Tag: نواب حافظ رحمت خاں

  • نواب حافظ رحمت خاں کا دیہاتیوں‌ سے انصاف

    نواب حافظ رحمت خاں کا دیہاتیوں‌ سے انصاف

    نواب حافظ رحمت خاں ہندوستان کے اُن نیک اور نام وَر حکم رانوں میں سے تھے جو اپنی بہادری اور انصاف پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ نواب صاحب کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اُن کی حکومت میں سارے کام خدا ترسی کے ساتھ شریعت کے مطابق ہوں۔ یہاں ہم حافظ رحمت خاں کے عدل اور انصاف سے متعلق ایک واقعہ نقل کر رہے ہیں جو ہندوستانی حکم رانوں کی سوانح پر مشتمل کتابوں میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے۔

    ایک روز حافظ صاحب کے صاحبزادے حافظ محمد یار خان پیلی بھیت کے جنگل میں شکار کو گئے۔ جنگل کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں اور ہاتھی گھوڑوں کو تو گاؤں میں چھوڑا۔ صرف محمد خاں خلجی کو ساتھ لیا۔ یہ سردار شکار میں بڑا ماہر تھا۔ ابھی جنگل میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ کچھ ہرن دکھائی دیے۔ ان کا پیچھا کیا۔ قریب پہنچے تو حافظ محمد یار خاں ایک جگہ گھات میں بیٹھے اور محمد خاں خلجی کو حکم دیا کہ ہرنوں کو گھیر کر سامنے لاؤ۔

    محمد خاں خلجی چلا تو اُس وقت گاؤں کا ایک شخص اُس طرف آنکلا۔ محمد خاں نے اُسے ہرنوں کی طرف جانے سے منع کیا لیکن وہ نہ مانا۔ آگے بڑھتا چلا گیا۔ اُس کے پاؤں کی آہٹ پا کر ہرن بھاگ گئے اور آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ محمد خاں کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے گنوار کو گالی دی اور کہا ’’تجھ کو کیا ہوگیا تھا کہ تو نے میری بات نہیں سنی اور میرا شکار نکال دیا۔‘‘

    گالی کے جواب میں گنوار نے بھی گالی دی اور بولا ’’میں تیرے واسطے اپنا راستہ کیوں چھوڑ دیتا؟‘‘ اس جواب پر محمد خاں نے اُس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ طمانچہ کھا کر بھاگا اور اپنے سات آدمیوں کو بلا لایا اور ان کی کمک پا کر محمد خاں کے سَر پر لاٹھی دے ماری۔ محمد خاں فوجی سردار اور بڑا قوی آدمی تھا۔ زخم کھا کر اس سے لپٹ گیا اور دے پٹکا۔ اُسی وقت حافظ محمد یار خاں بھی آگئے۔ لڑائی کا یہ رنگ دیکھا تو چھری محمد خاں کے ہاتھ میں تھما دی۔ محمد خاں کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر دوسرے دیہاتی لاٹھیاں لے کر پل پڑے اور لڑنے لگے۔​ یہ دونوں بہترین سپاہی تھے۔ سات آٹھ آدمیوں کو خاطر میں کیا لاتے۔ لیکن لاٹھیوں کی چوٹوں سے نہ بچ سکے۔ لڑ ہی رہے تھے کہ حافظ محمد خاں کے سوار اور پیادے اُن کو ڈھونڈتے ہوئے آگئے۔ گاؤں والوں نے لشکری آدمیوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ دونوں یا تو شہزادے ہیں یا بڑے آفیسر۔ اب وہ سَر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ جنگل میں گھس کر اِدھر اُدھر چھپ گئے۔ حافظ محمد یار خاں نے اپنے آدمیوں کی مدد سے ان کو تلاش کرایا مگر ایک بھی ہاتھ نہ لگا۔ مجبور ہو کر ساتوں دیہاتیوں کی بیل گاڑیاں جو قریب ہی تھیں اور ایندھن سے لدی تھیں، کھینچ کر پیلی بھیت لے گئے۔ تیسرے چوتھے دن دیہاتی ملک سیر خاں گورنر پیلی بھیت کے پاس پہنچے اور درخواست دی کہ کوئی شخص ہماری گاڑیاں جنگل سے ہانک کر پیلی بھیت لے آیا ہے۔ گورنر نے پوچھا تم پہچانتے ہو؟ بولے ’’جی ہاں۔ مگر ہم ملزموں کے بارے میں نواب صاحب کے سامنے کچھ عرض کریں گے۔‘‘ ملک صاحب نے مقدمہ درج کر کے نواب صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ وہاں سے ان سب کی طلبی ہوئی تو فریاد کی کہ حضور کے صاحبزادوں میں سے کوئی ہماری گاڑیاں اور بیل جنگل سے لے آیا ہے۔​

    نواب صاحب نے وجہ پوچھی تو دیہاتی گھبرائے اور سوچا کہ قصور تو اپنا ہے وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ نواب صاحب نے اطمینان دلایا کہ پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔ گھبراؤ نہیں۔ مگر دیہاتی انصاف کا نام سُن کر بوکھلا گئے تو جان بخشی کی درخواست کے بعد پورا حال سچ سچ کہہ دیا۔ نواب صاحب نے حکم دیا کہ بیل گاڑیاں مع سامان اور ملزم حاضر کیا جائے۔ اس حکم کے بموجب حافظ محمد یار خاں عدالت میں حاضر ہوئے تو نواب صاحب نے بیٹے کو ڈانٹا اور کہا ’’تم ان بے گناہوں کا مال کیوں چھین لائے؟‘‘

    بیٹے نے عرض کیا ’’حضور! اس کا سبب ان سب سے پوچھ لیا جائے۔‘‘ اور پھر اپنے زخم دکھائے۔ محمد خاں خلجی نے بھی اپنا سر اور کندھا کھول کر دکھایا۔ دیہاتیوں کی زیادتی ثابت ہوگئی لیکن نواب صاحب نے فیصلہ سنایا: ’’ان بے چارے بے خبر لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ خبردار پھر کبھی ایسی جرأت نہ کرنا۔ چونکہ یہ دیہاتی بے خبر تھے اس لیے ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا۔ جاؤ ان کی بیل گاڑیاں اور سامان واپس کر دو اور انہیں راضی کر کے خوش کرو۔‘‘ حافظ محمد یار خاں اور محمد خاں خلجی نے یہ فیصلہ غنیمت سمجھا اور بہت کچھ دے دلا کر راضی نامہ داخل کر دیا۔ دیہاتی خوشی خوشی لوٹ گئے۔​