Tag: نومبر برسی

  • طورسم خان: اسکواش کے معروف پاکستانی کھلاڑی کا تذکرہ

    طورسم خان: اسکواش کے معروف پاکستانی کھلاڑی کا تذکرہ

    یہ محض اتفاق ہے کہ جس روز اسکواش کورٹ میں طورسم خان کا انتقال ہوا، اس کے دو برس بعد اُسی تاریخ کو اُن کے چھوٹے بھائی جہانگیر خان نے اسکواش کا وہ مقابلہ جیتا جس کے لیے طورسم خان انھیں تیّار کر رہے تھے۔

    طورسم خان 28 نومبر 1979ء کو کھیل کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے اور 1981ء میں اٹھائیس نومبر کو ہی جہانگیر خان اسکواش اوپن چیمپئن شپ کے فاتح قرار پائے تھے۔ آج طورسم خان کی برسی ہے جن کا تعلق اس گھرانے سے تھا جس نے اسکواش کے کھیل میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

    طورسم خان کے والد روشن خان بھی اسکواش کے ایک معروف کھلاڑی تھے۔ انھوں نے اس کھیل میں متعدد اعزازات اپنے نام کیے تھے۔ اسی کھیل میں طورسم خان نے بھی نام پیدا کیا۔ طورسم خان کو آسٹریلین اوپن میں نیوزی لینڈ کے نیون باربر کے مقابلے میں دوسرے راؤنڈ میں دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ اچانک کورٹ میں گر پڑے تھے۔ کھلاڑی کو فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے طورسم کا دماغ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انھیں چند دنوں تک لائف سپورٹنگ مشین پر رکھا گیا، کچھ امید بندھی تھی، لیکن پھر ڈاکٹروں نے بتایا کہ طورسم کے زندگی کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ روشن خان کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو مشین سے ہٹا لیں۔ وہ ایک نہایت کرب ناک لمحہ تھا جب ایک بے بس باپ نے اپنے جوان بیٹے کو رخصت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور طورسم خان سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہانگیر خان اپنے شفیق دوست، بڑے بھائی اور اپنے ٹرینر سے محروم ہوگئے۔ تین ماہ تک جہانگیر خان بھائی کے غم میں‌ اسکواش کورٹ سے دور رہے، لیکن پھر طورسم خان کا خواب پورا کرنے کے لیے کورٹ میں قدم رکھا۔ 1981ء میں جہانگیر خان نے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقدہ ورلڈ اوپن چیمپئن شپ میں جیف ہنٹ سے اُن کا اعزاز چھین لیا۔ حریف کھلاڑی لگاتار چار سال یہ عالمی اعزاز اپنے نام کررہے تھے۔

    اٹھائیس نومبر کی یہ فتح کھیل کی دنیا میں اہم اور تاریخی جب کہ مایہ ناز کھلاڑی جہانگیر خان کی زندگی کا نہایت جذباتی اور افسردہ کر دینے والا موقع بھی تھا۔ اسکواش کی دنیا میں تو یہ صرف ایک مقابلہ تھا اور اس کا فاتح، یقیناً‌ ایک خوش قسمت کھلاڑی، مگر جہانگیر خان کے لیے یہ اعزاز کچھ اور معنی رکھتا تھا۔ اوپن چیمپئن شپ 19 سے 28 نومبر تک جاری رہی تھی اور اس کے فاتح جہانگیر خان کی عمر اُس وقت 17 سال تھی۔

    طورسم خان 27 ستمبر 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا تعلق پشاور سے تھا، طورسم خان والد کی وجہ سے اسکواش کورٹ اور اس کے اصول و قواعد سے خوب واقف ہوگئے۔ انھوں نے اسکواش کھیلنا شروع کیا تو 1967ء میں قومی چیمپئن بنے۔ 1971ء میں عالمی ایمیچر اسکواش چیمپئن شپ میں انھیں پاکستان کی نمائندگی سونپی گئی تھی۔ طورسم خان نے انگلستان اوپن، امریکن اوپن اور ویلش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتی تھی۔

