Tag: نومبر برسی

  • واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن ارونگ: مشہور سیّاح اور مقبول امریکی مصنّف کی داستانِ حیات

    واشنگٹن اَروِنگ کو دنیا کے بہترین مصنّفین میں شمار کیا جاتا ہے جس کی ہجو میں تضحیک اور تذلیل نہ تھی اور جس کی ظرافت نے محض ٹھٹھا اور تمسخر نہیں اڑایا بلکہ اسے اپنے پُرکشش طرزِ بیان سے دل چسپ بنا دیا۔ 1859ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ جانے والے ارونگ کی کتابیں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

    اس نے اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی تھی اور کالج میں داخلہ لینے کے بجائے نئے نئے مقامات پر جانے، گھومنے پھرنے اور مختلف لوگوں سے میل ملاقات کا شغل اختیار کیا۔ وہ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا۔ یہ سب اسے بچپن ہی سے پسند تھا۔ اس شوق اور سیلانی طبیعت نے اروِنگ کو ایک سیّاح کے طور پر شہرت دی اور پھر امریکا کے مقبول مصنّفین کی صف میں‌ لا کھڑا کیا۔ بطور مصنّف اروِنگ کو پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد اپنے وطن لوٹا اور اپنا سفر نامہ شایع کروا دیا۔ بعد کے برسوں میں واشنگٹن اروِنگ کو دنیا نے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے پہچانا۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا ہے، ‘میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔’

    وہ 1783ء میں‌ نیویارک کے ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک محبِّ وطن مشہور تھا اور یہی خوبی اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس کو عظیم اور سب سے خوب صورت خطّہ مانتا تھا اور اس کے قدرتی نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ایک نہایت ملن سار تھا، وضع دار اور مجلس پسند شخص تھا۔ اسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور بہادر و مہم جُو قسم کے لوگ پسند تھے وہ دنیا کی سیر، بالخصوص تاریخی مقامات اور نوادرات دیکھنے کا شوق اور منفرد اور نمایاں کام کرنے والوں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا تھا اور ہر اس جگہ پہنچنے کو بیتاب ہو جاتا جہاں کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوسکتی تھی۔

    اروِنگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اروِنگ کا نام مشہور ہوگیا۔

    اروِنگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کر دی۔ 1849ء میں ارونگ نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور ان کے دور کے اہم واقعات بھی لکھے۔ اس کے علاوہ حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف ثابت ہوئی۔

    اروِنگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    اس مصنّف اور مضمون نگار کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام نے امریکی معاشرے اور وہاں ثقافت کو بہت متأثر کیا اور جس کا ثبوت امریکا کے مختلف شہروں میں اروِنگ کے یادگاری مجسمے اور اس سے موسوم متعدد لائبریریاں ہیں۔

    پاک و ہند کے نام وَر ادیبوں نے اروِنگ کی کتابوں اور منتخب مضامین کو انگریزی سے اردو میں ڈھالا اور یہ قارئین میں مقبول ہوئے۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے 1930ء میں ارونگ کی کتاب “Tales of the Alhambra” کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو اس زمانے کی مقبول کتاب بنی۔کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ اسی طرح اس کا طلسماتی سپاہی کا قصہ سیّد وقار عظیم کے قلم سے اردو میں‌ ترجمہ ہوا اور پسند کیا گیا۔

  • معروف شاعر اور مقبول ناول نگار ایم اسلم کی برسی

    معروف شاعر اور مقبول ناول نگار ایم اسلم کی برسی

    ایم اسلم کا نام افسانوی ادب اور بالخصوص تاریخی ناول نگاری میں آج بھی زندہ ہے انھوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز بحیثیت شاعر کیا تھا، لیکن علّامہ اقبال نے ان کے ادبی ذوق کو نکھارنے اور نثر نگاری کی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں انھوں نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور نام ور ہوئے۔ ناول، افسانہ، تنقیدی مضامین اور شاعری ان کا بڑا حوالہ ہیں۔ آج اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر کی برسی ہے۔

    ایم اسلم کے افسانوں میں ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے خاص طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے 200 سے زائد ناول تحریر کیے۔ ان کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروس غربت، معرکۂ بدر، فتح مکہ، صبح احد، معاصرۂ یثرب، ابو جہل، جوئے خون، پاسبان حرم، فتنۂ تاتار، گناہ کی راتیں شامل ہیں۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ مخیّر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی جہاں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی اور ان کی تربیت میں اقبال نے اپنا کردار نبھایا۔

