Tag: نوبل انعام

  • نوبل انعام جیتنے کی سیلی بریشن: سوئیڈش سائنسدان کو ساتھیوں نے تالاب میں پھینک دیا

    نوبل انعام جیتنے کی سیلی بریشن: سوئیڈش سائنسدان کو ساتھیوں نے تالاب میں پھینک دیا

    طب میں نوبل انعام پانے والے سوئیڈش سائنسدان کے ساتھیوں نے انہیں انعام ملنے کی خوشی انوکھے انداز میں منائی، ساتھیوں نے سائنسدان کو اٹھا کر تالاب میں پھینک دیا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوبل انعام پانے والے سوئیڈش سائنسدان سوانتے پابو کو ان کے ساتھ تالاب میں پھینک دیتے ہیں، اس موقع پر وہاں موجود تمام افراد خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔

    یہ سیلی بریشن جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ میں ہوئی جہاں پابو کے ساتھی انہیں نوبل انعام کی مبارک باد دینے جمع ہوئے تھے۔

    ادارے میں کسی کو تالاب میں پھینکنے کی ’روایت‘ دراصل اس وقت منعقد کی جاتی ہے کہ جب وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرتا ہے، لیکن پابو کی اس شاندار کامیابی کے بعد ان کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوبل انعام کی سیلی بریشن بھی اس روایت کے بغیر ادھوری ہے۔

    چنانچہ تمام ساتھیوں نے پابو کو اٹھایا اور تالاب میں پھینک دیا۔ ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہی ہے۔

    سوئیڈش سائنسدان سوانتے پابو نے طب کے میدان میں اس سال کا نوبل انعام اپنے نام کیا ہے۔

    نوبل کمیٹی کے مطابق سوئیڈش سائنس دان کو یہ انعام معدوم ہوجانے والے انسانوں کے جینوم اور انسانی ارتقا کے حوالے سے کی جانے والی دریافتوں پر دیا گیا ہے۔

  • امن کا نوبل انعام 2 صحافیوں کے نام

    امن کا نوبل انعام 2 صحافیوں کے نام

    اوسلو: نوبل امن انعام 2021 کا اعلان کردیا گیا، رواں برس امن کا نوبل انعام فلپائنی صحافی ماریہ ریسا اور روسی صحافی دمتری مراتوف کو دیا جارہا ہے۔

    امن انعام دونوں صحافیوں کو آزادی اظہار کے تحفظ کی کوششوں کے لیے دیا گیا ہے۔

    امن انعام کے لیے 329 امیدوار نامزد تھے، جن میں سے 234 افراد اور 95 تنظیمیں شامل تھیں۔ امن کے نوبل انعام کا اعلان نارویجن کمیٹی کرتی ہے جب کہ باقی تمام انعامات کا اعلان سویڈش اکیڈمی کرتی ہے۔

    امن کا نوبیل انعام جیتنے والے دونوں صحافیوں کو رواں برس 10 دسمبر کو ناروے کے شہر اوسلو میں ایوارڈ اور 10 لاکھ ڈالر کی رقم دی جائے گی۔

    گزشتہ روز ادب کا نوبل انعام تنزانیہ کے ادیب عبدالرزاق گرناہ نے اپنے نام کیا تھا، کیمسٹری کا نوبل انعام جرمنی کے بینجمن لسٹ اور برطانیہ کے ڈیوڈ ڈبلیو سی میک ملن کو جبکہ فزکس کا نوبل انعام 3سائنسدانوں کو دیا گیا تھا۔

    طب 2021 کا انعام دو امریکی سائنسدانوں کو دیا گیا ہے۔

  • طب میں نوبل پرائز 2 امریکی سائنس دانوں کے نام

    طب میں نوبل پرائز 2 امریکی سائنس دانوں کے نام

    طب میں نوبل پرائز مشترکہ طور پر 2 امریکی سائنس دانوں کو دینے کا اعلان کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق فزیالوجی یا طب کے شعبے میں 2021 کا نوبل انعام مشترکہ طور پر 2 امریکی سائنس دانوں ڈیوڈ جولیئس اور آرڈیم پاٹاپوٹیم نے حاصل کر لیا۔

