Tag: نومبر برسی

  • احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، ادبی تذکرے، سوانح، شعری مجموعے اور غیرملکی زبانوں کے اردو تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں اور خالص علمی خزانے کوچۂ علم و فنوں میں قدم رکھنے والوں کے لیے یادگار چھوڑ گئے۔ تخلیقی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ وہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔

    احمد عقیل روبی نے تمام عمر عقل و دانشِ یونان کی ترویج کی اور خاص طور پر یونانی فلاسفہ کے بارے میں لکھا ہے، جب کہ اپنے ناولوں، ڈراموں اور افسانوں میں بھی وہ یونانی فلسفے کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر احمد عقیل روبی 23 نومبر 2014ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی کی شاعری بھی بہت خوب صورت ہے اور فلمی دنیا کے لیے ان کے کئی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ انھیں فلمی شاعری پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور فلسفہ و اساطیر پر ان کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احمد عقیل روبی کی تحریروں سے بھی علمیت اور فکر و دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    ان کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    غلام رسول مہر: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

    ہندوستان کی علمی و ادبی شخصیات میں‌ ایک بڑا نام غلام رسول مہرؔ کا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جنھیں انشا پرداز، ادیب، شاعر، جید صحافی، نقاد و مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔

    ممتاز علمی و ادبی شخصیت غلام رسول مہرؔ نے 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اساتذہ باکمال ملے، جیسے مولانا اصغر علی روحیؒ جو عربی اور فارسی کے اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ خواجہ دل محمد ریاضی دان، پروفیسر ہنری مارٹن جیسے پرنسپل جو انگریزی پڑھاتے تھے۔ طلبا میں ایسے ساتھی ملے جنھوں نے عملی زندگی میں بہت نام کمایا۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پہلے گورنر زاہد حسن اسلامیہ کالج میں مولانا کے ساتھی تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف اور رسائل کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی، علامہ اقبال کے معتمد خاص چودھری محمد حسین بھی اسلامیہ کالج کے دوستوں میں سے تھے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    تصنیف و تالیف اور قلم سے مولانا غلام رسول مہر کا تعلق پوری زندگی قائم رہا۔ نومبر 1921 میں زمیندار میں پہلا اداریہ لکھا اور اس کے بعد پچاس سال تک مسلسل لکھتے ہی رہے۔ اداریے لکھے، نظمیں کہیں، کتابیں تصنیف کیں، مضامین لکھے، تراجم کیے۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار کی زینت بنے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان کتابوں میں‌ تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام بہت مشہور ہیں۔ مولانا غلام رسول مہر نے ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی اور اسے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

    بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

    بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔

  • بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بی آر چوپڑا: منفرد فلم ساز، ایک باکمال ہدایت کار

    بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ایک ستون مانا جاتا ہے۔ بلدیو راج جنھیں عام طور پر بی آر چوپڑا پکارا جاتا ہے، ایسے فلم ساز تھے جس نے عام روش سے ہٹ کر فلمیں بنائیں اور فلم بینوں‌ کو اپنی فلموں سے متاثر کیا۔ بی آر چوپڑا 5 نومبر 2008ء کو چل بسے تھے۔

    94 سال زندہ رہنے والے بی آر چوپڑا 1914ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اور جوانی لاہور میں‌ گزری۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بی آر چوپڑا بھارت چلے گئے اور دہلی میں‌ قیام کیا، مگر پھر ممبئی منتقل ہوگئے۔

    یہ بھی پڑھیے:
    جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!

