Tag: نومبر برسی

  • اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    اورنگزیب کے معتوب کوکلتاش کا تذکرہ

    خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہوسکی ہیں، لیکن محققین کے مطابق وہ مغلیہ دور میں شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں لکھا ہے کہ کوکلتاش بادشاہ عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور بدترین حالات میں اس کی موت ہوگئی۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ منصب سے معزولی کے بعد اور قید کے دوران خانِ لاہور میں 23 نومبر 1697ء کو کوکلتاش کا انتقال ہوگیا تھا۔ شاہی عہد میں اس کا مقام و رتبہ کیا تھا اور مغل دربار کے لیے اس نے کیا خدمات انجام دیں، اس بارے میں بھی کچھ خاص معلوم نہیں‌ ہوسکا۔ البتہ مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی ایک تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر خاکہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں‌ کہ عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا تھا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی سطح کے اختلافات زور پکڑ گئے تو بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اس سے نمٹنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو صوبہ دار مقرر کردیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز ہوئے۔ لیکن 1691ء میں یہ عہدہ خانِ جہاں کو سونپ دیا گیا۔ وہ لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت کرتا رہا۔ لیکن 1693ء میں کسی بات پر بادشاہ اس سے ناراض ہوگیا۔ عالمگیر نے نہ صرف کوکلتاش کی معزولی کا فرمان جاری کیا بلکہ اسے زیرِ عتاب بھی رکھا۔ مؤرخین کے مطابق یہ سلسلہ چار سال بعد اُس وقت ختم ہوا جب کوکلتاش اپنی جان سے گیا۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ خانِ جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغلیہ دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا اور ہر بار شاہی دربار سے اپنی وفاداری کو ثابت کیا۔

    مشہور ہے کہ کوکلتاش کی تدفین مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر کی گئی اور بعد میں اس پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ آج کوکلتاش کا یہ مقبرہ نہایت خستہ حالت میں ہے، لیکن اسے دیکھ کر مغل طرزِ تعمیر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری چند برسوں میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ محققین کے مطابق یہ مغل دور کے لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    تاہم آج محققین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون شخصیت ابدی نیند سورہی ہے۔ جب کہ سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں مؤرخین یہی لکھتے آئے کہ اس جگہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش مدفون ہے۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    جیک لندن نے تکلیف دہ زندگی اور مشکلات کو شکست دے کر ادب اور صحافت کی دنیا میں شہرت پائی تھی۔ اس کا شمار امریکا کے مقبول ناول نگاروں‌ میں ہوتا ہے۔

    ایک وقت تھا جب جیک لندن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور تھا۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہوجاتے۔ جیک لندن کے فن و تخلیق کو عالمی ادب میں سراہا گیا۔

    جیک لندن کا تعلق امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تھا۔ وہ 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور فاقوں سے تنگ آکر جیک لندن نے چوروں اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا اور ان کے ساتھ وہ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کیے۔

    جیک لندن کی عمر 17 برس تھی جب وہ ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ حال یہ تھا کہ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، جیک لندن کو اس کا ہوش نہ رہتا۔ اس کا اکثر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرتا تھا۔

    وہ ایک ذہین نوجوان تھا جس کا حافظہ قوی تھا۔ جیک لندن نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کرلیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل وہ ایک کہانی نویس کے طور پر شہرت پاچکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر نہایت مختصر عمر پانے والے جیک لندن نے ایک ولولہ انگیز اور فعال شخص کے طور پر زندگی گزاری۔ مفلسی، مزدوری، سمندر کی دنیا اور اس کے تجربات و مشاہدات نے جیک لندن کو کہانی نویس اور صحافی بنا دیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس اس نے 1900ء میں اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہونے لگی تھیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ میں قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی۔

    جیک لندن نے 1916ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔

  • فہمیدہ ریاض جنھوں نے شعور کی بہار کے ہر مخالف کو ’پتّھر کی زبان‘ میں‌ جواب دیا

    فہمیدہ ریاض جنھوں نے شعور کی بہار کے ہر مخالف کو ’پتّھر کی زبان‘ میں‌ جواب دیا

    ’’جب تک غربت ہے، فہمیدہ ریاض کی شاعری زندہ رہے گی۔‘‘ مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب نے یہ بات فہمیدہ ریاض کے لیے کہی تھی۔ آج فہمیدہ ریاض‌ کی برسی ہے۔

