Tag: نومبر برسی

  • ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    ذکاء اللہ دہلوی: علم و ادب کی دنیا کی ایک نادرِ روزگار ہستی

    مولوی محمد ذکاءُ اللہ انیسویں صدی میں اپنے علمی اور ادبی مشاغل کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھیں شمسُ العلماء کا خطاب دیا گیا۔ مولوی صاحب تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اپنی کوششوں کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب کو پنپنے کا موقع ملا رہا تھا اور ضروری تھا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے ہوئے اپنی روایات اور اقدار کا تحفظ کریں۔ ان حالات میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے فروغ کے حمایتی اور تعلیمِ نسواں کے پرچارک بن کر سامنے آئے۔

    ادبی تذکروں کے مطابق مولوی ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی تھی۔ ان کا سنہ پیدائش 1832ء ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ کے زیرِ سایہ مکمل ہوئی۔ کم عمری ہی میں وہ عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہوگئے تھے اور مطالعہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو ان کی دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون ٹھہرا۔ اس مضمون میں مہارت ایسی بڑھی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے ایک استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے تھے۔ ان کی قابلیت اور مضمون میں مہارت نے انھیں دہلی کالج ہی میں ریاضی کے استاد کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع دیا۔ بعد میں وہ آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں تعلیمی اداروں میں مختلف عہدوں پر فائز کیے گئے۔ مولوی ذکاء اللہ کو دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کا مدرس بھی مقرر کیا گیا جب کہ میور سنٹرل کالج میں بھی عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم مشہور ہوئے۔

    انھوں نے تدریس کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاجِ‌ برطانیہ کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔ تعلیمِ نسواں کے ضمن میں کاوشوں پر مولوی صاحب کو انگریز سرکار نے خلعت سے نوازا تھا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور ایسے مصلح ثابت ہوئے جن کا کام نہایت افادی اور ایک بیش قیمت سرمایہ تھا جس سے ہندوستان بھر میں مسلمان مستفید ہوئے۔

    7 نومبر 1910ء کو مولوی ذکاء اللہ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کو کوچ کرگئے تھے۔ انھیں ایک مؤرخ، ماہرِ‌تعلیم، اور مترجم کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ مولوی محمد ذکا اللہ دہلوی اردو کے مشہور مورخ اور مترجم ہیں۔ ان کا سب سے اہم کارنامہ "تاریخِ ہندوستان ” ہے جسے مستند ترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کئی جلدوں‌ پر مشتمل ہے۔ مسلمان اور سائنس کے نام سے کتاب کے علاوہ تہذیب الاخلاق اور تاریخ کے کئی موضوعات پر ان کے قلم سے نکلی ہوئی‌ کتابیں‌ ہی نہیں ریاضی، کیمیا، جغرافیہ اور فلسفہ کے موضوع پر انھوں نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

  • محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم: ایک مصلح اور مثالی خاتون

    محمدی بیگم مصنفہ اور ہندوستان میں خواتین کے پہلے اردو ہفت روزہ ‘تہذیب نسواں’ کی مدیر تھیں۔ وہ عورتوں کی تعلیم اور ان میں‌ سیاسی و سماجی بیداری کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں۔

    وہ دہلی کے سید احمد شفیع کی صاحب زادی تھیں جو اکسٹرا اسٹیٹ کمشنر تھے۔ ان کا گھرانا روشن خیال تھا اور اس انتہائی قدامت پسند دور میں بھی والدین نے ذہین بیٹی کو تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ کیا۔ محمدی بیگم عمدہ عادات، اعلیٰ دماغ اور قوی حافظہ کی مالک تھیں۔ نہایت کم عمری میں لکھنے پڑھنے، سینے پرونے اور کھانے پکانے میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ ان کی شادی 19 برس کی عمر میں مولوی سید ممتازعلی سے ہوئی جو تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ ان کو شمس العلما کا خطاب بھی ملا تھا۔ محمدی بیگم سے ان کی یہ دوسری شادی تھی۔ انھوں نے گھر کا سارا انتظام اور ذمہ داری سنبھالی اور جب مولوی ممتاز علی نے عورتوں میں بیداری کی تحریک چلانے کا ارادہ کیا تو اس مشن میں بھی اپنے شوہر سے کسی طرح پیچھے نہ رہیں۔

    اجل نے مہلت کم دی۔ شاید بہت ہی کم۔ سیدہ محمدی بیگم زندگی کی فقط تیس بہاریں ہی دیکھ سکیں، مگر اپنی فکر، اپنے نظریے اور تخیل سے اردو زبان اور ادب کو یوں مرصع و آراستہ کیا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمدی بیگم مشہور ناول نگار امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ امتیاز علی تاج کو ان کے ڈراما انار کلی کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    شوہر کے ساتھ مل کر محمدی بیگم نے عورتوں کے رسالے کی ادارت سنبھالی۔ 1898ء میں تہذیبِ نسواں جاری ہوا جب کہ خاص طور پر ماؤں کی تربیت اور آگاہی کے لیے ماہ وار رسالہ مشیرِ مادر بھی 1904 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ سماجی و گھریلو امور، بچوں کی تربیت و پرورش میں مددگار مضامین پر مشتمل رسالہ تھا۔ تاہم محمدی بیگم کی تہذیبِ نسواں کے حوالے سے مصروفیات آڑے آگئیں اور یہ ماہ نامہ بند کر دیا گیا۔ تاہم انھوں نے بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے لیے تہذیبِ نسواں میں ہی ایک گوشہ مخصوص کر دیا۔