    کراچی میں طورسم خان کو گورا قبرستان سے متصل فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • محمد عزیز کا تذکرہ جن کی آواز میں‌ بولی وڈ فلموں کے کئی گیت مقبول ہوئے

    محمد عزیز کا تذکرہ جن کی آواز میں‌ بولی وڈ فلموں کے کئی گیت مقبول ہوئے

    محمد عزیز نے بولی وڈ کی فلموں‌ کے شائقین کو اپنی آواز میں لازوال اور سدا بہار گیت دیے۔ وہ لیجنڈری گلوکار محمد رفیع کے گانوں کے دیوانے تھے۔ یہی نہیں‌ کہ وہ محمد رفیع کے انداز میں گانا پسند کرتے تھے بلکہ گلوکار محمد عزیز کی آواز بھی ان کے محبوب گلوکار سے مماثلت رکھتی تھی۔ بولی وڈ میں‌ پسِ پردہ گلوکار کے طور پر نام و مقام پیدا کرنے والے محمد عزیز 2018ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں پیدا ہونے والوں اور بالخصوص 70 اور 80 کی دہائی میں پروان چڑھنے والی ایک نسل کو ان کا گایا ہوا فلمی گیت مرد تانگے والا ضرور یاد ہوگا۔ اس فلم کا نام تھا مرد اور امیتابھ بچن اس فلم کے ہیرو تھے۔ میوزک ڈائریکٹر انو ملک نے محمد عزیز کو اس فلم میں گانے کا موقع دیا تھا اور اسی نغمے نے گلوکار محمد عزیز کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ محمد عزیز نے پلے بیک گلوکاری کا آغاز بنگالی فلم ’جیوتی‘ سے کیا تھا، اور پھر وہ ممبئی منتقل ہوگئے جہاں 1984ء میں فلم ’امبر‘ کے لیے انھیں گیت گانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے اگلے سال یعنی 1985ء میں‌ محمد عزیز نے فلم مرد کا گیت گا کر ہندوستان بھر میں‌ شہرت پائی۔

    محمد عزیز نے کولکاتہ کے ایک ریستوراں سے بطور گلوکار اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا اور پھر قسمت انھیں بولی وڈ تک لے گئی۔ محمد عزیز نے بھارتی فلمی صنعت میں 80 اور 90 کی دہائی میں خوب شہرت پائی اور ان کی آواز میں کئی فلمی گیتوں‌ نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔

    گلوکار محمد عزیز کو لوگ پیار سے منا بھی کہتے تھے۔ ان کا اصل نام سعید عزیز النّبی تھا۔ محمد عزیز 2 جولائی 1954 کو مغربی بنگال کے اشوک نگر میں پیدا ہوئے۔ انھیں شروع ہی سے گانے کا شوق تھا اور محمد رفیع کے بڑے مداح تھے۔ محمد عزیز اپنے محبوب گلوکار کی طرح گانے کی کوشش کرتے۔ آواز خوب صورت تھی اور انداز محمد رفیع جیسا۔ لوگ انھیں سنتے اور داد دیتے، لیکن یہ سب کافی نہ تھا۔ محمد عزیز بطور گلوکار اپنا کیریئر بنانا چاہتے تھے اور ان کا خواب تھا کہ وہ فلمی دنیا کے لیے گائیں۔ ان کی یہ آرزو پوری بھی ہوئی۔ محمد عزیز نے اپنے ایک انٹرویو میں‌ بتایا تھا کہ ان کی گائیکی کا سفر 1968ء میں شروع ہوا تھا۔ وہ 14 برس کے تھے جب کلکتہ میں اسٹیج پر رفیع صاحب کا ایک گیت "ساز ہو تم آواز ہوں میں” گایا۔ وہ عید ملن کی ایک تقریب تھی اور اس میں ایک بڑے مجمع کے سامنے انھیں‌ گانے کا موقع ملا تھا۔ محمد عزیز کا کہنا تھاکہ جب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا تو پہلے سرگوشیاں ہوئیں، پھر دھیما دھیما شور۔ مگر جب میں نے یہ گیت گایا تو سناٹا چھا گیا۔ گیت ختم ہوا تو اتنی تالیاں بجیں کہ میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔

    بولی وڈ گلوکار محمد عزیز نے ہندی فلموں کے علاوہ بنگالی، اڑیا اور دیگر علاقائی زبانوں کی فلموں کے لیے بھی پسِ پردہ گلوکاری کی۔

    1989ء میں فلم رام لکھن ریلیز ہوئی تھی جس کا گیت ’مائی نیم از لکھن، سجنوں‌ کا سجن‘ بہت مقبول ہوا۔ پاکستان میں بھی اس فلمی گیت کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسے بھی گلوکار محمد عزیز اور ساتھیوں نے گایا تھا۔

    80 کی دہائی میں محمد عزیز کی آواز میں گائے گئے فلمی گیت سپر اسٹار امیتابھ بچن، متھن چکرورتی، گووندا اور دیگر مقبول ہیروز پر فلمائے گئے۔

    محمد عزیز کی آواز میں‌ مقبول ہونے والے گیتوں ’تیری بے وفائی کا شکوہ کروں تو‘، ’لال دوپٹہ ململ کا‘، ’پت جھڑ ساون بسنت بہار‘، ’پیار ہمارا امر رہے گا‘، کے علاوہ فلم خود غرض کا گیت دل بہلتا ہے میرا آپ کے آجانے سے، اور فلم نام کا گانا تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں‌ گا شامل ہیں۔

  • تمنّا عمادی: علم کا بحرِ بے پایاں

    تمنّا عمادی: علم کا بحرِ بے پایاں

    برصغیر کی بلند پایہ، نہایت قابل علمی و ادبی شخصیات میں علامہ تمنا عمادی کا نام بھی شامل ہے جو ایک محدث، مفسر، مبلغ اور محقق ہی نہیں عمدہ شاعر اور کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔ تمنا عمادی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو زندگی میں بھی گمنامی کو اپنے لیے عافیت سمجھتے رہے اور علمی مشاغل میں خود کو غرق کیے رکھا۔ سو، یہ بات تعجب خیز نہیں کہ آج انھیں فراموش کیا جاچکا ہے۔

    علامہ تمنا عمادی علم و فن میں بے مثال تھے۔ عربی، فارسی اور اردو پر عبور اور ان زبانوں میں تحریر و بیان پر زبردست قدرت رکھتے تھے۔ عروض کے ماہر تھے اور ایک عالم اور دینی شخصیت ہی نہیں بلکہ عمدہ شاعر، مترجم اور سوانح نگار بھی تھے۔ علامہ 27 نومبر 1972ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑیں جن میں مثنوی مذہب و عقل، مثنوی معاش و معاد، ایضاحِ سخن، افعالِ مرکبہ، تمنائے سخن، اعجاز القرآن اور کئی مضامین شامل ہیں۔ مالک رام نے اپنی مشہور کتاب تذکرہ معاصرین میں لکھا ہے کہ ان کا اردو اور فارسی کا کلام اتنا تھا کہ ضخیم کلیات شایع ہوتا، مگر افسوس کہ وہ دست یاب نہیں لیکن یہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ زبان پر قدرت، محاورے اور روزمرہ میں استادانہ نگاہ رکھتے تھے۔

    ان کا اصل نام سید حیات الحق محمد محی الدین تھا۔ علامہ نے 14 جون 1888 کو پھلواری شریف، ضلع پٹنہ میں ایک دینی، علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ درس نظامی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ حدیث شریف اور طب کا بھی مطالعہ کیا۔ شمشاد لکھنوی سے تلمذ حاصل تھا۔ فارسی شاعری اور عربی ادب میں علامہ شبلی سے استفادہ کیا۔ جب سید عبدالعزیز بیرسٹر، پٹنہ حیدرآباد دکن گئے اور وزارتِ امورِ مذہبی وعدلیہ پر مامور کیے گئے تو تمنّا عمادی بھی حیدرآباد تشریف لے گئے اور عرصے تک ان کے ساتھ اقامت پذیر رہے۔ تمنا عمادی 1948ء میں ڈھاکہ ہجرت کرگئے۔ کافی عرصہ ڈھاکہ ریڈیو سے قرآن شریف کا درس دیتے رہے۔ علامہ کی علمی زندگی اور ان کا مذہبی نقطہ نظر متنازع بھی رہا۔ وہ غور و فکر کے عادی رہے اور ان کی زندگی میں بڑے فکری انقلابات آئے۔ ڈھاکا سے نقل مکانی کر کے چاٹگام اور پھر آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں کراچی آگئے اور یہیں وفات پائی۔ علامہ تمنا عمادی کا علم بحرِ بے پایاں تھا۔ ان کامطالعہ بہت وسیع تھا۔ یہ بڑے پُر گو اور مشاق شاعر تھے۔

