آئی جی سندھ نے کہا کہ درخواست ہے آپ فوٹیجز چیمبر میں دیکھیں۔

    جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس بھی طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کردی جبکہ کیس کی آئندہ سماعت کراچی رجسٹری میں ہوگی۔


    مزید پڑھیں : نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    یاد رہے گذشتہ ماہ 13 فروری کو سماعت میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دیدی تھی۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا. ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    البتہ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، نامزد ملزمان کو مدد فراہم کرنے والا سہولت کار گرفتار

    نقیب اللہ قتل کیس، نامزد ملزمان کو مدد فراہم کرنے والا سہولت کار گرفتار

    کراچی : نقیب اللہ کیس میں نامزد ملزمان کو مدد فراہم کرنے والا سہولت کار گرفتار کرلیا گیا، سابق پولیس اہلکار نے ملزمان کو فرار کرانے میں مدد فراہم کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی انکوائری جاری ہے ، راؤ انوار تو سندھ پولیس کےہاتھ نہ آسکا لیکن نامزد ملزمان کو مدد دینے والا سہولت کار گرفتار کرلیا گیا، پولیس کےمطابق سابق پولیس اہلکاراورنگزیب گلشن معمار تھانے میں تعینات تھا۔

    ملزم پر الزام ہے کہ اس نے شعیب شوٹر اوراحسان اللہ مروت کے فرار کرانے میں مدد فراہم کی۔

    پولیس کے مطابق اورنگزیب نے دونوں ملزمان کو کراچی سے حیدرآباد اور پھر ٹرین سے فرار کرایا۔

    گزشتہ روز پولیس نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوارسمیت چودہ مفرور ملزمان کی تفصیلات جاری کردی تھیں جس میں اس سہولت کار کا نام شامل نہیں تھا، ریکارڈ مختلف پولیس اسٹیشنز میں آویزاں کیا جائے گا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب اللہ قتل کیس، ملیرسٹی تھانے کا اہلکار جمیل عباسی گرفتار


    کراچی پولیس حکام کے مطابق تفصیلات مختلف تھانوں اور دفاتر میں رکھنے کا مقصد ملزمان کی گرفتاری میں مدد حاصل کرنا ہے۔۔ مفرور ملزمان میں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ بھی شامل ہیں۔

    مطلوب ملزمان سے متعلق کوئی بھی اطلاع ایس ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائم خانی کو دینے کی اپیل کی گئی ہے۔

    یاد رہے دو روز قبل نقیب محسود قتل کیس میں پولیس نے ملیر سٹی تھانے کے اہلکار جمیل عباسی کو گرفتارکیا تھا، جمیل عباسی ایس ایچ او شاہ لطیف کے گارڈ کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا۔

    اس سے قبل پولیس نے راؤ انوار کے قریبی ساتھی اور قبائلی نوجوان کو مارنے والی ٹیم میں شامل سابق ڈی ایس پی قمر احمد کو گرفتار کیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ قمر احمد معطل ایس ایس پی ملیر کے قریبی ساتھی اور اُن کی ٹیم کا اہم حصہ ہے، انہوں نے بطور ڈی ایس پی راؤ انوار کے ماتحت مختلف ڈویژن میں بھی کام کی ہے۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دی تھی۔


    مزید پڑھیں :  نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، ملیرسٹی تھانے کا اہلکار جمیل عباسی گرفتار

    نقیب اللہ قتل کیس، ملیرسٹی تھانے کا اہلکار جمیل عباسی گرفتار

    کراچی : نقیب محسود قتل کیس میں پولیس نے ملیر سٹی تھانے کے اہلکار جمیل عباسی کو گرفتارکرلیا۔ جمیل عباسی ایس ایچ او شاہ لطیف کے گارڈ کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا جبکہ مفرور راؤ انوار تاحال قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملہ پر پولیس معطل ایس ایس پی راؤ انوارتک نہ پہنچ سکی، پولیس نے کراچی کے علاقے قائد آباد میں کارروائی کی، جس میں سی ٹی ڈی اور انویسٹی گیشن پولیس نے مشترکہ طور پر چھاپہ مارا۔

    چھاپے کے دوران پولیس نے ملیر سٹی تھانے کے اہلکار جمیل عباسی کو گرفتارکرلیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق جمیل عباسی ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن کیلئے گارڈ کی ڈیوٹی بھی کرتا تھا، گرفتار اہلکار کو تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے دو روز قبل پولیس نے راؤ انوار کے قریبی ساتھی اور قبائلی نوجوان کو مارنے والی ٹیم میں شامل سابق ڈی ایس پی قمر احمد کو گرفتار کیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیشرفت، راؤ انوار کا قریبی ساتھی گرفتار