    فہمیدہ ریاض ترقی پسند ادیب، شاعر ہی نہیں، سماجی کارکن اور پاکستان میں‌ حقوقِ نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ اس راستے میں فہمیدہ ریاض نے مشکلات ہی نہیں‌ جھیلیں‌ بلکہ کئی تنازعات کا بھی سامنا بڑی ہمّت اور بہادری سے کیا۔ انھیں اپنی نظموں‌ اور تحریروں میں بعض‌ حقیقتوں کو کھل کر بیان کرنے کی وجہ سے عریاں نگاری کا الزام بھی سہنا پڑا۔ خالدہ حسین نے ان کے متعلق کہا تھا،’’فہمیدہ ریاض وہ پہلی شاعرہ ہیں، جنھوں نے عورت کا اصل (Archetypal) تشخص اُجاگر کیا ہے۔ وہ عورت کے منصب اور مسائل کو جسمانی اور روحانی سرشاری کے ساتھ منسلک دیکھتی ہیں۔ زندگی کے تسلسل کے لیے عورت کا کردار صرف جبلتی نہیں بلکہ ایک ماورائی جہت بھی رکھتا ہے۔ فرید الدین عطار کی سات سو برس قدیم فارسی کلاسِک’منطق الطیر‘ پر مبنی ایک خوبصورت تمثیلی کہانی ’قافلے پرندوں کے‘ لکھنا روحانی واردات سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ رومی کی غزلیات کی سرمستی اور روحانی کیفیت کو اردو کا پیرایہ دینا خود اس سرخوشی میں گلے گلے ڈوبنے کا اشاریہ ہے۔ ان کے نزدیک تخلیقی فن میں اس کا اظہار پانا ایک فطری عمل بلکہ فن کا فریضہ ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ انقلابی ہے مگر وہ نعرہ باز ہرگز نہیں۔ تحریر میں جمالیات کا ایک پورا نظام ہے اور الفاظ میں حسیت کی شدت ہے۔‘‘

    فہمیدہ ریاض نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کو سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔ فہمیدہ ریاض پاکستان کی ان ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھیں ان کے تانیثی خیالات اور فن و تخلیق کی بدولت عالمی سطح پر بھی پہچان ملی۔

    فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945ء کو میرٹھ، برٹش انڈیا کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس کنبے نے پاکستان میں‌ حیدر آباد سندھ میں اقامت اختیار کی۔یہاں فہمیدہ ریاض‌ کی عمر چار برس ہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔ حیدرآباد میں فہمیدہ نے سندھی زبان سیکھی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں فہیمدہ نے پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے میں شائع ہوئی۔ فہمیدہ ریاض زرخیز ذہن کی مالک اور بیدار مغز خاتون تھیں۔ دورانِ تعلیم ہی انھوں نے طلبہ سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا اور 60 کی دہائی میں وہ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں۔ پاکستان میں ضیاء کے دور میں انھیں‌ حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی اور بعض‌ فیصلوں‌ پر تنقید کے بعد 10 سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دور میں‌ فہمیدہ ریاض نے بھارت میں جلاوطنی کاٹی اور تقریباً سات سال بعد وطن واپس آئیں۔

    فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ اس وقت شایع ہوا جب ان کی عمر 22 سال تھی۔ اس کا نام ’پتھر کی زبان‘ تھا اور یہ 1967ء میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ء میں شادی کے بعد شایع ہوا۔ اس وقت فہمیدہ ریاض انگلینڈ میں مقیم تھیں اور پھر تیسری کتاب ’دھوپ‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔ فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں۔ انھیں‌ حکومتِ پاکستان اور ادبی و انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    فہمیدہ ریاض‌ کا انتقال 21 نومبر 2018ء کو ہوا اور انھیں لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف ’حلقہ مری زنجیر کا‘، ’ہم رکاب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’ میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’آدمی کی زندگی‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

