Tag: نور محمد چارلی

  • ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک مزاحیہ اداکار کا تذکرہ جنھیں‌ فلم میں ‘ہیرو’ بنایا گیا!

    ایک زمانہ تھا جب غیر ناطق فلموں‌ میں اداکار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو متوجہ کرتے تھے اور داد وصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی۔ اسی زمانے میں نور محمد چارلی نے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور ہندوستان میں شہرت اور مقبولیت پائی۔

    انیسویں صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمانے والے نور محمد چارلی مشہور مزاحیہ اداکار تھے۔ وہ پہلے مزاحیہ اداکار بھی تھے جنھیں اس دور میں‌ ایک فلم کے لیے ہیرو منتخب کیا گیا اور دیگر فلموں میں بھی انھوں نے مرکزی کردار نبھائے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دور کے مزاحیہ فن کاروں میں پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود انھوں نے بھی اپنی فلموں کے لیے گیت گائے تھے۔

    نور محمد چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی جسے بعد میں 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بھی بنایا گیا اور اس فلم کا ٹائٹل رول نور محمد نے اس خوب صورتی سے نبھایا کہ شائقین نے انھیں ‘نور محمد چارلی’ کہنا شروع کردیا۔ چارلی ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد یہ مزاحیہ اداکار ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں اپنی پہلی فلم مندری (1949) میں کام کیا، لیکن تقسیمِ ہند سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس اداکار کو پاکستان میں سنیما پر خاص کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلی نے اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا اور ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلموں میں خود کو آزمایا اور یہاں بھی بدقسمتی سے شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ بھارت چلے گئے، جہاں انھیں تین فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا، لیکن ان کے بخت کا ستارہ اب زوال پذیر تھا، وہ مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آئے۔ وطن واپسی کے بعد یہاں مزید دو فلموں میں کام کیا تھا۔ 30 جون 1983ء کو نور محمد چارلی کراچی میں وفات پاگئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند سے قبل انھوں نے جن فلموں میں کام کیا، ان میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل ہیں۔ پاکستان میں ان کی آخری فلم استادوں کا استاد (1967) کے علاوہ ایک پنجابی فلم پلپلی صاحب (1965) بھی تھی جس میں انھوں نے ٹائٹل رول نبھایا تھا۔

  • یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    نور محمد چارلی برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ فن کار تھے جنھیں گزشتہ صدی میں 30 اور 40 کی دہائی میں‌ خاصی مقبولیت ملی۔ وہ 30 جون 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نور محمد چارلی کو ہندوستانی فلم نگری کا اوّلین مزاحیہ اداکار بھی کہا جاتا ہے جسے ‘ہیرو’ بننے اور فلموں میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود ان کی آواز میں چند فلموں کے لیے گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا جب نور محمد نے ایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوکر اداکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں چلے آئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ان کی مشہور فلموں میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل تھیں۔

    اس دور میں شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے اور یہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور ‌آرٹسٹ اور فن کار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو محظوظ کرتے جو نہایت مشکل کام تھا۔ اس دور میں کسی فن کار کا ستائش اور مقبولیت حاصل کرنا اس کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔ نور محمد چارلی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور محنت سے یہ مرحلہ طے کیا۔ انھیں تقسیم سے قبل اپنے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی نسبت زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ وہ مشہورِ زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کے بڑے مداح تھے اور اس کے بہروپ میں اکثر کردارو‌ں میں رنگ بھرتے نظر آئے۔

    چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیر ناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا۔ ‘دی انڈین چارلی’ 1933ء کی وہ ناطق فلم تھی جس نے انھیں‌ ٹائٹل رول کی نسبت نور محمد سے نور محمد چارلی مشہور کردیا اور ‘چارلی’ کا لاحقہ ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔

    پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری تھی۔ ان کی مشہور فلموں میں پلپلی صاحب، عمر ماروی، پرائی زمین، مس 56، استادوں کے استاد، اکیلی اور ستاروں کی دنیا شامل ہیں۔

    نور محمد چارلی نے اردو کے ساتھ پنجابی اور تین سندھی زبان میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن چند ابتدائی کام یابیوں کے بعد وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ فلم نگری میں ناکامیوں سے گھبرا کر انھوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر وہاں بھی مطمئن نہ ہوئے اور پاکستان لوٹ آئے جہاں بعد میں چند ہی فلموں میں کام حاصل کرسکے۔

    نور محمد چارلی کے صاحبزادے لطیف چارلی اور بہو معصومہ لطیف بھی پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

  • نور محمد چارلی کی شہرت اور ناکامیوں کی کہانی

    نور محمد چارلی کی شہرت اور ناکامیوں کی کہانی

    ایک زمانہ تھا جب شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے تھے اور ‌فن کار اپنے کردار میں‌ ڈوب کر اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے اور ستائش و مقبولیت کا حصول ان کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے اسی دور کے مقبول اور مصروف مزاحیہ اداکار نُور محمد چارلی تھے جنھوں نے گزشتہ صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں‌ نام کمایا۔

    اس زمانے کے چند دوسرے مزاحیہ اداکاروں کی نسبت نور محمد چارلی کو زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔

    چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ہیرو بننے کا موقع بھی ملا اور فلموں کے مرکزی کردار بھی ادا کیے۔ سنیما اور اسٹیج سے متعلق مضامین میں لکھا ہے کہ چارلی وہ پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت فلمایا گیا اور انھوں نے خود اپنے گیت گائے بھی۔

    ان کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیرناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ تھی جس میں نور محمد نے کام کیا تھا۔ اس سے اگلے برس ایک فلم انڈین چارلی پیش کی گئی تھی جسے 1933ء میں ناطق فلم کے طور پر بنایا گیا تھا تو اس ٹائٹل رول نور محمد نے کچھ یوں نبھایا کہ شائقین میں ‘نور محمد چارلی’ مشہور ہوگئے۔ یہ لاحقہ ان کے نام سے آخری عمر تک جڑا رہا۔

    نور محمد چارلی نے کئی فلموں میں مرکزی کردار نبھائے جن میں سنجوگ (1943)، مسافر (1940)، چاند تارا (1945) جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد نور محمد چارلی پاکستان چلے آئے۔ انھوں نے یہاں مزید دس فلموں میں کام کیا۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری (1949) تھی۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے گیت بھی گائے لیکن حیرت انگیز طور پر تقسیم سے قبل شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اس فن کار کو پاکستان میں سنیما پر مزید کام یابی نہیں ملی۔

    نور محمد چارلیٕ اردو اور پنجابی فلموں میں بھی ناکام رہے جس کے بعد تین سندھی فلمیں بھی کیں، لیکن شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ ان ناکامیوں سے گھبرا کر وہ ہندوستان چلے گئے، جہاں تین فلموں میں کام کرنے کے بعد مایوس ہوکر پاکستان لوٹ آئے۔ یہاں واپسی کے بعد مزید دو فلموں میں کام کیا اور 30 جون 1983ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