Tag: نمائش

  • برسلز کا چاکلیٹ فیئر

    برسلز کا چاکلیٹ فیئر

    بیلجیئم کے شہر برسلز میں چاکلیٹ کا میلہ سج گیا، چاکلیٹ سے بنے ہوئے لباس اور جوتوں سمیت مختلف اشیا کو نمائش کے لیے پیش کردیا گیا۔

    بیلجیئم کا چھٹا سالانہ چاکلیٹ فیئر برسلز میں شروع ہوگیا جہاں چاکلیٹ کو مختلف انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    مختلف ماڈلز نے چاکلیٹ سے بنے لباس پہن کر ریمپ پر واک کی، میلے میں چاکلیٹ سے بنے جوتے، ہینڈ بیگز اور زیورات بھی پیش کیے گئے۔

    علاوہ ازیں چاکلیٹ سے بنے کیمرے، ٹوتھ برش اور گیم کنٹرولرز وغیرہ نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

    چاکلیٹ فیئر میں چاکلیٹ کو مختلف انداز میں پیش کرنے کے لیے دنیا بھر کے سینکڑوں شیفس نے محنت کی۔

    چاکلیٹ کے اس رنگوں بھرے میلے کو دیکھنے کے لیے مقامی افراد اور سیاحوں کی بڑی تعداد فیئر کا رخ کر رہی ہے۔

  • برطانیہ میں شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل کے عروسی جوڑے کی نمائش

    برطانیہ میں شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل کے عروسی جوڑے کی نمائش

    لندن : برطانیہ کے ونڈ سر کیسل میں شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مرکل کی شادی کے بیش قیمتی ملبوسات نمائش کے لیے پیش کر دئیے گئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ 2 کے چھوٹے پوتے شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ امریکی اداکارہ میگھن مرکل کی ملبوسات جو انہوں نے شادی کے روز زیب تن کیے نمائش کے لیے پیش کردئیے گئے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پرنس ہیری اور امریکی اداکارہ میگھن مرکل کی شادی کے ملبوسات کی نمائش برطانیہ کے ونڈسر کیسل میں لگائی گئی ہے جو 6 جنوری تک جاری رہے گی۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اے رائل ویڈنگ نمائش میں برطانوی شاہی خاندان کی چھوٹی بہو میگھن مرکل کی شادی کا دلکش و نظیر سفید گاؤن اور ستارے کی مانند چمکتا تاج شہریوں کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ونڈسر محل میں کانچ سے بنے خوبصورت باکس میں شاہی جوڑے کے قیمتی ملبوسات رکھے گئے جو دیکھنے والوں کے دلوں کو خوب لبہا رہے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اے رائل نمائش کے دوران میگھن مرکل اور شہزادی ہیری کی شادی میں پہنے گئے شہزادہ ولیم کے بیٹے پرنس جارج اور ننھی شہزادی شارلیٹ کے ملبوسات بھی خاص توجہ مرکز بنے ہوئے ہیں۔

  • کراچی سمیت سندھ بھر میں اسلحہ لے کرچلنے پرپابندی

    کراچی سمیت سندھ بھر میں اسلحہ لے کرچلنے پرپابندی

    کراچی: نگراں حکومت سندھ نے کراچی سمیت صوبے بھر میں اسلحہ رکھنے اور اس کی نمائش پرپابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نگران حکومت سندھ نے صوبے بھر میں اسلحہ رکھنے اور اس کی نمائش پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق رات 12 بجے سے ہوگیا اور یہ پابندی 25 جولائی تک عائد رہے گی۔

    حکومت سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پولنگ اسٹیشنز کے اطراف بھی اسحلہ کی نمائش پرپابندی ہوگی جبکہ تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔

    نگراں حکومت کی جانب سے یہ پابندی انتخابی مہم اور الیکشن والے دن امن وعامہ کو برقرار رکھنے کے لیے عائد کی گئی ہے۔

    الیکشن کمیشن نے 25 جولائی کو عام تعطیل کا اعلان کر دیا

    خیال رہے کہ پاکستان میں رواں ماہ 25 جولائی کوعام انتخابات کا انعقاد ہوگا اور اس حوالے سے وفاقی حکومت پہلے ہی 25 جولائی کو ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کرچکی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی حکومت نے انتخابات میں امن وعامہ کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے جلسے جلوسوں اور انتخابی مہم کے دوران اسلحہ کی نمائش پرپابندی عائد کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تیزاب گردی کے شکار افراد کے بنائے گئے مصوری کے فن پارے

    تیزاب گردی کے شکار افراد کے بنائے گئے مصوری کے فن پارے

    تہران : ایران میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والے افراد نے اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو کینوس پر رنگوں اور برش کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان پیٹنگز کو نمائش کے لیے آشیانہ گیلری تہران میں پیش کیا گیا.

