Tag: نور مقدم قتل کیس

  • نور مقدم قتل کیس کا مجرم ظاہر جعفر نفسیاتی طور پر صحت مند قرار

    نور مقدم قتل کیس کا مجرم ظاہر جعفر نفسیاتی طور پر صحت مند قرار

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کو نفسیاتی طور پر صحت مند قرار دے دیا گیا اور کہا کوئی نیورولوجیکل کمزوری یا نقص کی نشاندہی نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کے نفسیاتی معائنہ کی رپورٹ وزارت قومی صحت کو ارسال کردی گئی۔

    ذرائع نے بتایا کہ ظاہر جعفر کی نفسیاتی و نیورولوجیکل جانچ نارمل ہے ، مجرم کا معائنہ پمز کے دو رکنی میڈیکل بورڈ نے21 جولائی کیا، طبی معائنہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی درخواست پر کیا گیا۔

    پمز کے ماہر امراض نفسیات اور نیورو نےمجرم ظاہر کا تفصیلی معائنہ کیا اور کہا ذہنی و نفسیاتی طور پر مکمل صحت مند اور مزاج نارمل پایا گیا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ مجرم ظاہر میں کوئی نیورولوجیکل کمزوری یا نقص کی نشاندہی نہیں ہوئی، وہ مکمل ہوش و حواس میں اور حالات سے باخبر پائے گئے۔

    مزید پڑھیں : نور مقدم قتل کیس: سزائے موت پانیوالے مجرم ظاہر جعفر کی صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تیاریاں

    ذرائع نے بتایا کہ ان کا دماغی نظام مکمل طور پر درست حالت میں تھا اور ان میں نفسیاتی بیماری یا دماغی خرابی کے شواہد نہیں ملے۔

    ظاہر جعفر کےلواحقین صدارتی رحم کی اپیل دائر کرنے پر غور کر رہے ہیں، 2023 میں ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجرم کی سزائے موت برقرار رکھی تھی بعد ازاں سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں سے ظاہر کی سزائے موت برقرار رکھی۔

    یاد رہے جولائی 2021 میں ظاہر جعفر کے گھر سے نور مقدم کی لاش ملی تھی، جسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

  • نور مقدم قتل کیس: سزائے موت پانیوالے مجرم ظاہر جعفر کی صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تیاریاں

    نور مقدم قتل کیس: سزائے موت پانیوالے مجرم ظاہر جعفر کی صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تیاریاں

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس میں سزائے موت پانے والے مجرم ظاہر جعفر کی صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تیاریاں شروع کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ، کیس میں سزائے موت پانے والے مجرم ظاہر جعفر کی رحم کی اپیل کی تیاریاں  جاری ہے۔

    اس سال کے آغاز میں سپریم کورٹ کی جانب سے مجرم کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد صدارتی معافی کے لیے دائر کرنا تھا۔ تاہم جیل حکام نے جعفر کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے ایک طبی اور نفسیاتی بورڈ کی تشکیل کی درخواست کی جو کہ آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت رحم کی درخواست جمع کرانے سے پہلے ایک ضروری قدم ہے۔

    اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کو خط لکھ دیا گیا ، جسں میں حکام نے کہا ہے کہ جعفر کی اپیل جمع کرانے سے پہلے میڈیکل یا سائیکاٹرک بورڈ سے رائے لینا ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں : نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

    خط میں کہا گیا کہ سزائے موت کے قیدی ظاہر جعفر کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، مجرم کی سزائے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کر دی ہے۔

    مجرم جعفر کی رحم کی اپیل صدر مملکت کے سامنے جمع کرائی جانی ہے ، صدر مملکت کے روبرو رحم کی اپیل کے لیے میڈیکل اور نفسیاتی بورڈ کی رائے ضروری ہے۔

    سزائے موت کے مجرم کا میڈیکل اور نفسیاتی بورڈ جلد تشکیل دیا جائے، سپریم کوٹ سے سزائے موت کنفرم ہونے کے بعد صدر مملکت سے رحم کی اپیل مجرم کا آخری آپشن ہے۔

