Tag: نومبر انتقال

  • اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ پاکستان میں پنجابی فلموں کے اس مقبول ترین ہیرو کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو اس کار میں اُن کے ساتھ موجود تھے۔ اقبال حسن نے جائے حادثہ پر ہی دَم توڑ دیا تھا جب کہ اسلم پرویز ایک ہفتے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ دونوں‌ فن کار فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد لاہور میں‌ فیروز پور روڈ سے اپنی کار میں گزر رہے تھے کہ ایک ویگن سے تصادم ہوگیا۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ فلمی دنیا میں‌ ایک مثال ہے۔ 1981ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ فلم شیر خان کا مرکزی کردار نبھانے کے بعد اقبال حسن ایکشن پنجابی فلموں کے دور میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے بعد تیسرے کام یاب ترین اداکار بن گئے تھے۔ فلم ساز یونس ملک کو زبردست مالی منافع ہوا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اقبال حسن کے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس رکھ کر کہا، اس میں‌ سے جتنی رقم لینا چاہیں لے سکتے ہیں۔ اقبال حسن نے دونوں‌ ہاتھوں میں‌ جتنے نوٹ سمائے اس بریف کیس سے نکالے اور کہا بس یہی دولت میرے نصیب کی تھی۔ یوں‌ باقی رقم یونس ملک واپس لے گئے۔ یہ واقعہ اقبال حسن کی اعلیٰ‌ ظرفی اور یونس ملک کی دریا دلی کی مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور پنجابی فلموں‌ کے شائقین میں ازحد مقبول ہوئے۔ اقبال حسن لاہور میں اندرونِ گیٹ ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ فلم میں کام کرنے کا شوق بھی تھا اور وہ محنتی بھی تھے۔ اقبال حسن کے بھائی بھی فلمی دنیا سے بطور اداکار وابستہ تھے اور انھون نے اقبال حسن کو ایک کیمرہ مین کے اسسٹنٹ کے طور پر کام پر لگا دیا۔ یہ ایک قسم کی محنت مزدوری اور بھاگ دوڑ ہی تھی۔ لیکن انھوں نے کسی طرح فلم میں کام حاصل کر لیا۔ اقبال حسن کے فلمی کیریئر کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سسّی پنّوں سے ہوا۔ اقبال حسن نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت پنجابی میں‌ بننے والی فلموں کی وجہ سے ہے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی ایک عہد ساز شخصیت تھے، جن کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی اور ترویج میں شباب کیرانوی کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    معروف فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر شباب کیرانوی 5 نومبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفرنگر (اُترپردیش ) کا ایک معروف قصبہ ہے جہاں شباب کیرانوی نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد کے برسوں میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوگئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ لکھنے لگے۔ شاعری کے ساتھ وہ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کرکے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کردیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔ ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    انھوں نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔

    لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ شباب کیرانوی کو وفات کے بعد اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن اَروِنگ کو دنیا کے بہترین مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے جس کی ہجو میں تضحیک اور تذلیل نہ تھی اور جس کی ظرافت نے محض ٹھٹھا اور تمسخر نہیں اڑایا بلکہ اسے اپنے پُرکشش طرزِ بیان سے دل چسپ بنا دیا۔ 1859ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے ارونگ کی کتابیں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس نے اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی تھی اور کالج میں داخلہ لینے کے بجائے نئے نئے مقامات پر جانے، گھومنے پھرنے اور مختلف لوگوں سے میل ملاقات کا شغل اختیار کیا۔ وہ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا۔ یہ سب اسے بچپن ہی سے پسند تھا۔ اس شوق اور سیلانی طبیعت نے اروِنگ کو ایک سیّاح کے طور پر شہرت دی اور پھر امریکا کے مقبول مصنّفین کی صف میں‌ لا کھڑا کیا۔ بطور مصنّف اروِنگ کو پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد اپنے وطن لوٹا اور اپنا سفر نامہ شایع کروا دیا۔ بعد کے برسوں میں واشنگٹن اروِنگ کو دنیا نے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے پہچانا۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا ہے، ‘میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔’

