Tag: نومبر برسی

  • اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    اقبال حسن:‌ وہ ‘ٹرالی مین’ جو پنجابی فلموں کا مقبول اداکار بنا

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ پاکستان میں پنجابی فلموں کے اس مقبول ترین ہیرو کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو اس کار میں اُن کے ساتھ موجود تھے۔ اقبال حسن نے جائے حادثہ پر ہی دَم توڑ دیا تھا جب کہ اسلم پرویز ایک ہفتے زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ دونوں‌ فن کار فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد لاہور میں‌ فیروز پور روڈ سے اپنی کار میں گزر رہے تھے کہ ایک ویگن سے تصادم ہوگیا۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ فلمی دنیا میں‌ ایک مثال ہے۔ 1981ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ فلم شیر خان کا مرکزی کردار نبھانے کے بعد اقبال حسن ایکشن پنجابی فلموں کے دور میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے بعد تیسرے کام یاب ترین اداکار بن گئے تھے۔ فلم ساز یونس ملک کو زبردست مالی منافع ہوا اور مشہور ہے کہ انھوں نے اقبال حسن کے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس رکھ کر کہا، اس میں‌ سے جتنی رقم لینا چاہیں لے سکتے ہیں۔ اقبال حسن نے دونوں‌ ہاتھوں میں‌ جتنے نوٹ سمائے اس بریف کیس سے نکالے اور کہا بس یہی دولت میرے نصیب کی تھی۔ یوں‌ باقی رقم یونس ملک واپس لے گئے۔ یہ واقعہ اقبال حسن کی اعلیٰ‌ ظرفی اور یونس ملک کی دریا دلی کی مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور پنجابی فلموں‌ کے شائقین میں ازحد مقبول ہوئے۔ اقبال حسن لاہور میں اندرونِ گیٹ ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ فلم میں کام کرنے کا شوق بھی تھا اور وہ محنتی بھی تھے۔ اقبال حسن کے بھائی بھی فلمی دنیا سے بطور اداکار وابستہ تھے اور انھون نے اقبال حسن کو ایک کیمرہ مین کے اسسٹنٹ کے طور پر کام پر لگا دیا۔ یہ ایک قسم کی محنت مزدوری اور بھاگ دوڑ ہی تھی۔ لیکن انھوں نے کسی طرح فلم میں کام حاصل کر لیا۔ اقبال حسن کے فلمی کیریئر کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سسّی پنّوں سے ہوا۔ اقبال حسن نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت پنجابی میں‌ بننے والی فلموں کی وجہ سے ہے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • زینت بیگم: ایک بھولی بسری آواز

    زینت بیگم: ایک بھولی بسری آواز

    متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران کلاسیکی موسیقی، رقص اور فلم کی دنیا میں طوائفوں یا بازارِ‌ حسن سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے بڑا نام و مقام پایا۔ زینت بیگم کی وجہِ شہرت تو کلاسیکی گلوکاری ہے، لیکن انھوں نے فلم میں اداکاری بھی کی اور بطور ہدایت کار بھی کام کیا۔