    یاد رہے جعفر کو ٹرائل کورٹ نے فروری 2022 میں سزائے موت سنائی تھی، جس کے فیصلے کو بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2023 میں برقرار رکھا تھا اور حال ہی میں مئی 2025 میں سپریم کورٹ نے اس کی توثیق کی تھی۔

    خیال رہے یہ مقدمہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ درجے کے مجرمانہ مقدمات میں سے ایک رہا ہے، جس نے جرم کی سنگین نوعیت کی وجہ سے ملک بھر میں غم و غصے کو جنم دیا۔

    سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نورمقدم کو جولائی 2021 میں جعفر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر تشدد اور سر قلم کیا گیا تھا۔

    اکتوبر 2024 میں، نور کے والد نے عدالتی عمل کو مکمل کرنے میں طویل تاخیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے معاملے کو تیز کرنے کی درخواست کی تھی۔

    آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت، صدر پاکستان کو سزائے موت سمیت معافی، مہلت یا سزا میں کمی کا اختیار حاصل ہے۔ معافی کی درخواست جعفر کی اپیلوں کے ختم ہونے کے بعد اس کے لیے حتمی قانونی راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔

  • ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں،  تحریری فیصلہ جاری

    ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے  تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم ظاہر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

    سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری مطابق بغیرعینی گواہ کےویڈیوثبوت قابل قبول ہیں، مستند فوٹیج خود اپنے حق میں ثبوت بن سکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ شدہ ویڈیو یا تصاویر بطورشہادت پیش کی جا سکتی ہیں اور قابل اعتماد نظام سے لی گئی فوٹیج خود بخود شہادت بن سکتی ہے، بینک ڈکیتی کیس میں ویڈیو فوٹیج بغیرگواہ قبول کی گئی، امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس اصول کووسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، دونوں لوئر کورٹس کا فیصلہ متفقہ طور پر درست قرار دیا جاتا ہے۔

    تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم کی جانب سے نور مقدم پر جسمانی تشدد کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک قابل قبول شہادت ہیں، ویڈیو ریکارڈنگ میں کوئی ترمیم ثابت نہیں ہوئی،ملزم کی شناخت صحیح نکلی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈی این اے رپورٹ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی، آلہ قتل پرمقتولہ کا خون ہے، ملزم نور مقدم کی موجودگی کی کوئی وضاحت نہ دے سکا، ڈیجیٹل شواہد اب بنیادی شہادت تصور کئے جاتے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج مقررہ معیار پر پوری اترے توتصدیق کی ضرورت نہیں، ظاہر جعفر کی قتل میں سزائے موت برقرار رکھی اور زیادتی کی سزاعمرقید میں تبدیل کی۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کی نورمقدم کواغوا کرنے کے الزام کی سزا ختم کرکے بری کیاجاتا ہے تاہم غیر قانونی طور پراپنے پاس رکھنے پر ظاہر جعفر کی سزا برقرار رکھی گئی ہے جبکہ شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزا برقرار ہیں۔

    عدالت نے شریک ملزمان کی سزا کم کرکے جتنی قید کاٹ لی اس کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس علی باقر نجفی فیصلے کے حوالے اپنا اضافی نوٹ دیں گے۔

  • مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا

    مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا

    اسلام آباد: نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔

    درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، غلطیوں سے بھرپور ایف آئی آر پر سزا دینا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے، جن شواہد کو پذیرائی دی گئی وہ قانونِ شہادت کے مطابق قابل قبول نہیں۔

    درخواست میں ظاہر جعفر نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا، سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے، اور درخواست گزار کو بری کرنے کا حکم دیا جائے۔

    یاد رہے کہ ظاہر جعفر کو نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ نے ایک جرم میں عمر قید اور دیگر میں سزائے موت سنائی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا تھا، ظاہر جعفر کو مجموعی طور پر 11 سال سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

  • نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری

    نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم جان محمد کی سزاکےخلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم کیس میں ٹرائل کورٹ سے دس سال سزا پانے والے مجرم جان محمد کی اپیل پر سماعت ہوئی ، سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔

    عدالت نے مجرم جان محمد کی سزا کے خلاف درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، نوٹس شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری کئے گئے اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز نور مقدم کیس کے مجرم جان محمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ، جس میں 10سال کی سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

    اپیل میں کہا گیا تھا کہ مجھے قتل کی ایف آئی آر میں بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد میں ضمنی بیان میں ان کا نام شامل کیا گیا، میں پی ایم سیکرٹریٹ کا ملازم ہوں اور ظاہر جعفر کے گھر پر پارٹ ٹائم باغبانی کا کام کرتا ہوں، اس کیس میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

    یاد رہے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔

    عدالت نے کیس کے شریک ملزمان کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی ، سزا پانے والا مجرم افتخار چوکیدار اور مجرم جان محمد مالی تھے۔

  • نور مقدم قتل کیس : مجرم  کی سزا کیخلاف اپیل دائر

    نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کیخلاف اپیل دائر

    اسلام آباد : نور مقدم کیس کے مجرم نے سزا کو کالعدم قرار دینے کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا اور کہا کیس میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم کیس کے مجرم جان محمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ، جس میں 10سال کی سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    اپیل میں کہا گیا کہ مجھے قتل کی ایف آئی آر میں بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد میں ضمنی بیان میں ان کا نام شامل کیا گیا،میں پی ایم سیکرٹریٹ کا ملازم ہوں اور ظاہر جعفر کے گھر پر پارٹ ٹائم باغبانی کا کام کرتا ہوں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ اس کی سزا کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    یاد رہے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔

    عدالت نے کیس کے شریک ملزمان جان محمد اور افتخار کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی ، سزا پانے والا مجرم افتخار چوکیدار اور مجرم جان محمد مالی تھے۔

    عدالت نے تھراپی ورکس کے ملزمان سمیت ظاہرجعفر کے والدین کو اعانت جرم کے الزام سے بھی بری کردیا تھا۔

  • نور مقدم قتل کیس کا تحریری فیصلہ ، ظاہر جعفر کو سزائے موت کے ساتھ 36 سال قید کی سزا

    نور مقدم قتل کیس کا تحریری فیصلہ ، ظاہر جعفر کو سزائے موت کے ساتھ 36 سال قید کی سزا

    اسلام آباد : سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت کے ساتھ زیادتی ، اغوا اور دفعہ 342 کے جرم پر 36 سال قید کی سزا سنائی۔

    تفصیلات کے مطابق سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا ہے کہ ظاہر جعفر کو قتل کے جرم پر سزائے موت اور 5لاکھ جرمانے کا حکم دیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ زیادتی کے جرم پر 25 سال قید، 2لاکھ جرمانہ کی سزا کا حکم دیا، ملزم جرمانہ مقتولہ کے ورثا کو ادا کرے۔

    فیصلے کے مطابق اغوا کے جرم پر ظاہر جعفر کو 10سال قید ،ایک لاکھ جرمانے کا حکم جبکہ دفعہ 342 کے جرم پر ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ملزم افتخار کو دفعہ109 اور 364 کے تحت 10سال قید،ایک لاکھ جرمانے ، دفعہ 368 کے تحت 10سال قید ایک لاکھ روپے جرمانے اور دفعہ 176 کے تحت ایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ کا حکم دیا۔

    یاد رہے آج اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سنایا ، جس میں نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر کوسزائے موت دینے کا حکم دیا۔

    عدالت نےشریک ملزمان جان محمد اورافتخار کو دس، دس سال قید جبکہ ملزم جمیل کو بری کر دیا ہے جبکہ تھراپی ورکس کے ملزمان سمہت ظاہرجعفر کے والدین کو اعانت جرم کے الزام سے بھی بری کردیا گیا۔