    وہ 1783ء میں‌ نیویارک کے ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک محبِّ وطن مشہور تھا اور یہی خوبی اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس کو عظیم اور سب سے خوب صورت خطّہ مانتا تھا اور اس کے قدرتی نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ایک نہایت ملن سار تھا، وضع دار اور مجلس پسند شخص تھا۔ اسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور بہادر و مہم جُو قسم کے لوگ پسند تھے وہ دنیا کی سیر، بالخصوص تاریخی مقامات اور نوادرات دیکھنے کا شوق اور منفرد اور نمایاں کام کرنے والوں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور ہر اس جگہ پہنچنے کو بیتاب ہو جاتا جہاں کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوسکتی تھی۔

    اروِنگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اروِنگ کا نام مشہور ہوگیا۔

    اروِنگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کر دی۔ 1849ء میں ارونگ نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دور کے اہم واقعات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف ثابت ہوئی۔

    اروِنگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    اس مصنّف اور مضمون نگار کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام نے امریکی معاشرے اور وہاں ثقافت کو بہت متأثر کیا اور جس کا ثبوت امریکا کے مختلف شہروں میں اروِنگ کے یادگاری مجسمے اور اس سے موسوم متعدد لائبریریاں ہیں۔

    پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں نے اروِنگ کی کتابوں اور منتخب مضامین کو انگریزی سے اردو میں ڈھالا اور یہ قارئین میں مقبول ہوئے۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے 1930ء میں ارونگ کی کتاب “Tales of the Alhambra” کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو اس زمانے کی مقبول کتاب بنی۔کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ اسی طرح اس کا طلسماتی سپاہی کا قصہ سیّد وقار عظیم کے قلم سے اردو میں‌ ترجمہ ہوا اور پسند کیا گیا۔

  • شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری نے برصغیر اور متحدہ ہندوستان میں اہلِ قلم اور اردو داں طبقہ میں ممتاز کیا اور ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے بھی انھوں نے بلند مقام و مرتبہ پایا۔

    شبلی کے والد شیخ حبیب ﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر و ادب کے بڑے رسیا تھے۔ رفاہِ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھوں نے اپنے بچّوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم دلائی تھی۔ علامہ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند جیّد علماء سے استفادہ کیا۔ انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ علمِ دین سیکھا۔ بعد میں وکالت کا امتحان پاس کیا، لیکن اس میں ان کا دل نہیں‌ لگا۔

    ان کے والد علی گڑھ تحریک کے ابتدائی ہم نواؤں میں سے تھے اور سر سیّد کے ساتھ رہے تھے۔ شبلی کبھی شعر و شاعری کی محفل سجاتے، کبھی طلبہ کو درس دیتے یا مطالعہ کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے۔ چناں چہ اپنے اسی ذوق و شوق اور علمی و ادبی مشاغل کی وجہ سے علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں سرسیّد اور بعد میں پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیال نے ان کے ذوق و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ شبلی سرسیّد کی زبان بولنے لگے اور مضامین و مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو سرسیّد کے افکار و خیالات کے زیراثر تھے۔ شبلی نے اپنی تحریروں‌ میں ہندوستان مسلمانوں کو اپنے اسلاف اور رفتگاں کی تعلیم اور مختلف ادوار میں مسلمانوں کی ترقیوں کے بارے میں‌ بتایا اور علم و عمل کی ترغیب دی۔شبلی نے اسلام اور شعائرِ اسلام پر دنیا کے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ ان کی شاعری سے زیادہ نثر مشہور ہوئی جو ان کی علمیت کے ساتھ اسلوب کا بھی پتا دیتی ہے۔

    وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1882ء میں علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہونے کے بعد انھیں وہاں مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ و رسم اور ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کے باعث وہ جدید فکر و نظر کے حامل اور باکمال سیرت و سوانح نگار بنے۔ سیرت النّبی‌ ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔

  • این جی مَجُمدار: خزانے کی حرص میں ڈاکوؤں نے بیش قیمت موتی مٹّی میں ملا دیا

    این جی مَجُمدار: خزانے کی حرص میں ڈاکوؤں نے بیش قیمت موتی مٹّی میں ملا دیا

    این جی مَجُمدار خزانہ ہی تلاش کررہے تھے، لیکن جس خزانے کی حرص میں‌ ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کیا تھا، وہ ان کے کسی کام کا نہ تھا۔ 11 نومبر 1938ء کو ڈاکوؤں کے حملے میں مجُمدار مارے گئے جب کہ ان کے ساتھی زخمی ہوگئے۔

