Tag: نورجہاں

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • ڈرامہ سیریل ’نورجہاں‘ کی کہانی میں کیا چیز دلچسپ ہے؟

    ڈرامہ سیریل ’نورجہاں‘ کی کہانی میں کیا چیز دلچسپ ہے؟

    اے آر وائی ڈیجیٹل کی نئی ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ کی آج پہلی قسط آن ایئر کردی گئی، ڈرامے کی کہانی ویسے تو ساس اور بہو کے گرد گھومتی ہے، تاہم اس کے دیگر موضوعات ڈرامے کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

    مذکورہ ڈرامے کی کاسٹ میں شامل فنکاروں نے گزشتہ روز اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شرکت کی، ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض مصدق ملک نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی زنجابیل عاصم نے لکھی ہے۔

    مہمانوں میں اداکارہ کبریٰ خان، علی رحمان، حاجرہ یامین، زویا ناصر اور علی رضا موجود تھے اس موقع پر انہوں نے ڈرامے کی کہانی اور اس میں عوامی دلچسپی کی وجوہات کو بیان کیا کہ لوگ اس ڈرامے کو پسندیدگی کی نگاہ سے کیوں دیکھیں گے؟

    ناظرین کو بوریت کا احساس تک نہیں ہوگا : علی رحمان 

    ڈرامے کے ایک اہم کردار علی رحمان خان کا کہنا تھا کہ ’نورجہاں‘ دیکھنے والوں کو بوریت کا احساس نہیں ہوگا کیونکہ اس کی کہانی میں اس تیزی سے تبدیلیاں ہوں گی کہ ناظرین کو ٹوئسٹ کے بعد ٹوئسٹ دیکھنے کو ملے گا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ صرف ساس بہو کی کہانی نہیں ہے، گھر کے دیگر افراد اور بھی ہیں ان کے بھی کچھ علیحدہ ہی معاملات ہیں۔

    گھروں میں عورت راج کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ کبریٰ خان 

    اس حوالے سے اداکارہ کبریٰ خان نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عموماً گھروں میں عورت راج ہوتا ہے اور ڈرامے میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ عورت راج کیسے لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ڈرامے کے ہیرو علی رضا نے بتایا کہ اس ڈرامے میں صرف لڑکیوں کے نہیں لڑکوں کے بھی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے کہ زندگی میں ان کے ساتھ کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں اور وہ ان سے کیسے نبرد آذما ہوتے ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ کے دیگر فنکاروں میں سینئر اداکارہ صبا حمید، نور حسن و دیگر بھی شامل ہیں۔

  • چڑیا گھر میں میڈیا اور دیگر غیر تکنیکی عملے کا نورجہاں کے جنگلے میں داخلہ بند

    چڑیا گھر میں میڈیا اور دیگر غیر تکنیکی عملے کا نورجہاں کے جنگلے میں داخلہ بند

    کراچی: چڑیا گھر کے ڈائریکٹر  نے نان ٹیکنیکل اسٹاف اور میڈیا کا نورجہاں کے جنگلے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق زو دائریکٹر نے بتایا کہ چڑیا گھر میں میڈیا اور دیگر غیر تکنیکی عملے کا نور جہاں کے جنگلے میں داخلہ بند کردیا گیا۔

    ڈائریکتر کا کہنا تھا کہ فور پاز ڈاکٹرز کی ہدایت پر ہتھنی کو آرام دینے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، میڈیا کو مخصوص فاصلے پر رہ کر کوریج کی اجازت ہوگی۔

    چڑیا گھر کے ڈائریکتر کا کہنا ہے کہ فورپاز کے مطابق نان ٹیکنیکل اسٹاف کی وجہ سے رش لگ جاتا ہے، رش سے کام کرنے میں دشواری اور ہتھنی بھی پریشان ہوتی ہے۔

     

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار۔۔

    اپنے سریلے گیتوں سے پاکستان فلم انڈسٹری کو چار چاند لگانے والی نسیم بیگم کی اڑتالیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے گائے ملی نغمے اور فلمی گیت آج بھی ذہنوں میں تروتازہ ہیں۔

