Tag: نومبر فوتیدگی

  • بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کے دورِ صدارت کو اُن کی خارجہ پالیسی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کے41 ویں صدر تھے۔ ان کے دور میں مشرقی یورپ میں کمیونزم دَم توڑ رہا تھا اور روسی ریاستوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔

    جارج ہربرٹ واکر بُش جو بش سینئر مشہور ہیں، ان کی قیادت میں حکومتی پالیسیوں نے دنیا کو امریکا پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ بش سینئر کا دورِ صدارت 1989ء سے 1993ء تک رہا۔ بعد میں ان کے بیٹے بش جونیئر بھی امریکا کے صدر بنے۔

    30 نومبر 2018ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پانے والے بش سینئر کے دور میں‌ آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم بھی کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن عرب دنیا میں‌ تیل کی دولت سے مالا مال اور چھوٹے سے آزاد ملک کویت کے شہریوں کو تحفظ دینے اور وہاں پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یہ جنگ لڑی تھی۔

    آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم 40 دن جاری رہا جس کے بعد عراقی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے امریکا نے کویت کی آزادی کی جنگ کہا، لیکن اس سے قبل واشنگٹن میں عراقی قبضے کے دوران امریکا کی جانب سے اس محاذ کو کھولنے پر سیاسی تنازع جاری رہا تھا۔ عرب گروپوں میں عراق کے قبضے کو ختم کرانے پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا اور امریکی حملے سے چند دن قبل ہی صدام حسین نے کویت سے مشروط انخلا کا اعلان کیا تھا، لیکن صدر بش نے کانگریس سے جنگ کی منظوری لے لی اور جنگ شروع ہوگئی۔

    بش سینئر کے دور کے اس آپریشن نے عرب خطّے اور دنیا پر دور رَس اثرات مرتب کیے جب کہ دوسری جانب عظیم روس بکھرنے کو تھا اور امریکا دنیا کی قیادت کے لیے تیّار۔

    ریپبلکن پارٹی کے بش سینئر کو امریکا کا کام یاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا، لیکن اپنے دورِ‌ حکومت میں بالخصوص کام یاب خارجہ پالیسیوں کے باوجود انھیں 1992ء کے صدارتی انتخابات میں‌ بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔ اس کا ایک سبب بش سینئر کے دور میں ابتر داخلی معاشی صورتِ حال تھی۔

    کویت کی آزادی کی جنگ کے بعد امریکی عوام میں ان کی مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، لیکن چند سال گزرنے کے بعد کویت عراق تنازع میں امریکا کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، کیوں کہ آپریشن صرف کویت سے عراقی افواج کی بے دخلی تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکا نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

    1924ء میں پیدا ہونے والے بش سینئر کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ بعد میں ان کا خاندان ٹیکساس منتقل ہوگیا جہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    ان کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک اپنے آبائی علاقے کی نشست پر سینیٹر بھی رہے تھے۔ بش سینئر 1964ء میں ریپبلکن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ٹیکساس میں تیل اور پیٹرول کے بڑے تاجر تھے۔

    بش سینئر نے 941ء میں امریکی بحری اڈّے پرل ہاربر پر جاپانی فضائیہ کے حملے کے بعد خود کو بحریہ میں رضا کار کے طور پر پیش کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں فضائیہ کا حصّہ بنے۔ انھوں نے باربرا پیئرس سے شادی کی تھی۔

    جارج ڈبلیو بش امریکا کے صدر بننے سے قبل رونالڈ ریگن کے دور میں آٹھ سال تک نائب صدر بھی رہے۔ یوں وہ عملی سیاست اور منصب و اختیار کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔

    1976ء میں جارج بش سینئر سینٹرل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک سال تک خدمات انجام دیں جب کہ 1971ء سے 1973ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں امریکا کے مندوب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

    اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا۔ 30 نومبر 1936ء کو اصغر گونڈوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
    ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا۔

    ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا۔

    اصغر گونڈوی نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے

  • یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، شان دار مکالمہ نویس بھی تھے۔ وہ 20 سال کے تھے جب گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی جہاں شعروسخن کے شائق فیاض ہاشمی کو اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کی رفاقت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور ملازمت کا تجربہ انھیں فلم نگری تک لے گیا جہاں نغمہ نگار کے طور پر انھوں‌ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ اس کام یابی کی ایک وجہ ان کا موسیقی کا شوق اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی تھی۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد ’’انوکھی‘‘ کے گیت لکھے جن میں‌ سے ایک ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے لیے ان سے گیت لکھوائے جاتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    یہ گیت ایس بی جون کی آواز میں‌ آج بھی مقبول ہے اور یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بنا۔ فیاض ہاشمی کے کئی فلمی نغمات زباں زدِ عام ہوئے اور ان کے گانے والوں کو بھی لازوال شہرت ملی۔