    بی آر چوپڑا کو انگریزی زبان و ادب کے ساتھ شروع ہی سے اردو ادب سے بھی لگاؤ رہا۔ وقت کے ساتھ فنونِ لطیفہ میں ان کی دل چسپی بڑھتی گئی۔ فلم بینی کا شوق ہوگیا اور اس قدر بڑھا کہ فلم سازی کی تکنیک، اور کہانی وغیرہ کے بارے میں اپنے علم اور بنیادی معلومات کے حصول کے بعد انھوں نے فلموں پر تبصرے کرنا شروع کردیے۔ اس دور کے انگریزی ماہ نامے میں ان کے فلمی تبصرے شایع ہونے لگے اور یہی آغاز فلم انڈسٹری میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کے کیریئر کی بنیاد بنا۔ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم نے انھیں جو تخلیقی شعور دیا تھا، اسی نے بی آر چوپڑا کو فلموں کا تنقیدی جائزہ لینے پر آمادہ کرلیا۔ وہ اس میدان میں کام یاب ہوئے۔ اس دور کی فلموں اور ان کے اسکرپٹ کی کم زوریوں اور خامیوں پر تبصروں نے بی آر چوپڑا کو بطور فلمی نقّاد مشہور کردیا۔ ان کی یہ قابلیت اور تنقیدی بصیرت ممبئی اُس وقت خود اُن کے کام آئی جب بی آر چوپڑا نے خود فلم سازی اور ہدایت کاری کا آغاز کیا۔

    1955ء میں انھوں نے بی آر فلمز کے نام سے باقاعدہ فلم کمپنی قائم کر لی۔ اس سے قبل وہ دو فلمیں بنا چکے تھے۔ بی آر چوپڑا تخلیقی انفرادیت کے قائل تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کیا۔ اسی روایت شکنی اور انفرادیت نے انھیں باکمال فلم ساز بنایا۔ بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور اداکاری بھی کی۔ 1949ء میں بی آر چوپڑا نے ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا تھا جو فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ 1951ء میں ان کی بطور ہدایت کار فلم ’افسانہ‘ سامنے آئی اور یہ ان کی پہلی کام یاب فلم بھی تھی۔ بی آر فلمز کے بینر تلے ان کی پہلی فلم ’نیا دور‘ تھی۔ فلم بینوں نے اسے بہت سراہا اور اس فلم نے کام یابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنیں جن میں‌ لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ بی آر چوپڑا نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا اور یہ تھا نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ بی آر چوپڑا فلم ’گھر‘ میں بطور اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔

    بھارت کے اس معروف فلم ساز اور ہدایت کار کے دل سے لاہور اور یہاں‌ جیون کے سہانے دنوں کی یاد کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بی آر چوپڑا کو فلم نگری میں اور بھارتی حکومت کی جانب سے کئی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے والے بی آر چوپڑا کو اس سے قبل فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کا بڑا نام

    شباب کیرانوی کو ایک عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستانی فلمی صنعت اور سنیما کی ترقّی و ترویج میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ شباب کیرانوی کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری ہے۔

    شباب کیرانوی ایک فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر بھی تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی وفات پاگئے تھے۔

    1925ء میں شباب کیرانوی نے کیرانہ، ضلع مظفر نگر (اُترپردیش، انڈیا) میں ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ شاعری کرنے لگے۔ اسی زمانہ میں شباب کیرانوی نے شاعری کے ساتھ ساتھ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینا شروع کردی۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کر کے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کر دیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔

    ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔ 1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    شباب کیرانوی نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔ لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وہ اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • برج موہن دتاتریہ کیفی: اردو زبان و ادب کی ایک بے بدل شخصیت

    برج موہن دتاتریہ کیفی: اردو زبان و ادب کی ایک بے بدل شخصیت

    کشمیر النسل پنڈت برج موہن دتاتریہ اردو زبان کے ایک بڑے عاشق تھے جنھیں ہم ایک ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس، ناول نگار اور انشا پرداز کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے ان کا جذبہ اور کاوشیں قابلِ رشک ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہیں۔ برج موہن دتاتریہ اردو زبان میں‌ تحقیق، تصنیف و تالیف پر مشتمل بڑا خزانہ چھوڑ گئے ہیں۔

    آج پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ایک شان دار شخصیت کے مالک اور نہایت شائستہ آداب تھے۔ ان کی خوش اخلاقی اور ملن ساری ہی‌ کی تعریف نہیں کی جاتی تھی بلکہ انھیں ہر قسم کے تعصب اور حسد سے دور رہنے والا بڑا انسان مانا جاتا تھا۔ ان کے والد پنڈت کنہیا لال ریاست نابھ میں افسر پولیس تھے۔ برج موہن دتاتریہ چھوٹے تھے جب وال چل بسے۔ برج موہن نے اپنے شوق اور محنت سے تعلیم حاصل کی اور الطاف حسین حالی کے شاگرد بنے۔