    چہرہ جسم کا سب خوبصورت حصہ ہوتا ہے، یہ انسان کی شناخت بھی ہے اور اسی چہرے سے اپنے قلبی تاثرات کو عیاں کرتا ہے، خوشی کے لمحات ہوں یا غم کی تصویر، چہرے سے صاف عیاں ہوتی ہے لیکن ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے احساسات تو دور اپنے چہرے کوبھی چھپائے ہوئے پھرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنے ہی کسی پیارے نے تیزاب پھینک کر چہرے سے روح تک کو مسخ کردیا ہوتا ہے.

    محسن مرتضوی لکڑی تراش کر فن پارے بنانے کے ماہر ہیں، انہیں کولیگ نے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا۔ فوٹو : اے ایف پی

    ایران میں تیزاب گردی کے شکار ایک گروپ نے اپنی تکلیف کو قسمت کا لکھا سمجھ کر زندگی بھر کا رونا رونے کے بجائے اپنے احساسات اور تکلیف کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ جھلسے ہوئے چہرے والے افراد کی کچلی ہوئی روح کا نوحہ سنا جا سکے، محسن مرتضوی اور معصومہ اتائی نے اپنی جیسے بربریت کے شکار دیگر سانجھے داروں کے ساتھ مل کر پینٹنگ نمائش کا اہتمام کیا.

    فن پاروں کی نمائش میں تیزاب کے شکار افراد کے نفسیاتی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا۔ فوٹو : اے ایف پی

    اس اچھوتے خیال کے خالق محسن مرتضوی تھے جنہیں ان کے ایک حاسد کولیگ نے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث ان کا پورا چہرہ جھلس گیا تھا، محسن لکڑی کو تراش کر دیدہ زیب فن پارے بنانے میں مہارت رکھتے تھے، خوش قسمتی انہیں اپنی ہم خیال معصومہ اتائی تک لے آئی، معصومہ کی ایک آنکھ تیزاب گردی کی نذر ہو گئی تھی اور اس دل دہلانے والے حادثے سے قبل وہ ایک مصورہ کے طور پر شہرت حاصل کرنا چاہتی تھیں.

    محسن مرتضوی نے تصویری نمائش کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ فوٹو : اے ایف پی

    معصومہ اتائی خاندانی رنجش کے باعث اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی جسے غیرت کا جواز بنا کر معصومہ کے سسر نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تاکہ وہ اور کہیں شادی کے قابل نہ رہے اور ساری عمر سسک سسک کر گزار دے، معصومہ کے سسرال نے کسی قانونی چارہ جوئی کرنے پر معصومہ کے بچے کو بھی تیزاب سے جھلسانے کی دھمکی دی جس پر معصومہ نے اپنا کیس واپس لے لیا تھا.

    نمائش میں تیزاب کے شکار افراد ہی مصور اور وہ ہی تصویر تھے۔ فوٹو : اے ایف پی

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کی بنیادی وجہ تیزاب کا بآسانی دستیاب ہونا اور اس کم قیمت ہتھیار سے مخالف کو ایسی کڑی سزا دی جاسکتی ہے جو شکار کو زندگی بھر سسکتے رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے جب کہ قانون میں اس سفاک ظلم کی سزا کا درست تعین نہ ہونا بھی تیزاب گردی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سعودی عرب میں پہلی پاکستانی فلم ’پرچی‘ کی نمائش

    سعودی عرب میں پہلی پاکستانی فلم ’پرچی‘ کی نمائش

    ریاض : سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں پاکستانی فلم پرچی نمائش کیلئے پیش کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی سفارت خانے اور ٹاپ ایونٹ کے باہمی تعاون سے ریاض میں پہلی پاکستانی فلم پرچی پیش کی گئی، فلم کی نمائش میں مہمان خصوصی شہزادہ عبدالعزیز بن مطیب بن سعود کے علاوہ پرچی فلم کے پروڈیوسر عمران رضا کاظمی اور بلال خلیل نے بھی شرکت کی۔

    شہزادہ عبدالعزیز کی رائے کے مطابق سعودی عرب میں پیش کی جانے والی یہ پہلی پاکستانی فلم ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ مستقبل میں باقی ممالک کی طرح سعودی سینماوٴں میں بھی پاکستانی فلمیں رونقیں بکھیریں گی۔

