Tag: نور مقدم قتل کیس

  • مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار دے دیا

    اسلام آباد : مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے نور مقدم قتل کیس میں خود کو بے گناہ قرار  دے دیا، عدالت کو تحریر بیان میں بتایا ہے کہ میرے گھر میں نور نے دوستوں کو ڈرگ پارٹی کیلیے بلایا، جب پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    ملزم ظاہر جعفر کے وکیل شہر یار نواز نے عدالت میں نور مقدم کے تعلق سے متعلق ویڈیوز اور ملزم کا تحریری جواب جمع کرایا ، جج نے استفسار کیا یہ یو ایس بی کس چیز کی ہے، جس پر شہریار نواز نے بتایا یو ایس بی میں ریلیشن شپ سے متعلق 2ویڈیوز ہیں۔

    نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے تحریری بیان میں کہا کہ میں بے گناہ ہوں، مجھے اور ساتھیوں کوغلط طور پرکیس میں گھسیٹا گیا ، نور مقدم کے ساتھ لانگ ریلیشن شپ میں تھا۔

    ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ نور نے مجھے زبردستی امریکاکی پرواز لینے سے منع کیا، نور مقدم نےکہا میں بھی تمہارے ساتھ امریکاجانا چاہتی ہوں، جس کے لئے نور نےدوستوں کو فون کر کے ٹکٹ خریدنے کےلیےپیسے حاصل کیے۔

    مرکزی ملزم نے کہا ہم ائیرپورٹ کے لیے نکلے مگر نور نے ٹیکسی واپس گھرکی طرف کرادی، گھر میں نور نے اور دوستوں کو بھی ڈرگ پارٹی کے لیے بلایا، پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو مجھے باندھا ہوا تھا، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

    تحریری بیان میں ظاہر جعفر کا کہنا تھا کہ ہوش میں آنے پر پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، واقعہ میرےگھرہوااس لیےمجھےاوروالدین کو پھنسایا جارہاہے، پولیس کےآنے سے پہلے شوکت مقدم اوران کے رشتے دار ہمارے گھر پرتھے، شوکت مقدم اوران کےرشتےداروں سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔

    ملزم نے مزید کہا کہ نور کے فون کی سی ڈی آر صرف 20 جولائی صبح پونے 11 بجےکی حاصل گئی، سی ڈی آرسے پتہ نہیں چل سکتاکہ نور نے کس کو پارٹی میں مدعو کیا تھا۔

    دوران سماعت وکیل اسد جمال نے کہا ٹکٹ کی کاپی نہیں دی، جس پر وکیل شہریار نواز نے بتایا جی وہ بھی دے دی ہے۔

    وکیل مدعی نثار اصغر نے سوال کیا کیا ویڈیو کلپس ہمیں بھی مہیا کی جائے گی، وکیل اسد جمال نے کہا جی وہ آپ کو بھی مہیاکرا دیتے ہیں۔

    وکلا نے بتایا کہ سکندر زوالقرنین کل آئیں گے ،11 بجے تک پہنچ جائینگے، جس پر جج نے کہا کل نہیں بدھ کو آجائیں کیونکہ کل اوربھی ڈائریکشن کیس لگے ہیں۔

    ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کے دلائل میں کہا ابتدائی ایف آئی آر میں صرف ظاہر جعفر ملزم تھا ، 24 جولائی کوبیان میں ذاکر ،والدہ ،ملازم اور تھراپی ورکس کا ذکر آیا، 8 اگست کے بیان میں طاہر ظہور اور جان محمد کو نامزد کیا گیا، ذاکر جعفر،عصمت ،افتخار،اور جمیل 24 کو گرفتار ہوئے۔

    ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شوکت مقدم کا بیان عدالت میں پڑھا گیا ، نور نےکہا دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں جبکہ ظاہر نے کہا نورمیرے ساتھ نہیں ہے،اسکا ریکارڈ موجود نہیں ، یہ کہتے ہیں 19 کومعلوم ہوا بیٹی گھر میں 2دن سے نہیں تھی ، دکھ ہے ایک کی بیٹی گئی اور دوسرے کےبوڑھے باپ کوجیل میں ڈال دیا گیا۔

