Tag: نومبر انتقال

  • ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    مارگریٹ مارکیوس وہ نام تھا جو مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے دیا تھا۔ 24 مئی 1961ء کو جب وہ اپنے آبا و اجداد اور والدین کا مذہب ترک کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں تو یہ نام اپنا لیا۔

    22 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولنے والی مارگریٹ مارکیوس کا اصل وطن جرمنی تھا۔ ان کا خاندان 1848ء میں امریکا آگیا تھا اور یہ لوگ نیوروشیل میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اسکول کے ذہین بچّوں میں شمار ہوتی تھیں‌۔ ہائی اسکول سے فارغ ہوکر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر انھیں ایک بیماری کی وجہ سے مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی زمانے میں‌ مارگریٹ کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا۔

    1953ء میں وہ نیویارک یونیورسٹی میں داخل ہوئیں جہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کو کتابوں اور مختلف اسکالرز کی مدد سے سمجھنا شروع کیا تو 1956ء میں ایک مرتبہ پھر بیماری نے حملہ کر دیا اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار علالت اور بیماری کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کے ساتھ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن متعدد مذاہب اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے پر ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کو ملی۔ اس کے علاوہ وہ قرآن کے تراجم بھی پڑھ رہی تھیں اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اسپتال سے فراغت کے بعد اپنا مذہب ترک کردیں‌ گی وہ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے وہاں کے اسلامک سینٹر میں جانے لگیں اور کچھ عرصے سے والدین سے جو اختلاف پیدا ہوگیا تھا، 1959ء میں کافی بڑھ گیا۔ اس کا سبب مذاہب کا مسلسل مطالعہ اور یہودیت سے متعلق سوالات تھے، والدین نے ان کو علیحدہ کردیا اور مریم جمیلہ کو ملازمت کرنا پڑی۔

    اسی دوران انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ کے عنوان سے پڑھنے کا موقع ملا اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔ 1960ء کے آخر میں وہ مولانا سے خط و کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوگئیں۔ وہ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    بعد کے عرصہ میں‌ وہ مغرب میں ایک نامور مبلغۂ اسلام کے طور پر مشہور ہوئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آکر تہذیب و معاشرت کو قبول کر لیا۔ انھوں نے اردو زبان بھی سیکھ لی تھی۔ 1963ء کو ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مریم جمیلہ نے پاکستان میں 31 اکتوبر 2012ء کو سفرِ‌ آخرت اختیار کیا۔

  • واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن اَروِنگ نے باقاعدہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی اور کالج میں داخل ہونے سے بھی انکار کردیا، لیکن وہ سیروسیّاحت کا بڑا شوقین تھا۔ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا تھا۔

    آج دنیا اَروِنگ کو ایک عظیم سیّاح اور مقبول مصنّف کے طور پر جانتی ہے۔ اسے ایک مصنّف کے طور پر پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد وطن لوٹا اور اپنے سفر کی روداد کو کتابی شکل میں شایع کروایا۔ بعد میں اسے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی شہرت ملی۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے 1859ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اس نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا تھا، میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔

    ارونگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    واشنگٹن ارونگ نیویارک میں 1783ء میں‌ ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا۔اس کا باپ محبِّ وطن تھا اور یہی صفت اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس اور اس کے نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ملن سار تھا اور مجلس پسند بھی۔ اسے نت نئے اور تاریخی مقامات، نوادرات دیکھنے کے ساتھ مشہور شخصیات اور اُن لوگوں سے ملنا پسند تھا جو مہم جُو یا کسی اعتبار سے منفرد ہوں۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور یہ مقبول ترین کتاب ثابت ہوئی۔ ہر طرف ارونگ کی دھوم مچ گئی اور اس کی کتاب کا چرچا ہوا۔

    ارونگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کردی۔ 1849ء میں ارونگ نے حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور اس دور کے نمایاں واقعات بھی لکھے جو اس کا ایک بڑا کام ہے۔ اسی طرح حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف تھی۔

    ارونگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    واشنگٹن ارونگ کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام کا امریکی معاشرے اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکا کے مختلف شہروں میں اس کے مجسمے نصب ہیں اور متعدد لائبریریاں اس سے موسوم ہیں۔

