Tag: نومبر برسی

  • شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔

    چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔

    مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔

    میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔

    حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔

    حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔

    میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔

    (شوکت کیفی کی خود نوشت ‘یاد کی رہ گزر’ سے ایک پارہ، 22 نومبر 2019ء کو وفات پانے والی شوکت کیفی مشہور اداکارہ اور نام وَر شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ تھیں)

  • مارول کامکس کے شہرۂ آفاق کرداروں کے خالق اسٹین لی کا تذکرہ

    مارول کامکس کے شہرۂ آفاق کرداروں کے خالق اسٹین لی کا تذکرہ

    کامکس کے مداح دنیا بھر میں موجود ہیں۔ کامک بکس آج بھی نہایت شوق سے پڑھی جاتی ہیں، لیکن اسکرین پر نمودار ہونے کے بعد تو ان کرداروں نے گویا ہر طرف دھوم مچا دی۔ ہم بات کریں اسپائیڈر مین، آئرن مین اور دی ہلک جیسے شہرۂ آفاق کرداروں کی تو انھیں کتابوں‌ سے سنیما تک خوب پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    ایک طرف تو کامکس کے وہ پرستار ہیں جن کی دل چسپی ان زبردست اور کرشماتی قوّتوں‌ کے حامل کرداروں میں‌ ہے اور دوسری طرف ان کرداروں‌ پر مشتمل کہانیوں کے شائقین ہیں جو خیر اور شَر کی جنگ کے انجام میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

    ہم نے یہاں‌ جن کرداروں کا ذکر کیا ہے، انھیں کئی دہائیوں قبل اسٹین لی نے اپنے ذہن میں تخلیق کیا تھا اور جلد ہی وہ اس مصنّف کی کہانیوں میں قارئین تک پہنچے۔ اسٹین لی نے 95 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    اسٹین لی کو بیسویں صدی کا ایک شان دار تخلیق کار کہا گیا کیوں کہ اس کے تخلیق کردہ کرداروں اور مارول کامک بکس نے دنیا بھر میں بچّوں اور نوجوانوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ان کا تعلق امریکا سے تھا۔ 1940ء کے عشرے میں اسٹین لی نے لکھنے کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ کردار تخلیق کیے۔ ان کرداروں کو کہانی میں پیش کیا، لیکن بعد میں کامک بک کی اشاعت سے اور بالخصوص اسکرین تک اس مصنّف نے دوسرے آرٹسٹوں کی مدد سے شان دار کام یابیاں اپنے نام کیں، تاہم یہ سب اسٹین لی کی صلاحیتوں اور اس کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ہی ممکن ہوا۔

    اپنے سفر آغاز میں انھوں نے ایک چھوٹا چھاپہ خانہ قائم کیا اور مارول کامک بکس شایع کرنے لگے۔ اسٹین لی کے تخلیق کردہ کردار بچوں کی نفسیات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ وہ اس مصنّف کی سبق آموز کہانیوں کی بدولت خود انہی کرداروں میں ڈھلا ہوا دیکھتے اور خیالی دنیا میں بدی کی طاقتوں کو شکست دینے لگتے۔ اسٹین لی کو مارول کرداروں پر مبنی کہانیوں کے سبب لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ وہ فلم ساز اور مکالمہ نویس بھی تھے۔

    سپر مین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بار اسٹین لی نے کہا تھا کہ وہ میرے لیے کبھی بھی دل چسپی کا باعث نہیں رہا کیوں کہ میں کبھی اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہوا۔ اگر آپ اپنے ہیرو کے لیے فکرمند نہیں ہوتے تو اس میں کوئی جوش نہیں ہوتا۔

    اسٹین لی کا ساتھی آرٹسٹ جیک کربی تھا جنھوں نے مل کر 1961ء میں کمپنی مارول کامکس بنائی تھی۔ انھوں نے فینٹیسٹک فور نامی سیریز سے آغاز کیا تھا اور بعد میں ان کے کامک بک کے کردار اسپائیڈر مین اور دی ہلک انتہائی مقبول ہوئے۔