    ذرائع کا کہنا تھا کہ قمر احمد معطل ایس ایس پی ملیر کے قریبی ساتھی اور اُن کی ٹیم کا اہم حصہ ہے، انہوں نے بطور ڈی ایس پی راؤ انوار کے ماتحت مختلف ڈویژن میں بھی کام کی ہے۔

    دوسری جانب نقیب اللہ کیس میں گرفتارراؤ انوار کے تین ساتھی اہلکاروں کو انسداد دہشتگردی کی منتظم عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور عدالت نے پولیس کو چودہ روز میں چالان جمع کرانے کا حکم دیدیا۔

    پولیس کا مؤقف تھا کہ گرفتار ملزمان راؤ انوار کی ٹیم کا حصہ تھے۔

    تحقیقاتی افسر عابد قائمخانی کا کہنا تھا کہ نقیب کیس میں اب تک 9ملزمان گرفتار کئےجاچکے ہے ، نقیب قتل کیس میں مرکزی ملزم رائو انوار تاحال مفرور ہے۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے راؤ انوار کو حفاظتی ضمانت دی تھی۔


    مزید پڑھیں :  نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم


    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس میں چیف جسٹس نے راؤانوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت دیدی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے، سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی صاحب ،ذرا تفصیل سے واقعہ بیان کریں، کیا کوئی نجی طیارہ راؤ انوار کے فرار کیلئے استعمال ہوا ؟

    ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا کہ نجی طیاروں کے مالکان نےبیان حلفی جمع کرادیئےہیں، بیان حلفی میں ہے راؤانوارنےانکے طیارے استعمال نہیں کئے، دنوں میں 4نجی طیاروں نے پروازیں کیں، پائلٹس کی ڈگریوں سے متعلق کمیٹی تشکیل دیدی، فروری تک پہلی رپورٹ آئے گی اور ایک ماہ میں مکمل اسکروٹنی رپورٹ دیں گے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے کےمطابق راؤانوارملک سےباہرنہیں گئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس قتل کا الزام ریاست پرہے، الزام ہے ریاست نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے قتل کیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جس پر حفاظت کی ذمہ داری تھی انھی پر قتل کا الزام ہے، مجھے راؤ انوار کاسروس پروفائل مہیا کریں۔

    آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پیش ہوئے اوربتایا راؤانوارکوگرفتارنہیں کرسکے اے ڈی خواجہ نے بتایا راؤ انوارواٹس ایپ استعمال کر رہا ہے، اس لیے لوکیشن معلوم نہیں ہوسکی، لوکیشن پتہ چل جائے توچوبیس گھنٹےمیں گرفتار کرسکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے بتایا کہ ابتدائی معلومات میں13جنوری کو 4دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی، محمد اسحاق، نذر جان کی شناخت موقع پر کرلی گئی جبکہ 17 جنوری کو نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی شناخت ہوئی ، فوری سی سی پی او کو مرنے والوں کی شناخت کا کہا، کمیٹی بنائی جس نے20 جنوری کو عبوری رپورٹ دی۔

    اے ڈی خواجہ نے مزید بتایا کہ کمیٹی نے انکاؤنٹر کو اسٹیج انکاؤنٹر کہا، نتیجے میں20جنوری کو راؤ انوار اور ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوری مقدمہ کیوں درج نہیں کیاگیا، راؤانوار کی حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کئے، عدالتی حکم کے مطابق ایک دوسرا مقدمہ درج کیا جاسکتاہے، جب بھی مقدمہ پولیس کی جانب سےدرج ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کئے گئے، کیا صرف وزارت داخلہ کو نام دیناکافی تھا، بطور سربراہ آپ کو مقدمہ درج کرانا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کمال کی سپروژن تھی آئی جی صاحب، راؤانوار اسلام آباد ایئر پورٹ سے پکڑا گیا تھا، جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ 20 جنوری کو راؤ انوار کراچی سے اسلام آباد آیا تھا، جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ خیال تھا آپ کہیں گے راؤ انوار فلموں کی طرح بس یا ٹرک پر آیا۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کی مدد چاہئے، جس کے جواب میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ راؤ انوار میڈیا سمیت بہت سے دیگر افراد سے رابطے میں ہیں، عدالت تمام ایجنسیوں کو حکم دے، راؤ انوارکا فون 19جنوری سے بند ہے، راؤ انوار کے پاس دبئی کا اقامہ ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پولیس افسران کے پاس اقامہ ہوسکتاہے، کیا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا راؤانوار باہر جاسکتا ہے، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ لکی مروت اور اسلام آباد میں ٹیمیں بھیجی ہیں ، راؤانوارکی آخری پوزیشن ڈھوک پراچہ اسلام آباد ترنول ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ نقیب سےزندگی کو کسی عام آدمی نےنہیں چھینا، ریاست نے ہی نقیب اللہ سے جینے کا حق چھینا ہے، اب یہ پوری ریاست کی ذمہ داری بن چکی ہے، ممکن ہے راؤانوارکو واپس لانے میں سال لگ جائے، بھول جائیں آپ پر کوئی سیاسی دباؤہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم پولیس اورانتظامیہ کے تحفظ کے لیے تیار ہیں، معاملات میں عدالت حکم دے تو اختیارات سے تجاوز کہا جاتا ہے۔

