Tag: نور جہاں

  • جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔

    ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔ ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہرحال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔

    نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘ کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔

    میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً ۷ اگست ۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات ۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔ میں نے اس کو بہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔

    ہم دونوں کا قیام وہیں 17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھے جہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔

    بہرحال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن ’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔

    گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور ابوالکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گئے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کر دیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کر لمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے تھے۔

    اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جب کہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔

    مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔

    مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کر شہر بہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جو میں نے عرض کر دیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائے گی۔‘‘

    ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔

    ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔

    ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پر لگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکر کیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا: ’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹار بننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اوّل تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے دانا ہیں۔‘‘

    میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پر بھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘

    نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہونا چاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الو سیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن اسکواش پلایا۔

    بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو وہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کر رہی ہے اور جو موٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔

    (ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس جو انھوں نے اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں پر لکھا ہے)

  • لوگوں کو صفائیاں دینا چھوڑ دی ہیں، کبریٰ خان

    لوگوں کو صفائیاں دینا چھوڑ دی ہیں، کبریٰ خان

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ کبریٰ خان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے انگریزی لب و لہجے سے متعلق لوگوں کو صفائیاں دینا چھوڑ دی ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے نئے ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ کی کاسٹ کبریٰ خان، علی رحمان، حاجرہ یامین، زویا ناصر، علی رضا نے پروگرام ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں شرکت کی اور اپنے کرداروں سے متعلق اظہار خیال کیا۔

    کبریٰ خان سے کمسن مداح نے لائیو کال میں پوچھا کہ ’آپ میری پسندیدہ اداکارہ ہیں، میں آپ کی بہت بڑی مداح ہوں، مجھے پوچھنا ہے کہ آپ کا انگریزوں کی طرح لب و لہجہ ہے جب آپ بولتی ہیں تو بہت کیوٹ لگتی ہیں، جب آپ ڈراموں میں نہیں آئی تھیں تو کہ آپ کو اندازہ تھا کہ اتنی مشہور ہوجائیں گی۔؟‘

    اداکارہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ مجھے ابھی بھی اندازہ نہیں ہے کہ کہاں تک پہنچی ہوں، میں نے اداکاری کا سوچا بھی نہیں تھا، اس وقت پڑھتی تھی تو زندگی کے پلان کچھ اور تھے اب کچھ اور ہیں۔

     انہوں نے بتایا کہ میرا انگریزی لب و لہجہ ہے تو کافی لوگوں کو لگتا ہے کہ میں بنا کر بات کررہی ہوں حالانکہ ایسا ہے نہیں اور اب میں نے لوگوں کو صفائیاں دینا چھوڑ دی ہیں۔

    کبریٰ خان نے کہا کہ کافی لوگوں کو نہیں پتا کہ میں برطانیہ میں تھی اور 7 سال قبل پاکستان آئی ہوں، بچپن وہیں گزرا ہے تو لب و لہجہ ایسا ہونا نیچرل سی بات ہے۔

    واضح رہے کہ ڈرامہ سیریل ’نور جہاں‘ میں کبریٰ خان ’نور بانو‘ کا کردار نبھا رہی ہیں، ڈرامے کی پہلی قسط کل رات 8 بجے نشر کی جائے گی۔

  • "چن وے”  اور اساطیرِ لالی وڈ!

    "چن وے” اور اساطیرِ لالی وڈ!