    دونوں طبی سائنس دانوں کو اس انعام کا حق دار انسانی جسم میں درجۂ حرارت سے متعلق اعصابی نظام پر تحقیقات کرنے پر قرار دیا گیا۔

    نوبل پرائز کمیٹی کے مطابق ان سائنس دانوں نے اپنی ریسرچ میں اس امر کی وضاحت کی ہے کہ گرمی، سردی اور چھونے سے ہمارے اعصابی نظام میں سگنل کیسے آ سکتے ہیں، شناخت شدہ آئن چینلز بہت سے جسمانی عمل اور بیماری کے حالات کے لیے اہم ہیں۔

    نوبل پرائز جیتنے والے ان سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے اجسام کس طرح سورج کی روشنی کی حرارت یا ہمارے کسی پیارے کا ہمیں گلے لگانے کا احساس محسوس کرتے ہیں۔

    ان سائنس دانوں نے اس بات پر کام کیا کہ کس طرح ہمارے اجسام نروس سسٹم کے اندر جسمانی حساسیت کو برقی پیغامات میں تبدیل کرتے ہیں، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج سے درد کے علاج کے نئے طریقے دریافت کیے جا سکیں گے۔

  • چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    چاکلیٹ اور نوبل انعام کے درمیان حیران کن تعلق کا انکشاف

    اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کسی ملک کا کوئی شہری نوبل انعام حاصل کرنے میں کیوں کامیاب رہتا ہے؟ تو یقیناً آپ کے پاس بہت سے جواب ہوں گے جیسے کہ انفرادی طور پر اس شخص کی محنت، قابلیت، ذہانت علاوہ ازیں اس شخص کو ملک کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات و مراعات۔

    تاہم نوبل انعام سے جڑا ایک عنصر ایسا ہے جو انکشاف کی صورت میں سامنے آیا اور دنیا کو حیران کر گیا۔

    کچھ عرصہ قبل ایک تحقیقی مقالے میں دعویٰ کیا گیا کہ جن مالک میں چاکلیٹ کھانے کا رجحان زیادہ ہے، ان ممالک میں نوبل انعام پانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

    جی ہاں، یعنی کہ جن ممالک کے شہریوں میں چاکلیٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے ان ممالک کے شہریوں میں نوبل انعام حاصل کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    یہ تحقیقی مقالہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوا تھا جسے سوئٹزر لینڈ کے ایک پروفیسر آف میڈیسن فرانز ایچ مزرلی نے تحریر کیا تھا۔

    پروفیسر فرانز نے لکھا کہ چونکہ کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چاکلیٹ دماغی استعداد اور کارکردگی بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ذہنی صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، تو میں نے نوبل انعام اور چاکلیٹ میں تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی۔

    ان کے مطابق اس حوالے سے انہیں کوئی باقاعدہ ڈیٹا تو نہیں مل سکا، تاہم جب انہوں نے مختلف ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح اور ان ممالک کے نوبل انعامات کا جائزہ لیا تو ان کے خیال کی تصدیق ہوگئی۔

    فرانز کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں چاکلیٹ کے استعمال کی فی کس شرح زیادہ تھی، یہ وہی ممالک تھی جن کے متعدد شہری نوبل انعام حاصل کر چکے تھے۔

    ان کے مطابق اس تحقیق نے انہیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    پروفیسر فرانز کا یہ تحقیقی مقالہ باقاعدہ کسی دستاویز یا تحقیق کے نتائج کی صورت میں نہیں پیش کیا جاسکتا، ان کے پیش کردہ اعداد و شمار حقیقت تو ہیں تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ کیا واقعی یہ دو عوامل ایک دوسرے سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا چاکلیٹ کا استعمال کسی شخص کو نوبل انعام حاصل کرنے جتنا ذہین بنا دیتا ہے یا پھر ذہین اور تخلیقی افراد میں قدرتی طور پر چاکلیٹ کھانے کا شوق موجود ہوتا ہے۔

    چونکہ چاکلیٹ کا زیادہ استعمال فائدے کی جگہ نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے لہٰذا یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ نوبل انعام حاصل کرنے والے افراد کتنی مقدار میں چاکلیٹ استعمال کرتے تھے، اور جن ممالک کا مقالے میں ذکر کیا گیا وہاں فی کس چاکلیٹ کے استعمال کی شرح فوائد کا سبب بن رہی تھی یا نقصان کا۔

