Tag: نومبر برسی

  • سیّد شمسُ الحسن، قائدِ‌اعظم اور جدوجہدِ آزادی

    سیّد شمسُ الحسن، قائدِ‌اعظم اور جدوجہدِ آزادی

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں شامل تھے جنھیں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ ان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوئے۔ آج شمس الحسن کی برسی ہے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا اور فرمایا: ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔

    آزادی کی تحریک کے اس ممتاز رکن کا نام سیّد شمسُ الحسن تھا جنھوں نے 1892ء میں بریلی میں آنکھ کھولی۔ بریلی اور آگرہ میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 1909ء میں جب مسلم لیگ نے ادارہ روزگار ایمپلائمنٹ قائم کیا تو وہ مسلم لیگ کے سیکرٹری وزیر حسن کے دفتر سے منسلک ہو گئے۔ جولائی 1914ء میں آفس سیکرٹری بنے۔ 1919ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو شمسُ الحسن کی ان سے رفاقت اور رابطہ بڑھ گیا۔ 1914ء سے 1947ء تک وہ مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث، پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے انھیں اہم ذمہ داریاں سونپیں۔

    قیامِ پاکستان سے چند روز قبل قائدِ اعظم نے دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر شمسُ الحسن کو بلوا کر اپنے ذاتی خطوط، مسلم لیگ کا ریکارڈ اور دوسری دستاویزات ان کے سپرد کیں جنھیں‌ بعد میں 98 جلدوں میں مرتّب کیا گیا۔ یہی جلدیں ”شمسُ الحسن کلیکشن“ کہلاتی ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ 7 نومبر 1981ء کو وفات پانے والے سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے بعد از مرگ ان کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا گیا۔

  • نادرِ روزگار مولوی ذکاء اللہ کا تذکرہ

    نادرِ روزگار مولوی ذکاء اللہ کا تذکرہ

    یہ انیسویں صدی کے ایک نادرِ روزگار کا تذکرہ ہے جنھیں اُن کے علمی اور ادبی مشاغل کے سبب بڑا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ یہ مولوی محمد ذکاءُ اللہ تھے جن کو سرکار نے شمس العلماء کا خطاب دیا۔ تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی مولوی محمد ذکاءُ اللہ نے اپنے زمانے میں معاشرتی اصلاح کے لیے بھی قابلِ‌ ذکر کوششیں کیں اور عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گئے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی۔ انگریز ہندوستان پر قابض ہوچکے تھے اور ان کی وجہ سے سماج میں نئی تہذیب کو پنپنے کا موقع مل رہا تھا جب کہ مسلمان اکابرین کو نظر آرہا تھا کہ اگر ان کے بچّے تعلیمی میدان میں پیچھے رہے تو اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ بھی نہیں کرسکیں‌ گے۔ ان حالات میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے فروغ کے لیے اور تعلیمِ نسواں کے پرچارک بن کر سامنے آئے۔

    ادبی تذکروں کے مطابق مولوی ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی تھی۔ ان کا سنہ پیدائش 1832ء ہے۔ مولوی ذکا اللہ کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ کے زیرِ سایہ مکمل ہوئی۔ کم عمری ہی میں وہ عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوگئے تھے اور مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

    مولوی ذکا اللہ نے دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ اس مضمون میں مہارت ایسی بڑھی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے ایک ممتاز عالم اور مشہور استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کی ریاضی میں قابلیت اور مہارت نے انھیں دہلی کالج ہی میں اس مضمون کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں تعلیمی اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کو دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کا مدرس بھی مقرر کیا گیا جب کہ میور سنٹرل کالج میں بھی عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم مشہور ہوئے۔

    انھوں نے تدریس کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ برطانوی حکومت نے مولوی ذکاء اللہ کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ تعلیمِ نسواں کے ضمن میں مولوی صاحب کی کوششوں‌ پر بھی خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان، تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام کیا گیا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، ان کے مضامین نصاب کا حصّہ بنائے گئے۔

    یوں تو مولوی ذکاء اللہ کا میدان سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو میں تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیا۔ مولوی صاحب نے اردو تاریخ نگاری کی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور ایسے مصلح ثابت ہوئے جن کا کام نہایت افادی اور ایک بیش قیمت سرمایہ تھا جس سے ہندوستان بھر میں مسلمان مستفید ہوئے۔