    علامہ تمنا عمادی کے ادبی، لسانی اور علم و دانش کے معترف نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر عندلیب شادمانی اور ماہر القادری کے علاوہ بہت سے جید ادباء اور شعراء تھے۔

    اکثر تذکروں میں ان کا نام تمنّا عمادی مجیبی پھلواروی بھی لکھا گیا ہے۔

  • تنویر عباسی:‌ سندھی ادب کا ایک معروف نام

    تنویر عباسی:‌ سندھی ادب کا ایک معروف نام

    سندھی زبان و ادب میں علمی و تحقیقی کام کرنے والی شخصیات میں ایک نام ڈاکٹر تنویر عباسی کا بھی ہے جنھوں نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبدُاللطیف بھٹائی پر اپنے تحقیقی کام اور تنقیدی کتب کی بدولت اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ ایک بیدار مغز اور باشعور قلم کار تھے۔

    شیخ ایاز، عمر بن محمد داؤد پوتہ، علامہ آئی آئی قاضی، حسام الدین راشدی، نبی بخش خان بلوچ، محمد ابراہیم جویو، استاد بخاری اور متعدد ادبا اور شعرا نے سندھی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ان کی تصانیف اور تراجم سندھی ادب کا سرمایہ ہیں یہ وہ قابل شخصیات تھیں جن کی تخلیقات کو اردو میں بھی منتقل کیا گیا۔ تنویر عباسی بھی رفتگاں کے نقشِ قدم پر چلے اور ادبی سرگرمیوں‌ کے ساتھ ساتھ سیاست اور عوامی حقوق کی جدوجہد میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر تنویر عباسی نے ون یونٹ توڑ تحریک میں بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ انھوں نے پھول باغ میں بڑا جلسہ بھی منعقد کروایا تھا جس میں جی ایم سید، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، کامریڈ جام ساقی اور سندھ بھر سے سیکڑوں شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ 25 نومبر 1999ء کو ڈاکٹر تنویر عباسی وفات پاگئے تھے۔ وہ سندھی زبان کے شاعر، محقّق اور ڈرامہ نگار تھے۔

    تنویر عباسی 7 اکتوبر 1934ء کو گوٹھ سوبھوڈیرو، ضلع خیرپور میرس میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نورُ النّبی تھا۔ انھوں نے اپنے علمی ذوق و شوق اور مطالعے کے ساتھ تحقیقی مضامین اور شاہ لطیف کی شاعری پر خصوصی تحریریں یادگار چھوڑیں۔ تنویر عبّاسی کی تصانیف میں تنویر چئے (شاعری) ھئ دھرتی (شاعری)، ترورا (مضامین)، نانک یوسف جو کلام (تنقید)، کلام خوش خیر محمد ہیسباٹی (تنقید)، سج تری ہیٹھاں (شاعری)، شاہ لطیف جی شاعری (لطیفیات)، بارانا بول (بچوں کا ادب) جے ماریانہ موت (ناول) شامل ہیں۔

    تنویر عباسی کو بعد از مرگ صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔ تنویر عبّاسی اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فرید احمد: پاکستانی فلم ڈائریکٹر کا تذکرہ

    فرید احمد: پاکستانی فلم ڈائریکٹر کا تذکرہ

    فنونِ لطیفہ میں فرید احمد کی دل چسپی اور بالخصوص سنیما سے شناسائی اُسی وقت ہوگئی تھی جب وہ بچپن کی دہلیز عبور کررہے تھے۔ فلم کا شوق انھیں کیسے نہ ہوتا کہ ان کے والد اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد تھے۔ اور پھر فرید احمد کا شمار بھی پاکستان کے معروف فلم ڈائریکٹروں میں ہوا۔ انھوں نے اپنے والد کی طرح متعدد شان دار فلمیں پاکستانی سنیما کو دیں۔