    زینت بیگم کا درست سنہ پیدائش معلوم نہیں اور خیال ہے کہ وہ 1920ء یا 1931ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ اس زمانے کے ایک طوائف گھرانے کی اولاد تھیں‌ جس میں ناچ گانا معمول کی بات تھی۔ اس ماحول کی پروردہ زینت بیگم کا موسیقی سے لگاؤ فطری امر تھا۔ انھیں گلوکاری کا شوق ہوا تو کلاسیکی موسیقی سیکھی اور گانے بجانے کے ساتھ اداکاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ زینت بیگم کو فلم نگری سے وابستہ ہونے کا موقع اس وقت ملا جب ان کا خاندان لاہور سے ممبئی منتقل ہوا۔ یہ 1944ء کی بات ہے، اس زمانے میں فن کار اور بڑے بڑے تخلیق کار ممبئی کا رخ کررہے تھے۔ زینت بیگم 1937ء میں لاہور میں قیام کے دوران پس پردہ گلوکاری کا آغاز کرچکی تھیں۔ انھیں مشہور کلاسیکی موسیقار پنڈت امر ناتھ نے فن کی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔ 1942ء میں زینت بیگم نے پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ اپنی آواز دی تھی۔ یہ گوویند رام کی پنجابی فلم منگتی تھی جس کے لیے زینت بیگم نے گیت گائے تھے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ ہندی زبان میں زینت بیگم کی اوّلین فلم نشانی بھی اسی سال کی یادگار ہے۔ 1944ء میں انھوں نے فلم پنچھی کے لیے گیت ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ممبئی میں فلم انڈسٹری کے لیے زینت بیگم نے متعدد موسیقاروں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا اور بہت پسند کی گئیں۔ انھوں نے اپنے وقت نام ور موسیقاروں پنڈت حُسن لال بھگت رام، ماسٹر غلام حیدر، پنڈت گوبند رام کے ساتھ کام کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد زینت بیگم بھارت میں رہیں اور 1951ء کی ہندوستانی فلم مکھڑا کے لیے گانے ریکارڈ کروا کے پاکستان آگئیں۔ یہاں چند برس تک انھوں نے فلم انڈسٹری کے لیے گیت گائے اور ہیر نامی فلم میں سہتی کا کردار بھی ادا کیا۔ زینت بیگم نے 12 نومبر 1966ء کو لاہور میں‌ وفات پائی۔

    گلوکارہ اور اداکارہ زینت بیگم نے فلم کے ساتھ ریڈیو کے لیے بھی متعدد گیت ریکارڈ کروائے۔ پنچھی، شالیمار، شہر سے دور جیسی فلموں کے لیے ان کی آواز میں‌ گانے اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

  • اسٹین لی:‌ کامکس کی دنیا کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    اسٹین لی:‌ کامکس کی دنیا کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    کامکس کے مداح دنیا بھر میں موجود ہیں اور ان مداحوں‌ میں بچّے یا نوجوان ہی‌ نہیں‌ بڑے بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ کامکس کے کرداروں کے گرویدہ ہوتے ہیں اور اکثریت ان پر مشتمل کہانیاں شوق سے پڑھتی ہے، اور جب سے یہ کردار اسکرین پر نظر آنے لگے ہیں، ان کی مقبولیت اور پذیرائی بڑھ گئی ہے۔ اسپائڈر مین، آئرن مین اور دی ہلک جیسے شہرۂ آفاق کردار کتابوں‌ سے نکل کر سنیما کے پردے پر مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔

    ہم نے یہاں‌ جن کرداروں کا ذکر کیا ہے، کئی دہائیوں قبل اسٹین لی نے اپنے ذہن میں ان کا خاکہ بنایا تھا اور پھر ان کے تخلیق کردہ یہ کردار کہانیوں کے ساتھ قارئین تک پہنچے اور ہر دل عزیز ٹھیرے۔ آج ان کامکس کے خالق آرٹسٹ اور مصنّف اسٹین لی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 95 برس جیے۔

    ایک طرف تو کامکس کے پرستار ان کرداروں کو اُن کی زبردست اور کرشماتی قوّتوں‌ کی وجہ سے پسند کرتے ہیں‌ اور دوسری طرف وہ کہانیوں‌ میں‌ انھیں بدی اور شر کی طاقتوں‌ کے خلاف لڑتے ہوئے دیکھنے میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔ اسٹین لی وہ آرٹسٹ تھے جس نے انسانی فطرت اور دل چسپی کے اسی پہلو کو پیشِ‌ نظر رکھتے ہوئے ایسے شان دار کردار تخلیق کیے اور کہانیاں‌ لکھیں۔

    اسٹین لی کو بیسویں صدی کا شان دار تخلیق کار کہا گیا، کیوں کہ ان کے مارول کامک بکس نے صرف بچّوں یا نوجوانوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اپنے سحر میں‌ جکڑ لیا تھا۔ اسٹین لی کا تعلق امریکا سے تھا۔ 1940ء کے عشرے میں اسٹین لی نے لکھنے کا آغاز کیا تھا اور بعد میں کامک بک کی اشاعت سے اور بالخصوص اسکرین تک اس مصنّف نے شان دار کام یابیاں اپنے نام کیں۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار اور منفرد تخلیق کار تھے۔