    ہندوستان کے نام وَر ادیبوں اور مترجمین نے اس کے مضامین کا اردو ترجمہ کیا جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

  • معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    آج اردو اور فارسی کے معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کی برسی ہے۔ وہ 1959ء میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اسد ملتانی سول سرونٹ تھے۔

    وہ 1902ء میں متحدہ ہندوستان کے اُس وقت کے ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ محمد اسد خان نے 1924ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔ وہ علم و ادب کے رسیا اور شائق تھے اور اسی زمانے میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ملتان ہی سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء بھی کیا اور مطبعُ الشّمس قائم کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ”ندائے افغان” نکالا تھا۔

    1926ء میں اسد ملتانی نے انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں تقرری حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں دہلی اور شملہ میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد دارُالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بن کر آفس سنبھالا اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے۔

    1955 میں ریٹائرمنٹ لے کر ملتان آبسے اور یہاں علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ اسد ملتانی راولپنڈی میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    اردو کے اس قادرُ الکلام شاعر کے شعری مجموعوں میں مشارق، مرثیہ اقبال اور تحفہ حرم شامل ہیں جب کہ اقبالیات کے موضوع پر اقبالیاتِ اسد ملتانی شائع ہوچکی ہے۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    آج اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1976ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملےتھے۔

    وہ افسانوی ادب کے اوّلین نقّاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    وقار عظیم محقّق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ انھوں‌ نے متعدد کتب یادگار چھوڑیں جو علم و ادب کی دنیا کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان میں نثر اور نظم کی مختلف اصناف ہیں‌ جن پر انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    ان کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی علمی و ادبی تحریروں سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔

    وہ لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

    اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
    میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

    7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    پروفیسر کرّار حسین علم و آگاہی کا دبستان تھے۔ پاکستان میں دہائیوں تک عقل و خرد کے موتی رولنے والی اس بے مثل شخصیت سے جہانِ فکر و فن کی کئی ممتاز اور نمایاں شخصیات نے تعلیم اور راہ نمائی حاصل کی۔ پروفیسر کرّار حسین نے7 نومبر 1999ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔

    1911 ء میں انھون نے راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم ایک انگریزی اسکول سے حاصل کی اور گھر پر قرآن پڑھا۔ کرّار حسین نے 1925ء میں میٹرک اور 1927ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ وہ ذہین طالبِ علم اور شروع ہی سے غور و فکر کے عادی رہے۔ کتب بینی کا شوق تھا اور مطالعہ نے انھیں‌ سیاست کی طرف بھی مائل کیا۔ یہی وجہ ہے تھی کہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں طلبہ تنظیم اور سیاست میں نہایت فعال رہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ تقریری مقابلوں، ذہنی آزمائش اور مقابلۂ مضمون نویسی میں وہ اپنا نام ضرور لکھواتے تھے۔ انگریزی، اُردو ادب، تاریخ، فلسفہ، مذہب اور معاشرتی مسائل ان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات تھے، جب کہ فارسی ادبیات میں ازحد دل چسپی تھی۔

    آگرہ کے ’’سینٹ جونز کالج‘‘ میں داخلہ لینے کے بعد ہاسٹل میں رہے جہاں کرّار حُسین کا اکثر وقت تعلیمی مصروفیات کے ساتھ مطالعہ اور سماجی مسائل میں‌ غؤر و فکر کرتے ہوئے گزرنے لگا۔ اسی زمانے میں سیاسی محاذ پر فرنگی راج کے خلاف تحریکیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ وہ ’خاکسار تحریک‘‘ سے وابستہ ہوگئے، لیکن یہ وابستگی طویل عرصے تک برقرا نہ رہ سکی۔

    1932ء میں کرّار حسین نے میرٹھ کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے سال اسی کالج میں انگریزی ادب کے استاد بن کر تدریسی سفر کا‌ آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ متعدد کالجوں اور جامعات سے وابستہ ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تدریس ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصّہ تھا۔