    محمدی بیگم نے اُس دور میں جب خواتین پر مختلف معاشرتی پابندیاں تھیں، خود کو عورتوں کی اصلاح اور ان کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سلسلہ میں انجمنِ خاتونانِ ہمدرد کا قیام عمل میں لائیں اور اس پلیٹ فارم سے عورتوں کو باعمل بنانے اور فلاح و بہبود کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انجمنِ تہذیبِ نسواں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

    ان کی چند تصانیف آدابِ ملاقات، نعمت خانہ، رفیقِ عروس، سگھڑ بیٹی، خانہ داری، شریف بیٹی کے عنوان سے شایع ہوئیں۔

    محمدی بیگم نے شملہ میں 2 نومبر 1908 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

  • ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    مارگریٹ مارکیوس وہ نام تھا جو مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے دیا تھا۔ 24 مئی 1961ء کو جب وہ اپنے آبا و اجداد اور والدین کا مذہب ترک کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں تو یہ نام اپنا لیا۔

    22 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولنے والی مارگریٹ مارکیوس کا اصل وطن جرمنی تھا۔ ان کا خاندان 1848ء میں امریکا آگیا تھا اور یہ لوگ نیوروشیل میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اسکول کے ذہین بچّوں میں شمار ہوتی تھیں‌۔ ہائی اسکول سے فارغ ہوکر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر انھیں ایک بیماری کی وجہ سے مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی زمانے میں‌ مارگریٹ کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا۔

    1953ء میں وہ نیویارک یونیورسٹی میں داخل ہوئیں جہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کو کتابوں اور مختلف اسکالرز کی مدد سے سمجھنا شروع کیا تو 1956ء میں ایک مرتبہ پھر بیماری نے حملہ کر دیا اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار علالت اور بیماری کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کے ساتھ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن متعدد مذاہب اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے پر ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کو ملی۔ اس کے علاوہ وہ قرآن کے تراجم بھی پڑھ رہی تھیں اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اسپتال سے فراغت کے بعد اپنا مذہب ترک کردیں‌ گی وہ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے وہاں کے اسلامک سینٹر میں جانے لگیں اور کچھ عرصے سے والدین سے جو اختلاف پیدا ہوگیا تھا، 1959ء میں کافی بڑھ گیا۔ اس کا سبب مذاہب کا مسلسل مطالعہ اور یہودیت سے متعلق سوالات تھے، والدین نے ان کو علیحدہ کردیا اور مریم جمیلہ کو ملازمت کرنا پڑی۔

    اسی دوران انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ کے عنوان سے پڑھنے کا موقع ملا اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔ 1960ء کے آخر میں وہ مولانا سے خط و کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوگئیں۔ وہ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    بعد کے عرصہ میں‌ وہ مغرب میں ایک نامور مبلغۂ اسلام کے طور پر مشہور ہوئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آکر تہذیب و معاشرت کو قبول کر لیا۔ انھوں نے اردو زبان بھی سیکھ لی تھی۔ 1963ء کو ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مریم جمیلہ نے پاکستان میں 31 اکتوبر 2012ء کو سفرِ‌ آخرت اختیار کیا۔

  • زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    زبان و ادب کے معمار اور بچّوں کے محسن مولوی اسماعیل میرٹھی کا تذکرہ

    مولوی اسماعیل میرٹھی معمار اور محسن اردو ہیں جنھوں نے ہر ذہن میں اردو کی شمع روشن کی ہے۔

    انھوں نے بچّوں کے لیے عمدہ نظمیں تخلیق کیں اور تعلیم و تربیت کے ساتھ کردار سازی کی کوشش کی ہے۔ ان کی سب سے مشہور نظم ‘گائے’ ہے جس کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

    ربّ کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    میرٹھی صاحب کے فن اور اس تخلیقی رخ کا تذکرہ کچھ اس قدر ہوا کہ وہ ادبِ اطفال کے لیے ہی مشہور ہوگئے لیکن دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی ان کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آج مولوی اسماعیل میرٹھی کا یومِ وفات ہے۔ یکم نومبر 1917ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

    کئی درسی کتابیں لکھنے والے اسماعیل میرٹھی کے زیادہ تر مضامین، نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض فارسی اور انگریزی سے اخد کردہ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا اور ادب کے ذریعے بچوں کی تعلیم اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

    پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

    ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

    ان کی قابلیت اور ادبی خدمات کے صلے میں حکومتِ وقت نے انھیں "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔

  • اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

    اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا۔ 30 نومبر 1936ء کو اصغر گونڈوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
    ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا۔

    ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا۔

    اصغر گونڈوی نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

  • نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

    اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

    مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

    ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

    یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

    اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔

  • کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    دنیا فیدل کاسترو کو ایک باغی اور ایسے انقلابی کے طور پر جانتی ہے جو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے۔ وہ طویل عرصے تک اپنے وطن کے سربراہ رہے۔

    فیدل الیہاندرو کاسترو کا سنِ‌ پیدائش 1926ء ہے۔ وہ کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ جاگیردار گھرانے کے فرد تھے اور عیش و آرام کی ہر سہولت انھیں میسّر تھی، لیکن وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور امتیاز اور لوگوں کے مصائب اور مفلسی کو دیکھ کر باغی ہوگئے اور انقلابی سوچ نے انھیں گھر بار اور ہر سہولت کو چھوڑ کر جدوجہد شروع کرنے پر آمادہ کرلیا۔

    اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا اقتدار عوام کی مشکلات بڑھاتا جارہا تھا اور ملک میں بدعنوانی اور عدم مساوات کے ساتھ ایسی فضا بن گئی تھی جس میں گرفت اور سزا صرف عوام کا مقدّر بن رہی تھی۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی اسمگلنگ کا کوئی علاج نہ تھا بلکہ کیوبا ایسے کاموں کا گڑھ بن گیا تھا۔

    کاسترو نے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور ایسے ساتھی اکٹھے کیے جو سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کردی۔ 1953ء میں انھیں بتیستا حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی سربراہی کرنے پر جیل جانا پڑا لیکن دو سال بعد عام معافی کے تحت رہا ہوگئے۔

    فیدل کاسترو نے 1956 حکومت کے خلاف عظیم باغی اور گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کے ساتھ مل کر ایک بار پھر مقصد کے حصول کے لیے اپنی لڑائی کا آغاز کیا اور 1959 میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کیوبا کے وزیر اعظم بنے۔

    1960 میں کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا جو دراصل امریکا کی ملکیت تھے۔ اس پر امریکا نے کیوبا پر تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ انھیں قتل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن وہ ہر بار بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے۔

    1960 میں انھوں نے بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کرلیا۔ فیدل کی تمام زندگی گویا محاذ پر گزری۔ لیکن ایک وقت آیا جب کیوبا کے عوام بدترین حالات سے دوچار ہوئے اور جہاں انھیں چاہنے والے موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر منظرِ عام سے ہٹ گئے تھے۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی اور سابق صدر اور کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ نے 2016 میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان کے نام ور فلمی ہدایت کار فرید احمد کی زندگی کا سفر 25 نومبر 1993ء کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    فن اور فلم نگری سے ان کی شناسائی بہت پرانی تھی۔ انھوں نے اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ فرید احمد کے والد نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کئی کام یاب اور یادگار فلمیں‌ بنائی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگرچہ ان کی دو ہی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں، لیکن انھیں بھی پاکستانی فلمی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یوں کیمرے اور فلمی پردے سے فرید احمد خاصے مانوس تھے۔

    انھوں نے اپنے والد کی طرح پاکستان میں فلمی صنعت سے وابستگی اختیار کی اور بطور ہدایت کار نام بنایا اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں۔ فرید احمد نے امریکا سے فلم ڈائریکشن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔

    فلمی صنعت میں ان کی دو شادیاں اور طلاق بھی موضوعِ بحث بنی تھیں، کیوں کہ ان کی شریکِ‌ سفر بھی جہانِ فن و اداکاری سے وابستہ اور مشہور تھیں۔ انھوں نے پہلی شادی ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ ثمینہ احمد سے کی تھی اور ان کی دوسری شادی شمیم آرا سے ہوئی تھی۔ شمیم آرا سے ان کا بندھن محض چند دن بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار نے جان پہچان، عندلیب، انگارے، بندگی، زیب النساء، سہاگ اور خواب اور زندگی جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

  • یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    1957ء میں فلم ’’نورِ اسلام‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس میں شامل ایک نعت ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ بہت مقبول ہوئی اور آج بھی یہ نعت دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک سحر سا طاری کردیتی ہے۔

    یہ نعت گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ تھی۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور گلوکار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ سلیم رضا 1983ء میں کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پسِ پردہ گلوکاری کے لیے سلیم رضا کو بہت شہرت ملی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔ گو کہ سلیم رضا نور اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے اور ان کے بیش تر نغمات بے حد مقبول بھی ہوئے، مگر مذکورہ نعت جس رچاؤ سے پیش کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے سلیم رضا قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے جہاں ریڈیو پاکستان سے انھوں نے گلوکاری کا سفر شروع کیا۔ سلیم رضا کے فلمی گائیک کے طور پر کیریئر کا آغاز “نوکر” سے ہوا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس مشہور گلوکار نے اپنے عروج کے زمانے میں دیارِ غیر جانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