سندھ حکومت نے شہر میں بڑھتے حادثات اور جان و مال کے نقصانات ہونے کے بعد سے سیف سٹی پراجیکٹ پر کام تیز کر دیا ہے، تاکہ جدید ترین آئی ٹی ایس کیمروں کے ذریعے ای چالان سسٹم شروع کیا جا سکے.
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے احکامات پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن، ڈی جی سیف سٹی اتھارٹی آصف اعجاز شیخ اور ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اس پراجیکٹ پر دن رات کام کرتے نظر آ رہے ہیں تاکہ قانون کا نفاذ ہو اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جا سکے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی اجرک والی نئی نمبر پلیٹ لگانے کے معاملے کو مختلف فورمز پر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، زیادہ تر فورمز کا تعلق اردو کمیونٹی سے ہے۔
اجرک
اجرک ایک روایتی سندھی چادر ہے جو اپنے مخصوص ڈیزائن اور رنگوں کے لیے مشہور ہے، یہ سندھی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور اکثر تہواروں اور خاص مواقع پر پہنا جاتا ہے۔ اجرک کی تاریخ سندھ کی قدیم تہذیب سے جڑی ہوئی ہے، ماہرین آثار قدیمہ نے وادئ سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات میں اجرک سے مشابہ کپڑوں کے ٹکڑے دریافت کیے، جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اجرک بنانے کا فن صدیوں پرانا ہے۔ اجرک سندھی ثقافت میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک کپڑا ہے بلکہ سندھی شناخت اور روایت کی علامت بھی ہے۔
تنقید کرنے والے طبقے
دوسری جانب تنقید کرنے والوں میں سوشل میڈیا سمیت دیگر فورمز کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں اور ایک طبقہ وہ بھی ہے جو غربت کی چکی میں پستا چلا آ رہا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ نمبر پلیٹ جاری کروانے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں۔ کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ جب ایک مرتبہ سندھ حکومت رجسٹریشن کے پیسے وصول کر چکی ہے تو دوبارہ پیسے کیوں لیے جا رہے ہیں؟ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کہیں پر معاشی مجبوریاں ہیں تو کہیں سیاسی مقاصد کے لیے اس معاملے کا اٹھایا جا رہا ہے۔
کیا نمبر پلیٹ پالیسی صرف کراچی کے لیے ہے؟
سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم فیس بک پر کراچی کے ایک شہری کی جانب سے گمبٹ میں ہوٹل پر کھڑی موٹر سائیکلوں کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہے جس میں اس کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ میں سرکاری نمبر پلیٹ لگانا تو دور کی بات، سرے سے نمبر پلیٹ لگانے کا رواج ہی نہیں ہے۔ اس ویڈیو میں 25 سے زائد موٹر سائیکلوں کو ہوٹل کے باہر دیکھا جا سکتا ہے، پارک شدہ موٹر سائیکلوں میں 20 پر نمبر پلیٹیں ہی نہیں لگی تھیں، شہری کے مطابق زیادہ تر موٹر سائیکلیں نئی اور باقی پرانے ماڈلز کی تھیں، شہری کی جانب سے نمبر پلیٹ کے معاملے پر مبینہ دوہرے معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس طرح کی متعدد ویڈیوز فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ پر بھی نظر آتی ہیں۔
موٹر سائیکلوں کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
میرے خیال میں سندھ حکومت کو معاشی معاملے والے پوائنٹ کو پہلے دیکھنا چاہیے کیوں کہ بہرحال سندھ کا ہر باسی حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے، کم سے کم موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹوں کے اجرا کے لیے سندھ حکومت کو بجٹ جاری کرنا چاہیے تاکہ غربت کی لکیر میں پسے شہری ہوں یا سفید پوش، سبھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔
مسئلہ اجرک یا سندھ حکومت؟
جہاں تک سیاسی معاملات کی بات ہے تو سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اصل مسئلہ سندھ حکومت سے ہے یا اجرک کے نشان یا اس کی فروخت سے؟ کیوں کہ اوپر اگر اجرک ہے تو سلور اسٹکر کے اندر مزار قائد کی شبیہ بھی چکمتی نظر آتی ہے جس کے ساتھ پاکستان لکھا ہے۔

سیاست میں کوئی بھی فیصلہ آخری نہیں ہوتا، یہ بات بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ فرض کریں اگر سندھ حکومت کسی طرح اجرک ہٹانے پر راضی ہو بھی جاتی ہے تو جو لاکھوں نمبر پلیٹیں اب تک جاری ہو چکی ہیں ان کا کیا ہوگا؟ میرے خیال میں سندھ حکومت کو بالکل اختیار ہے کہ وہ کوئی بھی قانون اسمبلی سے پاس کروا کر اسے لاگو کرے۔
سندھ حکومت ای چالان کی جانب جا رہی ہے یہ بھی لائق تحسین اقدام ہے، لیکن نمبر پلیٹ کے معاملے پر شروع ہی سے اگر حامیوں اور اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت کر لی جاتی تو یقیناً بہتر ہوتا۔ نمبر پلیٹس کے معاملے پر جس طرح سندھ حکومت اور مخالف پارٹیوں کے بیانات آ رہے ہیں اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ صرف میڈیا کی توجہ درکار ہے، جب کہ اصل وجہ کچھ اور ہے۔
عام شہریوں کو ٹریفک قوانین پر عمل کرنا، اپنی اور اہل خانہ کی جان و مال محفوظ بنانے کے لیے تمام ہدایات پر من و عن عمل کرنا چاہیے، کیوں کہ کوئی بھی مہذب معاشرہ ہو وہاں قانون کی پاس داری کی جاتی ہے۔ حکومت سندھ اگر کوئی اچھا کام کرنے جا رہی ہے تو اس کو سراہنا چاہیے اور اگر کوئی بات ہو بھی جاتی ہے تو افہام تفہیم سے حل کر لینا چاہیے، کیوں کہ روشنیوں کا شہر کراچی پہلے بھی لسانی اور فرقہ واریت کی بدترین جنگ بھگت چکا ہے۔
یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