    اپنے اس سفر آغاز میں اسٹین لی نے ایک چھوٹا چھاپہ خانہ قائم کرکے مارول کامک بکس شایع کیں۔ اسٹین لی کے تخلیق کردہ کردار بچّوں کی نفسیات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ناقدین نے اس بات کو سراہا ہے کہ اسٹین لی کی سبق آموز کہانیوں کی بدولت بچّے خود کو انہی کرداروں میں ڈھلا ہوا دیکھتے ہیں‌ اور خیالی دنیا آباد کرکے بدی کی طاقتوں کو شکست دینے لگتے ہیں۔ اسٹین لی کو اپنے مارول کرداروں پر مبنی کہانیوں کے سبب ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہوا۔ وہ فلم ساز اور مکالمہ نویس بھی تھے۔

    سپرمین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بار اسٹین لی نے کہا تھا کہ وہ میرے لیے کبھی بھی دل چسپی کا باعث نہیں رہا، کیوں کہ میں کبھی اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہوا۔ اگر آپ اپنے ہیرو کے لیے فکرمند نہیں ہوتے تو اس میں کوئی جوش نہیں ہوتا۔

    اسٹین لی کا ساتھی آرٹسٹ جیک کربی تھا جنھوں نے مل کر 1961ء میں کمپنی مارول کامکس بنائی تھی۔ انھوں نے فینٹیسٹک فور نامی سیریز سے آغاز کیا تھا اور بعد میں ان کے کامک بک کے کردار اسپائیڈر مین اور دی ہلک انتہائی مقبول ہوئے۔

    اسٹین لی 28 دسمبر 1922ء کو امریکا، نیویارک میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کا سفر 12 نومبر 2018ء تک جاری رہا۔

    ہالی وڈ میں اسٹین لی کے تخلیق کردہ کرداروں پر فلمیں بنائی گئیں جو بے حد مقبول ہوئیں اور فلم سازوں نے اس سے زبردست مالی منافع سمیٹا۔ آج ڈیجیٹل دور میں ہم ایسے کئی کردار تخلیق ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اب ہر ملک میں‌ جدید ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرز کی مدد سے بہت سہولت سے یہ کام کیا جارہا ہے، لیکن اس زمانے میں‌ جب یہ سب ایک ‘کلک’ یا کسی سافٹ ویئر پر ایک ‘کمانڈ’ کے تابع نہیں‌ تھا، اسٹین لی نے دن رات محنت اور لگن سے وہ کام کیا جس کا جواب نہیں‌۔ اسٹین لی کو فن کی دنیا کبھی فراموش نہیں‌ کرسکے گی۔

  • شکیب جلالی: وہ شاعر جس نے صرف 32 سال کی عمر میں‌ زندگی سے ناتا توڑ لیا

    شکیب جلالی: وہ شاعر جس نے صرف 32 سال کی عمر میں‌ زندگی سے ناتا توڑ لیا

    12 نومبر شکیب جلالی کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ 1966ء میں اس روز انھوں نے خودکُشی کرلی تھی۔ شکیب جلالی دنیائے ادب میں اپنی خوب صورت شاعری کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ 32 سال کی عمر میں‌ اس نوجوان شاعر نے ٹرین کے سامنے آکر اپنی زندگی ختم کرلی تھی۔

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

    بدقسمتی سے شکیب نے نوعمری میں اپنی والدہ کو اسی طرح ٹرین کے نیچے آکر زندگی کا خاتمہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اور وہ سانحہ تھا جس نے شکیب کو ہمیشہ مضطرب رکھا اور وہ شدید ڈپریشن کا شکار رہے۔ کوئی پختہ عمر اور مضبوط اعصاب کا مالک بھی شکیب جلالی کی جگہ ہوتا تو اسی کرب اور اذیت سے دوچار ہوتا جس نے شکیب کو ہمیشہ بے حال رکھا، اس وقت وہ صرف دس سال کے تھے۔ ان کی والدہ نے بریلی ریلوے اسٹیشن پر خود کشی کی تھی۔