    پنڈت کیفی کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ انھوں نے کم عمری ہی سے شعر کہنا شروع کیا اور شاعری کی ابتدا رواجِ زمانہ کے مطابق غزل گوئی سے کی لیکن جدید رجحانات اور تحریکات کے زیرِ اثر نیچرل شاعری پر توجہ کی۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل اور نظم ہی ان توجہ کا مرکز رہی ہیں۔

    پنڈت کیفی نے لسانیاتی موضوعات پر کئی مضامین قلمبند کیے جو کیفیہ کے نام سے سنہ 1942ء میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کتاب کو اردو لسانیات کے ابتدائی اہم کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمِ لسانیات، قواعد، محاورہ اور روز مرہ سے برج موہن دتاتریہ کو ابتدا ہی سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے انشا کی کتاب ”دریائے لطافت” ترجمہ بھی کیا اور پنڈت کیفی کا یہ ترجمہ بہت سلیس، رواں اور بامحاورہ ہے۔

    معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے پنڈت برج موہن دتاتریہ کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔ بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام(شاعری) پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلّی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    اردو زبان کے اس عاشق کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔

    پنڈت کیفی کے سانحۂ ارتحال پر ڈاکٹر زور نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”ان کی وفات سے اردو دنیا ایک ایسے محسن سے محروم ہو گئی ہے جس کا بدل ملنا ممکن نہیں ہے۔ اردو میں شاعر، ادیب، ماہر لسانیات اور عروض و قواعد کے جد اجدا ماہر پیدا ہوتے رہیں گے۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا پیدا ہو جو ان سب میں پنڈت کیفی کی طرح ایک خصوصی اہمیت کا مالک ہو۔”

  • آسکر وائلڈ:‌ وہ انشاء پرداز جس کی شہرت کو زوال کی دھوپ نے جھلسا دیا

    آسکر وائلڈ:‌ وہ انشاء پرداز جس کی شہرت کو زوال کی دھوپ نے جھلسا دیا

    ملکی اور غیرملکی ادب کے قارئین کے لیے آسکر وائلڈ کا نام نیا نہیں، اس کی تخلیقات کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوئے۔ شگفتہ، برجستہ فقرے، خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح پر مبنی مختصر جملے اس کی انفرادیت ہیں۔

    آسکر وائلڈ آئرش شاعر، ڈرامہ نویس اور مضمون نگار تھا۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کے مخصوص رنگ کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے قارئین ہی نہیں اہلِ قلم اور اپنے دور کے ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ آسکر وائلڈ کی تحریریں اس کے تخلیقی وفور اور ندرتِ اسلوب کے اعتبار سے بے حد دل کش ہیں۔ شاعر تو وہ تھا ہی مگر اس کی وجہِ شہرت انشاء پردازی اور ڈرامہ نویسی ہے۔ اس کی نثر انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتی ہے اور اسی انداز نے اسے ہم عصر ادیبوں میں وہ امتیاز اور شہرتِ دوام بخشا جو بہت کم اہلِ قلم کو حاصل ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھیں جنھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    ادبی کتابوں کے مطالعہ نے آسکر وائلڈ کو کالج میں پہنچنے تک شاعر بنا دیا تھا۔ اس نے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام حاصل کیا تو اس کی شہرت عام ہونے لگی۔ 1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی اور ان کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے رہنے پر آمادہ کرلیا۔ اس نے شاعری جاری رکھی اور چند سال بعد 1881ء میں چند نظموں پر مشتمل مجموعہ شایع کروایا۔ اگلے چند سال بعد وہ نثر کی طرف مائل ہوگیا۔ 1891ء تک اس نے بطور ڈرامہ نویس اپنا سفر شروع کیا اور رزمیہ و بزمیہ ڈرامے لکھے۔ اس کے یہ ڈرامے بہت پسند کیے گئے۔