    "چن وے” کئی دہائیوں قبل ریلیز ہونے والی وہ پنجابی فلم تھی جسے نہ صرف شائقین کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی بلکہ کاروباری لحاظ سے اس فلم نے تہلکہ مچا دیا تھا۔

    اس وقت لالی وڈ میں‌ یہ تأثر گہرا ہو گیا کہ نور جہاں اس فلم کی ہدایت کار ہیں اور ساتھ ایک افواہ یہ پھیل گئی کہ چن وے کی موسیقی نورجہاں کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ فلم کے پوسٹر پر ڈائریکشن کے لیے نور جہاں کا نام تو درج بھی تھا، لیکن جب کئی دہائیوں‌ بعد سینئر صحافی، مشہور براڈ کاسٹر، ہدایت کار اور مصنّف عارف وقار نے ملکۂ ترنم نور جہاں‌ سے انٹرویو کیا تو فلم چن وے سے متعلق ایک بات ضرور صاف ہوگئی۔ عارف وقار لکھتے ہیں:

    چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔

    چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔

  • نور جہاں اور کبوتر

    نور جہاں اور کبوتر

    نورالدّین جہانگیر اپنے والد اور شہنشاہِ ہند جلال الدّین اکبر کی وفات کے بعد 1605ء میں تخت نشین ہوا۔ اس بادشاہ کی چہیتی بیوی کا نام نور جہاں تھا۔

    اکبر بے اولاد تھے اور انھیں ایک بزرگ کی دُعا کے بعد بیٹا عطا ہوا تھا، جس کا نام سلیم رکھا گیا۔ اکبر کے اسی بیٹے نے تخت نشینی کے لیے نورالدّین جہانگیر کا نام اختیار کیا تھا۔ بادشاہ جہانگیر نے متعدد شادیاں کیں اور بادشاہ بننے کے بعد 42 سال کی عمر میں نور جہاں سے بھی شادی کی۔ اس وقت نور جہاں کی عمر 34 سال تھی جس سے ملاقات کا ایک دل چسپ واقعہ تاریخ کی کتب میں موجود ہے۔ ملاحظہ کیجے۔

    روبی لال اپنی کتاب ‘ایمپریس: دی ایشٹانیشنگ رین آف نور جہاں’ میں لکھتی ہیں: ‘جب شہنشاہ جہانگیر باغ میں آئے تو ان کے دونوں ہاتھوں میں کبوتروں کا جوڑا تھا۔ اسی وقت انھیں ایک بہت خوب صورت پھول نظر آیا۔ وہ اسے توڑنا چاہتے تھے، لیکن ان کے دونوں ہاتھ آزاد نہیں تھے۔ اسی دوران ایک خوب صورت عورت وہاں سے گزری۔ جہانگیر نے کبوتر اس خاتون کے دونوں ہاتھوں میں تھما دیے اور پھول توڑنے کے لیے پلٹ گئے۔

    جہانگیر جب واپس آئے تو انھوں نے دیکھا کہ خاتون کے ہاتھ میں صرف ایک کبوتر تھا۔ انھوں نے دوسرے کبوتر کے بارے میں دریافت کیا۔ اس عورت نے جواب دیا ‘اُڑ گیا’، بادشاہ نے پوچھا کہ کیسے۔ اس خاتون نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور دوسرا کبوتر اڑاتے ہوئے کہا، ‘ایسے…’

  • مجھ سے پہلی سی محبت: بھارتی گلوکارہ کا ملکہ ترنم نور جہاں کو خراج عقیدت

    مجھ سے پہلی سی محبت: بھارتی گلوکارہ کا ملکہ ترنم نور جہاں کو خراج عقیدت

    معروف بھارتی گلوکارہ شلپا راؤ نے ملکہ ترنم نور جہاں کی غزل مجھ سے پہلی سی محبت گنگنا کر سماں باندھ دیا۔

    شلپا راؤ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ایک مختصر سی ویڈیو پوسٹ کی، ویڈیو میں وہ کسی تقریب میں شریک دکھائی دے رہی ہیں۔

    ویڈیو میں وہ ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی ہوئی فیض احمد فیض کی غزل مجھ سے پہلی سی محبت گا رہی ہیں۔

    ان کی خوبصورت آواز نے سماں باندھ دیا اور حاضرین سحر زدہ ہو کر انہیں سن رہے ہیں۔

    ٕٕ

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Shilpa Rao (@shilparao)