    ان کا اصل نام سیّد حسن رضوی تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد شکیب جلالی کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔ ان کے ذہن کے پردے پر وہ قیامت خیز منظر ایک فلم کی طرح چلتا رہتا تھا۔ وہ شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا رہے اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر ایک دن خود بھی سرگودھا میں موت کو گلے لگا لیا۔ شکیب جلالی لاہور میں ذہنی امراض کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد بھی ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار تھے۔ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے مسائل اور پریشانی نے شکیب جلالی کی والدہ کو خود کشی پر آمادہ کرلیا تھا۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ان کے والد اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے اور انھوں نے ہی اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو شاعری میں شکیب جلالی اپنے جداگانہ انداز کے سبب ہم عصرو‌ں میں نمایاں ہوئے۔ ان کا مجموعہٌ کلام اُن کی خودکُشی کے بعد احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کا نمایاں ترین شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    شکیب جلالی نے بدایوں سے میٹرک کیا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز کرنے والے شکیب جلالی ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ شکیب نے چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور بعد میں ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ پھر انھیں ایک محکمہ میں ملازمت مل گئی، لیکن اس عرصہ میں ان کی ذہنی الجھنیں بڑھ گئی تھیں۔ تاہم مشقِ سخن جاری رہی۔ شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے انھیں ہم عصر شعرا کے درمیان امتیاز اور خوب شہرت دی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں ادبی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا، وہیں باذوق قارئین میں بھی مقبول ہوئے۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے۔

    شکیب جالی کے چند مشہور اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

  • اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    پاکستان میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے اے نیّر کا نام ہمیشہ ایک بہترین گلوکار کے طور پر لیا جاتا رہے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔

    گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہونے والے اے نیّر کا اصل نام آرتھر نیّر تھا، وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اے نیّر کو بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ پلے بیک سنگر بننے کے آرزو مند تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ اے نیّر گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر قسمت سے مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اے نیّر کو موقع ملا تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں اے نیّر نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے انٹرویوز میں‌ بتاتے تھے کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی شروع کی تھی۔ ایک عرصہ سے علیل اے نیّر 66 سال زندہ رہے۔

  • این جی مَجُمدار: ماہرِ‌ آثارِ‌ قدیمہ اور مصنّف

    این جی مَجُمدار: ماہرِ‌ آثارِ‌ قدیمہ اور مصنّف

    این جی مَجُمدار پر ڈاکوؤں نے اُس وقت حملہ کیا جب وہ سندھ کے ایک علاقے میں تہذیب و تمدن کا پوشیدہ خزانہ تلاش کررہے تھے۔ وہاں سے برآمد ہونے والی اشیاء سونے چاندی یا نقدی کی طرح اُن لٹیروں کے کام نہیں آسکتی تھیں، لیکن ان کا خیال تھاکہ کھدائی کے دوران جواہر اور زیورات وغیرہ برآمد ہوئے ہوں گے جنھیں‌ ہتھیانے کے لیے ڈاکوؤں نے مجُمدار اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیا۔

    یہ ایک طویل پہاڑی سلسلہ تھا جس میں مجمدار زخمی ہوئے اور اسی مقام پر دَم توڑ دیا۔ ان کی لاش کو شہر تک لانے کے لیے اس وقت کی ضلع انتظامیہ کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی لاش بمشکل کاچھو کے میدانی علاقے میں گاج ندی کے کنارے گاج بنگلو تک لائی گئی۔ یہ 11 نومبر 1938ء کا افسوس ناک واقعہ ہے۔

    مَجُمدار ماہرِ آثارِ قدیمہ تھے اور وادیٔ مہران کے ایک مقام پر قدیم تہذیب کے آثار کی کھدائی کا کام انجام دے رہے تھے۔ یہ ہزاروں سال سے پہلے زمین میں دفن ہوجانے والی تہذیب تھی جس کے لیے مجمدار ضلع دادو کے قریب جوہی کے پہاڑی سلسلے میں خیمہ زن ہوئے تھے۔

    وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوج میں 1926ء سے 1930ء تک مجمدار نے اپنی ٹیم کے ساتھ کئی قدیم مقامات دریافت کیے جن میں کاہو جو دڑو، چانہیوں جو دڑو، کوٹ ڈیجی، روہڑی، لوہم جو دڑو، واہی پاندھی کے ٹیلے، غازی شاہ دڑو، گورانڈی کے ٹیلے، جھکر کے ٹیلے، علی مراد دڑو، ٹنڈو رحیم ٹیلہ، منچھر جھیل کے کناری پیر لاکھیو دڑو، پیر مشاخ، لہڑی، ٹہنی کے ٹیلے، نئیگ وادی میں لکھمیر کا ٹیلہ، آمری تہذیب کے ٹیلے وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ میں ضلع ٹھٹہ میں واقع تھارو پہاڑی کے آثار اور سیہون کے قریب جھانگارا کے قدیم آثار بھی انہی کے دریافت کردہ تھے۔

    مَجُمدار نے ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے قابلِ ذکر کام کیا اور ایک تصنیف بھی یادگار چھوڑی۔ وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام نینی گوپال مجمدار تھا جنھیں این جی مَجُمدار پکارا جاتا ہے۔ 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم اے کرنے والے مجمدار نے فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی تھی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔

    این جی مَجُمدار نے سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے دور کے 62 آثارِ قدیمہ دریافت کیے جس کی تفصیل ان کی تصنیف ‘ایکسپلوریشنس اِن سندھ’ میں ملتا ہے۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمۂ آثارِ قدیمہ میں ملازم ہوئے اور 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی برس کلکتہ میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کے ساتھ انھوں نے قدیم آثار کی کھوج اور دریافت کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کے کام اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے 1938ء میں انھیں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا۔ اس سے قبل مجُمدار موہن جودڑو میں کھدائی اور تحقیق کے کام میں‌ سَر جان مارشل کے معاون کے طور پر بھی کام کرچکے تھے۔

    این جی مجُمدار کو ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں کے بارے میں ان کے تحقیقی مقالے پر ‘گریفتھ’ یادگاری انعام بھی دیا گیا تھا۔

    اس زمانے میں‌ عام لوگوں سمجھتے تھے کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے جسے یہ ماہرین کھدائی کے دوران نکال لیتے ہیں۔ جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے حملہ کرنے کی وجہ یہی تصور تھا، اس کے علاوہ عام لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں اور ماہرینِ آثار ان کی باقیات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ زمین میں دفن ہوجانے والی قیمتی اشیا بھی نکال کر لے جاتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کام کرنے والے خطرے کی زد میں‌ رہتے تھے، ڈاکوؤں کو اور تو کچھ نہ ملا لیکن مجمدار جیسے قابل آرکیالوجسٹ جان سے گئے۔

    این جی مجُمدار کی کتاب ‘ایکسپلوریشنس ان سندھ’ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی جس میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور سندھ کے قدیم ٹیلوں اور ان مقامات سے برآمد ہونے والی اشیاء سے متعلق تحقیق اور اس کی تفصیل شامل ہے۔

  • محشر بدایونی کا تذکرہ جن کے متعدد اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے

    محشر بدایونی کا تذکرہ جن کے متعدد اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر تحریر و تقریر میں یا کسی مباحثے کے دوران اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے برتا جاتا ہے۔ یہ محشر بدایونی کا وہ شعر ہے جو ضرب المثل بنا۔ محشر بدایونی 9 نومبر 1994ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    بدایوں کئی علمی و ادبی شخصیات کا شہر رہا ہے اور محشر بھی 4 مئی 1922ء کو بدایوں‌ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے اس شہر میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں وہ محشرؔ کے تخلّص اور بدایوں کی نسبت سے محشر بدایونی مشہور ہوئے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے شوق کو جاری رکھتے ہوئے معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرکے اپنی پہچان بطور شاعر بنائی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔ کراچی میں‌ وفات پانے والے محشر بدایونی سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    اردو کے اس معروف شاعر کا ایک مشہور شعر ہے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • انسان اور شیطان سے مکالمہ کرنے والا جان ملٹن

    انگریزی ادب میں جان ملٹن کو ان کی شاعری کی وجہ سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔ نقاد کہتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست ملٹن کے نام کے بغیر نامکمل سمجھی جائے گی۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ گھر کے ماحول نے جان ملٹن کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ بڑا کردار ادا کیا، ملنٹن نے ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں پرورش پائی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن نے لکھا کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    انگریزی ادب کا یہ نام ور شاعر عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خجان دا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    جان ملٹن کو اس کے افکار اور شاعری نے انگریزی ادب میں لازوال شہرت دی اور وہ انگلستان بھر میں‌ سترھویں صدی کا نمایاں شاعر بنا۔ اس کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ ملٹن کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا تھا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا: جھگڑا مول لے لینے کا خوگر شاعر

    جون ایلیا اپنے مزاج کے شاعر تھے۔ اذیت اور آزار کے آدمی! بلاشبہ اردو نظم اور نثر میں ان کے لہجے کا انفراد، ندرتِ بیان اور انداز انھیں ہم عصر شعراء میں ممتاز اور ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ آج جون ایلیا کی برسی ہے۔

    اردو شاعری کو منفرد لب و لہجہ اور آہنگ عطا کرنے والے جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ اُن کو شاید نہیں تھا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    جون ایلیا کا انشائیہ پڑھیے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    جون ایلیا کی ایک تحریر پڑھیے

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، انشائیہ نگار تھے جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔

    ان کے بارے میں ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس میں‌ سبھی لوگ علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال تھے۔ جون ایلیا کا سنہ پیدائش 14 دسمبر 1931ء ہے، ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے جب کہ رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر تھے۔ ان کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جون ایلیا ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک انھیں بہت کچھ جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔

    جون ایلیا کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • پاکستانی فلموں کے خوب رُو اداکار اور مقبول ہیرو درپن کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے خوب رُو اداکار اور مقبول ہیرو درپن کا تذکرہ

    1961ء میں اداکار درپن نے اپنی ذاتی فلم ’’گلفام‘‘ بنائی تھی گلفام کا ٹائٹل رول درپن نے کیا تھا جب کہ ان کے مدمقابل مسرّت نذیر ہیروئن کے روپ میں‌ اسکرین جلوہ گر ہوئی تھیں۔ یہ درپن کی ایک کام یاب فلم تھی جس میں‌ انھوں نے عرب معاشرت اور ثقافت کو اجاگر کیا تھا۔ درپن ایک مقبول فلمی ہیرو تھے جنھوں نے کیریکٹر رول بھی نبھائے اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔

    آج پاکستانی فلمی صنعت کے اس خوب رُو اداکار کی برسی ہے۔ درپن نے 1980ء میں‌ س جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ ان کا تعلق متحدہ صوبہ جات آگرہ اور اودھ سے تھا۔ درپن 1928ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد عشرت عباس تھا۔ ان کے بھائی سنتوش کمار بھی فلمی ہیرو تھے جب کہ ایک بھائی ایس سلیمان فلم سازی سے وابستہ تھے۔ عشرت عبّاس نے فلم کی دنیا میں درپن کے نام سے شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ اس دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فلمی تعلق خاصا مضبوط تھا اور ان کی بنائی ہوئی فلموں‌ کی نمائش بھی دونوں ممالک میں عام تھی۔ درپن نے پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد ممبئی کا رخ کیا اور وہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ درپن پاکستان لوٹ آئے اور یہاں کئی کام یاب فلمیں کیں جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    درپن کی بطور ہیرو آخری اور کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ تھیں جن سے درپن کی شادی ہوئی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    درپن کو بہترین اداکاری پر دو مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا۔ فلم ساز کے طور پر گلفام کے علاوہ درپن نے بالم، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے بھی فلمیں بنائیں۔ درپن لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