    اس فلمی گیت نگار نے اسکرپٹ بھی لکھے اور اپنے زرخیز ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں‌ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ انھوں نے 24 فلموں کے لیے کہانی اور مکالمہ نویسی کی۔

    فیاض ہاشمی نے ’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت نگاری کی۔ 1968ء میں فلمی گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ پر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ان کا لکھا ہوا وہ گیت تھا جسے کئی گلوکاروں نے گایا اور اس کے بول زبان زدِ عام ہوئے۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور تخلیقی جوہر انھیں‌ ورثے میں ملا تھا۔ فیاض ہاشمی نے 29 نومبر 2011ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔

    فیاض ہاشمی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

  • نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

    اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

    مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

    ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

    یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

    اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔

  • طورسم خان کی دوسری برسی اور اسکواش کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    طورسم خان کی دوسری برسی اور اسکواش کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    یہ محض اتفاق ہے کہ جس تاریخ کو طورسم خان نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موندی تھیں، اس کے دو برس بعد اسی تاریخ کو ان کا ایک خواب بھی پورا ہوا جس کے لیے وہ اپنے بھائی جہانگیر خان کو تیّار کررہے تھے۔

    طورسم خان کی وفات کے بعد1981ء میں جہانگیر خان اوپن چیمپئن شپ کے عالمی فاتح بنے تھے۔ یہ ایونٹ 19 سے 28 نومبر تک جاری رہا اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی جہانگیر خان کی عمر اُس وقت محض 17 سال تھی۔ ان کے بھائی طورسم کو 1979ء میں اسکواش کورٹ میں‌ دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    طورسم خان پاکستان میں اسکواش کے معروف کھلاڑی روشن خان کے بیٹے تھے جنھیں آسٹریلین اوپن میں نیوزی لینڈ کے نیون باربر کے خلاف دوسرے راؤنڈ کا میچ کھیلتے ہوئے دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ اچانک اسکواش کورٹ میں گر پڑے۔ انھیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایاکہ ہارٹ اٹیک سے ان کا دماغ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

    اسکواش کے اس مایہ ناز کھلاڑی کو چند دنوں تک لائف سپورٹنگ مشین پر رکھا گیا، لیکن پھر ڈاکٹروں کی ٹیم نے بتایا کہ ان کا زندگی کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے والد جو خود بھی اسکواش کے معروف کھلاڑی تھے، انھیں فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ مشین بند کرکے اپنے بیٹے کو رخصت کریں۔ وہ اذیّت ناک دن تھا جب انھوں‌ نے ڈاکٹروں کو مشین ہٹانے کے لیے کہہ دیا۔

    28 نومبر کو جہانگیر خان بھی اپنے شفیق دوست، مہربان ساتھی، اپنے ٹرینر اور محبّت کرنے والے بڑے بھائی سے محروم ہوگئے۔ وہ تین ماہ تک اس غم میں‌ اسکواش سے بالکل دور رہے، لیکن پھر سب کے سمجھانے پر انھوں نے کورٹ کا رخ کیا تاکہ اپنے بھائی طورسم خان کا خواب پورا کرسکیں۔

    1981ء کا ورلڈ اوپن کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقد ہوا جس میں جیف ہنٹ اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کررہے تھے۔ وہ لگا تار چار سال یہ عالمی اعزاز اپنے نام کرتے رہے تھے، لیکن اس بار انھیں ناکامی ہوئی اور پاکستان کے کھلاڑی جہانگیر خان چوتھے گیم میں اسکواش کے عالمی فاتح بنے۔

    روشن خان کے خاندان اور خود جہانگیر خان نے اس شان دار کام یابی پر خوشی کے ساتھ گہرا دکھ بھی محسوس کیا۔ یہ وہی تاریخ تھی جب ان کے بڑے بھائی طورسم خان اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ دنیا اس مقابلے کو اور طرح سے دیکھ رہی تھی، لیکن اسکواش کے اس نوجوان کھلاڑی کے لیے یہ ایک نہایت جذباتی موقع تھا۔

    طورسم خان 27 ستمبر 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1967ء میں وہ قومی چیمپئن بنے۔ 1971ء میں عالمی ایمیچر اسکواش چیمپئن شپ میں انھیں پاکستان کی نمائندگی سونپی گئی تھی۔ انھوں نے انگلستان اوپن، امریکن اوپن اور ویلش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتی تھی۔

    طورسم خان کو کراچی میں گورا قبرستان سے متصل فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔

    چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔

    مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔

    میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔

    حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔

    حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔

    میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔

    (شوکت کیفی کی خود نوشت ‘یاد کی رہ گزر’ سے ایک پارہ، 22 نومبر 2019ء کو وفات پانے والی شوکت کیفی مشہور اداکارہ اور نام وَر شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ تھیں)

  • کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    کلاسیکی دور کے مشہور مگر مشکل گو شاعر شاہ نصیر

    شاہ نصیرؔ نے اپنے جوہرِ سخن، طبیعت کی روانی اور مشق و کمال کے سبب خوب شہرت اور اردو کے کلاسیکی دور کے شعرا میں نام و مقام پایا۔ سنگلاخ زمینوں اور مشکل قوافی کے باوجود ان کا کلام خاص و عام میں مقبول ہوا۔ آج شاہ نصیر کا یومِ وفات ہے۔

    کہتے ہیں‌، شاہ نصیر کی آواز پاٹ دار تھی جو مشاعروں میں جان ڈال دیتی تھی۔ وہ دہلی میں رہے اور وہاں ادبی محافل اور مشاعروں میں‌ ان کا بہت چرچا تھا۔ وہ جلد ہی اپنی طباعی اور زود گوئی کے سبب درجۂ اُستادی پر فائز ہوگئے۔

    شاہ نصیر کا سنِ پیدائش کسی کو معلوم نہیں اور ان کے وطن پر بھی تذکرہ نگاروں نے اختلاف کیا ہے، تاہم اکثر کے نزدیک وہ دہلی کے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تذکرے میں‌ لکھا ہے کہ شاہ نصیر کا نام محمد نصیر الدّین تھا اور عرفیت میاں کلّو۔ انھوں نے لکھا ہے کہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اسی لیے ’’میاں کلّو‘‘ کہلائے۔

    ان کے والد شاہ غریب (شاہ غریب اللہ) ایک خوش طینت و نیک سیرت بزرگ تھے۔ شہر کے رئیس و امیر سب ان کا ادب کرتے تھے، مگر وہ گوشۂ عافیت میں بیٹھے، اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہے، یہاں تک کہ مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے عہد میں وفات پائی۔

    انہی کے بعد بیٹے شاہ نصیر نے شاعری میں بڑا نام پیدا کیا اور وہ ایسے شاعر تھے جو دہلی کے مشاعروں میں‌ ضرور دعوت پاتے۔ کلاسیکی دور کے اس شاعر نے 23 نومبر 1837ء کو حیدر آباد دکن میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔ شاہ نصیر کو نہایت مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنا پسند تھا، لیکن وہ زبان و بیان کے ماہر بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ نامانوس اور مشکل قوافی کے ساتھ لمبی لمبی ردیفوں میں غزلیں کہنے کے باوجود ان کی زبان نکھری ہوئی اور انداز دل نشیں ہے۔ ان کی غزلوں میں تشبیہ اور استعارے کا لطف موجود ہے۔

    اردو کے تذکرہ نگاروں اور نقّادوں‌ کے مطابق جن سنگلاخ زمینوں میں یہ دو غزلے کہتے دوسروں کو غزل پوری کرنا مشکل ہوتی۔ نصیرؔ ایک زبردست شاعر تھے۔ مشکل ردیف قافیے میں بغیر تشبیہ و استعارے کے بات نہیں بنتی، نصیرؔ کا تخیّل و تصوّر اس میں منجھا ہوا تھا۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
    وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا

    قصورِ شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
    تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا

    غرورِ حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
    کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

    وفورِ عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
    ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    استاد فتح علی خان پاکستان کے نام وَر ستار نواز اور موسیقار تھے جنھوں نے 1981ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے دارِ بقا کا رُخ کیا۔ ان کا تعلق برصغیر میں‌ کلاسیکی موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد فتح علی خان کا سنِ پیدائش1911ء بتایا جاتا ہے۔ وہ پانچ سال کے تھے جب مشہور ساز ستار میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی۔ ان کے تایا، استاد محبوب علی خان بھی موسیقی اور اس ساز کے ماہر تھے۔ فتح علی خان بڑے ہوئے تو انہی سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    استاد فتح علی خان نے ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ بھی طویل عرصہ گزارا۔ وہ لاہور اور بمبئی میں ان کے ساتھ ستار نواز کے طور پر اپنے فن اور اس ساز پر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے موسیقی اور راگ راگنیوں کی باریکی اور فن کی نزاکتوں کو بھی سیکھا۔ بعدازاں خود بھی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں فلم آئینہ کا نام سرفہرست ہے۔

    1960ء کی دہائی میں وہ راولپنڈی منتقل ہوگئے جہاں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے قیام کے بعد وہاں کچھ عرصہ تک نوآموز فن کاروں کو ستار بجانے کی تربیت بھی دی۔

    استاد فتح علی خان کو پاکستان میں‌ فنِ موسیقی کے لیے خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا تھا۔