    بشارت اللہ نے مزید کہا کہ ڈی وی آر کے مطابق وہ خود گئی ،حبس بے جا میں نہیں رکھا گیا ، سی ڈی آر تمام ملزمان کا نہیں لیا گیا، تفتیشی افسرنے موقع سے کوئی فنگر پرنٹ نہیں لیے، ہمارے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں سوائے سی ڈی آر کے۔

    وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ 27 جولائی کو 16 صفحات تھے جبکہ ذاکر جعفر کی سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی ، سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی کیونکہ والدین کو نامزد کرنا تھا، پانچ صفحات مدعی اور 3صفحات ملزم کے سی ڈی آر کے غائب ہیں، ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے اور سی ڈی آر کےدینے والے کے دستخط نہیں ہیں ،جس نے ڈیٹا دیا اسکے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    مرکزی ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ دسویں گواہ ڈاکٹر شازیہ کا بیان دیکھیں ، پہلا کیس ہے جس میں معلوم ہی نہیں پوسٹ مارٹم کس نے کیا، دوست محمد اے ایس آئی 11وان گواہ بھی برآمدگی کا گواہ ہے، یہ درست ہے کہ برآمدگی میمو پر میرے دستخط ہی نہیں ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ انتطامی مشینری لگی ہوئی تھی عبوری ضمانت پر تھا گرفتار کر لیا گیا، ملزم عبوری ضمانت پر تھا تفتیشی نے اسے گرفتار کر لیا، جلدی میں کام کیا گیا لیکن برآمدگی میمو پر دستخط ہی نہیں کرائے، وکیل

    دلائل دیتے ہوئے بشارت اللہ کا کہنا تھا کہ 491کی درخواست دائرکی اس میں تفتیشی افسرنے مانا کہ میں نے گرفتار کر لیا، ایک تفتیشی افسر، ایک گواہ اور اسکے نام سے فردات بنا رہے ہیں، تینوں کی لکھائی مختلف اور دستخط بھی لیے۔

    وکیل کے مطابق بارہوں گواہ محمد جابر کہتا ہے7 فون کاڈیٹا لیا اس نےعدالت میں نمبر نہیں بتائے، جابر نےاپنے بیان میں نہیں بتایا کہ کونسے 7 فون نمبرز کا ڈیٹا اس نے دیا، چار چار دفعہ سی ڈی آر کا ڈیٹا بنا کر دیا گیا کسی کی مہر ہی لگا دیتے کہ کس نے ڈیٹا دیا۔

    مرکزی ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ دو ماہ بعد انکو ڈیٹا کیسے مل گیا پہلے سی ڈی آر کے ڈیٹا کا ذکر ہی نہیں تھا،14 جولائی کا ڈیتا بعد میں بنایا گیا سارا ڈیٹا خود تخلیق کیا گیا ہے، گواہ کیسے آکر کہہ سکتا ہے یہ وہی ڈیٹا ہے جو میں نے جاری کیا، سی ڈی آر کے ڈیٹا پر آئی ٹی کی مہر ہی نہیں، 22 ستمبر کو تفتیشی 161 کا بیان لکھتا ہے۔

    دوران سماعت جج نے وکلاء سے استفسار ملزم تو نہیں چاہیے، جس پر وکیل بشارت اللہ نےبتایا نہیں میرا ملزم یہاں پر موجود رہے، 22 ستمبر میں 14 اکتوبر کا ڈیٹا گواہ بتا رہا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ 15ویں گواہ اےایس آئی زبیرمظہرنےملزم ،مقتولہ کی موجودگی ظاہر نہیں کی، زبیر مظہر نے بھی سارا کام تھانےمیں کیا ، اگر موقع پر کرتا تو ملزم اور مقتولہ کی موجودگی ظاہر کرتا،161 کا بیان کا گواہ کوئی اور ہے اور سرکار نے مدثر عالم کوبنایا یہ کوئی اور ہے۔