  • اطہر نفیس: خوابوں کا صورت گر شاعر

    اطہر نفیس: خوابوں کا صورت گر شاعر

    پاکستان کی معروف گلوکارہ فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا سفر 60 کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ یوں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن پر ان کی آواز میں کئی غزلیں، نظمیں اور گیت مقبول ہوئے، لیکن اطہر نفیس کی ایک غزل نے انھیں لازوال شہرت دی۔

    اس غزل کا مطلع آپ کی سماعتوں‌ میں‌ بھی محفوظ ہوگا۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اردو کے معروف شاعر اور صحافی اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اطہر نفیس کا شمار اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شعرا میں‌ کیا جاتا ہے۔ فریدہ خانم کی مدھر آواز میں اطہر نفیس کی یہ غزل اس قدر مقبول تھی کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہر پروگرام میں اس کی فرمائش کی جاتی تھی۔ فریدہ خانم پروگراموں اور نجی محفلوں میں غزل سرا ہوتیں تو یہ غزل سنانے کی فرمائش کی جاتی۔ اس کلام کی بدولت فریدہ خانم کی شہرت کو گویا چار چاند لگ گئے تھے۔

    ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی اطہر نفیس کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے۔‘‘

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ ادبی صفحہ کے نگراں رہے اور اس کام کے ساتھ ان کی مشقِ سخن بھی جاری رہی۔ اطہر نفیس نے شادی نہیں کی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب سے ہم عصر شعرا کے درمیان اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ اپنے تخلیقی وفور اور دل کش اندازِ‌ بیان کے سبب ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول تھے۔ اطہر نفیس نے اردو غزل کو خیال آفرینی اور اس کے ساتھ ایک خوب صورت، لطیف اور دھیما لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔

    اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
    اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

    اطہر نفیس کی یہ مشہور غزل فریدہ خانم کے بعد دوسرے پاکستانی گلوکاروں نے بھی گائی۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

  • سلام مچھلی شہری:‌ رومانوی لہجے کا ایک بھولا بسرا شاعر

    سلام مچھلی شہری:‌ رومانوی لہجے کا ایک بھولا بسرا شاعر

    اردو ادب میں اپنی رومانوی شاعری سے شہرت پانے والوں میں سلام مچھلی شہری بھی شامل ہیں۔ ان کی مقبولیت کا سبب وہ منفرد لہجہ اور وہ طرزِ سخن ہے جس نے انھیں ہم عصر رومانوی شعراء کے درمیان خاص امتیاز بخشا سلام مچھلی شہری شاعر ہی نہیں ادیب بھی تھے۔

    آج سلام مچھلی شہری کا تذکرہ شاذ ہی ہوتا ہے اور نئی نسل کے لیے یہ نام یکسر نامانوس ہوگا، لیکن ہندوستان میں تقسیم سے پہلے اور بعد میں سلام مچھلی شہری نے ایک بالکل نئے طرز کی رومانوی شاعری سے خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ سلام مچھلی شہری ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ نظم کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے لیے ڈرامہ اور ناول جیسی اصناف کا سہارا لیا۔ ریڈیو کی ملازمت کے دوران سلام مچھلی شہری نے کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا لکھے۔ ان کا ایک ناول ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے عنوان شایع ہوا تھا۔

    سلام مچھلی شہری نے یکم جولائی 1921ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ جونپور کے مچھلی شہر میں پیدا ہوئے تھے اور اسی نسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ مچھلی شہری لکھتے رہے۔ سلام مچھلی شہری کی تعلیم کا سلسلہ ہائی اسکول سے آگے نہیں‌ بڑھ سکا لیکن کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی تھی اور اسی وابستگی نے انھیں شعر و ادب کی دنیا میں بحیثیت شاعر اور ادیب نام بنانے کا موقع دیا۔ کتب خانے میں انھوں‌ نے اپنی رسمی تعلیم کی کمی اور مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ لائبریری میں سلام مچھلی شہری کو مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے اور ادب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویس کے طور پر کام کرنے لگے۔ بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے ان کا تبادلہ سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی کے ریڈیو اسٹیشن میں بطور پروڈیوسر تقرری ہوگئی۔ ان ملازمتوں کے دوران کئی اہلِ علم ہستیاں، قلم کار اور آرٹسٹوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ نشستوں نے بھی ان کی فکر اور خیال کو پختہ کیا اور سلام مچھلی شہری ایک منفرد شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ بھارت کے اس مشہور شاعر کو ’پدم شری ایوارڈ‘ دیا گیا تھا۔ سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ کے عنوان سے شایع ہوئے۔