    اس مقالے کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اس کے معتبر ہونے کے بارے میں طے کیا جاسکے گا۔

    لیکن چاکلیٹ میں ایسے کیا اجزا شامل ہیں؟

    چاکلیٹ کا جزو خاص یعنی کوکوا اپنے اندر بے شمار فائدہ مند اجزا رکھتا ہے۔ اس میں فائبر، آئرن، میگنیشیئم، کاپر اور پوٹاشیئم وغیرہ شامل ہیں اور یہ تمام اجزا دماغی صحت کے لیے بہترین ہیں۔

    ایک امریکی طبی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو باقاعدگی سے چاکلیٹ کھاتے ہیں ان کی یادداشت ان افراد سے بہتر ہوتی ہے جو چاکلیٹ نہیں کھاتے۔

    چاکلیٹ کھانے والے افراد دماغی طور پر بھی زیادہ حاضر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق چاکلیٹ دماغ میں خون کی روانی بہتر کرتی ہے جس سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، یوں ہمارے دماغ کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔

    چاکلیٹ دماغ میں سیروٹونین نامی مادہ پیدا کرتی ہے جس سے ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے نجات ملتی ہے اور موڈ میں فوراً ہی خوشگوار تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ یہ ہمارے جسم کی بے چینی اور ذہنی تناؤ میں 70 فیصد تک کمی کرسکتی ہے۔

  • "منافق اور بد دیانت” ادیب جسے نوبیل انعام دیا گیا

    "منافق اور بد دیانت” ادیب جسے نوبیل انعام دیا گیا

    ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لائق، اپنی تخلیقات پر داد اور ستائش کے حق دار تصور کیے جانے والے اور نوبل انعام یافتہ جرمن ادیب گُنٹر گراس کو 2012 میں‌ اپنی ایک نظم کی وجہ سے تضحیک آمیز رویّے اور اپنی تخلیقات پر کڑی تنقید سہنا پڑی تھی۔ اس نظم کا عنوان تھا ’جو کہا جانا چاہیے۔‘

    جرمنی کے اس عظیم ادیب اور نوبیل انعام یافتہ مصنف نے دراصل اپنی نظم میں‌ اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا تھا اور جیسے ہی ان کی یہ تخلیق منظرِ عام پر آئی، گراس کی کردار کُشی کے ساتھ ان کی اس نظم کی ادبی ساخت پر بھی کڑی تنقید شروع ہو گئی۔ انھوں‌ نے سامی دشمنی اور تعصب کے پرچارک کا الزامات کا سامنا کیا، لیکن وہ اس سے قبل جرمنی میں‌ بھی اپنے ایک اعتراف کی وجہ سے جہاں مطعون کیے گئے، وہیں‌ ان کی اخلاقی دیانت کو سراہا بھی گیا اور انھیں‌ بہادر سمجھا گیا۔

    یہ 2006 کی بات ہے جس اُن کی آپ بیتی سامنے آئی اور جرمنی میں ان سے متعلق ایک بحث چھڑ گئی۔

    ’پیلنگ دی اونین‘ نامی کتاب میں اس ادیب نے اعتراف کیا کہ وہ ہٹلر کے دور میں‌ ایک نازی یونٹ میں شامل رہے۔ اس پر ایک حلقے نے انھیں بد دیانت اور ناقابلِ بھروسا کہا۔ ناقدین نے انھیں منافق کہہ کر ان کی اخلاقی حالت اور کردار پر سوال اٹھائے، لیکن انہی میں‌ وہ آوازیں‌ بھی تھیں‌ جنھوں‌ نے اس ادیب کی اخلاقی جرات کو سلام پیش کیا۔

    گنٹر گراس کی زندگی اور تخلیقی سفر پر ایک نظر ڈالیں تو کہا جاسکتا ہے کہ انھوں‌ نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔ 1961 میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963 میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ انھوں نے ہٹلر کے زمانے کی وہ روداد تحریر کی جس سے جرمن قوم کا احساسِ جرم جھلکتا ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات کو بہت پسند کیا گیا۔

