Tag: نوبیل انعام

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • فزکس کا نوبل انعام 3 سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان

    فزکس کا نوبل انعام 3 سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دینے کا اعلان

    فزکس کا نوبل انعام برائے 2019 تین سائنس دانوں کو مشترکہ طور پر دے دیا گیا، نوبل انعام پانے والے 2 سائنس دانوں کا تعلق سوئٹزرلینڈ جب کہ ایک کا کینیڈا سے ہے۔

    طبیعیات کے شعبے میں سال 2019 کا نوبل انعام تین سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر جیت لیا ہے، ان میں مائیکل میئر، دیدیئر کوئلو اور کینیڈین نژاد امریکی سائنس دان جیمز پیبلز شامل ہیں۔

    کینیڈین سائنس دان کو کائنات کے ارتقا کے سلسلے میں تحقیق پر نوبل انعام دیا گیا، جب کہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے طبیعیات دانوں نے ہمارے سولر سسٹم سے باہر ایک سیارے پر تحقیق پر نوبل انعام جیتا۔

    یہ نوبل انعام دو حصوں میں تقسیم ہے، پہلا آدھا حصہ جیمز پیبلز کو دیا گیا ہے، جب کہ باقی آدھا حصہ مائیکل میئر اور دیدیئر کوئلو میں تقسیم کیا گیا ہے، یعنی آدھی انعامی رقم جیمز کو باقی آدھی دیگر دو سائنس دانوں میں تقسیم ہوگی۔

    رواں سال کا یہ انعام دراصل کائنات کی ساخت اور تاریخ کی نئی تفہیم کے نام کیا گیا ہے، جس میں ایک ایسے سیارے کی دریافت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے اور جو شمسی جیسے ستارے کے گرد گھوم رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان دریافتوں نے دنیا سے متعلق ہمارے تصورات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا ہے۔

  • ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    ادب کے نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سویڈش اکیڈمی کا نیا سربراہ مقرر

    سویڈن: ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی جسے سویڈش اکیڈمی کہا جاتا ہے، نے ادب کے ایک پروفیسر کو اپنا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی نوبیل کمیٹی نے جنسی ہراسگی اسکینڈل کے بعد ادب کا نوبیل انعام معطل کر دیا تھا، جس کے بعد آخر کار کمیٹی نے نیا سربراہ کا انتخاب کر لیا ہے۔

    گوٹن برگ یونی ورسٹی میں ادبی نظریات کے پروفیسر ماٹس مالم کو نوبیل انعام برائے ادب کے حقدار کا انتخاب کرنے والی سویڈش اکیڈمی کے سربراہ بنا دیا گیا ہے۔

    54 سالہ پروفیسر مالم نے اپنی نام‍زدگی پر مسرت کا اظہار کیا، انھیں چار ماہ قبل سویڈش اکیڈمی میں شامل کیا گیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنسی ہراسگی‘ ادب کا نوبل انعام رواں برس نہیں دیا جائے گا

    اکیڈمی نے کہا ہے کہ اس سال 2019 کے ادب کے نوبیل انعام کے علاوہ 2018 کے لیے اس انعام کے حقدار کا اعلان بھی کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ 2017 میں اس کمیٹی کو در پیش ایک بڑے جنسی اسکینڈل کے بعد سے ہر سال ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کا سلسلہ ابھی تک معطل ہے۔

    ادب کے شعبے میں نوبیل انعام دینے والی کمیٹی کی خاتون ممبر کے شوہر اور کمیٹی سے وابستہ فوٹو گرافر جین ارنالٹ پر پہلی خاتون سیکریٹری سارا ڈینئس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا۔

    سارا ڈینئس کے استعفے کے بعد کمیٹی کی 6 مزید خواتین بھی مستعفی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے کمیٹی کی 18 سیٹوں میں سے 7 سیٹیں خالی ہو گئی تھیں۔

  • امریکی صدر ٹرمپ نوبیل انعام حاصل کرنے کے خواہش مند

    امریکی صدر ٹرمپ نوبیل انعام حاصل کرنے کے خواہش مند

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اقدام کیے ہیں جس کے سبب انہیں نوبیل انعام دیا جانا چاہئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی کوریا کے معاملے میں موثر سفارت کاری کرنے پر جاپانی وزیراعظم نے انہیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جاپان کے اوپر سے شمالی کوریا کے میزائل گزرتے تھے لیکن اب ان میزائل کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔

    امریکی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ سابق امریکی صدر بارک اوباما سے زیادہ نوبیل انعام کے حق دار ہیں لیکن ممکن ہے کہ انہیں نوبیل انعام سے نہیں نوازا جائے گا۔

    اوباما پر تنقید کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے نوبیل انعام بارک اوباما کو دے دیا جنہیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ انعام کیوں دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کو امن اور انصاف کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

    ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل فاؤنڈیشن کی پانچ رکنی کمیٹی نے نوبل انعام برائے امن بارک اوباما کو دیا تھا۔

  • نوبیل امن انعام 2018: عراق کی نادیہ مراد اور کانگو کے ڈاکٹر ڈینس فاتح قرار

    نوبیل امن انعام 2018: عراق کی نادیہ مراد اور کانگو کے ڈاکٹر ڈینس فاتح قرار

    اوسلو: نوبیل امن انعام برائے 2018 عراق کی یزیدی خاتون نادیہ مراد اور کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مکویگی نے مشترکہ طور پر اپنے نام کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق 2018 کا نوبیل امن انعام عراق کی نادیہ مراد اور کانگو کے ڈاکٹر ڈینس نے مشترکہ طور پر جیت لیا، نوبیل امن انعام کی تقریب ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں منعقد ہوئی۔

    [bs-quote quote=”نادیہ مراد کو داعش نے پکڑ کر قید کیا تھا، انھوں نے داعش کی غلامی سے فرار ہونے کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پروقار تقریب میں عراقی خاتون نادیہ مراد اور کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس مکویگی کو رواں برس کا نوبیل امن ایوارڈ دیا گیا۔

    دونوں نوبیل ونرز کو 10 لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم بھی دی گئی جو ان میں مساوی طور پر تقسیم ہوگی، نادیہ اور ڈینس کو تقریب میں گولڈ میڈل اور ڈپلومہ بھی دیا گیا۔

    دونوں ایوارڈ ونرز کے درمیان جو چیز مشترک تھی وہ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد میں سرگرمی سے شریک ہونا تھا، نادیہ مراد کو داعش نے پکڑ کر قید کیا تھا، انھوں نے داعش کی غلامی سے فرار ہونے کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔


    یہ بھی پڑھیں:  نصف صدی کا انتظار ختم ہوا، ایک خاتون نے فزکس کا نوبیل انعام اپنے نام کر لیا


    گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ڈینس مکویگی شورش زدہ ملک جمہوریہ کانگو میں تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کی مدد کے سلسلے میں سرگرم رہے جس پر انھیں نوبیل امن انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ 14 سال سے مشرقی کانگو میں ایک اسپتال چلا رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ 10 اکتوبر 2014 کو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی نے مہلک طالبان حملے سے جاں بر ہونے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خدمات انجام دینے پر نوبیل امن انعام حاصل کیا تھا۔

    دو ماہ قبل فزکس کے شعبے میں نصف صدی بعد کسی خاتون نے نوبیل انعام حاصل کیا، ڈونا سٹرکلینڈ نوبیل کی تاریخ میں فقط تیسری خاتون ہیں، جس نے فزکس کے شعبے میں یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

  • نصف صدی کا انتظار ختم ہوا، ایک خاتون نے فزکس کا نوبیل انعام اپنے نام کر لیا

    نصف صدی کا انتظار ختم ہوا، ایک خاتون نے فزکس کا نوبیل انعام اپنے نام کر لیا

    کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ڈونا سٹرکلینڈ نے فزکس کے شعبے میں نوبیل انعام اپنے نام کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق 2018 کا نوبیل انعام  اپنے نام کرنے والے ڈونا سٹرکلینڈ نوبیل کی تاریخ میں فقط تیسری خاتون ہیں، جس نے فزکس کے شعبے میں یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    پہلی بار یہ اہم ترین اعزاز 1903 میں میری کری کے حصے میں آیا تھا، دوسری باری 1963 میں ماریا جیوپورٹ میئر کو  یہ ایوارڈ دیا گیا، مگر پھر  ایک طویل عرصے خاموشی چھائی رہی۔