    19 نومبر 1973ء کو سلام مچھلی شہری دہلی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی ایک مشہور نظم ملاحظہ کیجیے۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • وقار عظیم: اردو ادب کے ایک نکتہ بیں، رمز شناس

    وقار عظیم: اردو ادب کے ایک نکتہ بیں، رمز شناس

    وقار عظیم اردو کے مشہور ادیب، نقاد، محقق اور ماہرِ تعلیم تھے۔ انھیں اردو زبان میں افسانوی ادب کے اوّلین نقاد کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ افسانوی ادب کے وسیع مطالعہ کے ساتھ اپنی تنقیدی بصیرت کی بنا پر وقار عظیم نے داستان، ناول اور افسانے کے ربطِ باہمی، ارتقا اور فنی اختلاف و حدود کو جس طرح سمجھا اور سمجھایا ہے اس کی مثال اردو تنقید کے میدان میں کم ہی ملتی ہے۔

    آج پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ 1976ء میں وقار عظیم آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔

    سید وقار عظیم پہلے نقاد ہیں جنھوں نے افسانے کی مبادیات اور تشکیلی عناصر پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    انھوں نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو ان کی محنت اور لگن کے ساتھ ان کے وسیع مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔ وقار عظیم اپنی علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور یہ کتابیں علم و ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ انھوں نے اردو نثر اور نظم کی مختلف اصناف پر تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    اردو کے اس گوہرِ قابل کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کے دوستوں میں اپنے وقت کے مشہور شاعر اور ادیب شامل تھے جو ان کے گھر آیا کرتے اور وہاں محفل جمتی تو وقار عظیم بھی اشعار اور مختلف موضوعات پر ان کی گفتگو سنتے، جس نے انھیں ادب کا شیدا بنا دیا۔ تعلیمی میدان میں وہ شان دار نمبروں سے کام یاب ہوتے رہے اور اسی عرصہ میں مطالعہ کے ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ کے عنوان سے کتابیں دیں۔

    انھیں لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • شفیع محمد شاہ: ٹیلی وژن کے معروف اداکار کا تذکرہ

    شفیع محمد شاہ: ٹیلی وژن کے معروف اداکار کا تذکرہ

    دھیمے لہجے مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ کو ورسٹائل فن کار مانا جاتا ہے۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کو اپنا مداح بنایا۔ شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں‌ بھی کام کیا، لیکن ان کی وجہِ‌ شہرت چھوٹی اسکرین پر نبھائے گئے کردار ہیں۔

    اداکار شفیع محمد شاہ 17 نومبر 2007ء میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شفیع محمد شاہ نے کئی یادگار ڈراموں میں اداکاری کی۔ ان کا تعلق سندھ کے شہر کنڈریارو سے تھا۔ اداکار شفیع محمد شاہ 1948ء میں پیدا ہوئے۔ سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں ایم اے کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کر لی۔ اداکاری ان کا شوق تھا اور اس کے لیے انھوں نے سب سے پہلے ریڈیو کا رخ کیا۔ شفیع محمد شاہ کا دھیما لہجہ اور مٹھاس ان کی آواز میں‌ ایک جاذبیت اور کشش پیدا کرتی تھی جسے ریڈیو پر بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے فن کی دنیا میں بطور صدا کار اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور پھر فلم میں‌ کام حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔

    بطور اداکار کام حاصل کرنے کے لیے شفیع محمد شاہ نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔ لاہور میں‌ انھیں اپنے وقت کے مقبول ہیرو محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور باکمال پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں ایک ڈرامہ اڑتا آسمان میں‌ کردار کی پیش کش کی۔ شفیع شاہ نے یہ آفر قبول کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ اداکار شفیع محمد شاہ لاہور میں قیام کے دوران چند ہی فلموں میں کام کرسکے اور کراچی لوٹ آئے۔

    پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین ڈرامہ تیسرا کنارہ اور آنچ میں شفیع محمد شاہ کی لاجواب اداکاری ناظرین کو آج بھی یاد ہے۔ ان ڈراموں کی انھیں ملک بھر میں شہرت اور پذیرائی ملی۔ ڈرامہ سیریل آنچ میں ان کا کردار نہایت جان دار تھا۔ شفیع محمد شاہ نے اس ڈرامے میں محمود علی، شگفتہ اعجاز، سمیع ثانی، کلثوم سلطانہ جیسے سینئر اور منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان اپنی اداکاری سے خوب داد سمیٹی۔ یہ ایک معاشرتی کہانی تھی جس میں طلاق، دوسری شادی اور ازدواجی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور میاں بیوی کے درمیان غلط فہمیوں اور رویوں کی عکاسی کرتے ہوئے مثبت پیغام دیا گیا تھا۔ شفیع شاہ اس ڈرامے کے بعد ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔

    اداکار شفیع شاہ نے ٹیلی وژن پر چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی جیسے ڈراموں‌ میں بھی لاجواب اداکاری کی۔

    شفیع محمد شاہ نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا تھا، لیکن کام یاب نہیں ہوسکے تھے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اداکار شفیع محمد شاہ کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور بعد از مرگ ستارۂ امتیاز دیا۔

  • غلام رسول مہرؔ: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    غلام رسول مہرؔ: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    غلام رسول مہرؔ نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اردو ادب میں انھیں ایک انشا پرداز، جید صحافی، ادیب، شاعر، نقاد، مترجم، مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    غلام رسول مہر نے اردو زبان و ادب کو کئی معیاری علمی اور ادبی تحریریں دیں اور متعدد کتب یادگار چھوڑیں۔ غلام رسول مہرؔ 16 نومبر 1971ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    یہ بھی پڑھیے: ٹرین کا سفر اور جالندھر کی مٹی کا کوزہ!

    مہر صاحب کا تعلق جالندھر کے ایک گاؤں پھول پور سے تھا۔ ان کی تاریخِ پیدائش 15 اپریل 1895ء ہے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التحصیل غلام رسول مہر کو حیدرآباد (دکن) میں ملازمت ملی تو وہاں چند سال قیام کیا، لیکن پھر لاہور آگئے۔ مولانا غلام رسول مہر نے عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور مشہور اخبار زمیندار سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی فکر اور قلم کی بدولت صحافت میں خوب نام کمایا۔ بعد میں عبدالمجید سالک کے ساتھ مل کر انقلاب کا اجرا کیا اور 1949ء تک اس سے وابستہ رہے۔

    مولانا غلام رسول مہر نے پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ انھوں نے اردو زبان میں سیاست، تہذیب و تمدّن، ادب کی مختلف اصناف اور سیرت نگاری پر کئی مضامین لکھے جو مختلف جرائد اور اخبار میں‌ شایع ہوئے۔ ان کی لگ بھگ 100 کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ان میں تبرکاتِ آزاد، غالب، راہ نمائے کتاب داری، شہری معلومات، تاریخِ عالم، اسلامی مملکت و حکومت، تاریخِ‌ شام شامل ہیں۔ انھوں ایک خودنوشت سوانح عمری بھی لکھی تھی جسے ادب کے قارئین نے بہت پسند کیا۔

    ممتاز ادیب اور ناول نگار انتظار حسین نے مہر صاحب سے متعلق ایک واقعہ اپنی کتاب "بوند بوند” میں یوں رقم کیا ہے: "مولانا غلام رسول مہر کیا صاحبِ علم بزرگ تھے۔ جب بھی بات کی علم ہی کی بات کی۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد نکاح ثانی فرمایا۔ مگر شاید آنے والی ان کے علمی معیار پر پوری نہیں اتری۔ کسی بات پر اسے جاہل کہہ دیا۔

    وہ نیک بی بی رو پڑی۔ تب مہر صاحب تھوڑے نرم پڑے۔ پیار سے بولے کہ مولانا میں نے کون سی گالی دی ہے کہ آپ گریہ فرمائی پر اتر آئیں۔ جاہل عربی کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے "بے خبر”۔