    ان کے نازی سپاہی رہنے اور اسرائیل پر ان کی نظم پر شور اور تنقید سے ہٹ کر انھیں آج بھی باکمال تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ وہ ایک صرف ادیب ہی نہیں گیت نگار اور مجسمہ ساز بھی تھے۔ گراس وہ ادیب تھے جو اپنی کتب کے سرورق خود بناتے تھے۔

    گراس کو ایک بھرپور اور توانا لکھاری کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • الفریڈ نوبل کی وصیت اور دنیا کا سب سے معتبر انعام

    الفریڈ نوبل کی وصیت اور دنیا کا سب سے معتبر انعام

    نوبل انعام کا حق دار اسے سمجھا جاتا ہے جس نے اپنے شعبے میں قابلِ ذکر اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو اور کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔

    کسی کی کارکردگی یا کام کے معیار کو جانچنے یا پرکھنے اور اس کی بنیاد پر نوبل انعام سونپے جانے اور انعام کی رقم دینے کے لیے اصول اور ضابطے طے کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے باقاعدہ بورڈ اور دیگر اراکین موجود ہیں جو یہ سارے فیصلے اور انتظامات کرتے ہیں۔ نوبل، دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ مانا جاتا ہے جس کا اہتمام سویڈش اکیڈمی کرتی ہے۔

    نوبل انعام کی بنیاد کس نے رکھی؟
    نوبل انعام کا بانی الفریڈ نوبل تھا جس کی زندگی کا بیش تر حصہ روس میں گزرا۔ تاہم اس کا اصل وطن سویڈن تھا۔ الفریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کی دیگر ایجادات بھی دنیائے سائنس میں قابل ذکر ہیں۔ کہتے ہیں‌ الفریڈ نوبل کے انتقال کے وقت ڈائنامائٹ اور اس کے اثاثوں سے حاصل ہونے والی رقم 90 لاکھ ڈالر تھی۔

    ڈائنامائٹ کے اس موجد کی وصیت کیا تھی؟
    الفریڈ نوبل نے موت سے قبل تحریری وصیت میں اپنی دولت ہر سال ان افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دینے کو کہا جنھوں نے طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔

    الفریڈ کی وصیت پر کس طرح عمل کیا گیا؟
    موت کے بعد الفریڈ کی وصیت کے مطابق ایک فنڈ قائم کیا گیا جس کا منافع مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرنے والوں میں تقسیم کیا جانے لگا۔

    پہلی تقریب کب منعقد ہوئی؟
    الفریڈ نوبل کو دنیا سے گئے پانچ سال بیت چکے تھے جب پہلی بار اس کی وصیت کے مطابق نوبل انعام متعلقہ شعبوں کی قابل شخصیات میں تقسیم کیا گیا۔ 10 دسمبر 1901 کو پہلی بار نوبل پرائز کی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو منعقد کی جاتی ہے۔

    تقریب کے دوران نوبل انعام کا حق دار کیا وصول کرتا ہے؟
    اس معتبر ایوارڈ کی تقریب کے دوران دو یادگاری نشان اور انعامی رقم دی جاتی ہے۔
    ہر انعام یافتہ ایک نوبل ڈپلوما حاصل کرتا ہے جو دراصل منفرد فن پارہ ہوتا ہے۔
    اسی طرح نوبل کے حق دار کو خصوصی میڈل سے نوازا جاتا ہے، جو مختلف ڈیزائن کے ہوتے ہیں۔
    انتظامیہ کی جانب سے اس موقع پر انعامی رقم بھی دی جاتی ہے۔

  • فزکس کا نوبل انعام 3 سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان

    فزکس کا نوبل انعام 3 سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان

    فزکس کا نوبل انعام برائے 2019 تین سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دے دیا گیا، نوبل انعام پانے والے 2 سائنس دانوں کا تعلق سوئٹزرلینڈ جب کہ ایک کا کینیڈا سے ہے۔

    طبیعیات کے شعبے میں سال 2019 کا نوبل انعام تین سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر جیت لیا ہے، ان میں مائیکل میئر، دیدیئر کوئلو اور کینیڈین نژاد امریکی سائنس دان جیمز پیبلز شامل ہیں۔