    مَجُمدار ماہرِ آثارِ قدیمہ تھے جو اس روز وادیٔ مہران کے ایک مقام پر تہذیب اور تمدّن کے جواہر اور وہ موتی تلاش کررہے تھے جن کو ہزاروں سال سے پہلے زمین نے اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجُمدار کو ضلع دادو کے قریب جوہی کے پہاڑی سلسلے میں قتل کیا گیا تھا۔

    بتایا جاتا ہے کہ پہاڑوں میں سے این جی مجمدار کی لاش کو شہر تک لانے کے لیے اس وقت کی ضلع انتظامیہ کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی لاش بمشکل کاچھو کے میدانی علاقے میں گاج ندی کے کنارے گاج بنگلو تک لائی گئی۔

    وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوج میں 1926ء سے 1930ء تک مجمدار نے اپنی ٹیم کے ساتھ کئی قدیم مقامات دریافت کیے جن میں کاہو جو دڑو، چانہیوں جو دڑو، کوٹ ڈیجی، روہڑی، لوہم جو دڑو، واہی پاندھی کے ٹیلے، غازی شاہ دڑو، گورانڈی کے ٹیلے، جھکر کے ٹیلے، علی مراد دڑو، ٹنڈو رحیم ٹیلہ، منچھر جھیل کے کناری پیر لاکھیو دڑو، پیر مشاخ، لہڑی، ٹہنی کے ٹیلے، نئیگ وادی میں لکھمیر کا ٹیلہ، آمری تہذیب کے ٹیلے وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ میں ضلع ٹھٹہ میں واقع تھارو پہاڑی کے آثار اور سیہون کے قریب جھانگارا کے قدیم آثار بھی انہی کی دریافت بتائے جاتے ہیں۔

    برطانوی راج میں مَجُمدار نے ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے قابلِ ذکر خدمات انجام دیں اور ایک تصنیف بھی یادگار چھوڑی۔ وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام نینی گوپال مجمدار تھا جنھیں این جی مَجُمدار پکارا جاتا ہے۔ 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم اے کرنے والے مجمدار نے فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی تھی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔

    این جی مَجُمدار نے سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے دور کے 62 آثارِ قدیمہ دریافت کیے جس کی تفصیل ان کی تصنیف ‘ایکسپلوریشنس اِن سندھ’ میں ملتا ہے۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمۂ آثارِ قدیمہ میں ملازم ہوئے اور 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی برس کلکتہ میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کے ساتھ انھوں نے قدیم آثار کی کھوج اور دریافت کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کے کام اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے 1938ء میں انھیں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا۔ اس سے قبل مجُمدار موہن جودڑو میں کھدائی اور تحقیق کے کام میں‌ سَر جان مارشل کے معاون کے طور پر بھی کام کرچکے تھے۔

    این جی مجُمدار کو ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں کے بارے میں ان کے تحقیقی مقالے پر ‘گریفتھ’ یادگاری انعام بھی دیا گیا تھا۔

    جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں‌ عام لوگوں کے ذہن میں یہ تصوّر تھا کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے جسے یہ لوگ کھدائی کے دوران نکال لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں اور ماہرینِ آثار ان کی باقیات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ زمین میں دفن ہوجانے والی قیمتی اشیا بھی نکال کر لے جاتے ہیں۔

    این جی مجُمدار کی کتاب ‘ایکسپلوریشنس ان سندھ’ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی جس میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور سندھ کے قدیم ٹیلوں اور ان مقامات سے برآمد ہونے والی اشیاء سے متعلق تحقیق اور اس کی تفصیل شامل ہے۔

  • خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    حیدر دہلوی کو فنِ‌ شاعری پر ان کے عبور اور ان کی سخن گوئی کے سبب خیّامُ‌الہند کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شعرا میں استاد شاعر کا درجہ رکھتے تھے۔ آج حیدر دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ وہ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کرنے لگے اور جلد ہی شعرا کے درمیان پہچان بنانے میں‌ کام یاب ہوگئے۔ ان کا تعلق شعرا کی اس نسل سے تھا جن کی اصلاح اور تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔

    10 نومبر 1958ء کو حیدر دہلوی نے کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا اصل نام سید جلال الدّین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حیدر دہلوی پاکستان آگئے اور یہاں کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ کراچی میں‌ بزم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں حیدر دہلوی نے باذوق سامعین کو متوجہ کیے رکھا۔ اردو ادب اور شعرا سے متعلق کتب میں حیدر دہلوی کی زندگی، ان کی شاعری اور یادگار مشاعروں کا تذکرہ ہے اور بعض ادبی واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو حیدر دہلوی اور ان کے ہم عصر شعرا سے متعلق ہیں۔

    انھوں نے اپنی شاعری بالخصوص خمریات کے موضوع کو اپنے تخیل سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ خیامُ الہند کہلائے۔ حیدر دہلوی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ انھیں کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    حیدر دہلوی کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    سترھویں صدی کا جان ملٹن اپنی شاعری کے سبب انگریزی ادب میں ممتاز اور دنیا بھر میں اپنے افکار اور تخلیقات کی وجہ سے پہچانا گیا۔ تنقید نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست بنائی جائے اور اس میں ملٹن کا نام شامل نہ ہو تو اسے نامکمل سمجھا جائے گا۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ اُس کے گھر کا ماحول اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ معاون ثابت ہوا اور ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں ملٹن کی پرورش ہوئی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • ول ڈیورانٹ: عالمی شہرت یافتہ مؤرخ اور فلسفی کا تذکرہ

    ول ڈیورانٹ: عالمی شہرت یافتہ مؤرخ اور فلسفی کا تذکرہ

    ول ڈیورانٹ کو برصغیر میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف ادوار پر اپنی مشہور تصنیف کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اسے ایک مؤرخ اور فلسفی کی حیثیت سے دنیا بھر میں شناخت اور اس کے کام کو پذیرائی ملی۔

    ول ڈیورانٹ کی انگریزی میں تحریر کردہ کتابوں‌ کے اردو تراجم کی بدولت مطالعہ کے شائق اور بالخصوص تاریخ کے طالبِ علموں کو بہت فائدہ ہوا۔ اس کی تحریروں پر اعتراض اور ہندوستان میں اس کے خیالات سے اختلاف بھی کیا گیا، لیکن اس بات سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا کہ ول ڈیورانٹ کی تہذیب و ثقافت پر کئی جلدوں کی محنت نے ہندوستان میں لوگوں کو اپنی تاریخ کے بارے میں جاننے اور سمجھنے ہی کا موقع نہیں دیا بلکہ طلبا میں فلسفے کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا کیا۔

    اس مشہور مفکّر اور مؤرخ کی ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدن و فلسفہ پر مبنی کتب مستند مانی جاتی ہیں۔ ول ڈیورانٹ کا طرزِ بیان خاصا مختلف ہے۔ ‘گریٹ مائنڈز اینڈ آئیڈیاز آف آل ٹائمز’ اس کی وہ تصنیف ہے جس میں ہندوستان سے متعلق ابواب میں اس نے نہایت منفرد اسلوب اپنایا۔ تشبیہات، استعاروں اور تلمیحات نے اس کی تحریر کو پُراثر بنا دیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں مصنّف نے ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدّن اور فلسفہ کا قبل از مسیح سے بعد از مسیح مفصّل تاریخی جائزہ پیش کیا ہے۔

    ول ڈیورانٹ کی دیگر اہم اور مشہور ترین تصانیف میں ’اسٹوری آف فلاسفی‘ اور ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ شامل ہیں۔

    اردو زبان میں ول ڈیورانٹ کی کتابوں کا ترجمہ عابد علی عابد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اجمل، ظفرُالحسن پیرزادہ اور طیّب رشید و دیگر نے کیا ہے جنھیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ’اسٹوری آف سویلائیزیشن‘ ول ڈیورانٹ کی 11 جلدوں‌ پر مبنی کتاب ہے اور کئی سال کی محنت اور لگن سے مکمل کی گئی یہ کتاب مصنّف کا کارنامہ ہے۔ ول ڈیورانٹ کے یوں تو سارے کام بڑے ہیں لیکن اہم اور نمایاں تصنیف ’سٹوری آف فلاسفی‘ اور گیارہ جلدوں میں ’سٹوری آف سویلائزیشن‘ ہیں۔ اس کتاب میں ان کو اپنی اہلیہ ایریل کی مدد بھی حاصل رہی اور کہا جاتا ہے کہ ول ڈیورانٹ نے اس کے بعد مزید کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ گیارہ جلدیں ان کا نام باقی رکھنے کے لیے کافی تھیں۔