    جج نے ریمارکس دیئے کہ کیا تفتیش اس نے کی ہے، وکیل اسد جمال نے بتایا کہ انہوں نے تفتیش کو مان لیا ہے، نور مقدم کا ڈیٹا 20 جولائی صبح 10 بجے تک لیا گیاجو ایک صفحےکاہے، ہمارا ڈیٹا 56 صفحات پر مشتمل ہے، میں قصور وار ہوتا تو واپس آتا۔

    وکیل نے کہا کہ ذاکرجعفر 20 سے 23 تک شامل تفتیش ہوا ،24 کو کون سا ثبوت آیا کہ گرفتار کرلیا،22 جولائی کو اسلحہ کا فرد بنایا میں نے لائسنس پیش کیا، میری اورمدعی کی 20 جولائی کو10منٹ کی کال ہےعدالت کوکیوں آگاہ نہ کیا، تفتیشی افسرکہتاہے تفتیش میں مدعی نے نہیں بتایاکہ ذاکر جعفر سےکیا گفتگو ہوئی۔

  • نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج

    نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج

    اسلام آباد : ایڈیشنل سیشن جج نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی تینوں درخواستیں خارج کردیں ، آج فریقین کے دلائل کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد عطاء ربانی نے کی، پولیس کی جانب سے ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔

    مدعی کے وکیل اور پبلک پراسیکیوٹر نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی تینوں درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی۔

    ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے درخواستوں میں آئی جی تفتیشی افسر اور موبائل نمبر کی ملکیت معلوم کرنے سے متعلق دیگر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ۔

    مدعی کے وکیل نے کہا کہ کیس کے اس مرحلے پر ایسی درخواست دائر کرنا صرف کیس لٹکانے کا بہانہ ہو سکتا ہے۔

    درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ آئی جی اسلام آباد نے 25 جنوری کو عدالتی سماعت کے بعد آفیشل ٹویٹر پر وضاحت دی جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت عدالتی کارروائی پر نہیں بلکہ میڈیا کی غلط رپورٹنگ پر وضاحت دی گئی۔

    ملزم کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ زیر سماعت مقدمہ میں اگر میڈیا غلط رپورٹنگ کرتا تو کیا آئی جی وضاحت دے سکتا ہے؟جو نقشہ موقع بنایا ہے اس میں غلط چیزیں شامل کی گئی ہیں، نقشہ موقع میں گھر کے پیچھے رہائشی ایریا دکھایا گیا ہے جبکہ وہاں پر جا کر دیکھیں وہ جنگل ایریا ہے، عدالت کے پاس اختیار اور پاور ہے، جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جائے۔

    عدالت نے تین درخواستوں پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ،بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے محفوظ فیصلہ سنایا۔

    عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی تینوں درخواستیں خارج کردیں ، جس میں آئی جی اسلام آباد کی وضاحت جاری کرنے ، تفتیشی افسر،جائے وقوعہ کا دورہ کرنے اورموبائل نمبرکی اونرشپ معلوم کرنے سے متعلق درخواستیں شامل ہیں۔

  • نور مقدم قتل کیس : جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی

    نور مقدم قتل کیس : جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی

    اسلام آباد : نورمقدم قتل کیس میں جرح کے دوران تفتیشی افسر کی ایک اور غلطی کی نشاندہی ہوئی ، گواہ کا نام غلط لکھا جبکہ پولیس ڈائری میں بھی غلطی کا اندراج نہ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ظاہرجعفر اور دیگر ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا ، مرکزی ملزم ظاہرجعفر کی دائیں آنکھ کے نیچے نیل پڑا ہوا تھا۔

    مقدمہ کےتفتیشی افسرانسپکٹر عبدالستار پر وکیل اکرم قریشی نے جرح شروع کی، وکیل اسد جمال نے کہا ویسے ہی میرا سوال ہے پولیس کی وضاحت کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے، جس پر جج عطا ربانی نے استفسار کیا کون سی وضاحت کب جاری ہوئی۔

    وکیل اسد جمال نے کہا آئی جی اسلام آباد نے نظام انصاف میں مداخلت کی ہے تو جج عطاربانی کا کہنا تھا کہ وضاحت سرکاری طور پر ہوئی ہے تو بہت بری بات ہے، میں ایکشن لوں گا۔