    کینیڈین سائنس دان کو کائنات کے ارتقا کے سلسلے میں تحقیق پر نوبل انعام دیا گیا، جب کہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے طبیعیات دانوں نے ہمارے سولر سسٹم سے باہر ایک سیارے پر تحقیق پر نوبل انعام جیتا۔

    یہ نوبل انعام دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلا آدھا حصہ جیمز پیبلز کو دیا گیا ہے، جب کہ باقی آدھا حصہ مائیکل میئر اور دیدیئر کوئلو میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی آدھی انعامی رقم جیمز کو باقی آدھی دیگر دو سائنس دانوں میں تقسیم ہوگی۔

    رواں سال کا یہ انعام دراصل کائنات کی ساخت اور تاریخ کی نئی تفہیم کے نام کیا گیا ہے، جس میں ایک ایسے سیارے کی دریافت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے اور جو شمسی جیسے ستارے کے گرد گھوم رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان دریافتوں نے دنیا سے متعلق ہمارے تصورات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا ہے۔

  • ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    سویڈن: ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جسے سویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، نے ادب کے ایک پروفیسر کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے بعد ادب کا نوبیل انعام معطل کر دیا تھا، جس کے بعد آخر کار کمیٹی نے نیا سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے۔

    گوٹن برگ یونی ورسٹی میں ادبی نظریات کے پروفیسر ماٹس مالم کو نوبیل انعام برائے ادب کے حقدار کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کے سربراہ بنا دیا گیا ہے۔

    54 سالہ پروفیسر مالم نے اپنی نام‍زدگی پر مسرت کا اظہار کیا، انھیں چار ماہ قبل سویڈش اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنسی ہراسگی‘ ادب کا نوبل انعام رواں برس نہیں دیا جائے گا

    اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس سال 2019 کے ادب کے نوبیل انعام کے علاوہ 2018 کے لیے اس انعام کے حقدار کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 2017 میں اس کمیٹی کو در پیش ایک بڑے جنسی اسکینڈل کے بعد سے ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

    ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔

    سارا ڈینئس کے استعفے کے بعد کمیٹی کی 6 مزید خواتین بھی مستعفی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے کمیٹی کی 18 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں خالی ہو گئی تھیں۔

  • نوبل انعام سے 13 بار محروم رہ جانے والا ڈاکٹر

    نوبل انعام سے 13 بار محروم رہ جانے والا ڈاکٹر

    اگر آپ کی پرواز تخیل بہت بلند ہے اور آپ نوبل انعام پانے کی خواہش رکھتے ہوں گے تو یقیناً آپ ملالہ یوسفزئی کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتے ہوں گے جس نے نہایت کم عمری میں نوبل انعام حاصل کر کے پاکستان اور نوبل انعام دونوں کی تاریخ میں اپنا نام درج کروالیا۔

    لیکن شاید آپ اس ماہر طب کو نہیں جانتے جسے 13 بار نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن ہر بار اس کے حصے کا انعام کسی دوسرے شخص کو ملتا رہا۔

    مزید پڑھیں: امن کا نوبل انعام ملالہ کے نام

    وہ ڈاکٹر کوئی اور نہیں بلکہ یورپی ملک آسٹریا کا نیورولوجسٹ اور معروف مصنف سگمنڈ فرائیڈ ہے۔

    اس عظیم ماہر طب نے نفسیاتی تجزیے یعنی سائیکو اینالسس کی تکنیک متعارف کروائی تھی جس کے تحت ڈاکٹر اور مریض آپس میں گفتگو کرتے اور باتوں باتوں میں مریض اپنی جسمانی و دماغی کیفیات سے آگاہ کرتا جاتا۔

    سگمنڈ فرائیڈ کی اس دریافت شدہ تحقیق پر آگے چل کر مزید کام کیا گیا۔

    مادام تساؤ میوزیم میں سگمنڈ فرائیڈ کا مجسمہ

    فادر آف سائیکو اینالسس کہلائے جانے والے فرائیڈ کے کام کو ایک طرف تو بے حد سراہا گیا تاہم دوسری جانب ان پر بے تحاشہ تنقید بھی کی گئی۔