    ایم اسلم نے شاعری اور افسانہ کے بعد جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہی ان کی مقبولیت اور شناخت بن گیا۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے جس نے انگریزی سے اردو تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ کیا۔

    23 نومبر 1983ء کو اردو کے اس معروف تخلیق کار اور مقبول ناول نگار کا انتقال ہوگیا۔

  • کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    کوکلتاش: مغل دور کا ایک معتوب منصب دار

    مغل دور کی تاریخ اور شخصیات پر مبنی تذکروں میں‌ ایک نام خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس کے حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں، لیکن محققین نے اسے شہر لاہور کا صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عالمگیر کے عہد میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    شاہی عہد میں اس کے مقام و رتبہ اور مغل حکومت یا دربار کے لیے اس کی خدمات کے بارے میں بھی کچھ خاص معلومات نہیں‌ ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا جو مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ اسے بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پکارا گیا۔ 1673ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے میر ملک حسین کو ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب دیا۔

    یہ 1680ء کی بات ہے جب لاہور میں انتظامی اختلافات کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے اسے دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی فائز کیے گئے۔ لیکن 1691ء میں یہ منصب خان جہاں بہادر کا مقدر بنا۔ اس نے لگ بھگ ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت سنبھالے رکھی اور 1693ء میں مغل بادشاہ نے کسی بات پر کوکلتاش کو معزول کرنے کا فرمان جاری کردیا، اس کے بعد وہ چار سال تک زیرِ عتاب رہا۔

    محققین کے مطابق خان جہاں بہادر باوقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سپہ سالار کی حیثیت سے محاذ پر پیش پیش رہا۔ اس نے مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں کوئی کمی نہ کی اور ہر بار اپنی وفاداری ثابت کی۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر کی زندگی مشکل ہوگئی اور 23 نومبر 1697ء کو اس نے لاہور ہی میں وفات پائی۔ مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر اس کی تدفین کی گئی جہاں بعد میں مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ اب خستہ حالت میں ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر اور مغلوں کے وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر دیکھنے والوں کو متوجہ ضرور کرتا ہے۔

    یہ مقبرہ سترہویں صدی عیسوی میں اورنگزیب عالمگیر کے عہدِ حکومت کے آخری سالوں میں تعمیر کیا گیا اور اس عہد میں لاہور میں تعمیر کردہ آخری مقابر میں سے ایک ہے۔

    یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مؤرخین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ اس مقبرے میں کون ابدی نیند سورہا ہے اور سترہویں صدی اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے مؤرخین کا اتفاق ہے کہ یہ خانِ جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کا مدفن ہے جو لاہور کا مقتدر اور مغل دربار کا وفادار تھا۔

  • عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    پاکستانی شعر و ادب میں جن چند شخصیات نے مجموعی طور پر اپنی انفرادیت اور تخلیقی اُپج کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدّین عالی کا نام سرِفہرست ہے۔عالی صاحب کی تخلیقی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے مالک رہے۔

    ایک جانب انہوں نے کئی مقبول اور یادگار ملی نغمات لکھے تو دوسری طرف دوہے جیسی نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعر و ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستایش ہیں۔ اُن کی علمی قابلیت اور دانش وارنہ شخصیت کا ادارک سب کو تھا، اور اسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں جمیل الدین عالی کے بہ جائے عالی جی کہہ کے پکارتے تھے۔

    عالی جی کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے انجمن ترقی اردو جیسے تاریخی ادارے سے طویل علمی وابستگی اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ رائٹرز گلڈ جیسے ادارے میں مرکزی اور انتظامی کردار نے عالی جی کو اُن کی زندگی ہی میں لیجنڈ بنا دیا تھا۔