    کیپشن میں گلوکارہ نے نور جہاں لکھ کر دل کے ایموجیز بنائے جبکہ مداحوں سے دریافت کیا کہ آپ کو ان کا گایا ہوا کون سا گانا پسند ہے؟

    گلوکارہ کی اس ویڈیو کو پاکستان کے ساتھ بھارت سے بھی بے شمار افراد نے لائیک کیا اور اس پر تعریفی تبصرے کیے۔

    خیال رہے کہ سنہ 2007 سے پلے بیک سنگنگ میں اپنا کیریئر شروع کرنے والی شلپا راؤ نے حال ہی میں شاہ رخ خان کی فلم پٹھان کا گانا بے شرم رنگ بھی گایا تھا جس نے مقبولیت کے ریکارڈز توڑ دیے تھے۔

  • ’ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے‘

    ’ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے‘

    کراچی: کراچی چڑیا گھر میں ہتھنی نور جہاں کی طبیعت تاحال نازک ہے، ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے اہم قرار دے دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈائریکٹر چڑیا گھر کنور ایوب نے کہا ہے کہ ہتھنی نور جہاں کا انرجی لیول نیچے آ گیا ہے، غیر ملکی ڈاکٹروں کی ٹیم پاکستان آ رہی ہے، جانوروں کے طبی ماہرین کی ٹیم نے کہا تھا کہ ہتھنی کی حالت آئی سی یو مریض جیسی ہے۔

    انھوں نے کہا ’’نور جہاں ہتھنی کے علاج سے متعلق ڈاکٹر عامر ہم سے رابطےمیں ہیں، ہتھنی کو جتنی ادویات اور خوراک وغیرہ دی جا رہی ہے وہ سب ڈاکٹرز کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے۔‘‘

    ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے کہا کہ ہتھنی کو آج کرین کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جائے گی، شدید بیماری کی وجہ سے نور جہاں کھڑے ہونے سے قاصر ہے، نور جہاں کی مسلسل دیکھ بھال کی جا رہی ہے، غیر ملکی ڈاکٹرز کو چڑیا گھر آنے کے لیے خط لکھا ہے، علاج کے سلسلے میں ویڈیو لنک کے ذریعے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جا رہا ہے۔

    لیگل کنسلٹنٹ فار پاز اویس اعوان نے کہا کہ 4 دنوں سے ہم مسلسل کام کر رہے ہیں، نور جہاں ہار نہیں مان رہی تو ہم بھی ہار نہیں مانیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ نور جہاں ہتھنی کے علاج کے حوالے سے آج کا دن بہت اہم ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑا جانور گر جائے تو کھڑا کرنا مشکل ہے، ہتھنی پہلے کیسے گری یہ نہیں معلوم لیکن اب بہتر ہو رہی ہے۔

  • کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: چڑیا گھر کی ہتھنیاں نور جہاں اور مدھو بالا کہاں جائیں گی؟

    کراچی: سفاری پارک نے ہتھنیوں کی منتقلی اور ان کے انتظامات سے انتظامیہ نے معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چڑیا گھر کی ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنا تھا، چڑیا گھر کے سینئر ڈائریکٹر نے ہتھنیوں کو سفاری پارک منتقل کرنے کیلئےخط لکھا تھا۔

    تاہم ڈائریکٹر سفاری پارک نے جوابی خط میں ہتھنیوں کی منتقلی سےمنع کردیا، سفاری پارک کے ڈائریکٹر نے انتظامیہ سے ہتھنیوں کی رہائش کے انتظامات کیلئے ٹینڈر دینے کا مشورہ دیا ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی چڑیا گھر میں ہھتنی نورجہاں کی طبیعت دن بدن خراب ہونے لگی۔

    ہھتنی نورجہاں کو جوڑوں میں تکلیف پر دی جانے والی ادویات نے حالت مزید خراب کردی۔

    ذرائع نے بتایا کہ چڑیا گھر انتظامیہ نے ہتھنی کو درد کش دواؤں پر رکھا ہوا تھا، دردکش ادویات کے باعث ہتھنی کی طبیعت دن بدن مزید خراب ہورہی ہے۔

  • شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون سیّد شوکت حسین رضوی کا تذکرہ

    سیّد شوکت حسین رضوی لاہور میں شاہ نور اسٹوڈیو کے احاطے میں مدفون ہیں۔ وہ 1998ء میں آج ہی کے دن کے وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستان کے صف اوّل کے ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں 1913ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ شوکت رضوی نے کلکتہ کے مشہور تھیٹر سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور بحیثیت تدوین کار اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔ اس زمانے کے ایک مشہور فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی نے شوکت حسین کو کلکتہ سے لاہور آنے کی دعوت دی اور یہاں آکر انھوں نے گل بکاؤلی اور خزانچی جیسی فلموں کے لیے بحیثیت تدوین کار کام کیا۔ سیٹھ پنچولی نے انھیں اپنی پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار کے طور پر مزید آگے بڑھنے کا موقع دیا تو شوکت رضوی نے بھی انھیں‌ مایوس نہیں کیا۔ اس فلم کو بہت پذیررائی ملی۔

    نور جہاں پہلی مرتبہ اسی فلم میں بطور ہیروئن جلوہ گر ہوئی تھیں۔ اسی فلم نے شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کو قریب کردیا اور انھوں نے شادی کرلی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی جس کے بعد گلنار، جان بہار، عاشق اور بہو رانی و دیگر فلمیں‌ بطور ہدایت کار ان کی کام یابی کا سبب بنیں۔

    فلم انڈسٹری میں تدوین کار کی حیثیت سے ان کی فلموں یملا جٹ اور دوست کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ فلمیں تھیں جس نے دل سکھ پنچولی کو ان کی جانب متوجہ کیا تھا اور ان کی فلم خاندان کام یاب رہی تھی۔ نور جہاں سے شادی کر کے شوکت رضوی ان کے ساتھ ممبئی چلے گئے اور تقسیم ہند کے بعد یہ جوڑا اپنے تین بچّوں سمیت پاکستان آیا۔ یہاں شوکت حسین رضوی نے ملتان روڈ پر شاہ نور اسٹوڈیو قائم کیا اور اسی عرصہ میں جب نور جہاں سے اختلافات اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی تو شوکت حسین نے معروف اداکارہ یاسمین سے شادی کرلی جن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد وہ صرف تین اردو فلمیں بناسکے جن میں سے ایک دلہن رانی تھی جو فلاپ فلم ثابت ہوئی اور اس کے بعد شوکت حسین رضوی نے فلم نگری سے دوری اختیار کرلی تھی۔

    شوکت حسین رضوی نے 85 سال کی عمر میں اس دارِ فانی کو خیرباد کہا۔

  • پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    پاکستانی دُھنوں اور گانوں کی بالی وڈ میں نقل

    دنیا بھر میں‌ تخلیقی کاموں کا اعتراف اور اس کی پذیرائی کے لیے ہر سال اپریل کے مہینے میں‌ ’انٹلکچوئل پراپرٹی‘ کا دن منایا جاتا ہے۔ پاک و ہند کی فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو یہاں کسی تخلیق کی نقل اور چوری کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے فن کار ایک دوسرے پر اکثر موسیقی یا شاعری نقل اور چوری کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔

    یہاں ہم بھارت کے موسیقاروں کی جانب سے ان چند پاکستانی گانوں کی نقل کا تذکرہ کررہے ہیں جو نام ور موسیقاروں اور مشہور ترین گلوکاروں کے تخلیق کردہ اور فن کا اظہار تھے۔

    میڈم نور جہاں کا گانا ‘تیرے در پر صنم چلے آئے…’ پچاس کی دہائی میں‌ مقبول ہوا تھا اور اسی طرح 60 کے عشرے میں ‘بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں…’ بھی کئی برس بعد الزام اور تنازع کی زد میں آگیا بھارتی موسیقاروں نے موسیقی ہی نہیں بلکہ گیتوں کے بول اور کبھی پورا ہی گانا کاپی کر لیا۔