    انہیں پہلی بار سنہ 1915 میں طب کے شعبے میں نوبل انعام کے لیے ایک امریکی ڈاکٹر کی جانب سے نامزد کیا گیا، اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ ان کی موت سے ایک سال قبل 1938 میں جب انہیں ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تو یہ ان کی نوبل انعام کے لیے 13 ویں نامزدگی تھی۔

    سگمنڈ فرائیڈ کو 12 دفعہ طب جبکہ 1 دفعہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔

    انہیں متعدد ماہرین طب اور سائنسدانوں کی جانب سے انعام کے لیے حمایت بھی حاصل رہی مگر سب کچھ بے فائدہ رہا اور وہ ایک بار بھی نوبل انعام حاصل نہ کرسکے۔

    بدقسمتی سے اس وقت ان کے نظریے سائیکو اینالسس کو ایک مفروضہ سمجھا گیا۔

    اس وقت کے ماہرین طب کا کہنا تھا کہ عصبیات کا کوئی ماہر کیسے اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کے مریض کے ساتھ بچپن میں جنسی زیادتی ہوئی اور وہ اس کے لاشعور میں دبے اس خوف کا کیسے علاج کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نفسیاتی مریضوں کے لیے ڈاکٹرز کی سنگین حد تک کمی

    جب سگمنڈ فرائیڈ 70 سال کے تھے تب اس وقت انہیں جبڑے کا کینسر لاحق ہوگیا تھا۔

    اس وقت فرانسیسی سپہ سالار نپولین پونا پارٹ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف مصنفہ میری بونا پارٹ، جو نہ صرف فرائیڈ کی قریبی دوست تھیں بلکہ ان کی لکھی گئی کتابوں کو ترجمہ بھی کرتی رہیں، نے کوشش کی کہ فرائیڈ کو طب کے شعبے میں نہ سہی، ادب کے شعبے میں ہی نوبل انعام مل جائے۔

    میری بونا پارٹ

    تاہم اس بار بھی فرائیڈ کو ناکامی کا منہ دیکھا پڑا۔ اس سال ایک اور ادب کے نوبل انعام یافتہ مصنف رومن رولینڈ نے نوبل کمیٹی کو فرائیڈ کی سفارش میں خط لکھا اور کہا، ’گو کہ فرائیڈ کا کام طب کے شعبے میں زیادہ ہے تاہم اگر ان کی تصنیفات کو دیکھا جائے تو وہ بھی کسی شاہکار سے کم نہیں‘۔

    تاہم سوئیڈش نوبل اکیڈمی نے ایک بار پھر ان کی نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوبل انعام صرف ان کو دیا جاتا ہے جن کے نظریات اور ایجادات حقائق پر مبنی ہوں۔ ایک مفروضہ کی بنیاد پر کسی کو نوبل انعام نہیں دیا جاسکتا۔

    اس وقت کے عظیم سائنسدان آئن اسٹائن نے بھی فرائیڈ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی پر اختلاف کا اظہار کیا تھا۔ ان کا مؤقف بھی کم و بیش وہی تھا جو سوئیڈش اکیڈمی کا تھا۔ آئن اسٹائن کو سنہ 1921 میں طبیعات کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    آئن اسٹائن

    اس کے 5 برس بعد آئن اسٹائن اور سگمنڈ فرائیڈ نے ایک مشترکہ منصوبے پر کام شروع کیا جس کے تحت وہ ایک دوسرے کو خط لکھتے اور ان خطوط میں امن، تشدد اور انسانی فطرت کے بارت میں بحث و اظہار خیال کرتے۔ ان خطوں کی سیریز کا نام ’وائے وار ۔ جنگ ہی کیوں‘ رکھا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: آئن اسٹائن کے نظریات پر مبنی ٹی وی سیریز

    بعد ازاں آئن اسٹائن نے بھی فرائیڈ کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا، ’جہاں تک ادب اور لکھنے کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں فرائیڈ واقعی شاندار تھا اور اس شعبے میں، میں اس کی کامیابیوں کا اعتراف کرتا ہوں‘۔

  • امن کا نوبل انعام جنسی تشدد کے خلاف برسر پیکار نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کے نام

    امن کا نوبل انعام جنسی تشدد کے خلاف برسر پیکار نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کے نام

