Tag: نواب مشتاق احمد خان

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • پاکستان میں‌ میلادُ النّبی ﷺ کی پہلی تقریب اور سفید ریش بزرگ

    پاکستان میں‌ میلادُ النّبی ﷺ کی پہلی تقریب اور سفید ریش بزرگ

    جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران آزادی کے بعد عید میلادالنّبی ﷺ کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

    خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

    افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اﷲ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا، ان سے مخاطب ہو کر بولا ’’بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔

    آپ روتے کیوں ہیں؟‘‘ سفید ریش بزرگ نے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ’’عزیزِ من، یہ رنج کے نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم، محمد رسول اﷲ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی سَتر پوشی کر رہے ہیں۔

    اس کی دکان کو نذر آتش اور اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔

    اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اﷲ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار و مدد گار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں۔ اپنے کانوں سے سرورِ دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدﷲ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی برضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدُ للہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔‘‘

    سوال کرنے والا نوجوان یہ سن کر اس عمر رسیدہ بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے، ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔

    (نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ’’کاروانِ حیات‘‘ سے ایک واقعہ)