    آسکر وائلڈ نے نظم کے ساتھ مضمون نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں اپنے تخیل اور زورِ قلم کو آزمایا۔ وہ ادبی دنیا کا ایسا نام تھا جو آرٹ اور تخلیقی ادب پر اپنا نقطۂ نظر رکھتا تھا۔ اس نے مختلف ادبی موضوعات پر لیکچر دیے۔ آسکر وائلڈ نے امریکہ اور کینیڈا میں بطور نثر نگار اپنے افکار و خیالات سے اہلِ قلم کو متاثر کیا۔ 1890ء کی دہائی کا آغاز ہوا تو آسکر وائلڈ لندن کا مشہور ترین ڈرامہ نگار تھا۔ سرکار اور عوام کے ہر طبقہ میں‌ اس کے پرستار موجود تھے۔

    آسکر وائلڈ جرمن اور فرانسیسی زبانیں بھی جانتا تھا۔ اس کی تخلیقات کو متحدہ ہندوستان میں اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور ماہر مترجمین نے اردو میں ڈھالا اور یوں آسکر وائلڈ اردو قارئین میں مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے اور کہتے ہیں کہ وہ اکثر پیٹ بھر کھانے سے بھی محروم رہتا تھا۔ اس بڑے انشاء پرداز کی شہرت کے زمانے میں‌ یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ تلذز پسندی اور بدکاری میں‌ مبتلا ہے۔ ایک عرصہ اس نے اپنی شہرت کی آڑ میں اپنی قبیح حرکتوں کو چھپائے رکھا۔ لیکن پھر یہ معاملہ عدالت تک گیا اور الزامات درست ثابت ہوئے۔ آسکر وائلڈ کو ہم جنس پرستی کا مرتکب ہونے پر دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس واقعے نے آسکر وائلڈ کی شہرت کو دھندلا دیا اور وہ اپنی دولت اور مقام و مرتبہ سے بھی محروم ہوتا چلا گیا۔ اسے ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس نے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا اور آخری ایام اپنے بیٹے کے گھر پر گزارے۔ وہیں 1900ء میں آج کے دن آسکر وائلڈ کا انتقال ہوگیا۔

  • فیاض ہاشمی:‌ گیت نگاری کا بادشاہ

    فیاض ہاشمی:‌ گیت نگاری کا بادشاہ

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، مکالمہ نویس بھی خوب تھے۔ 20 سال کی عمر میں فیاض ہاشمی نے گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازم ہوگئے تھے اور وہاں انھیں اپنے وقت کے ممتاز شعراء اور باکمال موسیقاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے درمیان رہ کر فیاض ہاشمی نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور شہرت حاصل کی۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور گرامو فون کمپنی کا تجربہ فیاض ہاشمی کو فلم نگری تک لے گیا اور وہ ایک نغمہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ فیاض ہاشمی موسیقی سے گہرا شغف ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد انھوں نے ’’انوکھی‘‘ کے گیت تحریر کیے تھے جن میں سے ’’گاڑی کو چلانا بابو…‘‘ نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ یہ وہ گیت تھا جس کے بعد وہ وقت بھی آیا کہ فیاض ہاشمی لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے نغمہ نگار ہوتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    معروف گلوکار ایس بی جون کی آواز میں‌ یہ گیت آج بھی مقبول ہے۔ یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بھی بنا۔ اسے فیاض ہاشمی نے لکھا تھا۔ ان کے کئی فلمی نغمات ایسے تھے جن کو اکثر محافل میں گلوکاروں سے فرمائش کرکے سنا جاتا اور لوگ انھیں گنگناتے رہتے۔

    فیاض ہاشمی زرخیز ذہن کے مالک اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ انھوں‌ نے شاعری تک خود کو محدود نہ رکھا بلکہ فلم کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیے اور مکالمہ نویسی کی۔ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان کے اسکرپٹ فیاض ہاشمی نے لکھے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق 24 فلموں کی کہانیاں اور مکالمے فیاض ہاشمی نے لکھے تھے۔

    فلم’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ اپنے وقت کی وہ کام یاب فلمیں‌ تھیں جن کے نغمات فیاض ہاشمی نے تحریر کیے۔ 1968ء میں ان کا لکھا ہوا گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے لیے فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور شاعری انھیں‌ ورثے میں ملی تھی۔ 29 نومبر 2011ء کو فیاض ہاشمی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی تھیں جب کہ فلمی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ فیاض ہاشمی کی آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔ ان کا پہلا نغمہ طلعت محمود نے 1941ء میں گایا تھا۔ اس کے بعد طلعت محمود ہی کی آواز میں فیاض ہاشمی کے گیت نے گلوکار کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ یہ گیت تھا،

    تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی
    میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی

    طلعت محمود ہی نہیں فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے گیتوں نے متعدد فن کاروں کو شہرتِ دوام بخشا۔ فیاض ہاشمی کی یہ غزل آج بھی مقبول ہے۔

    آج جانے کی ضد نہ کرو
    یونہی پہلو میں بیٹھے رہو

    اس کلام کو حبیب ولی محمد اور بعد میں فریدہ خانم نے گایا اور بہت شہرت پائی۔ یہ کلام اُس زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اکثر سنا جاتا تھا۔

    فیاض ہاشمی نے برطانوی دور میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھ دیا تھا، لیکن تقسیم کے بعد وہ پاکستانی فلموں کے مصروف ترین نغمہ نگار رہے۔ ان کے تحریر کردہ مشہور نغمات میں فلم داستان کا قصۂ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے، فلم دیور بھابھی کا گیت یہ کاغذی پھول جیسے چہرے، فلم سوال کا لٹ الجھی سلجھا رے بالم، فلم زمانہ کیا کہے گا میں شامل رات سلونی آئی بات انوکھی لائی شامل ہیں۔

    ان کے ملّی نغمات بھی بہت مقبول ہوئے جن میں یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائد اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان، ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے، سورج کرے سلام، چندا کرے سلام شامل ہیں۔

  • ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کو اپنے سفرنامہ کی بدولت دنیا بھر میں شہرت ملی

    ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کو اپنے سفرنامہ کی بدولت دنیا بھر میں شہرت ملی

    عالمِ اسلام کی علم و فضل میں ممتاز، فنونِ لطیفہ، سائنس اور عمرانی علوم میں یگانہ شخصیات کی فہرست میں ابنِ جبیر بھی شامل ہیں۔ ابنِ جبیر 1217ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ دنیا انھیں ایک سیاح اور جغرافیہ نگار کے طور پر جانتی ہے۔

    قدیم انسانی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں معلومات کا ایک ذریعہ اور بڑا مآخذ ہم سے قبل گزرنے والے اہلِ قلم کی تصانیف بھی ہیں۔ انھوں‌ نے سفر نامے، تذکرے، آپ بیتیوں اور روزنامچوں کی صورت میں بالخصوص ماقبل اور خود اپنے عہد کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ بطور سیاح ابنِ جبیر نے بھی بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات اپنے سفر ناموں کے ذریعے ہم تک پہنچائے ہیں۔ سیاح اور جغرافیہ نگار ابنِ جبیر نے اپنے مشاہدات اور تجربات رقم کرتے ہوئے اپنی غور و فکر کی عادت کی بنیاد پر کئی قابلِ ذکر اور دل چسپ واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے تھے۔ یہ کسی بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسکندریہ اپنے زمانے میں اقتصادی اور تجارتی اہمیت کا حامل شہر تھا۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ قرونِ وسطیٰ کی اس علمی شخصیت کا سنہ پیدائش مؤرخین نے 1145ء لکھا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا تعلق عرب گھرانے سے تھا۔ ان کا قبیلہ بنو کنانہ تھا۔ والد سرکاری ملازم تھے جنھوں نے ابنِ جبیر کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا۔

    سفرنامۂ ابنِ جبیر کے عنوان سے اُن کی مشہور تصنیف آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کی گئی تھی۔ ابنِ جبیر نے اپنے سفرِ حج کے دوران شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں بھی قیام کیا اور وہاں کے حالات بھی اپنے سفرنامے میں رقم کیے۔ اس کتاب میں انھوں نے حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی شامل کیے ہیں۔ ابنِ جبیر نے مختلف ممالک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ وہاں کے مذہب، خواص و عوام کے عقائد اور لوگوں کے رسم و رواج کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں ہے جس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ ابنِ جبیر کے اس سفرنامہ کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    ابنِ جبیر کے دور میں بھی مکّہ اور مدینہ کے بعد اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تہذیب و ثقافت کے بڑے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ اسی اہمیت کے پیشِ نظر مسلمان سیّاحوں کی اکثریت ان ممالک کا رخ کرتی تھی اور ان کا ذکر اپنی کتابوں میں کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ محققین کے مطابق ابنِ جبیر نے 1183ء میں فروری کے مہینے میں ہسپانیہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کی اور پھر دو برس کا عرصہ سیّاحت میں گزارا۔