    فلم پرچی کے پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلمیں اب پہلے سے بہتری کی طرف جا رہی ہیں اور فلم پرچی سعودی عرب میں پیش کی جانے والی پہلی پاکستانی فلم ہے۔

    پاکستان ایمبیسی کے افسران کا کہنا تھا سعودی عرب میں تقریباً ستائیس لاکھ پاکستانی مقیم ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی سینیما پاکستانی فلموں کی فروغ /مارکیٹ کے لیے ہمیشہ بہترین ثابت ہوں گے۔

     

    اس موقع پر لوگوں نے نا صرف فلم کو پسند کیا بلکہ فلم کی کاسٹ کی پرفارمنس کو بھی خوب سراہا جبکہ فلم کے میوزک کو بھی خوب پسند کیا گیا۔

    خیال رہے کہ فلم پرچی کی کہانی بھتہ خوروں کی جانب سے تقسیم کی جانے والی پرچیوں کے گرد گھومتی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ غنڈہ عناصر کاروباری لوگوں اور تاجروں سے کس طرح رقم طلب کرتے ہیں۔

    فلم کے اداکاروں میں حریم فاروق، علی رحمٰن خان، احمد علی اکبر، عثمان مختار، شفقت چیمہ ہیں جب کہ اس کے مصنف شفقت خان ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی تلاش میں سرگرداں حال

    ماضی کی خوشگوار یادیں کسی صورت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہم چاہے زندگی میں کتنے ہی مشہور، دولت مند یا کامیاب کیوں نہ ہوجائیں، ہمیں ہمارا ماضی ہمیشہ بہترین دکھائی دیتا ہے۔

    ماضی کے ایسے ہی سحر میں گرفتار نوجوان مصورہ رزین روبن نے فن کے ذریعے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں جاری آرٹ کی نمائش میں رزین کی تصاویر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور انہیں ان کے اپنے ماضی کی یاد دلا رہی ہے۔

    وہ ماضی جہاں بچپن تھا، بچھڑنے والے تھے، اور سکھ تھا۔

    رزین کا بچپن صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں گزرا۔ سنہ 2013 میں وہ کراچی آبسیں۔ مگر اس دوران وہ اپنے والدین سے جدائی کا صدمہ اٹھا چکی تھیں اور بہت کچھ کھو چکی تھیں۔

    اپنی اس نمائش میں انہوں نے ماضی سے اسی انسیت اور لگاؤ کو پیش کیا ہے جو ہر شخص کی زندگی میں بہر صورت موجود ہوتا ہے۔

    کراچی میں جاری اس نمائش میں 13 نوجوان مصوروں کے فنی شاہکاروں کو پیش کیا گیا ہے۔ اس نمائش کا مقصد خاص طور پر ان مصوروں کا کام پیش کرنا ہے جو ابھی اپنے کیریئر کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔

    آمنہ رحمٰن، ارسلان ناصر، ارسلان فاروقی، فہد سلیم، حیدر علی، حسن رضا، حیا زیدی، نعمان صدیقی، انیز تاجی، رزین روبن، صفدر علی، سمیعہ عارف اور سفیان بیگ نامی ان فنکاروں نے نہایت خوبصورتی سے اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔

    نمائش کو عدیل الظفر نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے فنکاروں کے کام کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نئی نسل دنیا کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں اپنے انداز میں کس طرح پیش کرتی ہے۔

    نوجوان مصور نعمان صدیقی کے کام میں سب سے نمایاں وہ لولی پاپس ہیں جو بقول ان کے قوم کو دی جارہی ہیں۔

    نعمان کا کہنا ہے کہ علامتی طور پر ان لولی پاپس کو پیش کیے جانے کا مطلب اس وقت ہماری قوم کے مزاج کی نشاندہی کرنا ہے۔

    انہوں نے مثال دی کہ ملک کے تمام مسئلے دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور جہالت کو چھوڑ کر پاناما کی لولی پاپ میں پھنسا دیا گیا ہے کہ لو اب اس کو کھاتے رہو۔ اس کی وجہ سے ملک کے تمام اصل مسائل پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔

    ان کے کام کی ایک اور انفرادیت گوشت کے وہ ٹکڑے ہیں جو انہوں نے مختلف رنگوں میں رنگ کر پیش کیے ہیں۔

    مختلف اقسام کی پلیٹس میں ان ٹکڑوں کو پیش کر کے نعمان نے ہمارے معاشرے کے مختلف طبقات میں رائج بد دیانتی کے مختلف طریقوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’جس کو جہاں اور جس طرح موقع ملتا ہے وہ وہاں کرپشن کرتا ہے۔ ہر طبقہ کرپشن اور بددیانتی بھی اپنی حیثیت کے مطابق کرتا ہے‘۔