    اسٹین لی 28 دسمبر 1922ء کو امریکا، نیویارک میں‌ پیدا ہوئے تھے اور ان کی زندگی کا سفر 12 نومبر 2018ء کو تمام ہوا۔

    مارول کامکس کے اس لیجنڈ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل پولیس میں شکایت درج کرائی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے 3 لاکھ ڈالر چوری ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے کا انھیں علم نہیں تھا اور کہا گیا کہ ایک جعلی چیک کے ذریعے ایسا کیا گیا ہے۔

    ہالی وڈ میں اسٹین لی کے تخلیق کردہ کرداروں پر فلمیں بنائی گئیں جو بے حد مقبول ہوئیں اور فلم سازوں کو زبردست مالی منافع دیا۔

  • شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    آج پاکستان کی ایک نہایت عالم فاضل اور قابل شخصیت ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا یومِ وفات ہے۔ 1958ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے عمر بن داؤد پوتہ کو ماہرِ تعلیم، محقّق، معلّم، ماہرِ لسانیات اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ سندھ میں‌ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور شمسُ العلما کا خطاب پایا۔ ان کا تعلق سیہون، دادو کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ عمر بن محمد داؤد پوتہ نے 25 مارچ 1896ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شان دار رہا۔ انھوں نے ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    1917ء میں سندھ مدرستہُ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں انھوں نے سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومتِ ہند نے انھیں اسکالر شپ پر انگلستان بھیج دیا۔ وہاں ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    انگلستان سے وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ میں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جن میں سندھ مدرستہُ الاسلام کی پرنسپل شپ بھی شامل تھی۔ 1939ء میں صوبۂ سندھ میں محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری عمل میں آئی اور برطانوی سرکار نے 1941ء میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں انگریز حکومت کی جانب سے یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور تواریخ ’’چچ نامہ‘‘ اور’’ تاریخ معصومی‘‘ کی ترتیب ہے۔ انھوں‌ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں 28 کتب یادگار چھوڑیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ ‌خاک کیا گیا۔

  • رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    سلام مچھلی شہری اپنے زمانے کے ایک مقبول شاعر تھے۔ رومانوی شاعری میں منفرد راہ نکالنے والے اس شاعر نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔

    اس دور میں‌ سلام نے ایک بالکل نئے طرز کی رومانی شاعری کی اور خاص طور پر نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئے۔ سلام مچھلی شہری نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا بھی لکھے۔ وہ نثر نگار بھی تھے اور ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے نام سے ان کا ایک ناول بھی شایع ہوا۔

    یکم جولائی 1921ء کو انھوں نے مچھلی شہر جونپور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تعلیم کا سلسلہ صرف ہائی اسکول تک محدود رہا اور کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ انھوں نے علم و مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ انھیں‌ لائبریری کی ملازمت کے دوران کئی موضوعات پر کتب اور مختلف زبانوں کے ادب کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے انھیں ادبی فکر و تخلیق میں مدد دی۔ 1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویسی پر مامور ہوئے۔ اور بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر تبادلہ ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی میں ریڈیو اسٹیشن پر پروڈیوسر کے طور پر ان کا تقرر ہوگیا۔ اس عرصے میں ان کا شعری سفر جاری رہا اور وہ ایک رومانی شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ انھیں‌ بھارتی حکومت نے ’پدم شری‘ سے بھی نوازا۔

    سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ شایع ہوئے۔ انھوں نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ سلام مچھلی شہری کی یہ مشہور نظم ملاحظہ کیجیے۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد ہدایت پرویز ملک کا تذکرہ

    پرویز ملک اُن ہدایت کاروں میں‌ سے ایک تھے جنھوں نے اپنی فلموں کے لیے منفرد موضوعات کا چناؤ کیا، اور موسیقی اور شاعری پر خاص توجہ دی۔ انھوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو متعدد کام یاب فلمیں دیں جو ان کی فنی مہارت اور کمال کی یادگار ہیں۔