  • واشنگٹن ارونگ: امریکہ کا ایک مقبول مصنّف

    واشنگٹن ارونگ: امریکہ کا ایک مقبول مصنّف

    واشنگٹن اُروِنگ کا نام دنیا کے چند بہترین مصنّفین میں شامل ہے جس کا قلم ظرافت کے نام پر محض ٹھٹھا اور ہنسی نہیں اڑاتا بلکہ وہ طنز اور ظرافت کے ساتھ متانت سے کام لیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر امریکی مصنّف ارونگ کی چبھتی ہوئی تحریریں‌ اپنے پُرکشش اسلوب کے ساتھ دل چسپ ہیں۔ ارونگ 1859ء میں آج ہی کے دن وفات پاگیا تھا۔ اس کی کتابیں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    واشنگٹن ارونگ نے اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی تھی۔ اسے تو نئے نئے مقامات پر جانے، گھومنے پھرنے اور مختلف لوگوں سے میل جول پسند تھا۔ وہ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا۔ یہ سب اسے بچپن ہی سے پسند تھا۔ اس شوق اور سیلانی طبیعت نے اروِنگ کو ایک سیّاح کے طور پر شہرت دی اور وہ امریکا کے مقبول مصنّفین کی صف میں‌ آ کھڑا ہوا۔ بطور مصنّف اروِنگ کو پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد اپنے وطن لوٹا اور اپنا سفر نامہ شایع کیا۔ بعد کے برسوں میں واشنگٹن اروِنگ کو دنیا نے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی پہچانا۔

    اس امریکی مصنّف نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا ہے، ‘میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔’

    وہ 1783ء میں‌ نیویارک کے ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک محبِّ وطن مشہور تھا اور یہی خوبی اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس کو عظیم اور سب سے خوب صورت خطّہ مانتا تھا اور اس کے قدرتی نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ایک نہایت ملن سار تھا، وضع دار اور مجلس پسند شخص تھا۔ اسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور بہادر و مہم جُو قسم کے لوگ پسند تھے وہ دنیا کی سیر، بالخصوص تاریخی مقامات اور نوادرات دیکھنے کا شوق اور منفرد اور نمایاں کام کرنے والوں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور ہر اس جگہ پہنچنے کو بیتاب ہو جاتا جہاں کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوسکتی تھی۔

    واشنگٹن اروِنگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اروِنگ کا نام مشہور ہوگیا۔

    بلاشبہ اروِنگ کی زندگی نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور رہی ہوگی۔ اپنے تجربات اور مشاہدات کو قلم بند کرنے والے ارونگ نے تذکرہ نویسی بھی کی۔ 1849ء میں ارونگ نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دور کے اہم واقعات بھی لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی ایک مشہور ترین تصنیف تھی۔

    اروِنگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    اس مصنّف اور مضمون نگار کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام نے امریکی معاشرے اور وہاں ثقافت کو بہت متأثر کیا اور جس کا ثبوت امریکا کے مختلف شہروں میں اروِنگ کے یادگاری مجسمے اور اس سے موسوم متعدد لائبریریاں ہیں۔

    پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں نے اروِنگ کی کتابوں اور منتخب مضامین کو انگریزی سے اردو میں ڈھالا اور یہ قارئین میں مقبول ہوئے۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے 1930ء میں ارونگ کی کتاب “Tales of the Alhambra” کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو اس زمانے کی مقبول کتاب بنی۔کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ اسی طرح اس کا طلسماتی سپاہی کا قصہ سیّد وقار عظیم کے قلم سے اردو میں‌ ترجمہ ہوا اور پسند کیا گیا۔