    فرید احمد نے 25 نومبر 1993ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو خیرباد کہا۔ پاکستانی فلمی صنعت کا یہ معروف نام آج فراموش ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے اب نہ وہ زمانہ رہا اور نہ وہ لوگ رہے جو اُس سنہری دور اور فلمی شخصیات کا تذکرہ کرسکیں اور ان کی یاد تازہ کریں۔ کتنے ہی نام تھے جو ماضی کا حصّہ بن گئے۔ فرید احمد کے والد نے برطانوی راج کے دوران فلمی صنعت کو کئی کام یاب اور یادگار فلمیں‌ دی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آگئے تھے اور پاکستان میں ان کی صرف دو ہی فلمیں نمائش پذیر ہوسکیں، لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری میں ان کا نام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ فرید احمد شروع ہی فن کار برادری اور فلمی پردے سے مانوس تھے۔ فرید احمد کو گھر میں‌ پیار سے سنی کہا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنا فنی سفر شروع کیا تو ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔ فلم اور سنیما کی تعلیم فرید احمد نے امریکہ سے حاصل کی تھی۔ وہاں طالبِ علم کی حیثیت سے ان کا خاص مضمون ہدایت کاری تھا۔

    پاکستان میں فلم کے شائقین کو فرید احمد نے جان پہچان، عندلیب، انگارے، بندگی، زیب النساء، سہاگ اور خواب اور زندگی جیسی یادگار فلمیں دیں۔ اگرچہ ان کی فلموں‌ کی تعداد زیادہ نہیں‌ ہے لیکن انہی میں عندلیب ان کی ہدایت کاری میں ایک سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ یہ 1969ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی اور گولڈن جوبلی مکمل کرنے والی فلم تھی۔

    فرید احمد کی زندگی ان کی دو شادیوں اور طلاق کی وجہ سے فلم انڈسٹری اور عوام میں‌ بھی موضوعِ بحث بنی۔ ان کے شریکِ‌ سفر جہانِ فن و اداکاری سے وابستہ اور مشہور نام تھے۔ فرید احمد نے پہلی شادی ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ ثمینہ احمد سے کی تھی۔ ہدایت کار فرید احمد نے دوسری شادی اداکارہ شمیم آرا سے کی تھی۔ یہ بندھن چند ہی روز بعد ٹوٹ گیا تھا۔

  • سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    سلیم رضا:‌ فلمی دنیا کی خوب صورت آواز

    فلم ’’نورِ اسلام‘‘ 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شامل نعتیہ کلام ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوا۔ یہ کلام آج بھی نہایت عقیدت اور فرطِ جذبات سے پڑھا جاتا ہے۔

    سلیم رضا نے پاکستانی فلموں میں‌ پسِ پردہ گلوکار کے طور پر بہت شہرت حاصل کی، وہ 25 نومبر 1983ء کو کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔ سلیم رضا فلمی صنعت میں اپنے زوال کے بعد بیرونِ ملک منتقل ہوگئے تھے اور وہیں انتقال ہوا۔

    سلیم رضا نے پچاس کی دہائی کے وسط میں پاکستان کی اردو فلموں کے لیے کئی گیت ریکارڈ کروائے جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے جس وقت اپنے فلمی گائیکی کے سفر کا آغاز کیا، پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمد رشدی اور منیر حسین جیسے گلوکار بھی انڈسٹری سے جڑے ہوئے تھے۔ سلیم رضا کا کیریئر ایک دہائی تک عروج پر رہا اور پھر فلم ساز اور ہدایت کار نئی آوازوں کی جانب متوجہ ہوگئے تو سلیم رضا کو بہت کم کام ملنے لگا اور وہ مایوس ہوکر کینیڈا چلے گئے۔

    موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی جب کہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کے لیے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز، پنجابی فلموں، اونچے سُروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کے لیے موزوں نہ تھی۔ لیکن کئی گیت سلیم رضا کی آواز ہی میں یادگار ٹھیرے۔