  • نور مقدم قتل کیس :  ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم

    نور مقدم قتل کیس : ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم

    اسلام آباد :سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دیتے ہوئے ملزم کے والدین کو عنایت جرم کے الزام سے بری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں سماعت ہوئی ، مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر سمیت ملزمان کو عدالت میں پیش گیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کیلئےغیر معمولی اقدامات کیے گئے۔

    ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت دینے کا حکم دے دیا۔

    سیشن عدالت نے تھراپی ورکس کے ملزمان کو بری کرتے ہوئے شریک ملزمان جمیل اور جان محمد کو 10،10سال قید کی سزا کا حکم دیا جبکہ ظاہرجعفر کے والدین کو عنایت جرم کے الزام سے بری کردیا۔

    ظاہر جعفر کو قتل،اٖغوا ،جرم چھپانے ،حبس بے ویگر دفعات سمیت دفعہ 201، 364 ،342,176 ،109 ،302 کے تحت سزا سنائی گئی۔

    یاد رہے 22 فروری کو سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا ، سماعت میں مدعی وکیل شاہ خاور کے مطابق نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی ار، سی ڈی ار، فورینزک اور ڈی این ائے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں، نورمقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں۔

    شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا، عدالت ملزمان کو سخت سےسخت سزا دے۔

    نور مقدم قتل کیس، کب کیا ہوا؟

    واضح رہے بیس جولائی دوہزاراکیس کو سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نورمقدم کو اسلام آباد میں بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔

    واقعے کی اطلاع ملتےہی پولیس پہنچی اور اسلام آباد کےایف سیون فورمیں معروف بزنس مین ذاکر جعفر کے گھر پر چھاپہ مارا، جہاں سے نور مقدم کی سربریدہ لاش ملی۔

    پولیس نے موقع سے ملزم ظاہر جعفرکوآلہ قتل سمیت گرفتار کیا اورتمام شواہد جمع کیے جبکہ گھر کے مالی، ڈرائیور اور چوکیدار کو بھی گرفتارکیا گیا۔

    نیٹ چار دن بعد اعانت جرم اور شواہد چھپانے پر ملزم کے والدین ذاکرجعفراوران کی اہلیہ عصمت آدم کو بھی گرفتار کیا گیا تاہم ملزم کی والدہ کی ضمانت ہوگئی جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں رہے۔

    واقعےکی سی سی ٹی وی وڈیوز بھی سامنے آئیں ، جسمیں نور مقدم کوزخمی حالت میں گھر سے نکلنے کی کوشش اور ظاہر جعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا، وڈیوز میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے، جنہوں نے نور مقدم کو بچانے کی کوئی کوشش تک نہیں کی۔

    بعد ازاں گیارہ ستمبرکوعدالت میں ضمنی چالان جمع ہوا اور ملزم ظاہر جعفر کے بیان سمیت اٹھارہ گواہان کی فہرست جمع کرائی گئی اور ڈی این اے رپورٹ بھی منسلک کی گئی جس میں مقتولہ کے ریپ کی تصدیق کی گئی۔

    چودہ اکتوبر کو تمام ملزمان پر فردِ جُرم عائد کی گئی اور بیس اکتوبر دوہزار اکیس سے کیس کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوا، جو چار ماہ سے زائد چلا ۔

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کیلیے پہلی پیشی سے آخری پیشی تک ہر حربہ آزمایا اور عدالت میں ہنگامے بھی کیے۔

    ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کی درخواست کی ، جسےعدالت نے مسترد کر دیا اور جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہرجعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قراردیا۔

    انیس گواہوں پرجرح مکمل ہونےکےبعدملزمان کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ تین سو بیالیس کےتحت سوالنامہ جاری کیا گیا ،جس پر ظاہر جعفر اپنے ہی اعتراف کردہ جرم سے مُکر گیا۔

    واقعے کو غیرت کے نام پر قتل کا رُخ دینے کی کوشش کی اور جب الزام ثابت نہ ہوا تو مقتولہ پر منشیات پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگا دیا۔