    جمیل الدین عالی کی شاعری کا سفر 1939ء سے نویں جماعت ہی سے شروع ہو گیا تھا، تاہم جب مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تو استاد کی ضرورت محسوس ہوئی، چچا سراج الدین خاں سائل کی شاگردی میں آئے لیکن اُن کے پہلی ہی مشورے پر عمل نہ کیا اور یوں آگے چل کر بھی کسی باقاعدہ استاد کی شاگردی میں نہ آئے۔ 1956ء میں معروف مزاح نگار اور شاعر ابن انشا جو عالی جی کے دوست تھے، اُنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوانے لے گئے، اسی ملاقات کے بعد جمیل الدین عالی کی نیاز مندی مولوی عبدالحق سے قائم ہوگئی اور اسی نیازی مندی کے سبب وہ انجمن ترقیٔ اردو جیسے تاریخی ارادے سے جڑتے چلے گئے اور یہ تعلق اُن کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    عالی جی راٹرز گلڈ کے اعزازی سیکرٹری رہے، منتخب جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انجمن ترقی اردو کے رکنِ منتظمہ اور معتمدِ اعزازی رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے رکن اور اعزازی صدر نشیں بھی رہے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم ڈاکٹر عطا الرّحمٰن کے تعاون سے وفاقی اردو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں کام یاب ہوئے، لیکن اس کے پیچھے عالی صاحب کو ایک طویل اور صبر آزما جد وجہد سے گزرنا پڑا۔

    مشاعروں میں وہ اپنی غزلیں اپنے مخصوص ترنم سے سناتے اور خاص طور پر لوگ اُن سے دوہے سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنے کلام کا اختتام ’جیوے جیوے پاکستان جیسے مقبول عام قومی ترانے پر کرتے اور لوگ دیوانہ وار اُن کے ساتھ اس لازوال قومی ترانے کو اُن کے ساتھ ساتھ دہراتے۔

    عالی جی کا پہلا شعری مجموعہ ’غزلیں، دوہے، گیت ‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مختصر مجموعہ ’جیوے جیوے پاکستان ‘1974ء میں شایع ہوا۔ اسی سال اُن کا غزلوں، نظموں اور دوہے پر مشتمل اہم مجموعہ ’لاحاصل‘ بھی اشاعت پزیر ہوا۔ عالی جی کا آخری شعری مجموعہ ’اے مرے دشت ِ سخن کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’بس اک گوشۂ بساط‘ کے نام سے لکھی، چند سفر نامے بھی لکھے، عالی جی کی مزید کتابوں میں نئی کرن، شنگھائی کی عورتیں اور ایشین ڈرامے شامل ہیں۔

    عالی صاحب کی ایک کتاب اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے، اس نظم کی پہلی جلد 7800 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اُنہوں نے’انسان‘ کو 1950ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی، ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے۔ یہ نظم طوالت کے علاوہ اپنی فارم، اپنے اسلوب، اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفر ہے۔

    عالی جی کے ابتدائی دور کے دو شعر ملاحظہ کجیے

    کچھ نہ تھا یاد بہ جز کارِ محبت اک عمر
    وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

    تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
    اُمید بھی رکھوں اور نا اُمید بھی نہ رہوں

    دوسری جانب جمیل الدین عالی نے کئی دہائیوں تک بڑی معتبر اور معیاری کالم نگاری بھی کی۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔

    جمیل الدین عالی زندگی بھر کئی محاذوں پر نبرد آزما رہے۔ ایک جانب اُن کا خاندانی پس منظر، بھرپور شخصیت، ذہانت اور علمیت کے باوصف زندگی کے مختلف طبقات میں نمایاں رہی۔ علم وادب سے براہ راست وابستگی نے بھی اُن کی اہمیت میں چار چاند لگائے رکھے جب کہ بیوروکریسی میں شامل ہونے کے سبب وہ کئی اہم اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اُنہیں 1991ء ’تمغۂ حسنِ کارکردگی‘، 1998ء ، میں ’ہلالِ امتیاز‘ اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’کمالِ فن ‘ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    جمیل الدین عالی نے سات مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جب کہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔

    جمیل الدین عالی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کا ذکر اُن کے ملی نغمات کے بغیر اداھورا رہ جائے گا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اپنے اکثر مقبولِ عام نغموں کی دھنیں بھی خود عالی جی نے بنائیں کیوں کہ یہ اُن کا شوق رہا ہے، تاہم انہوں نے اپنی کسی دُھن کو موسیقار کے تخلیقی مزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

    جیوے جیوے پاکستان پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

    دین، زمین، سمندر، دریا، صحرا، کوہستان
    سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں، یہ ہے پاکستان

    ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر، نام ور موسیقار اور گلوکار مہدی ظہیر نے عالی صاحب کا ایک ایسا یادگار اور شان دار ترانہ ریکارڈ کرایا جس نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ یہ ملی ترانہ پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ہنگامی طور پر عالی جی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر راتوں رات لکھا، اور مہدی ظہیر نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں گا کے امر کر دیا:

    ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
    ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں

    پاکستان کے تمام ملی نغمات میں عالی جی کے لکھے ہوئے، اس ملی نغمے کو ہمیشہ یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ یہ ملی نغمہ جس خوب صورتی، جذبۂ حب الوطنی اور وارفتگی سے لکھا گیا، میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی اور سُریلی آواز میں اُس ملی نغمے کو اُسی قدر سپردگی، تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کی نذر کیا:

    اے وطن کے سجیلے جوانو
    میرے نغمے تمھارے لیے ہیں

    جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور، خوش حال اور خوش خوش و خرم زندگی گزاری۔ وہ عارضۂ قلب کی بڑھتی ہوئی پیچدگیوں کے ساتھ کچھ ضمنی امراض میں بھی مبتلا ہوئے اور 23 نومبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

    (عالی جی کے یومِ وفات پر معروف شاعر، ادیب اور سینئر صحافی خالد معین کے مضمون سے منتخب پارے)

  • فیض احمد فیض: ریڈیو کا لائسنس اور ہیئر کٹنگ سیلون

    فیض احمد فیض: ریڈیو کا لائسنس اور ہیئر کٹنگ سیلون

    فیض‌ کا تذکرہ اردو ادب میں ایک سخن گو کی حیثیت سے اس طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عام شعرا اور خود فیض کے ہم عصروں کا ہوا۔ فیض احمد فیض اپنی شخصیت اور انقلابی نظریات کے سبب پہچانے گئے اور پاکستان کے ممتاز گلوکاروں کی آواز میں ان کا کلام مقبول ہوا۔

    آج ترقیّ پسند ادب اور انقلاب آفریں تخلیقات کی بدولت دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے اس شاعر کی برسی ہے۔ وہ 1984ء میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم فیض صاحب کی زندگی کے یہ دو واقعات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    مرزا ظفرالحسن اردو کے ممتاز ادیب تھے جنھوں نے ایک واقعہ بیان کیا: برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیضؔ نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیضؔ عدالت میں پہنچے۔

    مجسٹریٹ فیضؔ کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ‘‘فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے، وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’

    اس کا کہنا تھا کہ ‘‘آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پییں اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔’’

    فیضؔ نے جواب میں کہا کہ ‘‘آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔’’

    اس کے بعد فیض نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔ ‘‘محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟’’

    راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ ‘‘فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوا لیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔’’

    احمد ندیم قاسمی بھی فیض صاحب کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ”میرے ہم سفر“ میں یہ دل چسپ واقعہ لکھا ہے:

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

  • شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    شبلی نعمانی: عالمِ دین اور سیرت و سوانح نگار

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی سیرت و سوانح نگاری نے برصغیر اور متحدہ ہندوستان میں اہلِ قلم اور اردو داں طبقہ میں ممتاز کیا اور ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے بھی انھوں نے بلند مقام و مرتبہ پایا۔

    شبلی کے والد شیخ حبیب ﷲ اعظم گڑھ کے نامور وکیل اور شعر و ادب کے بڑے رسیا تھے۔ رفاہِ عام کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھوں نے اپنے بچّوں کو دنیاوی اور دینی تعلیم دلائی تھی۔ علامہ شبلی نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور چند جیّد علماء سے استفادہ کیا۔ انھوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ علمِ دین سیکھا۔ بعد میں وکالت کا امتحان پاس کیا، لیکن اس میں ان کا دل نہیں‌ لگا۔

    ان کے والد علی گڑھ تحریک کے ابتدائی ہم نواؤں میں سے تھے اور سر سیّد کے ساتھ رہے تھے۔ شبلی کبھی شعر و شاعری کی محفل سجاتے، کبھی طلبہ کو درس دیتے یا مطالعہ کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے۔ چناں چہ اپنے اسی ذوق و شوق اور علمی و ادبی مشاغل کی وجہ سے علی گڑھ کالج سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔ یہاں سرسیّد اور بعد میں پروفیسر آرنلڈ سے تبادلۂ خیال نے ان کے ذوق و نظر کی دنیا ہی بدل دی۔ شبلی سرسیّد کی زبان بولنے لگے اور مضامین و مقالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو سرسیّد کے افکار و خیالات کے زیراثر تھے۔ شبلی نے اپنی تحریروں‌ میں ہندوستان مسلمانوں کو اپنے اسلاف اور رفتگاں کی تعلیم اور مختلف ادوار میں مسلمانوں کی ترقیوں کے بارے میں‌ بتایا اور علم و عمل کی ترغیب دی۔شبلی نے اسلام اور شعائرِ اسلام پر دنیا کے اعتراضات کا جواب بھی دیا۔ ان کی شاعری سے زیادہ نثر مشہور ہوئی جو ان کی علمیت کے ساتھ اسلوب کا بھی پتا دیتی ہے۔

    وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ 1882ء میں علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہونے کے بعد انھیں وہاں مذہبی اور سماجی راہ نماؤں سے راہ و رسم اور ان کی صحبت سے فیض اٹھانے کا خوب موقع ملا جس کے باعث وہ جدید فکر و نظر کے حامل اور باکمال سیرت و سوانح نگار بنے۔ سیرت النّبی‌ ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ حیاتِ شبلی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ بعد میں‌ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر علمی و ادبی تصانیف میں شعرُ العجم، الفاروق، سیرت النعمان، موازنۂ انیس و ادبیر اور الغزالی مشہور ہیں۔

    علم و ادب کی دنیا کے اس نام وَر کو اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ علّامہ شبلی نعمانی نے 18 نومبر 1914ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔

  • این جی مَجُمدار: خزانے کی حرص میں ڈاکوؤں نے بیش قیمت موتی مٹّی میں ملا دیا

    این جی مَجُمدار: خزانے کی حرص میں ڈاکوؤں نے بیش قیمت موتی مٹّی میں ملا دیا

    این جی مَجُمدار خزانہ ہی تلاش کررہے تھے، لیکن جس خزانے کی حرص میں‌ ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کیا تھا، وہ ان کے کسی کام کا نہ تھا۔ 11 نومبر 1938ء کو ڈاکوؤں کے حملے میں مجُمدار مارے گئے جب کہ ان کے ساتھی زخمی ہوگئے۔

    مَجُمدار ماہرِ آثارِ قدیمہ تھے جو اس روز وادیٔ مہران کے ایک مقام پر تہذیب اور تمدّن کے جواہر اور وہ موتی تلاش کررہے تھے جن کو ہزاروں سال سے پہلے زمین نے اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجُمدار کو ضلع دادو کے قریب جوہی کے پہاڑی سلسلے میں قتل کیا گیا تھا۔

    بتایا جاتا ہے کہ پہاڑوں میں سے این جی مجمدار کی لاش کو شہر تک لانے کے لیے اس وقت کی ضلع انتظامیہ کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی لاش بمشکل کاچھو کے میدانی علاقے میں گاج ندی کے کنارے گاج بنگلو تک لائی گئی۔

    وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوج میں 1926ء سے 1930ء تک مجمدار نے اپنی ٹیم کے ساتھ کئی قدیم مقامات دریافت کیے جن میں کاہو جو دڑو، چانہیوں جو دڑو، کوٹ ڈیجی، روہڑی، لوہم جو دڑو، واہی پاندھی کے ٹیلے، غازی شاہ دڑو، گورانڈی کے ٹیلے، جھکر کے ٹیلے، علی مراد دڑو، ٹنڈو رحیم ٹیلہ، منچھر جھیل کے کناری پیر لاکھیو دڑو، پیر مشاخ، لہڑی، ٹہنی کے ٹیلے، نئیگ وادی میں لکھمیر کا ٹیلہ، آمری تہذیب کے ٹیلے وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ میں ضلع ٹھٹہ میں واقع تھارو پہاڑی کے آثار اور سیہون کے قریب جھانگارا کے قدیم آثار بھی انہی کی دریافت بتائے جاتے ہیں۔

    برطانوی راج میں مَجُمدار نے ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے قابلِ ذکر خدمات انجام دیں اور ایک تصنیف بھی یادگار چھوڑی۔ وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام نینی گوپال مجمدار تھا جنھیں این جی مَجُمدار پکارا جاتا ہے۔ 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم اے کرنے والے مجمدار نے فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی تھی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔

    این جی مَجُمدار نے سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے دور کے 62 آثارِ قدیمہ دریافت کیے جس کی تفصیل ان کی تصنیف ‘ایکسپلوریشنس اِن سندھ’ میں ملتا ہے۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمۂ آثارِ قدیمہ میں ملازم ہوئے اور 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی برس کلکتہ میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کے ساتھ انھوں نے قدیم آثار کی کھوج اور دریافت کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کے کام اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے 1938ء میں انھیں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا۔ اس سے قبل مجُمدار موہن جودڑو میں کھدائی اور تحقیق کے کام میں‌ سَر جان مارشل کے معاون کے طور پر بھی کام کرچکے تھے۔

    این جی مجُمدار کو ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں کے بارے میں ان کے تحقیقی مقالے پر ‘گریفتھ’ یادگاری انعام بھی دیا گیا تھا۔

    جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں‌ عام لوگوں کے ذہن میں یہ تصوّر تھا کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے جسے یہ لوگ کھدائی کے دوران نکال لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں اور ماہرینِ آثار ان کی باقیات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ زمین میں دفن ہوجانے والی قیمتی اشیا بھی نکال کر لے جاتے ہیں۔

    این جی مجُمدار کی کتاب ‘ایکسپلوریشنس ان سندھ’ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی جس میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور سندھ کے قدیم ٹیلوں اور ان مقامات سے برآمد ہونے والی اشیاء سے متعلق تحقیق اور اس کی تفصیل شامل ہے۔

  • خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    خیّامُ‌الہند حیدر دہلوی کا تذکرہ

    حیدر دہلوی کو فنِ‌ شاعری پر ان کے عبور اور ان کی سخن گوئی کے سبب خیّامُ‌الہند کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شعرا میں استاد شاعر کا درجہ رکھتے تھے۔ آج حیدر دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ وہ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کرنے لگے اور جلد ہی شعرا کے درمیان پہچان بنانے میں‌ کام یاب ہوگئے۔ ان کا تعلق شعرا کی اس نسل سے تھا جن کی اصلاح اور تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔

    10 نومبر 1958ء کو حیدر دہلوی نے کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا اصل نام سید جلال الدّین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حیدر دہلوی پاکستان آگئے اور یہاں کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ کراچی میں‌ بزم آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں حیدر دہلوی نے باذوق سامعین کو متوجہ کیے رکھا۔ اردو ادب اور شعرا سے متعلق کتب میں حیدر دہلوی کی زندگی، ان کی شاعری اور یادگار مشاعروں کا تذکرہ ہے اور بعض ادبی واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جو حیدر دہلوی اور ان کے ہم عصر شعرا سے متعلق ہیں۔

    انھوں نے اپنی شاعری بالخصوص خمریات کے موضوع کو اپنے تخیل سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ خیامُ الہند کہلائے۔ حیدر دہلوی کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ انھیں کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    حیدر دہلوی کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    سترھویں صدی کا جان ملٹن اپنی شاعری کے سبب انگریزی ادب میں ممتاز اور دنیا بھر میں اپنے افکار اور تخلیقات کی وجہ سے پہچانا گیا۔ تنقید نگار تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے دس بڑے شعرا کی فہرست بنائی جائے اور اس میں ملٹن کا نام شامل نہ ہو تو اسے نامکمل سمجھا جائے گا۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔ اُس کے گھر کا ماحول اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں‌ معاون ثابت ہوا اور ایک مثبت اور نہایت تعمیری فضا میں ملٹن کی پرورش ہوئی۔ اس کے والد کو لوگ ایک راست گو، دیانت دار اور نہایت سمجھ دار شخص مانتے تھے اور والدہ کی شہرت ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر تھی۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا تھا کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اس کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔

    جان ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے مطالعہ چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ: ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن نے 1674 میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

  • ول ڈیورانٹ: عالمی شہرت یافتہ مؤرخ اور فلسفی کا تذکرہ

    ول ڈیورانٹ: عالمی شہرت یافتہ مؤرخ اور فلسفی کا تذکرہ

    ول ڈیورانٹ کو برصغیر میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف ادوار پر اپنی مشہور تصنیف کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اسے ایک مؤرخ اور فلسفی کی حیثیت سے دنیا بھر میں شناخت اور اس کے کام کو پذیرائی ملی۔