    تفتیشی افسر عبدالستار نے عدالت کو بتایا کرائم سین انچارج محمد عمران نے لیپ ٹاپ قبضے میں نہیں لیا، لیپ ٹاپ میں نے قبضے میں لیاتھا اور رپورٹ مرگ کی تحریر اور مختلف حالات کی تحریر میری ہے لیکن لکھائی مختلف ہے۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ محمد زبیر، لیڈی کانسٹیبل ، ایس ایچ اوویمن اوردیگر ملازم جائے وقوع پہنچے، رپورٹ میں ہےپولیس جائے وقوع پہنچی تو مدعی شوکت مقدم نے بیان دیا۔

    عبدالستار نے بتایا کہ جائےوقوع پہنچا توپولیس نےظاہرجعفر کو پکڑا ہوا تھا تاہم ظاہرجعفرکی حراست ڈی وی آر میں نظر نہیں آئی، ڈی وی آر میں ہے ظاہر جعفر کو زخمی حالت میں گاڑی میں نہیں بٹھایا گیا،آئی او

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ گواہ مدثر علیم کا بیان پورے کیس میں نہیں لکھا، مدثر علیم کا بیان محمد مدثر کے نام سے لکھا ہےلیکن غلطی پولیس ڈائری میں نہیں لکھی۔

    عبدالستار نے کہا 21 جولائی کو 3 پارسل محمد ریاض کے حوالے کیے تھے، محمد ریاض کےپارسل وصولی کی تفصیلی نہیں لکھی نہ کسی اور جگہ وضاحت دی، تھراپی ورکس کاکہنا تھا وہ طاہر ظہور کے کہنے پر جائے وقوع پہنچے۔

    دوران سماعت تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ میں بیان تھوڑ ا درست کردیتاہوں، جس پر وکیل ملزم اکرم قریشی نے کہا نہیں آپ رہنےدیں آپ درست نہ کریں، جو درست کرنا ہوگا وہ آئی جی وضاحتی بیان پرکر دیں گے۔

    تھیراپی ورکس کے وکیل اکرم قریشی نے تفتیشی افسرپرجرح مکمل کرلی ، جس کے بعد وکیل مدعی بابر حیات نے استدعا کی سماعت ان کیمرہ کر دیں۔

    وکیل شہزاد قریشی کا کہنا تھا کہ فوٹیج چلاکردیکھناچاہتاہوں تھراپی ورکس ملازمین کب آئے، نور مقدم قتل کیس کی سماعت کےدوران ویڈیو چلا ئی گئی ، اس موقع پر کمرہ عدالت سے صحافیوں اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا۔

    دوران سماعت ملزمان افتخار،محمدجان ،جمیل کے وکیل سجاد بھٹی نے بھی تفتیشی افسر پر جرح کی ، تفتیشی افسر عبدالستار نے بتایا نقشے کے خاکے میں مین گیٹ کے ہونے کا ذکرنہیں کیا اور ملزمان افتخار،محمد جان ،جمیل کی موجودگی بھی ظاہر نہیں کی گئی۔

    عبدالستار کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کا فرد نہیں بنایا ڈی وی آر کا فرد بنایا ہے، 21،20جولائی کی درمیانی رات سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی اور 23 جولائی تک مدعی شوکت مقدم نے ملزمان کیخلاف درخواست نہیں دی، 24 جولائی کو مدعی نے ملزمان کیخلاف درخواست دی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق 18سے 20 جولائی صبح 10بجے تک مقتولہ کا موبائل کام کررہاتھا، ریکارڈ کے مطابق نور مقدم کو فون ، میسجز آتے بھی رہے اور وہ کرتی بھی رہی، جس کے بعد نور مقدم نے 18سے 20 جولائی تک 15 یا تھانے میں خطرے کی اطلاع نہیں دی اور نہ کسی چاہنے والے کو خطرے کا پیغام دیا۔