    خاکسار تحریک سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی اور اردو زبان کے دو پرچوں کا اجرا کیا۔ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور فکری شعور و تجربات کی روشنی میں ان پرچوں میں‌ مضامین لکھتے رہے اور وہ وقت آیا جب سرکار نے ان پرچوں کے اجرا کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ دونوں پرچے مالی مسائل کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ ساتھ ہی کرّار حُسین کو ناپسندیدہ قرار دے کر داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    یہاں اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے اور پھر اِسی کالج میں وائس پرنسپل کے طور پر تعینات رہے۔ 1955-67ء تک میرپور خاص، خیر پور اور کوئٹہ میں مختلف کالجوں میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد میں‌ کراچی واپس آئے اور جامعہ مِلّیہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ 1977ء سے 1999ء تک کراچی میں ’’اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔

    پروفیسر کرّار حُسین رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اپنی انکساری و سادہ دلی کے ساتھ ایک نہایت شفیق استاد کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی شخصیت میں جہان و معانی کی دنیا آباد تھی۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی اور غالب: سب اچھا کہیں جسے شامل ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔

  • اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کو بچّوں کا بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب ان کی نظمیں بچّوں کو ہی نہیں ان کے والدین اور بڑوں کو بھی زبانی یاد تھیں اور چھوٹے بچّوں کو بہلانے اور انھیں خوش کرنے کے لیے بڑے خاص طور پر مائیں لوری کی صورت یہ نظمیں‌ سنایا کرتی تھیں۔

    نظم خدا کی تعریف کا یہ شعر دیکھیے:

    تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا
    کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

    اسی طرح ہماری گائے وہ ایک مشہور نظم ہے جس کا مطلع تھا:

    رب کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    آج اردو کے اس نام ور ادیب، شاعر اور مضمون نگار کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    مولوی اسماعیل میرٹھی نے 12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ کے ایک علاقے میں آنکھ کھولی۔ اسی شہر کی نسبت اپنے نام سے میرٹھی جوڑا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد کی زیرِ نگرانی گھر ہی پر حاصل کی۔ بعد میں اتالیق سے گھر پر مزید تعلیم مکمل کی اور عربی اور فارسی بھی سیکھی۔

    دورانِ تعلیم انھوں‌ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان میں بچّوں کی تعلیم و تربیت، ان میں دین و مذہب، اپنی روایات اور ثقافت کا شعور بیدار کرنے کی غرض سے اصلاحی مضامین لکھنا شروع کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں وہ ایک شاعر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے جنھوں نے کئی درسی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کی زیادہ تر نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض تحریریں فارسی اور انگریزی سے ماخوذ یا ترجمہ ہیں۔

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے شاعری کے علاوہ تصنیف و تالیف کے حوالے سے بالخصوص تعلیمی مضامین اور تدریس کے موضوعات پر کام کیا۔ ان کے مضامین اور نظمیں‌ آج بھی ہماری درسی کتب میں‌ شامل ہیں اور مختلف رسائل کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں۔

    ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ ادب میں ان کی ذہنی سطح اور زبان کو سمجھنے کی استعداد اور صلاحیت کو بھی پیشِ نظر رکھا۔ اسماعیل میرٹھی نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتّب کیا تھا۔

    مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے بچّوں کی نظموں کے علاوہ مقبول ترین صنفِ سُخن غزل میں بھی خوب طبع آزمائی کی جب کہ مثنوی، قصیدہ، رُباعی اور قطعہ نگاری بھی کی، تاہم اُن کی شہرت کا اصل میدان بچّوں کی شاعری ہی رہا۔

    اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عزم و حوصلے سے نونہالوں اور طلبہ میں ایسا ادبی ذوق بیدار کیا جس نے آنے والی کئی نسلوں کا نہ صرف نصاب سے بلکہ کتاب سے بھی رشتہ مستحکم تر کر دیا۔ گوپی چند نارنگ نے ان کے بارے میں‌ لکھا ہے کہ ’’وہ صرف عجیب چڑیا، گھوڑا، اونٹ، ملمع کی انگوٹھی، محنت سے راحت اور ہر کام میں کمال اچھا ہے کے، شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے ’’مناقشۂ ہوا و آفتاب‘‘، ’’مکالمۂ سیف و قلم‘‘، ’’بادِ مراد‘‘، ’’شفق، ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’آثار سلف‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھیں۔‘‘