    گلوکار سلیم رضا کو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بہت شہرت ملی۔ گو سلیم رضا فلم نورِ اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے، مگر مذکورہ نعتیہ کلام انھوں نے جس رچاؤ سے پیش کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    سلیم رضا 4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے اور یہاں سلیم رضا کے نام سے شہرت پائی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے گلوکاری کا سفر شروع کیا تھا۔ سلیم رضا کو شروع ہی سے گانے کا شوق تھا۔ اُن کی آواز میں سوز و گداز تھا۔ ریڈیو پاکستان سے سلیم رضا کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ انھیں فلموں تک لے آیا۔

    بطور گلوکار سلیم رضا کی پہلی فلم “نوکر” تھی۔ موسیقار غلام احمد چشتی نے 24 مئی 1955ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں انھیں کوثر پروین کے ساتھ قتیل شفائی کا تحریر کردہ گیت گانے کا موقع دیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’تقدیر کے مالک دیکھ ذرا، کیا ظلم یہ دنیا کرتی ہے‘‘ مگر اس سے چند ماہ قبل سلیم رضا کی آواز میں فلم ’’قاتل‘‘ کا گیت سامنے آچکا تھا۔ اس فلم میں ماسٹر عنایت حسین کی بنائی ہوئی طرز پر انھوں نے قتیل شفائی کا نغمہ ’’آتے ہو یاد بار بار کیسے تمہیں بھلائیں ہم‘‘ گایا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔ سلیم رضا نے اس پنجابی فلم کے بعد جگّا، شیخ چلّی، گھر جوائی، لکن میٹی، ڈنڈیاں، منگتی، بلّو جی، پہاڑن، موج میلہ، شیر دی بچّی، جاگیر دار، لٹ دا مال، نیلی بار، یاراں نال بہاراں، وساکھی، دل دیا لگیاں میں‌ بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔

  • فریڈی مرکری: ’کوئین‘ کا شہزادہ

    فریڈی مرکری: ’کوئین‘ کا شہزادہ

    مشہورِ زمانہ میوزیکل بینڈ ’کوئین‘ کے بانی گلوکار فریڈی مرکری کے مداح آج بھی اسے یاد کرتے ہیں۔ فریڈی مرکری 24 نومبر 1991ء میں چل بسا تھا، لیکن اس برطانوی گلوکار، نغمہ نگار اور پیانو نواز کو آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    فریڈی مرکری کا تعلق افریقی ملک زنجبار سے تھا۔ وہ 1946 میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام فرخ بلسارہ تھا جس کے والدین ممبئی میں پارسی زرتشت تھے۔ فریڈی مرکری کی ابتدائی تعلیم بھارت میں ہوئی اور 1964 میں یہ خاندان لندن چلا گیا۔ لندن میں فریڈی مرکری فنون لطیفہ کی تعلیم حاصل کی اور موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ راک میوزک میں اپنے منفرد اور پرجوش انداز کی وجہ سے خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہوئے اور ان کے میوزک بینڈ کوئین کا دنیا بھر میں چرچا ہوا۔ اس بینڈ کی بنیاد 1970 میں رکھی گئی تھی۔ اس میں فریڈی کے دو ساتھی بطور گٹارسٹ اور ڈرمر شامل تھے۔

    فریڈی کو کم عمری سے ہی میوزک کا بے انتہا شوق تھا۔ وہ ایک باصلاحیت نوجوان تھا اور کچھ کر دکھانے کی امنگ اس کے دل میں تھی۔ فریڈی کی والدہ نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کا بیٹا ہر طرح کا میوزک پسند کرتا تھا، اسے انڈین، کلاسیکی اور پاپ میوزک سننا پسند تھا۔ فریڈی نے بھارت کے بورڈنگ اسکول میں داخل ہونے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ’ہیکٹکس‘ کے نام سے ایک میوزک بینڈ بنایا۔ اس طرح وہ اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں مشہور ہوگیا اور اسی بنیاد پر فریڈی کو ایک قریبی ہوٹل میں پیانو بجانے کے لیے رکھ لیا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ہوٹل میں آنے والے مقامی لوگوں اور غیر ملکیوں کے سامنے صرف اور صرف مفت کھانے کے بدلے پرفارم کرتا تھا۔ فریڈی سولہ سال کا ہوا تو لندن آگیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر اکاؤنٹنٹ یا وکیل بنے مگر فریڈی سمجھتا تھا کہ وہ اتنا عقل مند یا ذہین نہیں ہے اور اپنے والدین کا یہ خواب پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ میوزک میں‌ اس کا جنون دیکھتے ہوئے والدین نے خاموشی اختیار کرلی۔ فریڈی اپنے چھوٹے سے گھر میں گانے اور دھنیں ترتیب دینے میں‌ مشغول رہا اور وہ وقت آیا جب اس کا شمار عالمی شہرت یافتہ گلوکاروں میں ہوا۔

