Tag: نور جہاں

  • سید شوکت حسین رضوی: باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز

    سید شوکت حسین رضوی: باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز

    شاہ نور اسٹوڈیو، لاہور کے احاطے میں مشہور فلم ساز اور ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی ابدی نیند سورہے ہیں۔ وہ 19 اگست 1998 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    متحدہ ہندوستان، یوپی میں 1913 کو پیدا ہونے والے سید شوکت حسین رضوی کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    انھوں نے کلکتہ کے میڈن تھیٹر سے فلمی زندگی کا آغاز کیا اور بحیثیت تدوین کار کام کرتے رہے۔ مشہور فلم ساز سیٹھ دل سکھ پنچولی کے کہنے پر کلکتہ سے لاہور چلے آئے اور یہاں گل بکائولی، خزانچی جیسی فلموں کی تدوین میں‌ اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا جس کے بعد سیٹھ پنچولی نے اپنی پہلی فلم ’’خاندان‘‘ کے ہدایت کار کے طور پر انھیں مزید آگے بڑھنے کا موقع دیا اور سید شوکت حسین رضوی نے خود کو کام یاب ہدایت کار ثابت کر دیا۔

    اسی فلم میں نور جہاں کو پہلی مرتبہ پر ہیروئن کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس نے سید شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کو ایک کردیا، انھوں نے شادی کرلی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔

    قیام پاکستان کے بعد سید شوکت حسین رضوی کی پہلی فلم ’’چن وے‘‘ تھی جس کے بعد گلنار، جان بہار، عاشق اور بہو رانی و دیگر فلموں‌ کے لیے انھوں نے ہدایات دیں اور کام یاب رہے۔

    فلمی صنعت میں سید شوکت حسین رضوی کو ان کی ہدایت کاری اور کام یاب فلموں کے سبب یاد کیا جاتا رہے گا۔

  • "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    "گلنار” میں خامی کیا تھی؟

    ہنستے کھیلتے ماحول میں بننے والی فلم ’گُلنار‘ پر سب نے بڑی جان ماری کی۔ میوزک ماسٹر غلام حیدر کا تھا جنھوں نے بڑی مدھر دُھنیں تیار کی تھیں اور موسیقی کا جادو بکھیرا تھا۔

    ’خاندان‘ اور ’شہید‘ کے بعد وہ ایک بار پھر معراج پر پہنچے تھے۔ نغمے فلم کی نمائش سے قبل ہی زبان زدِ عام ہو گئے۔

    خاص طور سے یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا، ’چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں…..‘

    باقی سبھی گانے بھی ہٹ ہوئے اور غلام حیدر کا نام ایک بار پھر انڈسٹری میں گونجنے لگا۔

    ’نور جہاں‘(ملکہ ترنم) پہلے ہی ٹاپ پر تھی، اب وہ اور اونچی اڑانیں بھرنے لگی۔ فلم سے سب کو بڑی توقعات تھیں مگر جب مارکیٹ میں اُتاری گئی تو سوائے ہٹ میوزک کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔

    کئی خوبیوں کے باوجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فلم میں حقیقی ماحول اور پس منظر عنقا تھا جس نے تماش بینوں کو مایوس کیا اور تبصرہ نگاروں (ناقدین) نے بھی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

    (البتہ) شوکت تھانوی کی ایکٹنگ سب کو اچھی لگی اور اُنھوں نے اداکاری کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ کئی فلموں میں کام کیا۔

    (ہندوستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ایک کتاب سے انتخاب)

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی پرانی تصویر نے ماضی کے دریچے کھول دیے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی پرانی تصویر نے ماضی کے دریچے کھول دیے

    ملکہ ترنم نور جہاں کو گو کہ اس دنیا سے گزرے 19 برس بیت چکے ہیں، لیکن وہ اپنی سریلی اور خوبصورت آواز کے ذریعے اب تک اپنے مداحوں کے دل میں زندہ ہیں، ان کی نواسی کی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک تصویر نے ان کی بھولی بسری یادیں پھر سے تازہ کردیں۔

    نور جہاں کی نواسی نتاشا خالد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ایک پرانی تصویر شیئر کی جو ان کی والدہ حنا درانی کی شادی کے موقع کی ہے۔

    تصویر میں دلہن بنی حنا اپنی والدہ ملکہ ترنم نور جہاں کے کندھے پر سر رکھے ہوئے ہیں اور دونوں نہایت خوشگوار موڈ میں ہیں۔ یہ تصویر یقیناً کسی بھی بیٹی کو جذباتی کرنے کے لیے کافی ہے۔

    نتاشا نے اپنی والدہ اور نانی کے لیے لکھا کہ میں نے اتنی خوبصورت دلہن، اور دلہن کی اتنی خوبصورت ماں آج تک نہیں دیکھی۔

    نتاشا کی تصویر کو مداحوں نے بے حد پسند کیا اور اب تک تصویر کو 28 ہزار سے زائد لائیکس موصول ہوچکے ہیں۔