    پرویز ملک 1937ء کو پیدا ہوئے تھے اور 2008 میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ پاکستانی فلموں کے چاکلیٹی ہیرو اور مقبول ترین اداکار وحید مراد کے ہم جماعت تھے۔ پرویز ملک ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا چلے گئے جہاں انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور 1963ء میں وطن واپس آئے۔ یہاں اس وقت ان کے دوست اپنے والد کے فلمی ادارے کے تحت کام شروع کرچکے تھے جس میں پرویز ملک بھی شامل ہوگئے اور ہیرا اور پتھر، ارمان اور احسان جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔

    پرویز ملک کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں کو ناقدین اور شائقین دونوں کی طرف سے بہت پزیرائی ملی۔ پہچان، تلاش، پاکیزہ، انتخاب، ہم دونوں، دوراہا اور غریبوں کا بادشاہ جیسی فلمیں پرویز ملک ہی کی یادگار ہیں۔

    پرویز کی تین فلموں گمنام، کام یابی اور غریبوں کا بادشاہ) کو اس وقت ٹیکس سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا۔ فلمی صنعت کے لیے ان کے کام اور خدمات پر انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی‎ سے بھی نوازا گیا۔ پرویز ملک کو فلمی صنعت کے لیے ان کے منفرد کام اور فلموں کی بدولت مدتوں یاد رکھا جائے گا۔

  • معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    نام وَر پاکستانی گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    اے نیّر 17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیّر تھا اور وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں‌ بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پسِ پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیّر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے متعدد انٹرویوز میں‌ بتایا کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘ یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور 66 سال کی عمر میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

  • یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    آج استاد شاعر حیدر دہلوی برسی ہے۔ ان کا تعلق شعرا کی اُس نسل سے تھا جن کی اصلاح و تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ غزل کے علاوہ کلاسیکی دور کی شاعری میں خمریات کا موضوع بہت پُرلطف رہا ہے۔ حیدر دہلوی اس کی مضمون بندی میں کمال رکھتے تھے اور اسی سبب خیّامُ الہند کہلائے۔

    اردو شاعری میں استاد کا درجہ پانے والے حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور جلد ہی ان کی شہرت ہندوستان بھر میں‌ پھیل گئی۔

    حیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ 10 نومبر 1958ء کو اسی شہر میں حیدر دہلوی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    حیدر دہلوی نے اپنی شاعری میں‌ خمریات کے موضوع کو اپنے تخیّل اور کمالِ فن سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اردو ادب اور شعرا کے مستند اور مشہور تذکروں میں آیا ہے کہ خمریات کے موضوع پر ان کے اشعار خوب صورت و نادر تشبیہات، لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کے ساتھ معنویت سے بھرپور ہیں۔

    ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ استاد حیدر دہلوی کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

    عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یک سَر
    ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے

  • یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بنا دیا تھا۔ اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والے اس شاعر کے منفرد طرزِ فکر اور اندازِ بیان نے کئی نظم نگاروں کو متاثر کیا، لیکن ان کی ذات کثرتِ مے نوشی، رنگین مزاجی اور بعض قبیح عادات کے سبب نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا جی نے 1949ء میں آج ہی کے دن ممبئی میں وفات پائی۔

    صرف 38 سال جینے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا اور یوں میرا جی نے تعلیم و تربیت کے مراحل بھی مختلف شہروں طے کیے۔

    نثاءُ اللہ ڈار کے والد نے لاہور میں اقامت اختیار کی تو میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی اس کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے عشق میں انھوں نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق میں ناکام رہا اور بعد کے برسوں میں وہ عشق اور ہوس میں تمیز کیے بغیر نجانے کتنی زلفوں کے اسیر ہوئے اور رسوائیاں اپنے نام کرتے رہے۔ یہ بدنامیاں ایک طرف حلیہ بھی ان کا ایسا تھا کہ نفیس طبیعت پر ان کا ساتھ گراں گزرتا۔ خاکہ نگاروں نے لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی ظاہری حالت، اور شخصی کم زوریوں کو ان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے خوب موضوع بنایا ہے، لیکن اس سے میرا جی کی فنی عظمت کم نہیں‌ ہوتی۔