    ایک اور مصورہ سمیعہ عارف نے اپنی پینٹنگ میں مقتول خواتین قندیل بلوچ اور سبین محمود کو خراج تحسین پیش کیا۔


    صفدر علی نے لکڑی اور مختلف دھاتوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت رنگین فن پارہ پیش کیا۔

    کراچی کی مقامی آرٹ گیلری میں جاری یہ نمائش 12 اگست تک جاری رہے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    مہران یونیورسٹی میں رنگوں بھری خطاطی کی نمائش

    جامشورو: مہران یونیورسٹی برائے انجینیئرنگ و ٹیکنالوجی میں شعبہ فنون کے طلبا نے آرٹ کی خوبصورت نمائش کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    مہران یونیورسٹی کے شعبہ آرٹ اور ڈیزائن کے طلبا نے فن پاروں کی سالانہ نمائش میں آرٹ سے اپنی محبت اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    طلبا نے آرٹ کی مختلف جہتوں پر مبنی خوبصورت پوسٹرز اور خطاطی پر مشتمل فن پارے پیش کیے۔

    تخلیقی ذہنیت کے حامل طلبا نے ڈی وی ڈی کورز، لیٹر ہیڈز، مگ، وزیٹنگ کارڈز اور لفافوں پر بھی خوبصورت نقش و نگار تخلیق کر کے انہیں فن پاروں میں بدل دیا۔

    طلبا نے بیسویں صدی کے اوائل میں چلنے والی آرٹ کی دو بڑی تحریکوں ڈاڈا ازم اور سریئل ازم کو اپنے فن پاروں میں پیش کیا۔

    یہ دنوں تحریکیں سنہ 1920 میں سامنے آئی تھیں جب مصوروں نے حقیقی زندگی کی ناانصافیوں، جنگوں اور تصادم کو نظر انداز کر کے تصوراتی فن تخلیق کرنا شروع کیا۔

    مزید پڑھیں: سریئل ازم کے زیر اثر آرٹ

    ان تحریکوں کے زیر اثر وجود پانے والے آرٹ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بالکل ماورائی اور عقل سے بالاتر فنی اظہار تھا جس میں تخیل اور لاشعور میں جنم لینے والے خیالات کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔

    طلبا اور اساتذہ کا گروپ

    مہران یونیورسٹی کی اس نمائش کا سرکاری حکام نے بھی دورہ کیا اور طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    نیلگوں رنگ میں یونانی ثقافت اور بانی پاکستان قائد اعظم

    پانی زندگی کی علامت ہے۔ اس کا نیلا رنگ بھی نہ صرف زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ماہرین نفسیات اس رنگ کو بے چین اور انتشار کا شکار انسانی دماغ کو سکون اور آرام پہنچانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

    اسی گہرے رنگ کو استعمال کرتے ہوئے فنکار کمیل اعجاز الدین زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کر رہے ہیں۔

    کراچی کی ایک مقامی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ’آوٹ آف دا بلو‘ کے نام سے جاری ہے۔

    12

    لاہور کے رہنے والے کمیل نے نیویارک یونیورسٹی سے آرٹ اور اس کی تاریخ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ دو الگ ثقافتوں کے حامل شہروں میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد کمیل اب ذہنی و روحانی طور پر نیویارک اور لاہور دونوں میں رہائش پذیر ہیں۔

    اپنی تصاویر میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔

    2

    6

    یونان اور روم کی فن و ثقافت پڑھنے والے کمیل کے فن پاروں میں یونانی اور رومی رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی مذکورہ نمائش میں رکھے گئے فن پارے قدیم یونان کے فن اور اس کی ثقافت سے متاثر ہیں۔

    3

    ان کے فن پاروں کا بنیادی خیال کانٹے ہیں جو آپ کو ہر فن پارے میں نظر آئیں گے۔

    کمیل کے مطابق کانٹے خطرے اور خوبصورتی دونوں کی علامت ہیں۔ یہ ایک طرف تو اپنے حصار میں موجود شے کو حفاظت فراہم کرتے ہیں، دوسری جانب اس حصار سے باہر موجود ہر شے کے لیے خطرے کی صورت ہیں۔

    5

    4

    کمیل نے اس نمائش میں درختوں کو فرش پر کی گئی کندہ کاری کی طرح پیش کیا ہے۔ فرش پر کندہ کاری یونانیوں سمیت ہر ثقافت کا اہم جز تھا جو اس دور کے ثقافتی و فنی عروج کی نشانی تھا۔