  • نور مقدم قتل کیس اختتامی مراحل میں داخل

    نور مقدم قتل کیس اختتامی مراحل میں داخل

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں  تھراپی ورکس کے ملازم اور 5 ملزمان کے وکیل نے حتمی دلائل مکمل کرلئے اور استدعا کی کہ پانچوں ملزمان بے گناہ ہیں بری کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق نورمقدم قتل کیس سےمتعلق ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں سماعت ہوئی ، تھراپی ورکس کے ملازم اور 5 ملزمان کے وکیل نے حتمی دلائل دیئے۔

    جج نے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کن کن ملزمان کے وکیل ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ دلیپ کمار، وامق ریاض، ثمرعباس،عبد الحق اور امجد محمود کا وکیل ہوں۔

    جج نے سوال کیا کہ یہ لوگ جائے وقوع پر کس وقت پہنچے تھے تو وکیل نے کہا کہ یہ لوگ پاکستانی وقت کے مطابق رات 8 بجےکے قریب جائے وقوع پہنچے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل38کہتاہےکہ پولیس کے سامنےبیان کی کوئی اہمیت نہیں، ڈی وی آرکودیکھیں کہ ملزم باآسانی نکل سکتا تھا لیکن وہ وہی موجودرہا، گھرمیں3لوگ موجود تھے اگر شواہد مٹانے ہوتے تو مٹا سکتے تھے۔

    شہزاد قریشی نے مزید کہا کہ کرائم سین کاانچارج کہتا ہے جائے وقوعہ سے پستول، چاقو ودیگرسامان برآمدہوا، الزام ہے کہ ہم نے شواہد مٹائے ہیں کون سے شواہد مٹائے گئے۔

    وکیل شہزاد قریشی کا کہنا تھا کہ ڈی وی آر کے اندر پورا واقعہ موجود ہے، مرکزی ملزم کو گرفتار کیا لیکن ویڈیو غائب کر دی گئی، جائے وقوع پرکسی نے شواہد مٹانے کی کوشش نہیں کی، وکیل

    امجد کےزخمی ہونے کے 25 منٹ بعد پولیس جائے وقوع پہنچتی ہے، امجد 8 بج کر 59 منٹ پر پمز اسپتال پہنچتا ہے، ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہو گیا ، میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو پکڑا۔

    تھراپی ورکس کے 5 ملازمین کے وکیل شہزاد قریشی کے حتمی دلائل مکمل کرنے ہوئے استدعا کی پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں بری کیا جائے۔

    وکیل اسدجمال نے ملزمان کوکمرہ عدالت میں بلانے کی استدعاکردی ، جس پر جج نے وکیل سےمکالمے میں استفسار کیا آپ کیوں ملزمان کو کمرہ عدالت میں بلاناچاہتےہیں؟

    جس پر وکیل اسدجمال نے بتایا کہ ملزم ذاکرجعفرسماعت کوسنناچاہتاہے، وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ نو ساڑھے نو بجے کے قریب تمام پولیس افسران جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے، حقائق بتاتے ہیں کہ پولیس افسران سچائی کے ساتھ سامنے نہیں آرہے۔

    نور مقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران وکیل اکرم قریشی نے کہا ہمارے خلاف چارج نمبر 13 لگایا طاہرظہور کو ذاکر اور عصمت نے فون کیا، طاہر ظہور کے متعلق کہا گیا ان کو ہدایت دی جاتی رہیں، اب پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کونسی ہدایات دی جاتی رہیں، سی ڈی آر کے علاوہ ریکارڈ پر کوئی شواہد موجود نہیں۔

    وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا سی ڈی آر بغیرٹرانسکرپٹ کے بطور شواہد استعمال نہیں کی جا سکتی ، پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر بھی ایف آئی آر درج نہیں کی، دفعہ 174 کا پرچہ تو پولیس پر بنتا ہے۔