    عالمی شہرت یافتہ فریڈی مرکری نے لندن میں میوزیکل شوز کا سلسلہ شروع کیا تو بہت پذیرائی ملی اور مقبولیت کے اسی دور میں اسے اپنے کام کی وجہ سے اپنے والدین کا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ دوسرے پُرسکون مقام پر منتقل ہوگیا، مگر باقاعدگی سے والدین سے ملنے جاتا رہا۔ وقت نے فریڈی مرکری کو سپر اسٹار بنا دیا اور دولت کی دیوی اس پر مہربان ہوگئی۔ اس کی والدہ کے مطابق جب وہ رولز رائس پر ہمارے گھر آتا تو تمام پڑوسی بہت خوش ہوتے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو کبھی ہمارے گھر سے آنے والی میوزک کی آوازوں‌ پر شکایت کرتے تھے۔

    راک میوزک میں فریڈی مرکری کا نام عظیم برطانوی گلوکار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے بینڈ کے لیے کئی دھنیں ترتیب دیں اور بہت سے نغمات تحریر کیے۔ فریڈی مرکری کی ایک وجہِ شہرت اس کی اسٹیج پرفارمنس تھی جس میں وہ حاضرین اور اپنے مداحوں سے مخاطب ہوکر اُن کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اسے اکثر اپنی شرٹ سے بے پروا اور جوشیلے انداز میں گاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ 1987 میں اسے ایڈز جیسا مہلک مرض لاحق ہوا۔ فریڈی مرکری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مجمع کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ماہر تھا۔ فریڈی نے اس دور میں لائیو پرفارمنس سے اپنے مداحوں کی تعداد میں زبردست اضافہ کیا۔ اس کے متعدد البمز کام یاب ہوئے اور اس کے تحریر کردہ نغمات کو بہت پسند کیا گیا۔

    فریڈی مرکری نے لندن اور بیرونِ ملک بھی اپنے فن کی بدولت کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ 1985 میں اس نے مالی امداد اور عطیات جمع کرنے کے لیے پرفارم کیا تھا۔ اسے فریڈی مرکری کے کیریئر کی قابلِ ذکر پرفارمنس سمجھا جاتا ہے۔ فریڈی مرکری اور میوزیکل بینڈ کوئین کے آرٹسٹوں نے دنیا بھر میں‌ لگ بھگ 700 کنسرٹس کیے۔ فریڈی مرکری کو ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے اکثر ناپسندیدگی کا بھی کرنا پڑا۔ ایڈز کی تشخیص کے چند سال بعد اس مرض کی پیچیدگیوں نے فریڈی مرکری کو زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ فن کاروں‌ اور اہلِ قلم نے ایک راک اسٹار اور میوزک کی دنیا کے بڑے نام کی اس موت کو ایک سانحہ قرار دیا تھا۔

    لندن اور مختلف ممالک میں میوزک اور آرٹ اکیڈمیوں اور دیگر مقامات پر فریڈی مرکری کے مجسمے نصب ہیں جو اس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

  • ایم اسلم: شاعر اور مقبول ناول نگار کا تذکرہ

    ایم اسلم: شاعر اور مقبول ناول نگار کا تذکرہ

    افسانوی ادب اور بالخصوص تاریخی ناول نگاری میں ایم اسلم نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ان کے فنی سفر کا آغاز بحیثیت شاعر ہوا تھا، لیکن علّامہ اقبال کے کہنے پر وہ نثر نگاری کی طرف آگئے اور تاریخی ناولوں کی بدولت نام کمایا۔