    خیال رہے کہ ملکہ ترنم نور جہاں نے دو شادیاں کیں، ان کی 4 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں جن میں سے ان کی صاحبزادی ظل ہما نے بھی اپنی ماں کی میراث گائیکی کو اپنایا۔

    ملکہ ترنم سنہ 2000 میں 27 رمضان کی شب کراچی کے ایک اسپتال میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئیں۔ عمر بھر عظمت، شہرت اور دولت کمانے کے ساتھ ساتھ وہ فلاحی کاموں میں بھی بے انتہا آگے تھیں اور کئی غریب گھرانوں کے گھر کا سہارا بنی رہیں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 93 ویں سالگرہ ہے

    کراچی: آواز میں جاذبیت، کانوں میں رس گھول دینے والے نور جہاں کے مدھر سرلوگ آج تک نہ بھول سکے، ملکہ ترنم نورجہاں کی آج 93ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔

    فن گائیکی کا سرمایہ، مدھر اورسریلی آواز کی مالک برصغیر کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں، موسیقی کا ایک درخشاں عہد تھیں، اکیس ستمبرانیس سوچھبیس کوقصورمیں جو تارہ روشن ہوا وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔

    نور جہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا، اپنے فن اورمحبت کی بنا پر لوگوں نے انہيں ملکہ ترنم کا خطاب ديا، نورجہاں نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز انیس سو پینتیس میں بطورچائلڈ اسٹارفلم پنڈ دی کڑیاں سے کیا جس کے بعد انمول گھڑی،ہیرسیال اور سسی پنو جیسی مشہور فلموں میں اداکاری کے جوہر آزمائے۔

    سن 1941ءمیں موسیقار غلام حیدر نے انہیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941ءمیں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی محبت پروان چڑھی اور دونوں نے شادی کرلی۔

    قیام پاکستان سے پہلے ان کی دیگر معروف فلموں میں،دوست، لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی اور جگنو کے نام سرفہرست ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے فلم چن وے سے اپنے پاکستانی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انہی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    اس کے بعد انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کرلیا۔ ایک ریکارڈ کے مطابق انہوں نے 995 فلموں کے لئے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000ءمیں ریلیز ہوئی تھی۔

    میڈم نے مجموعی طور پردس ہزار سے زیادہ غزلیں گائیں،میڈم نورجہاں الفاظ کی ادائیگی اور سر کے اتار چڑھاؤ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں،یہی وجہ تھی کہ بھارت کی مشہور گلوکاروں نے بھی ان کے فن کو خوب سراہا، گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔

    لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا، محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔لوگ آج بھی جب نور جہاں کے مدھر اور سریلے گیتوں کو سنتے ہیں تو مسحور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

    انہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قومی نغمے بھی گائے جو ہماری قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں، حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور نشان امتیاز سے نوازا۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 23دسمبر 2000ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی تھیں، وہ کراچی کے ڈیفنس سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • ملکہ ترنم نور جہاں کی16ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ملکہ ترنم نور جہاں کی16ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    تمغہ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس کی حامل پاکستان کی معروف گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 16ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق برصغیر کی نامورگلوکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے 16برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے صدا بہار گانوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں۔

    ملکہ ترنم نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں،ان کا اصل نام اللہ وسائی جبکہ نور جہاں ان کا فلمی نام تھا۔

    post1

    انہوں نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز 1935 میں پنجابی زبان میں بننے والی پہلی اولین فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘سے بطور چائلڈ سٹار بے بی نور جہاں کے نام سے کیا۔

    بے بی نورجہاں نے بطور چائلڈ اسٹارمتعدد فلمیں کیں جن میں ’گل بکاﺅلی‘، ’سسی پنوں‘، ’ہیرسیال‘شامل ہیں‘۔

    موسیقار غلام حیدر نے1941میں انہیں اپنی فلم ’خزانچی‘ میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا اور اسی برس بمبئی میں بننے والی فلم ’خاندان‘ ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔

    اسی فلم کی تیاری کے دوران ہدایت کار شوکت حسین رضوی سےان کی شادی ہوگئی،جبکہ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے ہمراہ ممبئی سے کراچی منتقل ہوگئیں۔

    post3

    انہوں نےبطوراداکارہ بھی متعدد فلمیں کیں جن میں گلنار،چن وے، دوپٹہ، پاٹے خان، لخت جگر، انتظار،نیند، کوئل، چھومنتر، انار کلی اور مرزا غالب کے نام شامل ہیں۔

    میڈم نورجہاں نے 1965ءکی جنگ میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے گاکرپاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔

    post4

    انہیں شاندار پرفارمنس کے باعث صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز اور بعد میں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

    میڈم نور جہاں نےتقریباََ10 ہزار سے زائد غزلیں و گیت گائے جن میں سے بیشتر اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

    post2

    ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو 74 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔اگرچے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی عوام میں بےپناہ مقبول ہیں۔