    غلام رسول مہر کی تحریروں میں فکر و نظر کے مہکتے پھولوں کے ساتھ روانی، طنز و مزاح کی چاشنی، استدلال اور منطق کے ساتھ مرقع نگاری بھی جھلکتی ہے جب کہ ان کے تحریر کا ایک رنگ حسبِ موقع اور زبان کی چاشنی کے لیے مختلف اشعار کا استعمال بھی ہے۔ انھوں نے ایسا اسلوب اختیار کیا جو ان کی انفرادیت قرار پایا۔

    غلام رسول مہر نے لاہور میں‌ وفات پائی اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ کا نام بارہویں صدی عیسوی کے عظیم فلسفی، مفکّر اور شاعر کے طور پر اسلامی دنیا میں مشہور ہے اور اپنی تصانیف کی بدولت دنیا بھر میں ایک عالم فاضل شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ابنِ عربی کو شیخِ اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

    ابنِ عربیؒ کا پورا نام محیُ الدّین محمد بن علی ابنِ عربی تھا اور اکثر اس کے ساتھ الحاتمی الطائی الاندلسی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ابنِ عربی حاتم طائی کی نسل میں سے تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1165ء ہے تاہم اس پر اختلاف بھی ہے۔ تاریخ کی کتب میں ان کا وطن اندلس (اسپین) اور آبائی شہر مرسیا لکھا ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ اشبیلیہ منتقل ہوگئے تھے، وہیں ابنِ عربیؒ نے تعلیم پائی اور عنفوانِ شباب کو پہنچے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن عربی نے اندلس سے شمالی افریقہ، مصر، عرب، شام، عراق، یروشلم، ترکی تک سفر کیے تھے۔ اشبیلیہ نقل مکانی کے بعد انھیں اپنے وقت کے جیّد علما اور عظیم شخصیات کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے تصوف، فقہ اور دیگر مروّجہ دینی اور دنیاوی علوم سیکھنے کے علاوہ صوفیا کی صحبت میں وقت گزارا۔ مؤرخین کے مطابق 30 برس کی عمر میں پہلی بار اندلس سے باہر قدم رکھا اور تیونس میں ابوالقاسم بن قسی کی کتاب’’ خلع النعلین‘‘ کا درس لیا۔ ابو محمّد عبد العزیز بن ابوبکر القریشی سے ملے اور پھر ایک برس تک ابو محمّد عبداللہ بن خمیس الکنانی کے پاس رہے۔ والد کی وفات پر اشبيليہ واپس آگئے، مگر کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر سفر پر نکل گئے اور اِس بار بھی اُن کی منزل شمالی افریقا تھی۔ وہ فاس (موجودہ مراکش کا ایک شہر) جا پہنچے، جہاں قیام کے دوران روحانیت کا تجربہ ہوا اپنے ان اسفار اور مختلف ممالک میں قیام کے دوران ابن عربی نے فلسفہ، حکمت و منطق، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، نجوم وغیرہ کا علم اور تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھیں ادب اور بعض دیگر علوم وفنون بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ فاس کے سفر میں‌ والدہ، بیوی اور بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ وہاں اپنی بہنوں کی شادی کی اور والدہ کے وہیں وفات پا جانے کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔ دو سال وہاں مقیم رہے اور پھر مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد دوبارہ مکّہ لوٹ گئے۔ ایک سال تک وہاں قیام کیا، پھر ایشیائے کوچک (اناطولیہ، موجودہ ترکی) چلے گئے۔ سلجوق ریاست کے پایۂ تخت قونیا میں وہاں کے سلطان نے ان کی بہت عزّت افزائی کی۔ وہاں سے آپؒ بغداد چلے گئے۔ 620 ہجری میں ابنِ عربی نے دمشق میں اقامت اختیار کی اور آخری سانس تک وہیں رہے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت تھے۔ انھوں نے ایک معرکہ آرا کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی جو تیس سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔ آج ابنِ عربی کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کہتے ہیں کہ متعدد تصانیف کا کوئی نشان نہیں‌ ملا۔ انھیں عربی نظم و نثر پر یکساں عبور حاصل تھا۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر بڑی دسترس اور کمال قدرت تھی۔