    مولوی ذکاء اللہ 7 نومبر 1910ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں ایک مؤرخ، ماہرِ‌تعلیم، اور مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ "تاریخِ ہندوستان ” ان کا اہم کارنامہ ہے اور کئی جلدوں پر مشتمل مستند ترین کتاب ہے۔ مسلمان اور سائنس کے نام سے کتاب کے علاوہ تہذیب الاخلاق اور تاریخ کے کئی موضوعات پر ان کے قلم سے نکلی ہوئی‌ کتابیں‌ ہی نہیں ریاضی، کیمیا، جغرافیہ اور فلسفہ کے موضوع پر بھی ان کی تصانیف موجود ہیں۔

  • عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی:‌ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار کی برسی

    عدیم ہاشمی کی وجہِ شہرت شاعری اور ڈرامہ نگاری ہے۔ انھیں شعر و سخن کی دنیا میں اُن کے منفرد لب و لہجے نے مقبولیت دی اور ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی یادگار ثابت ہوئے۔

    ممتاز شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی 5 نومبر 2001ء میں شکاگو میں انتقال کرگئے تھے۔ عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر ڈلہوزی سے تھا جہاں عدیم ہاشمی یکم اگست 1946ء کو پیدا ہوئے۔ عدیم ہاشمی کی زندگی کا ایک عرصہ فیصل آباد میں گزرا۔ 1970ء میں وہ لاہور آگئے تھے۔ یہاں ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا اور وہ ادبی حلقوں میں جگہ بنانے کے ساتھ قارئین میں مقبول ہونے لگے۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے گیت نگاری بھی کی۔

    جدید اردو شعرا میں عدیم ہاشمی اپنے منفرد لب و لہجے کے سبب ممتاز ہوئے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں ترکش، مکالمہ، فاصلے ایسے بھی ہوں گے، مجھے تم سے محبت ہے، چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے، کہو کتنی محبت ہے سرفہرست ہیں۔

    پاکستان میں ٹیلی وژن کے ناظرین میں عدیم ہاشمی نے ایک ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچان بنائی۔ ’’آغوش‘‘ ان کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جسے ملک بھر میں ناظرین نے دیکھا اور بہت پسند کیا۔ اپنے وقت کی اس کام یاب ڈرامہ سیریل کے علاوہ عدیم ہاشمی نے مزاحیہ ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی چند کہانیاں‌ بھی تحریر کی تھیں۔

    عدیم ہاشمی کی ایک غزل بہت مشہور ہے جسے غلام علی کی آواز میں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

    عدیم ہاشمی کو امریکا کے شہر شکاگو کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی: فلمی دنیا کی ایک باکمال شخصیت

    شباب کیرانوی ایک عہد ساز شخصیت تھے، جن کے تذکرے کے بغیر پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی اور ترویج میں شباب کیرانوی کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    معروف فلم ساز، ہدایت کار، ادیب، کہانی نویس اور شاعر شباب کیرانوی 5 نومبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفرنگر (اُترپردیش ) کا ایک معروف قصبہ ہے جہاں شباب کیرانوی نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والدین نے ان کا نام نذیر احمد رکھا۔ اسکول میں دورانِ تعلیم نذیر احمد کو شاعری کا شوق ہوگیا۔ وہ شعر کہنے لگے اور تخلّص ’’شباب‘‘ رکھ لیا اور بعد کے برسوں میں اپنی جائے پیدائش کی مناسبت سے شباب کیرانوی مشہور ہوگئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا اور یہاں بھی شباب صاحب کی شاعری کا سلسلہ جاری رہا انھوں نے اپنے وقت کے معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے آگے زانوئے تلمذ طے کرلیا اور باقاعدہ لکھنے لگے۔ شاعری کے ساتھ وہ فلم سازی اور کہانی لکھنے میں بھی دل چسپی لینے لگے تھے۔ لاہور اس وقت فلمی مرکز تھا اور شباب نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کرکے 1955ء میں فلم ’’جلن‘‘ سے بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی اور مکالمہ نویس اپنا سفر شروع کردیا۔ یہی بہ طور فلمی شاعر شباب کیرانوی کی اوّلین فلم بھی تھی۔ ’’جلن‘‘ کے بعد شباب کیرانوی نے متعدد فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی، جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھیں۔ شباب کیرانوی کے دو شعری مجموعے بھی بعد میں‌ شایع ہوئے۔