    اکرم قریشی کا کہنا تھا کہ پولیس افسران کی تمام تفتیش مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہو چکی تھی، مجھے سمجھ نہیں آتاپولیس نے کیسی تفتیش کی ہے، پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر پولیس نے ساری کارروائی کی ، مقدمے کی 2مختلف تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہانی بنائی گئی ہے۔

    دوران سماعت ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے حتمی دلائل میں کہا اس بات کو چھپایاگیا کہ پولیس کو واقع کی اطلاع کہاں سے ملی، حقائق سے معلوم ہوتا ہے پراسیکیوشن نے ہرمعاملے میں پہلو تہی سےکام لیا، عینی شاہدین تھے انہیں بطورعینی شاہد ہی عدالت میں پیش کیاجاتا۔

    وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ پولیس ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ پاتی، قتل کے وقت کے حوالے سےبھی پراسیکیوشن نے کنجوسی سے کام لیا، پراسیکیوشن نے کہاقتل رات کو ہوا لیکن کوئی ٹائم لائن پیش نہیں کی گئی، ٹائم لائن قائم کیے بغیر کیس قائم نہیں کیا جاسکتا۔

    وکیل نے دلائل میں کہا ہم پر الزام ہے کہ ہم نے قتل کی اطلاع پولیس کو نہیں دی، ہم پر ثبوتوں کوجائے وقوع سے ہٹانے کا الزام لگایاگیا، کرائم سین انچارج کہہ سکتا تھاثبوت مٹانےکی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا نہیں کہاگیا۔

    عصمت آدم جی کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقتولہ نورمقدم کےموبائل یا واٹس ایپ کا ڈیٹا بھی نہیں لیاگیا جبکہ ذاکر جعفر سے طاہر ظہور کو موصول میسج میں بھی ثبوتوں کو مٹانے والی بات نہیں ، واقعے میں ملوث ہوتے تو پہلی فلائٹ سےکراچی سے اسلام آباد کیوں آتے۔

    عصمت آدم جی کے وکیل نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے پڑھ کر سنائے اور کہا عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کے خلاف ثبوت نہیں اور نہ مقدمہ بنتا ہے، جس کے بعد وکیل اسد جمال نے عدالت میں دلائل مکمل کرلیے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا نور مقدم قتل کیس کا  فیصلہ 4 ہفتے میں کرنے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ 4 ہفتے میں کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ کرنے 4 ہفتے میں کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹرائل کورٹ کے جج نے نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کیلئے مزید وقت کے لئے اسلام آبادہائیکورٹ کو خط لکھا۔

    ٹرائل کورٹ کے جج عطاربانی کے خط پر اسلام آبادہائیکورٹ نے مزید 4 ہفتے کی توسیع کرتے ہوئے سیشن کورٹ کو4 ہفتےمیں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2 ماہ میں نورمقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    گذشتہ روز نورمقدم قتل کیس مرکزی ملزم بیان حلفی سے بھی مکر گیا تھا ، ظاہر جعفر نے نیا تحریری بیان عدالت میں جمع کرایا ، جس میں کہا تھا کہ بے گناہ ہوں ، نورمقدم کا قتل میرے گھر ہوا، اس لیے مجھے ،والدین اور ساتھیوں کو کیس میں گھسیٹا جارہا ہے۔

    وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے تحریری بیان میں ملزم کا کہنا تھا کہ نورمقدم کے ساتھ لونگ ریلیشن شپ میں تھا، اس نے مجھے زبردستی امریکہ کی پرواز لینے سے منع کیا،امریکہ ساتھ چلنےکا کہا۔ دوستوں سےٹکٹ کےلیےپیسے منگوائے، ائیرپورٹ کیلئے نکلے تو نور نے ٹیکسی واپس گھر کی طرف مڑوادی میں اسے روک نہ پایا۔

    نور نے میرے گھر دوستوں کو بلایا ڈرگ پارٹی رکھی،پارٹی شروع ہوئی تونشے میں اپنے حواس کھو بیٹھا۔ ہوش آیا توبندھاہوا تھا،پتہ چلا نورکاقتل ہوگیاہے ، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