    نسیم بیگم سنہ 1936میں امرتسرمیں پیدا ہوئیں، انہوں نے موسیقی کا فن مشہور غزل گو فریدہ خانم کی بڑی بہن اور کلاسیکل گلوکارہ مختار بیگم سے سیکھا اورسنہ 1956میں اپنے فنی سفر کا آغازکیا۔

    اپنا پہلا فلمی نغمہ انہوں نے فلم گڈی گڑیا میں گایا۔ اُنہوں نے احمد رشدی کے ساتھ بھی بہت سے دوگانے گائے۔ نیز اُنہوں نے بہت سے ملّی نغمے بھی گائے ہیں، جن میں اے راہِ حق کے شہیدوں وفا کی تصویروں، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کرتی ہیں بہت مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کو کلاسیکی گیتوں پر مہارت اور دسترس حاصل تھی ، انہوں نے 500سے زائد فلمی نغمے گائے،اور سننے والوں سے داد سمیٹی۔نسیم بیگم نےفلم گلفام، شہید، شام ڈھلے، سلمٰی، زرقا سمیت سینکڑوں فلموں کیلئے بے شمار گیت گائے اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں۔

    بادلوں میں چھپ رہا ہے چاندکیوں، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، نینوں میں جل بھر آئے، سو بارچمن مہکا سو بار بہار آئی، اس بے وفا کا شہر ہے، ہم ہیں دوستو اور ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولےجیسے سدا بہار گیتوں نے نسیم بیگم کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔

    پاکستان کی موسیقی کی انڈسٹری میں انہیں درس گاہ کا درجہ حاصل تھا اور انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا نعم البدل بھی تصور کیا جاتا تھا لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا الگ انداز اپنایا جسے مقبولیت عام میسر آئی، انہوں نے اپنی گائیکی کے لیے چار نگار ایوارڈز بھی جیتے۔

    آج سے اڑتالیس سال قبل 29ستمبر 1971ء کو دورانِ زچگی پیچیدگی پیش آنے کے سبب اُن کا انتقال ہو گیا تھا ، لیکن اپنی مدھر آواز اور بے مثال گائیکی کے سبب وہ مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

  • ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے

    سروں کی ملکہ۔ملکہ ترنم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے تیرہ برس بیت گئے مگر اُن کی آواز اور انداز آج بھی زندہ ہیں۔  چھ برس کی عمر سے ہی گائیکی کا شوق رکھنے والی اللہ وسائی نے جب موسیقی کی دنیامیں قدم رکھا تو انہیں نورجہاں کا نام دیاگیا۔ فن موسیقی میں ایسا انمول ہیرا پاکستان کی دھرتی کو ملا جو اپنی مثال آپ تھا۔

    نورجہاں کی آوازنے سات دہائیوں تک لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔فیض کا کلام ہو، غزل ہو یا شوخ گانا۔ ہرسر نورجہاں کے سامنے سر جھکاتا۔ ملکہ ترنم نے جو بھی گایا، سننے والوں کو مسحور کیا۔ بے شمار کامیاب فنکاروں کو پس پردہ آواز کے ذریعے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والی عظیم گلوکارہ نے اپنا فلمی کیریئرمیں کئی بھارتی فلموں نادان، نوکر، لال حویلی، دل، ہمجولی اور جگنو وغیرہ جبکہ پاکستان میں فلم دوپٹہ، گلنار، انتظار، لخت جگر، کوئل اور انار کلی میں کام کیا۔

    ہزار سے زائد پنجابی اور اردو فلموں میں نورجہاں نے دس ہزار گانے گائے۔ حب الوطنی کےجذبے سے سرشار نورجہاں نےانیس سو پینسٹھ کی جنگ میں اپنی آواز سے پاکستانیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ فلمی، غیر فلمی غزل گائیکی میں یکتا ملکہ ترنم، نورجہاں کو دنیا سے گزرے جتنا وقت بڑھتا جارہاہے،ان کی آواز کی کمی اتنی ہی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