    یوں تو ایم اسلم نے ادب کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن عام قارئین میں ان کی وجہِ شہرت ان کے تاریخی ناول ہی ہیں۔ ناول اور افسانہ کے علاوہ تنقیدی مضامین اور شاعری میں بھی ایم اسلم نے طبع آزمائی کی۔ آج اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر کی برسی ہے۔

    ایم اسلم کی افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو اس میں ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے خاص طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے 200 سے زائد ناول تحریر کیے جو تاریخی واقعات پر مبنی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروس غربت، معرکۂ بدر، فتح مکہ، صبح احد، معاصرۂ یثرب، ابو جہل، جوئے خون، پاسبان حرم، فتنۂ تاتار، گناہ کی راتیں شامل ہیں۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ مخیّر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی جہاں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی اور ان کی تربیت میں اقبال نے اپنا کردار نبھایا۔

    ایم اسلم نے شاعری اور افسانہ کے بعد جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہی ان کی مقبولیت اور شناخت بن گیا۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے جس نے انگریزی سے اردو تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ کیا۔

    23 نومبر 1983ء کو ایم اسلم انتقال کرگئے تھے۔

  • احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں وہ درس و تدریس سے بھی وابستہ تھے۔

    آج احمد عقیل روبی کی برسی ہے۔ وہ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر تھے۔ 23 نومبر 2014ء کو احمد عقیل روبی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی ایک اچھے شاعر بھی تھے اور فلمی دنیا کے لیے کئی لازوال گیت تحریر کیے جس پر انھیں نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ احمد عقیل روبی کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں سے فکر و دانش اور ان کا وسیع مطالعہ جھلکتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    شاعر، ادیب اور نقّاد احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • شاہ نصیرؔ: کلاسیکی دور کا ممتاز شاعر

    شاہ نصیرؔ: کلاسیکی دور کا ممتاز شاعر

    اردو کے کلاسیکی شعراء میں شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن اور طبعِ رواں کے سبب بڑا نام پایا۔ شاہ نصیر نے سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی میں شعر کہے، لیکن ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا۔ شاہ نصیر زبان و بیان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔

    آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔ 1837ء میں شاہ نصیر نے حیدر آباد دکن میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

    کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی۔ مشاعروں میں وہ سامعین سے خوب داد پاتے تھے۔ شاہ نصیر جب تک دہلی میں رہے وہاں کی ادبی مجلسوں اور مشاعروں کی جان رہے اور ہر طرف ان کی شعر گوئی کا چرچا ہوتا تھا۔ شاہ نصیر بڑے طباع اور زود گو تھے۔ ان کا شمار جلد ہی اُستاد شعراء میں ہونے لگا تھا۔

    شاہ نصیر کا سنہ پیدائش معلوم نہیں ہوسکا اور ان کے وطن یا جائے پیدائش پر بھی تذکرہ نگاروں میں اختلاف ہے، تاہم اکثریت کا خیال ہے کہ شاہ نصیر دہلی کے رہنے والے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

    کہتے ہیں‌ کہ شاہ نصیر کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس اور دیگر لوگ ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ دنیا سے دور اور گوشۂ عافیت میں رہے۔ ان کی وفات شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں ہوئی۔ ان کے بیٹے شاہ نصیر نے دہلی میں بطور شاعر خوب شہرت پائی۔

    تذکرہ نویس لکھتے ہیں‌ کہ شاہ نصیر زبان و بیان کے ماہر تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی ردیفوں میں غزلیں کہی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی شاعری مقبول ہوئی اور ان کے اسلوب کو دل نشیں کہا جاتا ہے۔ شاہ نصیر کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے سے خوب چاشنی پیدا ہوگئی ہے۔

    شاہ نصیر کے بارے میں تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، لیکن نصیرؔ کا تخیّل اور تصوّر اس میں بہت آگے تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
    وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

    قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
    تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

    غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
    کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

    وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
    ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا