Tag: نومبر فوتیدگی

  • یومِ وفات: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد "لیڈی کلر” مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: چاکلیٹی ہیرو وحید مراد "لیڈی کلر” مشہور ہوگئے تھے

    وحید مراد کو چاکلیٹی ہیرو ہی نہیں لیڈی کلر بھی کہا جاتا ہے۔ پُرکشش سانولی رنگت کے ساتھ اُن کا منفرد ہیئر اسٹائل اور اس پر مستزاد بڑی آنکھوں نے اُنھیں نہایت جاذب و جمیل بنا دیا تھا۔ رومانوی ہیرو کی حیثیت سے وہ پاکستان ہی نہیں برصغیر میں مقبول تھے۔ انھیں لوگ چاہتے تھے، پیار کرتے تھے اور بلاشبہ لڑکیاں اُن پر مرتی تھیں۔

    وحید مراد 23 سال کے تھے جب ہیرو کے طور پر ان کی شہرت دور دور تک پہنچ چکی تھی۔ اگلے برسوں میں انھوں نے اس حیثیت میں انڈسٹری پر راج کیا، لیکن فلم انڈسٹری میں ان کا یہی عروج اور شہرت ان کی شخصیت میں کجی اور ٹیڑھ کا باعث بھی بنی۔ وہ بد دماغ اور تند خُو مشہور ہوگئے۔

    کہتے ہیں سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں۔ 1965ء سے 1975ء تک فلمی پردے پر راج کرنے والے وحید مراد کے اوج کا ستارہ بھی آمادۂ زوال ہوا اور نئے چہروں نے شائقین کی توجّہ سمیٹ لی۔ ادھر وحید مراد کی بعض عادات اور ان رویّے سے بیزار فلم ساز اور ہدایت کار بھی ان سے گریز کرنے لگے اور وہ وقت آیا جب وحید مراد کو ایک پشتو فلم میں کام کرنا پڑا۔

    یہ کردار ان کے سابق ڈرائیور اور گھریلو ملازم بدر منیر نے انھیں آفر کیا تھا۔ بدر منیر نے کبھی اپنے اسی مالک کی سفارش پر فلم انڈسٹری میں کام حاصل کیا تھا اور اب وہ پشتو فلموں کے اسٹار تھے۔ انھوں نے پُرانے مالک سے وفا کی اور یوں وحید مراد نے پشتو فلم میں کردار ادا کیا۔

    وحید مراد 2 اکتوبر 1938ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے جن کا شمار اس دور کے متموّل لوگوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو بڑے لاڈ پیار اور ناز و نعم سے پالا تھا۔

    کراچی میں وحید مراد نے اپنا تعلیمی سفر طے کیا اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں والد کے ادارے سے وابستہ ہوگئے اور فلمیں بھی بنائیں۔ اسی دوران انھیں اداکاری کا شوق ہوا۔

    وہ 1959ء میں فلم ’’ساتھی‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار نبھا چکے تھے۔ جب 1962ء میں وحید مراد کو ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ کردار سونپا تو اس خوب رُو نوجوان نے خود کو باصلاحیت بھی ثابت کردیا۔ شان دار اداکاری اور اس فلم کی گولڈن جوبلی نے وحید مراد کی اگلی منازل آسان کردیں۔

    اس اداکار کو مزید فلموں میں کام مل گیا۔ وحید مراد کی شہرت کا سفر ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے شروع ہوا۔ اس فلم نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے مقبول ترین ہیرو اور کام یاب اداکار وحید مراد نے 125 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس زمانے میں‌ ان کی ہر فلم کام یاب رہی۔

    وحید مراد بیک وقت اداکار، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر بھی تھے۔ اُن کی آخری فلم ’’زلزلہ‘‘ تھی۔ وحید مراد کے ساتھ اپنے وقت کی نام ور اداکاراؤں نے کام کیا۔ ان پر خوب صورت شاعری اور لاجواب دھنوں‌ میں کئی گیت فلمائے گئے جو آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وحید مراد اپنے فلمی کیریئر میں 32 ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد سے متعلق زخمی کانپوری کی کتاب “ذکر جب چھڑ گیا” سے منتخب کردہ یہ قصّہ پڑھیے۔

    “یہ 1964 کی بات ہے جب فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک کراچی میں اپنی فلم ہیرا اور پتھر کی عکس بندی کررہے تھے۔ فلم کے ہیرو وحید مراد تھے جو بڑے تنک مزاج ثابت ہوئے تھے۔

    ایک روز کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں فلم کی شوٹنگ کے دوران وحید مراد کسی بات پر یونٹ کے ایک لڑکے سے الجھ گئے۔ اس لڑکے سے خدا معلوم کون سی غلطی سرزد ہوگئی کہ وحید مراد نے اس غریب کو ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ سب نے یہ منظر دیکھا اور سب کو بڑا دکھ ہوا۔

    وہ غریب اپنا گال سہلا کر اپنے کام میں لگ گیا، مگر پورے یونٹ نے وحید مراد کی اس حرکت کا برا منایا اور جب کھانے کا وقفہ ہوا تو پرویز ملک نے وحید مراد سے بڑی نرمی سے کہا کہ تمھیں اس غریب لڑکے کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ دیکھ کر یونٹ کے دوسرے افراد نے بھی وحید مراد سے احتجاج کیا اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ یونٹ کے آدمیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔

    وحید مراد اس فلم کو شیڈول کے مطابق مکمل کرانا چاہتے تھے۔ اس لیے جب یہ منظر دیکھا تو فورا اس لڑکے کو بلا کر گلے لگا لیا اور معافی مانگی اور اس کی دل جُوئی کے لیے اسے سو روپے کا نوٹ بھی دیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔

    بعد میں اس واقعے کی اطلاع ان کے گھر پہنچی تو ان کی ماں نے بھی بہت سمجھایا جس کا اثر یہ ہوا کہ جب ایک ہفتے بعد عید آئی تو وہ عید کا کافی سامان لے کر اس لڑکے کے گھر گئے تاکہ اس کی دل جوئی ہوسکے۔ وہ گھرانہ انتہائی غریب تھا چناں چہ عید کے موقع پر یہ غیبی مدد پاکر بڑا خوش ہوا۔ اس موقع پر وحید مراد نے ایک بار پھر اس لڑکے سے معافی مانگی۔”

    وحید مراد کی زندگی کا باب 23 نومبر 1983ء کو ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا تھا۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

    60 کے عشرے میں فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا وہ سفر شروع کیا جو بعد میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت مقبول ہوئی۔ فریدہ خانم نے کلاسیکی موسیقی، بالخصوص غزل گائیکی میں الگ پہچان بنائی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں‌ ایک غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اس غزل کے شاعر اطہر نفیس ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شاعر اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    فریدہ خانم کی آواز میں‌ ان کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے کئی بار نشر ہوئی اور سننے والوں نے اسے سراہا۔ محافلِ موسیقی اور مختلف پروگراموں میں فریدہ خانم سے یہی کلام سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔

    اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور یافت و روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔

    اطہر نفیس نے شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث پہچان بنائی اور خاص طور پر غزل میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔

    اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
    کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

    اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
    وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

    پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
    ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

    اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
    جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

    ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
    بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

  • رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    رومانوی نظموں سے شہرت حاصل کرنے والے سلام مچھلی شہری کا تذکرہ

    سلام مچھلی شہری اپنے زمانے کے ایک مقبول شاعر تھے۔ رومانوی شاعری میں منفرد راہ نکالنے والے اس شاعر نے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔

    اس دور میں‌ سلام نے ایک بالکل نئے طرز کی رومانی شاعری کی اور خاص طور پر نوجوانوں میں‌ مقبول ہوئے۔ سلام مچھلی شہری نے اپنی ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں کئی منظوم ڈرامے اور اوپیرا بھی لکھے۔ وہ نثر نگار بھی تھے اور ’بازو بند کھل کھل جائے‘ کے نام سے ان کا ایک ناول بھی شایع ہوا۔

    یکم جولائی 1921ء کو انھوں نے مچھلی شہر جونپور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تعلیم کا سلسلہ صرف ہائی اسکول تک محدود رہا اور کسی طرح الٰہ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے میں‌ ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ انھوں نے علم و مطالعہ کا شوق خوب پورا کیا۔ انھیں‌ لائبریری کی ملازمت کے دوران کئی موضوعات پر کتب اور مختلف زبانوں کے ادب کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے انھیں ادبی فکر و تخلیق میں مدد دی۔ 1943ء میں سلام مچھلی شہری لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسوّدہ نویسی پر مامور ہوئے۔ اور بعد میں اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن پر تبادلہ ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی میں ریڈیو اسٹیشن پر پروڈیوسر کے طور پر ان کا تقرر ہوگیا۔ اس عرصے میں ان کا شعری سفر جاری رہا اور وہ ایک رومانی شاعر کے طور پر پہچانے گئے۔ انھیں‌ بھارتی حکومت نے ’پدم شری‘ سے بھی نوازا۔

    سلام مچھلی شہری کے تین شعری مجموعے ’ میرے نغمے‘ ،’وسعتیں‘، اور’ پائل‘ شایع ہوئے۔ انھوں نے 19 نومبر 1973ء کو دہلی میں وفات پائی۔ سلام مچھلی شہری کی یہ مشہور نظم ملاحظہ کیجیے۔

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے
    شباب پر بہار تھی
    فضا بھی خوش گوار تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    کسی نے مجھ کو روک کر
    بڑی ادا سے ٹوک کر
    کہا تھا لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے
    نہ جائیے نہ جائیے

    مجھے مگر خبر نہ تھی
    ماحول پر نظر نہ تھی
    نہ جانے کیوں مچل پڑا
    میں اپنے گھر سے چل پڑا
    میں چل پڑا میں چل پڑا
    میں شہر سے پھر آ گیا
    خیال تھا کہ پا گیا
    اسے جو مجھ سے دور تھی
    مگر مری ضرور تھی
    اور اک حسین شام کو
    میں چل پڑا سلام کو
    گلی کا رنگ دیکھ کر
    نئی ترنگ دیکھ کر
    مجھے بڑی خوشی ہوئی
    میں کچھ اسی خوشی میں تھا
    کسی نے جھانک کر کہا
    پرائے گھر سے جائیے
    مری قسم نہ آئیے
    نہ آئیے، نہ آئیے

    وہی حسین شام ہے
    بہار جس کا نام ہے
    چلا ہوں گھر کو چھوڑ کر
    نہ جانے جاؤں گا کدھر
    کوئی نہیں جو ٹوک کر
    کوئی نہیں جو روک کر
    کہے کہ لوٹ آئیے
    مری قسم نہ جائیے

    بہت دنوں کی بات ہے
    فضا کو یاد بھی نہیں
    یہ بات آج کی نہیں
    بہت دنوں کی بات ہے

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور گلوکار علی بخش ظہور کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور گلوکار علی بخش ظہور کی برسی

    سن 1953ء تک علی بخش ظہور نے گلوکار کی حیثیت سے پاکستانی فلم انڈسڑی کو کئی مقبول گیت دیے۔ منوّر سلطانہ کے ساتھ ان کے دوگانے اس زمانے میں‌ بہت مقبول ہوئے۔ وہ اپنے وقت کے نام وَر غزل گائیک تھے جو 18 نومبر 1975ء کو وفات پاگئے۔ آج علی بخش ظہور کی برسی ہے۔

    وہ 11 مئی 1905ء کو پیدا ہوئے تھے۔ استاد برکت علی گوٹے والے کے شاگرد ہوئے اور بعد میں استاد عاشق علی خان سے اکتسابِ فن کیا۔ علی بخش ظہور قیامِ پاکستان سے پہلے سے ریڈیو پر اپنے فنِ گائیکی کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔ وہ ٹھمری، غزل، گیت اور کافیاں گانے کے لیے مشہور تھے۔

    پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انھوں‌ نے فلم انڈسٹری سے ناتا جوڑا اور یہاں کئی فلموں کے نغمات ان کی آواز میں ریکارڈ ہوئے۔ پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے لیے بھی علی بخش ظہور نے گانا ریکارڈ کروایا تھا۔

    ان کے دور میں منوّر سلطانہ بھی فلم نگری کی ایک کام یاب گلوکارہ تھیں جن کے ساتھ ان کے گائے ہوئے دوگانے بہت مشہور ہوئے۔ فلم بے قرار کے لیے منور سلطانہ کے ساتھ ان کا گایا ہوا نغمہ ”دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا، ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ” بہت پسند کیا گیا۔

    اس وقت فلم انڈسٹری میں نئے اور متحدہ ہندوستان کے باکمال موسیقاروں اور گلوکاروں‌ کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جن میں عنایت حسین بھٹی بھی شامل تھے انھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھا تو فلم ساز اور موسیقار ان کی جانب متوجہ ہوگئے اور یوں علی بخش ظہور کو فلم انڈسٹری سے دور ہونا پڑا۔

  • ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    1962ء میں ’دی گولڈن نوٹ بک‘ منظرِعام پر آیا تو تحریکِ نسواں کے حامیوں نے اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ ناول حقوقِ‌ نسواں اور اس حوالے سے بلند ہونے والی ہر آواز کا نمایاں حوالہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن ڈورِس لیسنگ جو اس ناول کی خالق تھیں، اس کے برعکس فکر اور سوچ رکھتی تھیں۔ انھیں 2007ء میں‌ ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ناول کی مصنّفہ ‌نے کبھی اپنے معاشرے میں عورتوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی، اور حقوق و آزادی کے حوالے سے ان کی کام یابیوں کو کسی ایسی تحریک اور حقوقِ‌ نسواں‌ کے نعروں کا ثمر نہیں سمجھا۔

    ڈورِس لیسنگ نے 2003ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو حقوقِ نسواں کی تحریک اس کی وجہ نہیں بلکہ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس حوالے سے کمیٹیاں بنانا، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، عوام کے منتخب کردہ افراد کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے جو ایک کٹھن اور سست رفتار عمل ہو گا، لیکن اِسی طرح منزل مل سکتی ہے۔‘‘

    آج ڈورس لیسنگ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2013ء میں چل بسی تھیں۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والی اس مصنّفہ نے اپنی فکر، نظریہ اور تخیلقات کے سبب دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

    22 اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان میں مقیم ایک برطانوی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی بچّی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ یہ ہندوستان پر برطانوی راج کا زمانہ تھا۔ بعد میں یہ کنبہ ایران سے نقل مکانی کر کے برطانیہ کی ایک افریقی نو آبادی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) چلا گیا۔

    ڈورس لیسنگ ایک بیدار مغز خاتون تھیں۔ مطالعے کے سبب وہ غور و فکر کی عادی ہوگئی تھیں اور قوّتِ مشاہدہ نے انھیں حسّاس و باشعور بنا دیا تھا۔ افریقا میں انھوں‌ نے بدترین نسلی امتیاز اور اُس معاشرے میں‌ ہر سطح پر روایتی سوچ اور پستی کا مظاہرہ دیکھا اور وہاں‌ پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں‌ کئی برس تک رہوڈیشیا اور جنوبی افریقا کے سفر کی اجازت نہیں‌ تھی۔

    بیس سال کی عمر میں رہوڈیشیا میں‌ ڈورس لیسنگ نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کرلی، جس سے اُن کے دو بچّے ہوئے، لیکن بعد میں جرمنی سے جلاوطن ایک یہودی کی شریکِ سفر بنیں جو رہوڈیشیا میں مقیم تھا۔ یہ تعلق بھی 1949ء تک برقرار رہ سکا۔ ڈورس لیسنگ نے اس سے طلاق لے لی اور اپنے بیٹے پیٹر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئیں اور وہیں باقی ماندہ زندگی بسر کی۔

    وہ اپنا پہلا ناول افریقا سے مسوّدے کی شکل میں برطانیہ ساتھ لائیں۔ اس کا نام تھا ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ جس کی کہانی ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوع تعلق پر بُنی گئی تھی۔ تاہم اُن کا پہلا ناول ’’افریقی المیہ‘‘ 1950ء میں چھپا اور بعد کے برسوں میں ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔

    چند سال قبل برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو نے اس ناول نگار کے بارے میں خفیہ معلومات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال تک ان کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ کیوں‌ کہ وہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے کے علاوہ نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بھی متحرک رہی تھیں۔ اس حوالے سے برطانوی انٹیلی جنس نے 1964ء تک ان کی نگرانی کی تھی۔

    وہ متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نام زد ہوئیں‌، لیکن اپنی تخلیقات پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی ڈورس لیسنگ کو اس کا سزاوار نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چھے عشروں پر محیط رہا جس میں ان کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقا کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ’میموائرز آف اے سروائیور‘ اور ’دی سمر بیفور دی ڈارک بھی ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔

  • معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    آج اردو اور فارسی کے معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کی برسی ہے۔ وہ 1959ء میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اسد ملتانی سول سرونٹ تھے۔

    وہ 1902ء میں متحدہ ہندوستان کے اُس وقت کے ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ محمد اسد خان نے 1924ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔ وہ علم و ادب کے رسیا اور شائق تھے اور اسی زمانے میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ملتان ہی سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء بھی کیا اور مطبعُ الشّمس قائم کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ”ندائے افغان” نکالا تھا۔

    1926ء میں اسد ملتانی نے انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں تقرری حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں دہلی اور شملہ میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد دارُالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بن کر آفس سنبھالا اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے۔

    1955 میں ریٹائرمنٹ لے کر ملتان آبسے اور یہاں علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ اسد ملتانی راولپنڈی میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    اردو کے اس قادرُ الکلام شاعر کے شعری مجموعوں میں مشارق، مرثیہ اقبال اور تحفہ حرم شامل ہیں جب کہ اقبالیات کے موضوع پر اقبالیاتِ اسد ملتانی شائع ہوچکی ہے۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    دھیمے لب و لہجے، مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے اور خود کو ورسٹائل فن کار بھی ثابت کیا۔ آج شفیع محمد شاہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 نومبر 2007ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں بھی کردار نبھائے، لیکن پاکستان بھر میں انھیں ٹیلی ویژن ڈراموں کی بدولت مقبولیت ملی۔ ان کے کئی ڈرامے یادگار ثابت ہوئے۔

    1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن وہ بطور اداکار کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی آواز میں‌ خاص قسم کی مٹھاس، نرمی اور لہجے میں وہ دھیما پن تھا جس میں ایک جاذبیت اور کشش تھی۔ ان کا یہی انداز اور لب و لہجہ انھیں ریڈیو پاکستان تک لے گیا جہاں وہ صدا کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    فن کار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد شفیع محمد شاہ نے ملازمت ترک کی اور لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور نام ور پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں اپنے ڈرامے اڑتا آسمان میں‌ ایک کردار کی پیش کش کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ انھوں نے لاہور میں قیام کے دوران چند فلموں میں کام کیا اور پھر کراچی آگئے۔

    شفیع محمد شاہ کو سیریل تیسرا کنارا اور آنچ سے ملک بھر میں شہرت ملی۔ آنچ وہ ڈرامہ ثابت ہوا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہ ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔

    ٹیلی وژن ڈراموں کے مقبول ترین ڈراموں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی میں‌ شفیع محمد شاہ نے اپنے کرداروں میں‌‌ حقیقت کا رنگ بھرا اور ناظرین کے دل جیتے۔

    اس اداکار نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا اور بعد از مرگ شفیع محمد شاہ کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
    اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

    یہ استاد ذوق کا ایک مشہور شعر ہے۔ بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد اور مؤرخ و تذکرہ نویس محمد حسین آزاد نے اپنی مشہور تصنیف آبِ حیات میں اُن کا وہ شعر درج کیا ہے جو ذوق نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں‌ آج ذوق جہاں سے گزر گیا
    کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

    آج شیخ محمد ابراہیم ذوق کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1854ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کیا اور دلّی ہی میں‌ پیوندِ خاک ہوئے۔ ابراہیم ذوق کی ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول کے مکتب میں ہوئی جو شاعر تھے، ان کا تخلّص شوق تھا۔ انہی کی صحبت نے ذوق کے شوقِ شاعری کو نکھارا اور وہ خوب شعر موزوں کرنے لگے۔

    ابراہیم ذوق 1789ء میں دلّی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شاہ نصیر کا چرچا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہوگئے، لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ نہ رہا اور ذوق خود مشقِ سخن میں مصروف رہے۔ کم عمری میں ذوق نے شاعری شروع کی تھی اور نوجوانی ہی میں ایسا نام و مقام پایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    ذوق کو علوم و فنون سے گہرا شغف تھا۔ شاعری اور موسیقی کے علاوہ علمِ نجوم بھی جانتے تھے۔ دربار سے نوجوانی ہی میں‌ کئی خطاب اور اعزازات پائے۔ ان میں ملکُ الشعرا کا اعزاز بھی شامل ہے۔ ذوق کے شاگردوں میں داغ دہلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

    ذوق کو عوام و خواص نے بڑی عزّت اور پذیرائی دی اور انھیں‌ عظمت و شہرت نصیب ہوئی جسے بعض حاسدین اور نکتہ چینوں نے دربار سے ان کی وابستگی کے سبب قرا دیا۔

    ذوق نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ دیوانِ ذوق میں غزل، قصیدہ، رباعی اور ایک نامکمل مثنوی بھی شامل ہے۔ تاہم وہ قصیدے کے امام ثانی اور خاقانیِ ہند کہلائے۔

    ذوق قادرُ الکلام شاعر تھے جن کے بارے میں سرسیّد نے ’تذکرہ اہلِ دہلی‘ میں لکھا ہے:

    ’’مشقِ سخن وری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحبِ سخن کی غالب ہے کہ پیرایۂ وزن سے معرا نہ ہوگی۔ پُر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی۔ مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔‘‘

    ذوق کی زبان و بیان پر قلعہ معلّٰی کے اثرات اور زبانِ دہلوی کے محاوروں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اشعار سن کر لوگ بے ساختہ مچل جاتے تھے۔ جب قلعے میں مشاعرہ ہوتا تو ذوق مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ چناں چہ ذوق کو اپنی زندگی میں جتنی شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔

    ذوق کو عربی اور فارسی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدّت و ندرت تھی۔ ان کی تمام عمر شعر گوئی میں بسر ہوئی۔

  • موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات ہے۔ انھیں‌ اپنے فن میں‌ ماہر اور بے مثل مانا جاتا ہے۔ وہ ایسے موسیقار تھے جس نے اپنے علم اور اس فن میں‌ مہارت و تجربات کو کتابی شکل بھی دی جس سے موسیقی کا شوق رکھنے والوں نے استفادہ کیا۔

    1975ء میں 65 سال کی عمر فیروز نظامی نے آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔

    پاکستان کے اس نام وَر موسیقار کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