    اس مصنّف کا پورا نام ول ڈیورانٹ نارتھ ایڈمز تھا۔ امریکا کے علاقے میساچوسٹس میں 5 نومبر 1885ء کو آنکھ کھولنے والے ول ڈیورانٹ کو اس کی تصانیف نے تاریخ و ادب کی دنیا میں بڑا مقام دلوایا۔ اسے 1968ء میں پلٹزر پرائز اور 1977ء میں صدارتی تمغا برائے آزادی سے نوازا گیا تھا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد ول ڈیورانٹ نیو جرسی شہر کے کالج میں‌ داخل ہوا اور گریجویشن کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا۔ اس وقت تک وہ متعدد زبانیں‌ سیکھ چکا تھا اور اپنے اس شوق اور زبانوں پر عبور کی وجہ سے نیو جرسی کی ایک جامعہ میں لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور جیومیٹری پڑھاتا رہا۔ 1913ء میں شادی کے بعد اس نے ملازمت چھوڑ دی اور یورپ کے دورے پر نکل گيا بعد میں وہ ایک گرجا گھر میں درس دینے پر مامور کیا گیا۔

    فلسفہ اور تاریخ ول ڈیورانٹ کا محبوب موضوع تھے۔ ول ڈیورانٹ نے 1917ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اسی زمانے میں اس کی پہلی کتاب شایع ہوئی جس کا نام تھا، "فلسفہ اور سماجی مسائل۔” ول ڈیورانٹ کا خیال تھا کہ فلسفہ میں سماجی مسائل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی دیگر کتب منتقلی (Transition) 1927، فلسفہ کی عمارت (The Mansions of Philosophy) 1929، زندگی کی تشریح (Interpretations of Life) 1970 میں شایع ہوئیں۔

    1981ء میں آج ہی کے دن ول ڈیورانٹ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔ اس نے 96 سال کی عمر میں لاس اینجلس میں وفات پائی۔

  • ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    مولوی محمد ذکاءُ اللہ انیسویں صدی میں اپنے علمی اور ادبی مشاغل کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھیں شمسُ العلماء کا خطاب دیا گیا۔ مولوی صاحب تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اپنی کوششوں کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب کو پنپنے کا موقع ملا رہا تھا اور ضروری تھا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ کریں۔ ان حالات میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے فروغ کے حمایتی اور تعلیمِ نسواں کے پرچارک بن کر سامنے آئے۔

    ادبی تذکروں کے مطابق مولوی ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی تھی۔ ان کا سنہ پیدائش 1832ء ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ کے زیرِ سایہ مکمل ہوئی۔ کم عمری ہی میں وہ عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوگئے تھے اور مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ اس مضمون میں مہارت ایسی بڑھی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے ایک استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے تھے۔ ان کی قابلیت اور مضمون میں مہارت نے انھیں دہلی کالج ہی میں ریاضی کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں تعلیمی اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کو دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کا مدرس بھی مقرر کیا گیا جب کہ میور سنٹرل کالج میں بھی عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم مشہور ہوئے۔

    انھوں نے تدریس کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاجِ‌ برطانیہ کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔ تعلیمِ نسواں کے ضمن میں کاوشوں پر مولوی صاحب کو انگریز سرکار نے خلعت سے نوازا تھا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور ایسے مصلح ثابت ہوئے جن کا کام نہایت افادی اور ایک بیش قیمت سرمایہ تھا جس سے ہندوستان بھر میں مسلمان مستفید ہوئے۔

    7 نومبر 1910ء کو مولوی ذکاء اللہ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں ایک مؤرخ، ماہرِ‌تعلیم، اور مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مولوی محمد ذکا اللہ دہلوی اردو کے مشہور مورخ اور مترجم ہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ "تاریخِ ہندوستان ” ہے جسے مستند ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کئی جلدوں‌ پر مشتمل ہے۔ مسلمان اور سائنس کے نام سے کتاب کے علاوہ تہذیب الاخلاق اور تاریخ کے کئی موضوعات پر ان کے قلم سے نکلی ہوئی‌ کتابیں‌ ہی نہیں ریاضی، کیمیا، جغرافیہ اور فلسفہ کے موضوع پر انھوں نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

  • محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

    وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