    1957ء میں شباب کیرانوی کی ایک اور فلم ٹھنڈی سڑک ریلیز ہوئی جس میں اداکار کمال پہلی بار اسکرین پر متعارف ہوئے۔ شباب کیرانوی کا یہ سفر ایک فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر جاری رہا اور ان کی متعدد فلمیں باکس آفس پر کام یاب ہوئیں۔ ان میں ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت سرِفہرست ہیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں کو مختلف زمروں‌ میں‌ کئی ایوارڈز دیے گئے۔

    انھوں نے فلمی صنعت میں کئی باصلاحیت فن کار بھی متعارف کروائے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاتے ہیں۔

    لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ شباب کیرانوی کو وفات کے بعد اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • رسول حمزہ توف:‌داغستان کا عوامی شاعر

    رسول حمزہ توف:‌داغستان کا عوامی شاعر

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر گاؤں کا ہر بچّہ، بڑا بوڑھا حیران پریشان تھا۔ ان میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھے جن کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی۔ چند روز بعد انھوں نے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظم لکھ دی اور یہیں سے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ وہ داغستان کے عوامی شاعر مشہور ہوئے۔

    یوں‌ تو ہوائی جہاز کی لینڈنگ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ ثابت ہوا، لیکن رسول حمزہ تو ف کے تخیّل کو وہ اڑان بھرنے کا موقع دے دیا جس کے باعث وہ روسی اور مقامی ادب میں نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ روس کے زیرِ اثر تھا۔

    رسول حمزہ توف ایک عوامی شاعر ہی نہیں خوب صورت نثر نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی علمی و ادبی حلقوں‌ میں مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، تاہم عوام میں وہ بطور شاعر مقبول ہوئے۔

    رسول حمزہ توف نے اس وقت کے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کا سنہ پیدائش 8 ستمبر 1923ء ہے۔ رسول حمزہ توف کے والد چرواہے تھے۔ وہ اکثر جانور چراتے ہوئے کوئی گیت گاتے جاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ رسول حمزہ توف کبھی ان کے ساتھ کام پر جاتے تو انھیں بھی یہ گیت سننے کو ملتے۔ شاید یہیں سے ان میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو رسول حمزہ توف کے لیے شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک دن داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑ گئی اور رسول حمزہ توف جو اسکول جاتے تھے، ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں داخلہ لیا، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی اور یہ رفاقت ان کی فکر اور فن کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئی، رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں ان کے چند شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے جب کہ حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہتے ہیں‌ کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر طبع زاد کام اور تراجم پر بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں انھوں نے عالمی ادب کا اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیا اور یہ معیاری تراجم ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جسے جدید عالمی ادبیات کی فہرست میں‌ شمار کیا گیا۔ یہ سوویت یونین کے داغستان کو جس اسلوب میں پیش کرتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اپنی زمین سے بے حد محبت، ولولہ انگیز نظمیں، زندگی کو پیش کرنے کا فن کارانہ انداز، انوکھے اور فکر انگیز خیالات، آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز، چھوٹی چھوٹی مقامی کہانیاں، کہاوتیں اس کتاب کا حسن ہیں۔ اور ناقدین کے مطابق اس کتاب کا سب سے بڑا کارنامہ اسے آوار زبان میں پیش کرنا ہے جو صرف پانچ، چھ لاکھ لوگوں کی زبان تھی۔

    روسی حکومت نے اس شاعر اور ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“ جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014 ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    آج رسول حمزہ توف کی برسی ہے۔ وہ 2003ء میں اسّی سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

  • میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    میرا جی: پرلے درجے کا مخلص جس نے لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا

    منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے۔ اردو نظم کو جدّت اور بہ لحاظِ ہیئت انفرادیت عطا کرنے والے میرا جی اپنے فن و تخلیق کے لیے تو اردو ادب میں زیرِ بحث رہے ہی ہیں، لیکن ان کی شخصیت کے بعض پہلوؤں سے بھی ان کے ہم عصر اہلِ قلم صرفِ نظر نہیں کرسکے اور میرا جی کے ‘اعمالِ بد’ کو بھی ادبی تذکروں اور خاکوں کا حصّہ بنایا ہے۔ آج میرا جی کی برسی ہے۔