    نقیب اللہ محسود کا چچا زاد بھائی سپریم کورٹ میں پیش ہوا اور کہا کہ ملزم کی عدم گرفتاری پر تحفظات ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ راؤانوار گرفتار نہیں ہوا، عدالت نے فو ج اور سویلین خفیہ اداروں کوپولیس کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مزید دس دن کی مہلت دیتے ہیں اور میڈیا کو کوہدایت کی کہ راؤ انوار کا آڈیو یاویڈیو پیغام نشر شائع نہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوارخود کو قانون کےحوالے کردیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے، ملزم کی پشت پناہی کرنے والے بھی شاید قانون کی گرفت سے نہ بچ سکیں۔

    نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع


    اس سے قبل نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے رپورٹ عدالت میں جمع کر سندھ پولیس کی رپورٹ میں 2نکات کو سامنے رکھا گیا ہے۔

    سندھ پولیس کی رپورٹ کہا گیاکہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا،نقیب اللہ کوپولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرفتار قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی کےسامنے نقیب کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا اور راؤ انوارکمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے فرار ہوگئے۔

    سندھ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ پولیس افسران نقیب کوایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل کرتےرہے، نقیب اللہ کسی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث نہیں تھا، نقیب اللہ آزاد خیال طبیعت کاحامل تھا۔

    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش


    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش کیا گیا ، جس میں نقیب کےوالد کا کہنا تھا کہ راؤانوارمیڈیامیں بولتاہےالحمداللہ پاکستان میں ہوں، پولیس سے پوچھا جائے تفتیش کے دوران وہ کیسے غائب ہوا، پورافاٹاآپ کےانصاف کا منتظرہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ فاٹا والوں کا غم خوشی مشترک ہے، فاٹا والے فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتےہیں، سی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتاہوں، دکھی باپ کاپیغام ہے سن کوافسوس ہورہاہے۔

    بعد ازاں نقیب محسوداز خود نوٹس کی سماعت 13فروری تک ملتوی کردی گئی۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤانوارکو3 دن میں گرفتارکرنےکا حکم


    گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی جبکہ تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نقیب کی ہلاکت: انصاف نہ ملا تو اسلام آباد جائیں گے، سربراہ گرینڈ جرگہ رحمت خان محسود

    نقیب کی ہلاکت: انصاف نہ ملا تو اسلام آباد جائیں گے، سربراہ گرینڈ جرگہ رحمت خان محسود

    کراچی: شہر قائد کے علاقے سہراب گوٹھ میں نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت اور دیگر پختونوں کی گمشدگی کے لیے لگائے جانے والے جرگے کے سربراہ رحمت خان محسود نے تحقیاتی کمیٹی کو تنبیہ کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سربراہ گرینڈ جرگہ رحمت خان محسود کا کہنا ہے کہ ہمارے مطالبات مان لیے گئے ہیں لیکن انصاف نہ ملا تو اسلام آباد جائیں گے۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ ہماری بنائی گئی کمیٹی سندھ حکومت سے رابطے میں ہے، ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں بنائی گئی ٹیم نے سو فیصد کام کیا اور اب ہمارے سارے مطالبات مان لیے گئے ہیں۔

    نقیب اللہ قتل کیس، گواہان نے تین ملزمان کو شناخت کرلیا

    سربراہ گینڈ جرگہ رحمت خان محسود کا کہنا تھا کہ مطالبات مان جانے کی صورت میں ہم نے جرگہ موخر کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد جرگہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پوری قوم نے نقیب اللہ محسود کے لیے آواز بلند کی، نقیب قتل کے حوالے سے اسلام آباد میں بھی احتجاج ہورہا ہے، ہوسکتا ہے ہم بھی اسی طرح احتجاج کریں۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    یاد رہے چند روز قبل نقیب اللہ کی ہلاکت اور انصاف کے لیے لگایا جانے والا محسود قبیلے کا جرگہ پولیس کے خلاف شکایتی مرکز بن گیا تھا جہاں دیگر لاپتہ افراد  کے اہل خانہ بھی شکایات لے کر پہنچے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