    عبدالستار نے اپنے بیان میں کہا کہ ملزمان افتخار،محمد جان ،جمیل کا چہرے کی شناخت کا موازنہ نہیں کرایا اور کیس کا کوئی چشم دید گواہ بھی سامنے نہیں آیا۔

  • نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم  ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش ناکام

    نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش ناکام

    اسلام آباد : عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ذہنی مریض ہونے کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں نور مقد م قتل کیس کی سماعت ہوئی ، ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ذہنی مریض ہونے کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔

    بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست مسترد کردی۔

    خیال رہے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کو سزا سے بچانے کیلئے ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں ملزم کے ذہنی مریض ہونے کی درخواست شروع میں دی جاتی ہے ، ابھی کیس اپنے انجام کے قریب ہے۔

    وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزم کوبچانےکےلئے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کےتحت یہ درخواست دی گئی لیکن یہ آخری حربہ تھا، میرا خیال ہےکہ ان کا یہ حربہ ناکام ہو جائے گا۔

    مدعی وکیل نے مزید کہا تھا ملزم کےخلاف شواہداس قدر مضبوط ہیں کہ امیدہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

  • نور مقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ ، ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش

    نور مقدم قتل کیس میں ڈرامائی موڑ ، ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ، مدعی شوکت مقدم کےوکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ملزم کے خلاف شواہد اس قدر مضبوط ہیں کہ امیدہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کو سزا سے بچانے کیلئے ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے ذوالقرنین حیدر نے کیس کے حوالے سے بتایا کہ کیس کا ٹرائل تیزی سے جاری ہے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جس میں کئی گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جاچکے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کیس میں ایک نیا موڑ آیا ہے کہ وکیل کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ، جس میں ملزم ظاہر جعفر کو ذہنی معذور قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

    ذوالقرنین حیدر نے مزید بتایا گذشتہ سماعت میں ایک گواہ نے بیان میں کہا تھا کہ جب واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد وہاں پہنچے تو نور مقدم کا سر دھڑ سے الگ پڑا تھا اور 4 افراد نے ملزم ظاہر جعفر کو پکڑا ہوا تھا۔

    دوسری جانب اس حوالے سے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں ملزم کے ذہنی مریض ہونے کی درخواست شروع میں دی جاتی ہے ، ابھی کیس اپنے انجام کے قریب ہے۔

    وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملزم کوبچانےکےلئے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کےتحت یہ درخواست دی گئی لیکن یہ آخری حربہ تھا، میرا خیال ہےکہ ان کا یہ حربہ ناکام ہو جائے گا۔

    مدعی وکیل نے مزید کہا ملزم کےخلاف شواہداس قدر مضبوط ہیں کہ امیدہے کہ اسے سخت سزا ملے گی۔

  • ظاہر جعفر  نے نور مقدم  کو کیسے قتل کیا؟ سی سی ٹی وی ٹرانسکرپٹ میں دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آگئے

    ظاہر جعفر نے نور مقدم کو کیسے قتل کیا؟ سی سی ٹی وی ٹرانسکرپٹ میں دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آگئے

    اسلام آباد : پراسیکیوشن نے نور مقدم قتل کیس میں سی سی ٹی وی کا ٹرانسکرپٹ سیشن جج کی عدالت میں جمع کرادیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ نور کو قتل کرتے وقت مناظر کا ذکر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ اسلام آبادمیں نور مقدم قتل کیس سےمتعلق شواہدجمع کرادیےگئے ، جس میں‌ پراسیکیوشن نےسی سی ٹی وی کا ٹرانسکرپٹ سیشن جج کی عدالت میں جمع کرایا۔

    ٹرانسکرپٹ میں کہا گیا ہے کہ 19جولائی رات 2بجکر39 منٹ پر ظاہراورنور مقدم بیگ لیکر گیٹ سے نکلتے نظرآتےہیں، رات مین گیٹ کے باہر ٹیکسی میں سامان رکھ کردوبارہ گھرمیں داخل ہوئے، 2بجکر41منٹ پر نورمقدم خوف میں گیٹ کی طرف بھاگ کرآتی ہے اور نورمقدم کےباہرآنےپرچوکیدار افتخار گیٹ کوبندکرتانظر آتا ہے۔