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور روایت سے انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بھی ثابت کیا ہے اور مگر ان کی فنی عظمت کا اعتراف سبھی کرتے ہیں اور انھیں بالخصوص اردو نظم کو تنوع اور نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والا شاعر کہا جاتا ہے۔ لیکن بحیثیت انسان وہ اپنی آوارہ مزاجی اور ذہنی عیّاشی کے سبب ایسی قبیح عادات میں مبتلا رہے جو ناگفتہ بہ ہیں۔ انھیں جنسی مریض‌ بھی سمجھا گیا، 3 نومبر 1949ء کو میرا جی ممبئی میں وفات پاگئے تھے۔

    میرا جی نے زندگی کی صرف 38 بہاریں دیکھیں۔ ان کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ میرا جی 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں ملازم تھے۔ بسلسلۂ ملازمت ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہا اور میرا جی نے بھی تعلیم مختلف شہروں میں مکمل کی۔ یہ کنبہ لاہور منتقل ہوا تو وہاں‌ میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی ثناء اللہ ڈار کی زندگی میں داخل ہوئی۔ انھوں نے اس کے عشق میں گرفتار ہوکر اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق ناکام رہا۔ اس کے بعد میرا جی نے محبّت اور ہوس میں کوئی تمیز نہ کی اور کئی نام نہاد عشق کیے اور رسوائیاں اپنے نام کیں۔ یہ تو ایک طرف، میرا جی نے اپنا حلیہ ایسا بنا لیا تھا کہ نفیس طبیعت پر بڑا گراں گزرتا۔ ادیبوں نے میرا جی پر اپنی تحریروں میں لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔

    علم و ادب کی دنیا سے میرا جی کا تعلق مطالعہ کے شوق کے سبب قائم ہوا تھا۔ میرا جی مغربی ادب کے ذہین اور مشّاق قاری تھے۔ انھوں نے جب اپنی طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری کا آغاز کردیا اور پھر ادب سے شغف کی بنیاد پر ایک مشہور رسالہ ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور وہ مضمون نگار بن گئے، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ ادبی حلقے سے حوصلہ افزائی نے میرا جی کو طبع زاد تحریروں اور تنقیدی مضامین لکھنے کی طرف راغب کیا اور یوں وہ ادب کی دنیا میں نام و مقام بناتے چلے گئے۔ میرا جی نے قدیم یونانی اور سنسکرت شعرا کے علاوہ بے حد مشکل علامت پسند فرانسیسی شعرا کے بھی کامیابی سے تراجم کیے۔ عمر خیام کی رباعیات کو انھوں نے بڑے سلیقے سے ہندوستانی چولا پہنایا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستانی برطانیہ سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی تھیں اور اردو ادب بھی نئے رجحانات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر ہورہا تھا۔ اسی دور میں میرا جی نے حلقۂ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی اور آگے چل کر جدید نظم کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔ ظفر سیّد نے بی بی سی پر اپنی ایک تحریر میں‌ میرا جی کے لیے لکھا تھا، وہ نام جس نے اردو میں جدیدیت کی داغ بیل ڈالی۔ جس نے کہنہ روایات کی برف کو توڑ کر راستا بنایا، جس نے جدید شاعروں کی ایک نسل کی آبیاری کی۔ یہ میرا جی ہیں، وہ میرا جی جو راشد سے زیادہ رواں، مجید امجد سے زیادہ جدید اور فیض سے زیادہ متنوع ہیں۔

    ڈاکٹر انور سدید میرا جی کے بارے میں لکھتے ہیں، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی دوران انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ اردو شاعری میں‌ میرا جی کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    اردو کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔ میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    یہاں ہم اردو کے جدید اردو نظم کے بانی اور مشہور شاعر میرا جی کی ایک غزل باذوق قارئین کے مطالعے کے لیے نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • عورتوں میں تعلیم، سیاست اور سماج کا شعور اجاگر کرنے والی محمدی بیگم

