Tag: نمبر گیم

  • لگتا ہے نمبر پورے نہیں اس لیے اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا، خواجہ آصف

    لگتا ہے نمبر پورے نہیں اس لیے اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا، خواجہ آصف

    وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ لگتا ہے نمبر پورے نہیں تھے اس لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، آج قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد مختصر ترین کارروائی کے بعد ہی ملتوی کردیا گیا۔

    اجلاس سے واپسی کے دوران اسمبلی کی راہداری میں صحافیوں نے خواجہ آصف سے تازہ ترین صورتحال جاننے کیلئے سوالات کیے جس کے انہوں نے مختصر جواب دیے۔

    صحافیوں نے وزیر دفاع سے سوال کیا کہ کیا کل تک نمبر پورے ہوجائیں گے؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ترمیم پیش ہوگی یا نہیں یہ تو صبح ہی پتہ چلے گا، مولانا فضل الرحمان نے ہمیں سپورٹ نہیں کیا۔

    مولانا کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ میں صبح سے اسمبلی میں موجود تھا مجھے نہیں معلوم کہ ان سے کیا بات ہوئی؟

    آئینی ترامیم مؤخر، قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی

    واضح رہے کہ حکومت نے نمبر گیم پورا کرنے میں ناکامی پر وفاقی کابینہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا وقت بار بار تبدیل کرنے کے بعد بالآخر کل 16 ستمبر 2024 تک ملتوی کر دیا۔

    قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت 11 بجے کے قریب شروع ہوا جس میں وقفہ سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس معطل کرنے کی تحریک کی منظوری کے فوری بعد کل تک ملتوی کر دیا گیا۔ نئے وقت کے مطابق اجلاس 16 ستمبر دن ساڑھے بارہ بجے ہوگا۔

  • سینیٹ الیکشن: سندھ اسمبلی میں نمبر گیم کس کے حق میں؟

    سینیٹ الیکشن: سندھ اسمبلی میں نمبر گیم کس کے حق میں؟

    کراچی: سینیٹ الیکشن کے لیے سندھ اسمبلی میں نمبر گیم کس کے حق میں ہے؟ اے آر وائی نیوز کی اس اہم رپورٹ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    سندھ اسمبلی میں 21 ارکان کے ووٹ سے جنرل نشست پر ایک سینیٹر منتخب ہوگا، اور خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشست کے لیے 56 ارکان کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی، جب کہ صوبائی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 168 ہے۔

    گزشتہ روز ملیر اور سانگھڑ الیکشن جیتنے کے بعد صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی میں 99 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہے۔

    دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف 30 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، ایم کیو ایم 21 نشستوں کے ساتھ اسمبلی میں تیسری اکثریتی جماعت کی پوزیشن پر موجود ہے، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس 14 سیٹیں، تحریک لبیک پاکستان 3، اور ایم ایم اے کے پاس ایک نشست ہے۔

    سینیٹ کا میدان، کس کا پلڑا ہوگا بھاری، کس کو پہنچے گا نقصان؟

    سندھ کے سینیٹ انتخابات کے دوران ٹی ایل پی کے 3 اور ایم ایم اے کا ایک رکن اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی 7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ اور 2 خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔

    سندھ سے پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز اپنی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہو رہے ہیں، ایم کیو ایم کے 4 سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں۔

    اس پس منظر میں ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جی ڈی اے متحد ہو کر انتخابات میں جاتی ہیں تو ایم کیو ایم کے لیے ایک جنرل نشست کے ساتھ ساتھ ایک ٹیکنوکریٹ یا خواتین کی مخصوص نشست حاصل کرنے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف بھی متحدہ اپوزیشن کی صورت میں 2 نشستیں حاصل کر سکتی ہے، ایک سینیٹ نشست جی ڈی اے کو بھی مل سکتی ہے، تاہم ٹیکنوکریٹ کی نشست پر حکومتی جماعت اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان مقابلے کا امکان ہے۔

    اگر اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد رہا تو جنرل، ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی مخصوص نشست ملا کر کم سے کم 4 اور زیادہ سے زیادہ 5 نشست نکال سکتی ہیں، اور یوں پیپلز پارٹی 6 نشستوں تک محدود رہ سکتی ہے۔

    اگر اپوزیشن اتحاد میں کوئی بھی مسئلہ آیا تو ایم کیو ایم اور تحریک انصاف دونوں ایک ایک نشست گنوا سکتے ہیں۔

  • چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد، اپوزیشن کو نمبر گیم میں کمی کا خدشہ

    چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد، اپوزیشن کو نمبر گیم میں کمی کا خدشہ

    اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کو نمبر گیم میں کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہی ہے، تاہم اپوزیشن کو اچانک نمبر گیم میں کمی کا خدشہ لا حق ہو گیا ہے۔

    ذرایع نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں اپوزیشن کے 10 سے 15 سینیٹرز پارٹی پالیسی سے منحرف ہو سکتے ہیں۔

    چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی حکمتِ عملی پر مشاورت کے لیے ن لیگی سینیٹرز کا اجلاس بلایا گیا تاہم اس اہم بیٹھک میں 30 میں سے صرف 19 ارکان نے شرکت کی۔

    اہم بیٹھک میں ایک تہائی لیگی سینیٹرز اجلاس سے غائب ہونے کے بعد یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ عین موقع پر تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو سکتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پی ٹی آئی کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ

    ادھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سیکریٹری سینیٹ کو خط لکھ کر ریکوزیشن بلانے سے متعلق اعتراض دور کرنے کی کوشش کی۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، ادھر سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس سینیٹ میں مطلوبہ تعداد موجود نہیں، فارورڈ بلاک کس طرح بن سکتا ہے؟ یہ تو قانون کی نفی ہوگی۔

    پی پی رہنما شیری رحمان نے وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ کی ملاقات کے موقع پر دیے گئے بیان کو بھی ہارس ٹریڈنگ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہے، اس لیے چیئرمین سینیٹ لانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