    سی سی ٹی وی کے ٹرانسکرپٹ میں دیکھا گیا کہ ظاہر جعفرگھرسے جلدی میں گیٹ پر آکرنور مقدم کوپکڑ لیتاہے، نور مقدم ہاتھ جوڑ کرظاہر کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہے لیکن ظاہرجعفر نورمقدم کوزبردستی کھینچ کر گھر لے جاتاہے۔

    ٹرانسکرپٹ کے مطابق ظاہرنور مقدم کوکیبن سےنکال کرگھر میں گھسیٹ کرلے جاتا ہے اور نورمقدم کا کیبن کھول کرموبائل فون چھینتا اور دوڑ کر نور مقدم کو پکڑ کر گیٹ پر بنی کیبن میں بند کرتا نظرآتا ہے۔

    ٹرانسکرپٹ میں ظاہر فرسٹ فلورکے ٹیرس سےچھلانگ لگاکرگراونڈفلورپرآتانظرآتاہے جبکہ نورمقدم باہرجاناچاہتی تھی لیکن چوکیدار افتخار اور مالی گیٹ بند کردیتا ہے۔

    سی سی ٹی وی ٹرانسکرپٹ میں نورمقدم کے ہاتھ میں فون تھا وہ لڑکھڑاتی ہوئی بیرونی مین گیٹ پرآئی، شام 7بجکر 12منٹ پرنور مقدم فرسٹ فلورسے چھلانگ لگا کر گرتی ہے۔

    ٹرانسکرپٹ کے مطابق 20جولائی 8بجکر 6منٹ پر تھراپی ورکس کی ٹیم گھر کے گیٹ سے اندر آتی ہےاور 8بجکر55منٹ پرتھراپی ورکس زخمی کو گیٹ کی طرف لے جاتے نظر آتے ہیں۔

  • نور مقدم قتل کیس میں گرفتار ایک ملزم کی ضمانت منظور

    نور مقدم قتل کیس میں گرفتار ایک ملزم کی ضمانت منظور

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں گرفتار ایک ملزم کی ضمانت منظور کرلی ، جمیل احمدکیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا باورچی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم قتل کیس میں گرفتار جمیل احمد کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی ، دوران سماعت جسٹس  عامر فاروق نے گرفتار ملزم کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

    عدالت نے گرفتار جمیل احمد کی درخواست ضمانت منظور کرلی ، جمیل احمد کی ضمانت 50ہزار کے مچلکوں کےعوض منظور کی گئی، جمیل احمد کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے باورچی ہیں۔

    یاد رہے گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی والدہ عصمت ذاکرکی ضمانت منظورکی تھی اور دس لاکھ کے مچلکے  جمع کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ والد ذاکر جعفر کی درخواست خارج کردی تھی۔

  • نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری

    نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت پر فیصلے میں کہاہے کہ عصمت ذاکر کی خاتون ہونے کے ناطے درخواست ضمانت منظور کی جاتی ہے ، ضمانت کے غلط استعمال کی صورت میں ضمانت واپس لی جاسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کے معاملے پر سپریم کورٹ نےذاکرجعفر، عصمت ذاکرکی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، 3صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس عمرعطابندیال نےتحریرکیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عصمت ذاکرکی خاتون ہونےکےناطےدرخواست ضمانت منظورکی جاتی ہے، وہ 10لاکھ روپےکےضمانتی مچلکے جمع کرائیں تاہم ضمانت کے غلط استعمال کی صورت میں ضمانت واپس لی جاسکتی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا ہے کہ عصمت ذاکرکو دفعہ 497کی ذیلی شق ایک کےتحت ضمانت دی جاتی ہے، قانون کےتحت 16سال سے کم عمر ملزم، خاتون یا بیمار کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ذاکرجعفرکی درخواست ضمانت واپس لینےکی بنیادپر خارج کی جاتی ہے جبکہ اسلام آبادہائیکورٹ کا 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کافیصلہ برقرار رہے گا۔

  • نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی والدہ کی ضمانت منظور

    نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی والدہ کی ضمانت منظور

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفرکی والدہ عصمت ذاکرکی ضمانت منظور کرلی اور دس لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔

    ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ دونوں درخواست گزار مرکزی ملزمان نہیں، ان پر قتل چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دینے کا الزام ہے، والد کی بیٹے سے بات ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اپنی رائے دے کر پراسیکوشن کے مقدمے کو ختم نہیں کر سکتے جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے کالز میں والد قتل کا کہہ رہا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ روک رہا ہو۔

    جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ بھی ممکن ہے بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو، عدالتی استفسار پر وکیل مدعی نے بتایا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے،ذہنی کیفیت جانچنے کیلئے کوئی معائنہ نہیں ہوا۔

    جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل کے شواہد نہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا ماں نے 2کالز گارڈ کو کی ہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سفاک قتل ہےجس کو چھپانےکی کوشش کی گئی جبکہ جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتاہے۔

    عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے والدہ کی بھی 11 کالز کا ریکارڈ موجود ہونے کا موقف اپنایا، جس پر عدالت نے کہا کہ ملزم کی والدہ کا کردار سیکنڈری ہے۔

    سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے والد ذاکر جعفر کی درخواست خارج اور والدہ عصمت بی بی کی درخواست ضمانت دس لاکھ روپے کے مچلکوں کےعوض منظور کر لی اور کہا ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔

  • نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت  تمام ملزمان  پر فرد جرم عائد

    نور مقدم قتل کیس : مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد

    اسلام آباد : نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر ، والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت جعفر سمیت تمام ملزموں پر فرد جرم عائد کر دی گئی، ظاہر جعفر نے کہا جیل میں نہیں رہ سکتا،پھانسی دے دیں یا معافی دےدیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت میں نور مقدم کیس کی سماعت ہوئی ، پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم ظاہر جعفر ، والد ذاکر جعفر، والدہ عصمت جعفر سمیت تمام ملزمان کو عدالت پیش کیا گیا۔

    دوران سماعت ملزمان عصمت آدم ، ذاکر جعفر ، طاہر ظہور کے وکلا نے عدالت میں دلائل دئیے، ملزم ظاہر جعفر نے مکالمے میں کہا یہ میرا وکیل نہیں ہے مجھے  بولنے کا موقع دیا جائے ، جس پر وکیل رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ میں ملزم ذاکر جعفر کا وکیل ہوں۔

    ملزم ظاہر جعفر نے بیان میں کہا میں ایک فون کال کرنا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیں ، میں اس کیس کو مضبوط کرنے کے لیے کال کرنا چاہتا ہوں ،جس پر وکیل رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے شواہدناکافی ہیں۔

    عدالت نے ملزم کے وکیل رضوان عباسی سے سوال کیا شریک ملزم کون ہے ؟ جس پر ملزم ظاہر جعفر نے الزام عائد کیا کہ میرے ساتھ کھڑے ملزمان نے اس کو مارا ہے، آپ چارج لگا رہے ہیں یا نہیں۔

    ظاہرجعفر نے اعتراف کیا کہ میرے ہاتھ سے ہواتھا ہاں میں مانتا ہوں ، مجھے سزا دینی ہے یا معافی دینی ہے میرے ساتھ کیاکریں گے ، جج صاحب یہ میں نے کیا تھا ، پسٹل میرے باپ کا ہے ، م مجھے گھر میں قید کر دیں ،جیل میں مارتے ہیں ، جیل میں نہیں رہ سکتا،پھانسی دے دیں یا معافی دےدیں ، ہم لڑے تھے میری غلطی تھی وہ بھی غصے میں تھی۔

    مرکزی ملزم نے نور مقدم کے والد سے مکالمے میں کہا کہ میں اور آپ کی بیٹی پیار کرتے تھے ، 3سال ہم تعلق میں رہے ہیں، میری زندگی آپکےہاتھ میں ہے آپ بچاسکتےہیں ، آپ میری زندگی لینا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

    عدالت نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی تاہم تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا۔