    عورتوں میں تعلیم، سیاست اور سماج کا شعور اجاگر کرنے والی محمدی بیگم

    ہندوستان میں برطانوی دور میں عورتوں کا پہلا اردو ہفت روزہ ‘تہذیبِ نسواں’ جاری ہوا تو محمدی بیگم اس کی مدیر بنیں۔ وہ ایک روشن خیال گھرانے کی فرد تھیں۔ محمدی بیگم نے ہندوستانی خواتین میں تعلیم کی اہمیت کے ساتھ سیاسی و سماجی شعور اجاگر کرنے کے لیے کوششیں کیں اور پہچان بنائی۔

    محمدی بیگم دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ اگرچہ تقسیمِ‌ ہند سے قبل اس دور میں ہندوستانی مسلمان لڑکیوں کا گھروں سے باہر نکلنا آسان نہ تھا اور ان کی تعلیم کو اہمیت نہیں‌ دی جاتی تھی لیکن کمشنر صاحب نے محمدی بیگم کی تعلیم و تربیت کا خوب انتظام کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ انھوں نے نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں ہوئی اور ان کے خاوند مولوی سید ممتازعلی بھی تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی تھے۔ وہ ایک قابل علمی و ادبی شخصیت تھے اور انگریز دور میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم ان کی دوسری زوجہ تھیں۔ شادی کے بعد محمدی بیگم نے گھر کا سارا انتظام اور ہر ذمہ داری کو خندہ پیشانی سے نبھایا۔ جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں حقوق کی بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں محمدی بیگم نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

    اجل نے مہلت کم دی، شاید بہت ہی کم کہ محمدی بیگم صرف 30 برس زندہ رہ سکیں۔ 2 نومبر 1908ء میں شملہ میں مقیم محمدی بیگم وفات پاگئیں۔ اس جواں مرگ نے خاندان اور ان کے رفقاء و احباب کو شدید صدمہ پہنچایا مگر قدرت کا لکھا قبول کرنا ہی تھا۔ محمدی بیگم نے مختصر عمر میں‌ اپنی فکر و نظریے اور قلم کی طاقت سے بڑا نام کمایا۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔

    1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا تھا اور ہندوستانی ماؤں کی تربیت اور ان میں مختلف معاملات پر آگاہی پھیلانے کے لیے ایک ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر 1904 میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس میں سماجی و عائلی امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین شامل کیے جاتے تھے۔ تاہم اس وقت محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات بہت زیادہ تھیں‌اور ان کے لیے اس ماہ نامہ کو دیکھنا ممکن نہ تھا، اس لیے جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ محمدی بیگم نے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے تہذیبِ نسواں میں ہی ماؤں‌ کی راہ نمائی کے لیے ایک گوشہ مخصوص کر دیا تھا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور انھیں عملی زندگی میں مفید کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنے کا وہ کام کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھوں‌ نے انجمنِ خاتونانِ ہمدرد قائم کرکے اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    محمدی بیگم نے تصنیف و تالیف کے حوالے سے جو کام کیا وہ آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوانات سے شایع ہوا۔

  • ادبِ‌ اطفال اور اسماعیل میرٹھی

    ادبِ‌ اطفال اور اسماعیل میرٹھی

    مولوی اسماعیل میرٹھی ایسے محسنِ اردو ہیں جنھوں نے اپنے زمانے میں بچّوں‌ اور نوجوانوں کی فکری سطح پر راہ نمائی، اور تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت کے لیے اردو زبان میں خوب تخلیقی کام کیا۔ مشہور نظم ‘ہماری گائے’ کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

    ربّ کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    یہ مشہور نظم اسماعیل میرٹھی نے لکھی تھی جسے آج بھی بچّے نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا زمانہ تقسیمِ‌ ہند سے بہت پہلے کا ہے۔ بچّوں کے لیے دل چسپ، معلومات افزا اور سبق آموز کہانیاں اور نظمیں لکھنے والے میرٹھی صاحب کو دنیا سے گئے ایک صدی بیت چکی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ان کے علمی و ادبی کاموں کی وجہ سے بہت عزّت اور بڑا مقام حاصل ہوا۔ اسماعیل میرٹھی نے بالخصوص بچّوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ مسلمان قوم کی کردار سازی کو بہت اہمیت دی۔

    میرٹھی صاحب کے فن کا یہی ایک پہلو کچھ اس قدر نمایاں ہوا کہ وہ بچّوں ہی کے ادیب مشہور ہوگئے جب کہ دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

    12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

    اسماعیل میرٹھی نے کئی درسی کتب تحریر کیں۔ اس کے علاوہ کئی مضامین، نظمیں، حکایات اور کئی طبع زاد کہانیاں جب کہ فارسی اور انگریزی سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ قصّے بھی ان کی اہم کاوش ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آبیاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز میں بچّوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

    پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

    ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

    مولوی صاحب کو اس وقت کی حکومت نے "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔

  • ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ نقّاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہییں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے، ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہوں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچے نہ ادب کو!