    سالانہ بنیادوں پر ہونے والے اس معتبر ایوارڈ پر اگلے 55 برس مردوں کی برتری رہی، آخر کار 2018 میں ڈونا سٹرکلینڈ نے ایوارڈ اپنے نام کیا۔ انھیں یہ انعام لیزر فزکس کے شعبے میں دیا گیا۔

    یاد رہے کہ اس برس ڈاکٹر سٹرکلینڈ کے ساتھ امریکا کے آرتھر آشکن اور فرانس کے جیرارڈ موروو کو بھی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ 

    واضح رہے کہ فزکس کو مردوں کا شعبہ تصویر کیا جاتا ہے اور نوبیل کی دیگر کیٹیگریز کے مقابلے میں خواتین انعام یافتگان کی شرح یہاں سب سے کم ہے۔


    مزید پڑھیں: نوبیل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    اس انعام کی مالیت 998618 ڈالر ہے اور یہ ادب، امن، حیاتیات سمیت مختلف کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے۔ 

    ڈاکٹر سٹرکلینڈ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زبردست واقعہ ہے، البتہ انسان ہمیشہ یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ واقعی سچ ہے۔

    واضح رہے کہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری وہ پہلی خاتون تھیں، جنھوں نے نوبیل انعام حاصل کیا۔ اس عظیم خاتون سائنس داں نے ریڈیم دریافت کیا تھا۔

  • نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک روشن دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روشن دن کی روشنی آگے چل کر تاریکی کا شکار کئی لڑکیوں کی زندگی کو منور کردے گی۔ چند نقاب پوش، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے افراد نے لڑکیوں کی ایک اسکول وین کو روکا، اور اندر جھانک کر اپنے مطلوبہ ہدف کا پوچھا۔ ہدف نے خود اپنا ’تعارف‘ کروایا، جس کے بعد بندوق سے ایک گولی چلی اور ’ہدف‘ کے چہرے اور کندھے کو خون کر گئی۔

    نقاب پوشوں کو امید تھی کہ ان کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ اندھیرے میں چمکنے والی اس ننھی کرن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس اور روشنی کی کرن خون کے رنگ سے فزوں تر ہو کر پوری دنیا کو منور کرتی چلی گئی۔

    وہ نقاب پوش ’طالبان‘ تھے، اور ان کا ’ہدف‘ وہ لڑکی تھی گولی کھا کر جس کا عزم اور پختہ ہوگیا، اسے ہم اور آپ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی کم ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں۔

    سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ نے اس وقت بھی اسکول جانا نہیں چھوڑا جب طالبان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہم خوفزدہ ضرور تھے، لیکن ہمارا عزم اتنا مضبوط تھا کہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘۔

    4

    وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خوفناکی اور اس کے بعد خود پر گزرنے والی اذیت کو بھولی نہیں ہے۔ ’چنانچہ وہ کہتی ہے، ’ہمیں اپنی بلند آواز کی اہمیت صرف اسی وقت پتہ چلتی ہے، جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے‘۔

    یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ وہ سوات کی ان چند لڑکیوں میں شامل تھی جو اسکول جارہی تھیں اور انہیں مستقل طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

    اس نے ایک بار بتایا، ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ اگر طالبان سچ مچ مجھے مارنے آگئے تو میں کیا کروں گی؟ میں نے سوچا کہ میں اپنا جوتا اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں گی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر مجھ میں اور اس میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے لیے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن مسلح ہو کر نہیں بلکہ تعلیم کو ہتھیار بنا کر‘۔

    3

    میں نےسوچا کہ میں اپنے ’قاتل‘ کوبتاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہےاور یہ تمہارےبچوں کوبھی حاصل کرنی چاہیئے۔ اب تم جوچاہومیرےساتھ کرو۔