    9

    7

    انہوں نے چاروں موسم سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے درختوں کو اس شکل میں پیش کیا ہے۔

    10

    8

    گہرے نیلے رنگ پر مشتمل فن پاروں کی یہ نمائش مزید چند روز جاری رہے گی۔

  • فلم لالا لینڈ کےمرکزی کرداروں کےطلائی مجسموں کی نمائش

    فلم لالا لینڈ کےمرکزی کرداروں کےطلائی مجسموں کی نمائش

    لندن : رومانوی میوزیکل فلم لالالینڈ میں مرکزی کردار نبھانےوالےفنکار ریان گوسلنگ اور ایمااسٹون کےسونے کےمجسموں کو نمائش کےلیے پیش کردیاگیا۔

    تفصیلات کےمطابق گولڈن گلوب ایوارڈزمیں تاریخ رقم کرنے اور آسکرایوارڈ میں چودہ نامزدگیوں کےساتھ سرفہرست رہنے والی میوزیکل رومانوی فلم لالا لینڈ میں اداکاری کےجوہر دکھاکر شائقین کا دل موہ لینے والے فنکار ریان گوسلنگ اور ایمااسٹون کےسونے کےمجسموں کو لندن کےمعروف سینما گھر اوڈین کی بالکونی پرنمائش کےلیےرکھ دیاگیا ہے۔

    post-1

    گوسلنگ اورایمااسٹون کےمجسموں کی قدامت 8.2فٹ اوران کا وزن پینتالیس کلو گرام ہے۔مجسموں کی خاص بات فلم لالالینڈ میں فلمایاگیا ڈانس کا پوز ہے۔

    سونے کی ان مجسموں کو دیکھنے کےلیےلندن میں دور دور سے لوگ آرہے ہیں اور سیلفیا ں بنارہے ہیں۔یہ مجسمے آسکر ایوارڈ کی تقریب شروع ہونے تک نصب رہیں گے۔

    post-2

    یاد رہےکہ رواں ماہ 13فروری کوبرطانوی اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس (بافٹا) ایوارڈز کی رنگا رنگ تقریب میں میوزیکل فلم لا لا لینڈ نے بہترین فلم کے ایوارڈ سمیت 5 ایوارڈز حاصل کیے تھے۔

    واضح رہےکہ رواں سال جنوری میں فلم ’لا لا لینڈ‘ نے گولڈن گلوب میں سات ایوارڈز جیت کر نئی تاریخ رقم کی تھی۔اس سے فلم’ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ‘ نے 1978 میں چھ ایوارڈز جیتے تھے۔

  • ایسی نمائش جس میں آپ فن پاروں کو چھو سکتے ہیں

    ایسی نمائش جس میں آپ فن پاروں کو چھو سکتے ہیں

    آرٹ کی نمائش اور میوزیم میں آنے والے افراد اور سیاحوں کو سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی فن پارے کو ہاتھ نہ لگائیں۔ بعض اوقات کسی نہایت نادر و نایاب فن پارے کے گرد پٹیاں بھی لگا دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان کے قریب نہ جانے پائیں۔

    لیکن جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں ایسی آرٹ نمائش کا آغاز کیا گیا ہے جس میں لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ان آرٹ کے شاہکاروں کو چھوئیں جن کے بارے میں وہ ساری زندگی پڑھتے اور سنتے رہے ہیں۔

    blind-post-4

    جمہوریہ چیک کی قومی گیلری کی جانب سے فراہم کیے جانے والے ان مجسموں اور فن پاروں کی نمائش خاص طور پر نابینا افراد کے لیے منعقد کی گئی ہے تاہم عام افراد کا داخلہ بھی ممنوع نہیں۔

    blind-post-3

    ان فن پاروں میں سے کچھ ان کے تخلیق کاروں نے بھی رضا کارانہ طور پر نمائش کے لیے فراہم کیے ہیں۔

    blind-post-1

    اس نمائش کی منتظم جانا کلیمووا کا کہنا ہے کہ یہ نمائش آرٹ کے دلدادہ افراد کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ان شاہکاروں کو چھوئیں اور انہیں محسوس کریں۔ یہ موقع کسی دوسری گیلری یا نمائش میں نہیں مل سکتا۔ ’ہر جگہ لکھا جاتا ہے، ’اسے چھونے سے پرہیز کریں‘ لیکن اس نمائش میں اس کے برعکس ہے‘۔

    blind-post-2

    منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ نمائش خاص طور پر نابینا افراد کے لیے منعقد کی گئی ہے اور یہاں آنے والے عام افراد پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان مجسموں کی بناوٹ اور خوبصورتی کو محسوس کریں۔