    ستّر اور اسّی کی دہائی میں مشہور بھارتی موسیقاروں نے یہ سلسلہ شروع کیا اور آر ڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال اور بپّی لہری اور 90 کی دہائی میں انو ملک، ندیم شرون اور آنند ملند پر موسیقی اور گیت کاپی کرنے کے الزام لگے، لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں۔

    دونوں ممالک کی فلم انڈسٹری نے جب نئی صدی میں قدم رکھا تو پریتم جیسے موسیقاروں نے پاکستانی گانے کاپی کیے۔ سرحد پار سب سے زیادہ گانے مہدی حسن کے کاپی کیے گئے۔ اس کے بعد میڈم نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کا نام آتا ہے جن کے گانوں کی نقل بھارتی فلم انڈسٹری میں‌ پیش کی گئی۔

    مہدی حسن کی آواز میں ‘تیرے میرے پیار کا’ اور ‘بہت پیار کرتے ہیں’ جیسے گانے سپر ہٹ ثابت ہوئے جنھیں بالی وڈ میں کاپی کیا گیا۔ بالی وڈ اسٹار عامر خان ہوں یا شاہ رخ ان کی فلموں میں مہدی حسن کے نقل کیے گئے گانے شامل تھے۔ پاکستان میں مقبول ‘رفتہ رفتہ وہ میری’ ایسا کلام تھا، جسے بالی وڈ کی کام یاب فلم ‘بازی’ کے لیے موسیقار انو ملک نے کاپی کیا۔

    میڈم نور جہاں کی آواز میں مقبول ترین گانے بھارتی فلموں میں شامل ہوئے اور ‘وہ میرا ہو نہ سکا….’ کو بالی وڈ نے ‘دل میرا توڑ دیا اس نے…’ کی تبدیلی کے ساتھ پیش کردیا۔

    اپنی مسحور کن گائیکی سے شہرت اور مقبولیت پانے والے اخلاق احمد کے کئی گانے بھارت میں کاپی کیے گئے جن میں ‘سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل’ بھی شامل ہے۔ اسے موسیقار آنند ملند نے ‘چھوٹی سی دنیا ‘ بنا کر پیش کیا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کار سبطین فضلی کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبطین فضلی بہت باغ و بہار قسم کے آدمی تھے۔ انتہائی خوش اخلاق، خوش گو اور خوش لباس۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سبطین فضلی اور ان کے بھائی حسنین فضلی نے کلکتہ سے فلم سازی میں نام و مقام بنالیا تھا۔ وہ ’’فضلی برادران‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ تاہم بٹوارے کے بعد سبطین فضلی جو لاہور میں مقیم تھے صرف تین ہی فلمیں بنائیں، لیکن ایسا کام کیا جو آج بھی یادگار ہے اور پاکستان کی فلمی صنعت میں اس کی مثالیں‌ دی جاتی ہیں۔

    سبطین فضلی 9 جولائی 1914ء کو بہرائچ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے بڑے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے فلم ’’دوپٹہ‘‘ کی ہدایات دیں جسے کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس فلم کے بعد انھوں نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو کام یاب نہیں ہوسکیں، مگر اس کام اور فنی مہارت میں ان کی محنت اور لگن کا ثبوت ہیں‌۔ فلم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ فلمی تاریخ میں سبطین فضلی کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی فلم دوپٹہ ہی کافی ہے۔

    سبطین فضلی کی پہلی فلم ’’دوپٹہ‘‘ میں پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نیا ہیرو اجے کمار کے نام سے پردے پر سامنے آیا تھا۔ اس فلم میں‌ سدھیر نے بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بے حد کام یاب رہی تھی۔ اس زمانے میں آج کی طرح جدید سہولتیں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ بہت معیاری فلم تھی۔

    سبطین فضلی لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