    ول ڈیورانٹ کی انگریزی میں تحریر کردہ کتابوں‌ کے اردو تراجم کی بدولت مطالعہ کے شائق اور بالخصوص تاریخ کے طالبِ علموں کو بہت فائدہ ہوا۔ اس کی تحریروں پر اعتراض اور ہندوستان میں اس کے خیالات سے اختلاف بھی کیا گیا، لیکن اس بات سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا کہ ول ڈیورانٹ کی تہذیب و ثقافت پر کئی جلدوں کی محنت نے ہندوستان میں لوگوں کو اپنی تاریخ کے بارے میں جاننے اور سمجھنے ہی کا موقع نہیں دیا بلکہ طلبا میں فلسفے کو پڑھنے کا شوق بھی پیدا کیا۔

    اس مشہور مفکّر اور مؤرخ کی ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدن و فلسفہ پر مبنی کتب مستند مانی جاتی ہیں۔ ول ڈیورانٹ کا طرزِ بیان خاصا مختلف ہے۔ ‘گریٹ مائنڈز اینڈ آئیڈیاز آف آل ٹائمز’ اس کی وہ تصنیف ہے جس میں ہندوستان سے متعلق ابواب میں اس نے نہایت منفرد اسلوب اپنایا۔ تشبیہات، استعاروں اور تلمیحات نے اس کی تحریر کو پُراثر بنا دیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں مصنّف نے ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدّن اور فلسفہ کا قبل از مسیح سے بعد از مسیح مفصّل تاریخی جائزہ پیش کیا ہے۔

    ول ڈیورانٹ کی دیگر اہم اور مشہور ترین تصانیف میں ’اسٹوری آف فلاسفی‘ اور ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ شامل ہیں۔

    اردو زبان میں ول ڈیورانٹ کی کتابوں کا ترجمہ عابد علی عابد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اجمل، ظفرُالحسن پیرزادہ اور طیّب رشید و دیگر نے کیا ہے جنھیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ’اسٹوری آف سویلائیزیشن‘ ول ڈیورانٹ کی 11 جلدوں‌ پر مبنی کتاب ہے اور کئی سال کی محنت اور لگن سے مکمل کی گئی یہ کتاب مصنّف کا کارنامہ ہے۔ ول ڈیورانٹ کے یوں تو سارے کام بڑے ہیں لیکن اہم اور نمایاں تصنیف ’سٹوری آف فلاسفی‘ اور گیارہ جلدوں میں ’سٹوری آف سویلائزیشن‘ ہیں۔ اس کتاب میں ان کو اپنی اہلیہ ایریل کی مدد بھی حاصل رہی اور کہا جاتا ہے کہ ول ڈیورانٹ نے اس کے بعد مزید کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ گیارہ جلدیں ان کا نام باقی رکھنے کے لیے کافی تھیں۔

    اس مصنّف کا پورا نام ول ڈیورانٹ نارتھ ایڈمز تھا۔ امریکا کے علاقے میساچوسٹس میں 5 نومبر 1885ء کو آنکھ کھولنے والے ول ڈیورانٹ کو اس کی تصانیف نے تاریخ و ادب کی دنیا میں بڑا مقام دلوایا۔ اسے 1968ء میں پلٹزر پرائز اور 1977ء میں صدارتی تمغا برائے آزادی سے نوازا گیا تھا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد ول ڈیورانٹ نیو جرسی شہر کے کالج میں‌ داخل ہوا اور گریجویشن کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا۔ اس وقت تک وہ متعدد زبانیں‌ سیکھ چکا تھا اور اپنے اس شوق اور زبانوں پر عبور کی وجہ سے نیو جرسی کی ایک جامعہ میں لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور جیومیٹری پڑھاتا رہا۔ 1913ء میں شادی کے بعد اس نے ملازمت چھوڑ دی اور یورپ کے دورے پر نکل گيا بعد میں وہ ایک گرجا گھر میں درس دینے پر مامور کیا گیا۔

    فلسفہ اور تاریخ ول ڈیورانٹ کا محبوب موضوع تھے۔ ول ڈیورانٹ نے 1917ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ اسی زمانے میں اس کی پہلی کتاب شایع ہوئی جس کا نام تھا، "فلسفہ اور سماجی مسائل۔” ول ڈیورانٹ کا خیال تھا کہ فلسفہ میں سماجی مسائل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی دیگر کتب منتقلی (Transition) 1927، فلسفہ کی عمارت (The Mansions of Philosophy) 1929، زندگی کی تشریح (Interpretations of Life) 1970 میں شایع ہوئیں۔

    1981ء میں آج ہی کے دن ول ڈیورانٹ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔ اس نے 96 سال کی عمر میں لاس اینجلس میں وفات پائی۔