    جہانِ ادب میں‌ تو ایزرا پاؤنڈ کو بہت پذیرائی ملی اور اس کی تخلیقات کو سراہا گیا، لیکن امریکی حکومت کے لیے وہ اپنے فکر و خیالات کی وجہ سے ناقابلِ‌ برداشت تھا، سو اُسے بدترین حالات میں قید جھیلنا پڑی۔ شہرۂ آفاق امریکی شاعر ایزرا پاؤنڈ نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکا میں جبر اور سخت مصائب اٹھائے۔ جرأتِ اظہار کی پاداش میں‌ رہائی کے بعد بھی اُسے کئی پابندیوں کا سامنا رہا۔ وہ ایک بڑا نقّاد بھی تھا۔

    ایزرا پائونڈ 1885 میں‌ پیدا ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو اس نے اٹلی میں اپنے قیام کے دوران جنگ کی مخالفت میں تقاریر کیں جس میں‌ وہاں‌ لوگوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت پر اکسایا۔ جنگ ختم ہوئی تو اس کی عمر 60 سال تھی اور اُسے قیدی بنا لیا گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی حکومتوں کی مخالفت پر ایزرا پاؤنڈ کو غدار اور جنونی بھی قرار دے دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے پاگل ثابت کرکے امریکا کے ایک پاگل خانے میں داخل کرایا گیا جہاں وہ 73 برس تک بند رہا۔ اپنے وقت کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ نے اس پر حکام کو درخواست دی اور ایزرا پاؤنڈ کو پاگل خانے سے نکلوایا۔

    ایزرا پاؤنڈ کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ وہ ایک جھگڑالو اور جھکّی انسان ہے، لیکن اپنے وقت کے بڑے تخلیق کاروں‌ اور اہلِ قلم نے اسے انقلابی اور بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ ممتاز اہلِ قلم نے اس کے افکار و خیالات کو سراہا ہے۔ ایزرا پاؤنڈ کی نظم دی ویسٹ لینڈ بھی بیسویں صدی کی شان دار تخلیق کہلاتی ہے۔

    پاگل خانے سے رہائی کے بعد ایزرا پاؤنڈ دوبارہ اٹلی چلا گیا اور وہاں فلورنس کے ایک اسپتال میں ایک مرض کے سبب چل بسا۔ ایزرا پاؤنڈ کا یومِ‌ وفات یکم نومبر 1972ء ہے۔

    یونان، اٹلی اور فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے ایزرا پاؤنڈ نے اپنی تخلیقات میں نت نئے تجربے کیے جو فکر و نظر کے ساتھ اسلوب کی انفرادیت کے تجربات تھے۔ وہ شاعری میں‌ نئی جہات سے آشنا کرنے کے لیے مشہور ہوا۔ یورپ اور مشرقی تہذیبوں سے ایزرا پاؤنڈ نے جو استفادہ کیا تھا، وہ اسے جدیدیت کی تحریک کا بانی بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1912ء تک ایزرا پاؤنڈ نے اپنی نظموں کے چار مجموعے شایع کروائے۔ امریکا کے اس سچّے اور خوب صورت شاعر کی بہترین نظمیں وہ ہیں جو اس نے چینی، جاپانی اور اطالوی ادب سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ اس کے خیالات و جذبات میں قدیم داستانوں، عوامی گیتوں اور جدید معاشرتی ہیجان نمایاں‌ ہیں‌ جن کو اس نے بڑے سلیقے سے اپنی شاعری میں‌ پیش کیا۔

  • تنویر نقوی: لازوال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    تنویر نقوی: لازوال فلمی نغمات کے خالق کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے مقبول اور سدا بہار نغمات کے خالق تنویر نقوی کو تقسیمِ ہند سے قبل ہی بحیثیت فلمی شاعر شہرت مل چکی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد تنویر نقوی نے اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں شان دار گیت لکھے اور فلمی صنعت میں نام و مقام بنایا۔