    اس سب کے باوجود اسے اپنے حملہ آوروں سے کوئی بغض نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسی حملے نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا اور وہ لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ وہ کہتی ہے، ’میں طالبان سے بدلہ نہیں لینا چاہتی۔ میں ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہوں‘۔

    ملالہ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے تعلیم کا پھیلاؤ۔ افریقہ کے پسماندہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی وہ یہی پیغام لے گئی۔ ’ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘۔

    وہ مانتی ہے کہ قلم اور کتاب دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت آپ ہر جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

    5

    وہ کہتی ہے، ’میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے ایسے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے طالبان سے گولی کھائی‘، میں چاہتی ہوں لوگ مجھے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی‘۔ یہی میرا مقصد ہے جس کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کرنا چاہتی ہوں‘۔

    پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ملالہ کو متنازعہ بنا چکا ہے۔ اسے غیر ملکی ایجنٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرار دیا چکا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے واقف ہے اور اس کی وجہ بھی جانتی ہے، ’پاکستان میں لوگ عورتوں کی آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ خود سر ہوجائیں گی۔ اپنے والد، بھائی یا شوہر کی بات نہیں مانیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لیے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے لیے خود فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘۔

    مرد سمجھتے ہیں کہ پیسہ کمانااور حکم چلانا طاقت ہے۔ اصل طاقت خواتین کےپاس ہے جو سارا دن اہل خانہ کا خیال رکھتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    بیرون ملک رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کے حالات و مسائل سے واقف ہے۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہے، ’پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد تعلیم کی کمی ہے۔ لوگوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور اسی وجہ سے کرپٹ حکمران دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں‘۔

    طالبان کے حملہ میں شدید زخمی ہونے کے باعث اس کا چہرہ خراب ہوگیا ہے۔ اب سوات کی گل مکئی کا چہرہ پتھرایا ہوا سا رہتا ہے اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ ’میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہی، میں ملالہ ہی رہوں گی۔ میں اس سے پہلے اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے بال کیسے لگ رہے ہیں لیکن اب مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب آپ موت کا سامنا کرتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے‘۔

    اہم یہ نہیں کہ میں مسکرا نہیں سکتی یا میں ٹھیک سے آنکھ نہیں جھپک سکتی، اہم یہ ہے کہ خدا نے میری زندگی مجھے واپس لوٹائی۔

    7

    وہ بتاتی ہے، ’میرے والد نے اپنے دفتر کے باہر ابراہم لنکن کے اس خط کی نقل فریم کروا کر آویزاں کی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی استاد کو لکھا تھا۔ یہ خط پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں ابراہم لنکن کہتا ہے، ’میرے بیٹے کو کتابیں ضرور پڑھاؤ، لیکن اسے کچھ وقت دو تاکہ یہ بلند آسمانوں میں پرندوں کی پرواز پر غور کرسکے، سورج کی روشنی میں کھلتے پھولوں پر دھیان دے، اور سبزے کی سحر انگیزی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسے سکھاؤ کہ ناکام ہوجانا زیادہ معتبر ہے بجائے اس کے کہ کسی کو دھوکہ دیا جائے‘۔

    اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملالہ بتاتی ہے، ’میں اپنے بچپن میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے 2 انچ مزید لمبا کردے۔ اس نے میری دعا یوں قبول کرلی کہ مجھے اتنا بلند کردیا کہ میں خود بھی اپنے آپ تک نہیں پہنچ سکتی‘۔

    وہ بتاتی ہے، ’جب ہم سوات میں تھے تو میری والدہ مجھے کہتی تھیں، ’اپنا چہرہ ٹھیک سے چھپاؤ، لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی، ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں بھی تو انہیں دیکھ رہی ہوں‘۔

    2

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کا مشن جاری ہے۔ رواں برس ملالہ ڈے پر اس کا پیغام ’یس آل گرلز‘ ہے۔ اپنے ادارے کے ساتھ مل کر وہ پوری دنیا کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ لڑکیوں کی 12 سال کی مفت تعلیم ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہے، ’ہزاروں کتابیں پڑھو اور خود کو علم کی دولت سے مالا مال کرلو۔ قلم اور کتاب ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے شدت پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے‘۔