    میرا جی کو شروع ہی سے مطالعہ کا شوق اور علم و ادب سے لگاؤ رہا۔ طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری شروع کر دی اور علم و ادب سے شغف کے سبب وہ معروف اور قابلِ‌ ذکر رسالے ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے مضامین لکھنے کا آغاز کیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو میرا جی کی طبع زاد تخلیقات اور تنقیدی مضامین بھی رسالے میں شایع ہونے لگے اور ادیبوں اور باذوق قارئین کی توجہ حاصل کی۔

    جب میرا جی نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ہند پر برطانیہ کا تسلط تھا اور ہندوستان آزادی کی لڑائی میں لڑ رہا تھا۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور اردو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت میرا جی نے حلقہ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی۔

    ڈاکٹر انور سدید نے میرا جی کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی عرصلے میں انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی اور نئی روایت قائم کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ اردو شاعری میں‌ ان کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔

    میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    اردو زبان کے مشہور شاعر اور جدید نظم کے بانی میرا جی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    سارنگی وہ ساز ہے جس کے ماہر برطانوی دور اور تقسیم کے بعد پاک
    و ہند میں روایتی دھنوں میں مقبول شاعری سے عوام کو محظوظ کرتے رہے۔ کئی سارنگی نوازوں نے موسیقی کی سنگت میں بڑا نام پیدا کیا جن میں سے ایک استاد حامد حسین خان بھی ہیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد حامد حسین خان کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ دورِ جدید میں سارنگی جیسے ساز اور اس کے بنانے اور بجانے والے دونوں ہی اب ماضی کی ایک یاد بن چکے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    پاکستان میں استاد حامد حسین خان نے اس ساز پر کئی سال تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد پائی۔ ان کا تعلق مراد آباد سے تھا۔ استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز تک ریاست رام پور کے دربار سے وابستہ رہے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا خاندان مشہور تھا۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ وہ نہایت عمدگی سے سارنگی بجانے کے لیے مشہور تھے اور بڑی مہارت سے سنگت میں دوسرے فن کاروں کا ساتھ دیتے تھے۔

    انھوں نے ہندوستان، پاکستان کے علاوہ بیرونَ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین سے داد و تحسین سمیٹی۔

  • یومِ وفات: اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ ڈاکٹر وفا راشدی کی مشہور تصنیف ہے

    یومِ وفات: اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ ڈاکٹر وفا راشدی کی مشہور تصنیف ہے

    معروف ادیب، شاعر، محقّق اور نقّاد ڈاکٹر وفا راشدی کی تصانیف اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ اور بنگال میں اردو کو علمی و ادبی حلقوں میں‌ خاصی پذیرائی ملی۔ اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتب اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔ وفا راشدی نے 2003ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ان کا اصل نام عبد الستار خان تھا۔ یکم مارچ 1926ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ سے میٹرک کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اردو میں‌ ایم اے کی ڈگری بھی اسی جامعہ سے لی۔ انھوں‌ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ جیسے موضوع پر لکھا اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

    وفا راشدی نے شاعری کا آغاز لڑکپن میں کیا اور بعد میں وحشت کلکتوی سے اصلاح‌ لینے لگے۔ شاعری کے ساتھ وہ تحقیق و تاریخ کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے۔ وہاں بنگال میں اردو کے عنوان سے ان کی تحقیقی کتاب 1955ء میں شائع ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ و ثقافت پر ان کی دوسری کتاب سنہرا دیس کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔

    سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ڈاکٹر وفا راشدی لاہور چلے آئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں کوٹری اور حیدر آباد، سندھ میں‌ رہائش اختیار کی اور پھر مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگئے جہاں ٹیلی کمیونیکیشن ٹریننگ اسکول سے منسلک ہو گئے۔ انھوں‌ نے انجمن ترقّیِ اردو پاکستان کے لیے بھی بحیثیت سینئر اسکالر خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر وفا راشدی کراچی کے ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