    نوبل انعام 2018 برائے امن کا اعلان کردیا گیا ہے جو رواں برس جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والے افراد نادیہ مراد اور ڈاکٹر ڈینس مک وگی کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔

    سنہ 2018 کے کیمیا، طبیعات اور طب کے انعامات کے بعد امن کے نوبل انعام کا بھی اعلان کردیا گیا۔

    رواں برس یہ انعام عراق سے تعلق رکھنے والی نادیہ مراد اور افریقی ملک کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مک وگی کو دیا جارہا ہے۔ دونوں افراد دنیا بھر میں جنگی علاقوں میں خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

    نادیہ مراد

    نادیہ مراد طحہٰ کا تعلق عراق کے اقلیتی یزیدی قبیلے سے ہے۔ خوفناکی و بربریت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والی دہشت گرد اور سفاک تنظیم داعش نے سنہ 2014 میں عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقے پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔

    داعش کے جنگجو ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور انہیں شدید جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    نادیہ انہی میں سے ایک تھی جو خوش قسمتی سے داعش کی قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی، اور اب داعش کے خلاف نہایت ہمت اور حوصلے سے ڈٹ کر کھڑی ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب داعش نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم مسلمان ہوجائیں۔ جب ہم نے انکار کردیا تو انہوں نے عورتوں اور بچوں کو مردوں سے علیحدہ کردیا‘۔

    نادیہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد داعش نے تمام مردوں کو ذبح کیا۔ وہ سب اپنے باپ، بھائی، بیٹوں اور شوہروں کو ذبح ہوتے دیکھتی رہیں اور چیختی رہیں۔ اس کے بعد داعش کے جنگجوؤں نے عورتوں کو اپنے اپنے لیے منتخب کرلیا۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھ سے ایک خوفناک اور پر ہیبت شخص نے شادی کرنے کو کہا۔ میں نے انکار کیا تو اس نے زبردستی مجھ سے شادی کی‘۔ بعد ازاں نادیہ کو کئی جنگجوؤں نے بے شمار روز تک بدترین جسمانی تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    اقوام متحدہ میں نادیہ نے اپنے دردناک دنوں کی داستان سناتے ہوئے بتایا، ’وہاں قید لڑکیوں کے لیے قانون تھا کہ جس لڑکی کے پاس سے موبائل فون برآمد ہوگا اسے 5 دفعہ زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ کئی لڑکیوں اور عورتوں نے اس ذلت اور اذیت سے بچنے کے لیے اپنی شہ رگ کاٹ کر خودکشی کرلی۔ جب جنگجو ان لڑکیوں کی لاشیں دریافت کرتے، تو وہ بقیہ لڑکیوں کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے لاشوں تک کی بے حرمتی کیا کرتے‘۔

    نادیہ بتاتی ہے کہ اس نے ایک دو بار داعش کی قید سے فرار کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی اور داعش کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند کردیا تاکہ وہ دوبار بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔

    تاہم اپنی فرار کی ایک اور کوشش میں وہ کامیاب ہوگئی اور داعش کے چنگل سے نکل بھاگی۔

    وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    نادیہ اپنی واپسی کے بعد سے مستقل مطالبہ کر رہی ہیں کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے، داعش کی قید میں موجود خواتین کو آزاد کروایا جائے اور داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے جس میں انہیں شکست ہو، اور اس کے بعد داعشی جنگجؤں کو جنگی مجرم قرار دے انہیں عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

    سنہ 2016 میں نادیہ کو اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا گیا جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنے پر کام کریں گی۔

    نادیہ کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے بھی نوازا گیا۔

    ڈاکٹر ڈینس مک وگی

    کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس مک وگی نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ کانگو میں جنسی تشدد کا شکار خواتین کے لیے کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔

    وہ ڈاکٹر بھی ہیں اور انہوں نے کئی افریقی ممالک میں اس اندوہناک صدمے سے گزرنے والی خواتین کا علاج بھی کیا ہے۔

    ڈاکٹر ڈینس مک وگی پنزی اسپتال اور پنزی فاؤنڈیشن کے بھی بانی ہیں۔ سنہ 2014 میں انہیں بھی سخارووف پرائز سے نوازا جا چکا ہے۔