    ابنِ عربی نے آج ہی کے دن 1240ء میں وفات پائی۔ ان کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبلِ قاسیون کے دامن میں ہے اور انہی کی مناسبت سے اسے محلّہ ابنِ عربی کہتے ہیں۔

    ان کی دو کتب فتوحاتِ مکیہ اور نصوص الحکم ہر دور میں درس و تدریس کے حوالے سے اہم رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں ابنِ عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ تیرھویں صدی عیسوی ہی میں یورپ میں ان پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا اور پچھلے کئی برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین اور مشرقی علما و حکما خاص طور پر ابنِ عربی کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔

    ایّوبی اور سلجوق حکم ران حضرت ابنِ عربی کے معتقد تھے۔ صلاح الدّین ایّوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے دوستانہ تعلقات تھے، جب کہ صلاح الدّین ایوبی کے نواسے، امیر عبد العزیز بھی آپؒ سے بہت عزّت و احترام سے پیش آتے تھے۔ ایّوبی حاکم، الملک العادل نے آپؒ کو قاہرہ میں دشمنوں سے بچایا۔ سلجوق سلطان، علاء الدّین کیقباد آپؒ کا مرید تھا۔ تاہم، آپؒ اِن تعلقات کو اسلامی تعلیمات کی اشاعت، مسلم حکومتوں کی مضبوطی اور عام افراد کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے، کبھی ذاتی فوائد حاصل کیے۔

    ابنِ عربیؒ کی کتب کی تعداد 800 تک بیان کی جاتی ہے۔ تاہم وہ اپنے زمانے میں اور بعد کے برسوں میں بھی علماء اور قرآن و سنت کے پابند دینی طبقات میں اپنے دینی فلسفے، بعض نظریات کی وجہ سے متنازع بھی رہے۔ اس کی ایک وجہ ابن عربی کا اسلوب خاصا فلسفیانہ اور دقیق اصطلاحات پر مشتمل ہونا ہے اور ان کے نظریات عام مسلمانوں کی عقل اور فہم سے ماورا تھے، اور اس کا فائدہ ابن عربی کے مخالفین اور حاسدین نے بھی اٹھایا اور عام لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کی ہدایت کی۔ انھوں نے ذات و صفاتِ باری تعالیٰ، عرش و کرسی، ملائکہ، انبیائے کرام، جنّت، دوزخ، تخلیقِ کائنات سمیت متعدد ایسے عنوانات پر اظہار خیال کیا جو علماء کے نزدیک متنازع ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابنِ عربیؒ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے باقاعدہ وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔

  • خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں ’’زینت‘‘ نے ’’شیاما‘‘ بنا دیا

    خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں ’’زینت‘‘ نے ’’شیاما‘‘ بنا دیا

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ کے لیے اسٹوڈیو میں قوّالی کا ایک منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل شوکت صاحب کی اس فلم کو ہندوستان بھر میں‌ کام یابی ملی تھی۔

    اس موقع پر حاضرین میں اسکول کی چند طالبات کے ساتھ ایک لڑکی خورشید اختر بھی موجود تھی۔ شوکت حسین رضوی نے اسے قوّالی میں شامل کرلیا۔ فلم کی وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ بعد کے برسوں‌ میں خورشید اختر نے بطور اداکارہ اپنے فلمی نام شیاما سے ہندوستان میں‌ شہرت اور مقبولیت پائی۔

    شیاما، 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں جلوہ گر ہوئیں اور کام یاب اداکارہ ثابت ہوئیں۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھیں‌ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان اداکارہ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    خورشید اختر کو شیاما کا نام معروف ہدایت کار وجے بھٹ نے 1953ء میں دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانی گئیں۔ اداکارہ شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں فلم سازوں کو بھی متاثر کیا اور انڈسٹری میں‌ انھیں کام ملتا رہا۔ ان فلم سازوں‌ میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آر پار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے اور شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    فلمی دنیا کی ایک معروف اور قابل شخصیت ضیا سرحدی نے فلم ‘ہم لوگ’ بنائی تھی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ شیاما نے کام کیا تھا۔ اس اداکارہ پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت پسند کیا گیا۔ شیاما کی فلموں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ اداکارہ شیاما 82 سال کی عمر میں‌ 14 نومبر 2017ء میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہوئیں۔