    ‘آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے…’ یہ وہ نغمہ ہے جو سرحد پار بھی مقبول ہوا اور آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی گیت تنویر نقوی کے قلم کی نوک سے نکلے۔ فلمی دنیا کے معروف شاعر تنویر نقوی نے یکم نومبر 1972ء میں وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل 1946ء میں معروف ہدایت کار محبوب اور موسیقار نوشاد علی کی مشہور نغماتی فلم انمول گھڑی ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بیشتر گیت تنویر نقوی نے لکھے تھے۔ اس فلم کا مقبول ترین نغمہ میڈم نور جہاں اور سریندر کی آواز میں‌ ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے بول ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔

    نغمہ نگار تنویر نقوی لاہور میں 6 فروری 1919ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ فلمی دنیا میں وہ تنویر نقوی مشہور ہوئے۔ 15 سال کی عمر میں‌ تنویر نقوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ 1938ء میں تنویر نقوی فلم ‘شاعر’ کے لیے بھی گیت نگاری کرچکے تھے۔ اس زمانے میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور تنویر نقوی نے وہاں تقریباً آٹھ سال بحیثیت شاعر کام کیا۔

    تنویر نقوی ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے بڑے بھائی بھی شاعر تھے اور نوا نقوی کے نام سے مشہور تھے۔ تنویر نقوی نے 1940ء میں اپنا پہلا شعری مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع کروایا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ہی انھوں‌ نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رُخ کیا تھا۔

    قیامِ‌ پاکستان کے بعد تنویر نقوی کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ گیت تقسیم سے قبل اور پاکستان میں آنکھ کھولنے والی دو نسلوں کے لیے ہمیشہ باعثِ کشش رہے ہیں اور ان گیتوں نے اپنے وقت میں مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔ ان میں‌ ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ ، ‘مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں، تیرے لیے ہیں…. اور ‘دل کا دِیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا….’ شامل ہیں۔

    1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں تنویر نقوی کا تحریر کردہ گیت ‘رقص میں ہے سارا جہاں…’ شامل تھا اور یہ بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں… یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے… اور کئی دوسرے نغمات نے دھوم مچا دی۔ تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ فلم نگری اور ادب کی دنیا میں انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    جنگِ ستمبر (1965ء) کا یہ نغمہ ‘رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو….’ اور شوخی و جذبات سے بھرا ہوا یہ گیت ‘چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے…’ کس نے نہیں‌ سنا۔ یہ بھی تنویر نقوی کے لکھے نغمات ہیں جو لازوال ثابت ہوئے۔

    ایک زمانہ تھا جب فلمی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق قوالی اور حمد و نعت بھی شامل کی جاتی تھی۔ تنویر نقوی کا نعتیہ کلام بھی پاکستانی فلموں میں شامل کیا گیا۔ ‘نورِ اسلام’ ایک کام یاب ترین فلم تھی جس میں یہ بے حد خوب صورت نعتیہ کلام بھی شامل تھا: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ یہ وہ کلام تھا جسے بعد میں اور آج بھی مذہبی مجالس، محفلِ نعت وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے۔ گلی گلی سوالی بن کر پھرنے والے باآوازِ بلند یہ نعت پڑھ کر لوگوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی مشہور ہے کہ یہ نعت نعیم ہاشمی کی تخلیق تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نعیم ہاشمی نے چونکہ اسی فلم میں ایک کردار بھی ادا کیا تھا اس لیے فلم میں اس نعت کا کریڈٹ ان کو نہیں دیا گیا اور فلم کے نغمہ نگار تنویر نقوی تھے، اس لیے یہی سمجھا کیا گیا کہ نعت بھی تنویر نقوی نے لکھی ہوگی۔ فلم ‘نورِ اسلام’ 1957ء میں‌ یکم نومبر ہی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی اور یہی تنویر نقوی کی تاریخِ وفات بھی ہے۔۔

    فلمی نغمہ نگاری کے علاوہ تنویر نقوی نے مختلف اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب صورت غزلیں، قطعات اور حمدیہ نعتیہ کلام بھی لکھا جو ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہے۔ انھیں فلمی شاعری پر تین مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