Tag: نومبر فوتیدگی

  • ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    بیدی اردو کے چند ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ لکھا اور فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریر کیے۔

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنٰی ہیں۔ بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کا لطیف ترین عکس ہمارے سامنے لاتے ہیں اور وہ آئینہ خانہ ہیں‌ جس میں انسان کا سچّا روپ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں فرد اور سماج کے پیچیدہ رشتوں اور انسان کی شخصیت کے پُراسرار تانے بانے بھی اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ وہ زیادہ بامعنٰی، بلیغ اور خیال انگیز ثابت ہوتے ہیں، اور اس میں‌ اپنے تخیّل و قلم کی انفرادیت کا اظہار اُس سوز و گداز سے کرتے ہیں جو احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے آسکتا ہے۔ ان کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔

    بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔

    انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی کو ان کے تخلیقی جوہر نے مسلسل دماغ سوزی اور اپنی کہانیوں پر محنت کرنے پر آمادہ کیے رکھا اور انھوں نے حقیقت اور تخیّل کے امتزاج سے لاجواب کہانیاں قارئین کو دیں۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کرتے ہوئے 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    بیدی نے اردو ادب کو کئی کہانیاں دیں اور ان کا قلم مختلف صورتوں یا اصناف میں‌ ہمیشہ متحرک رہا، لیکن فلم انڈسٹری میں کیمرے کے پیچھے رہ کر بھی انھوں نے بڑا کام کیا۔

    فلمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیدی نے اس زمانے میں‌ متحدہ ہندوستان کے پنجاب کے خوش حال و بدحال لوگوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور ان کے تخلیقی جوہر نے اسے بڑی درد مندی کے ساتھ کاغذ پر منتقل کیا۔

    وہ عاشق مزاج بھی تھے۔ انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کو رومان اور دل لگی کے ہاتھوں تلخ بنا لیا تھا۔

    اردو زبان کے اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ ان پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

  • پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    پنجابی فلموں کے مقبول اداکار اقبال حسن کی برسی

    آج اقبال حسن کی برسی ہے جو 1984ء میں کار کے حادثے میں‌ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے اس مشہور و معروف اداکار کے تذکرے کے ساتھ ہی اسلم پرویز کی جدائی کا زخم بھی تازہ ہو جاتا ہے جو کار میں اُن کے ساتھ تھے۔ اس حادثے میں شدید زخمی ہو جانے والے اسلم پرویز بھی ایک ہفتے بعد خالقِ‌ حقیقی سے جاملے۔

    اقبال حسن فلم جھورا کی عکس بندی کے بعد اپنے ساتھی اداکار کے ساتھ فیروز پور روڈ، لاہور سے اپنی کار میں گزر رہے تھے جو ایک ویگن سے ٹکرا گئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں اقبال حسن جاں بحق ہوگئے تھے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں یوں تو پنجابی فلموں کے ٹائٹل کردار نبھا کر کئی فن کاروں نے نام پیدا کیا، لیکن جو مقام فلم ’’شیر خان‘‘ کی ریلیز کے بعد اقبال حسن کو ملا، وہ ایک مثال ہے۔

    فلم انڈسٹری میں اقبال حسن نے اپنے کیریئر کے دوران 285 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور مقبول ہوئے۔ ان کی فلمی زندگی کا آغاز ہدایت کار ریاض احمد کی پنجابی فلم سستی پنوں سے ہوا تھا۔ انھوں نے چند اردو فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی وجہِ شہرت علاقائی زبان میں بننے والی فلمیں ہی بنیں۔ وہ بلاشبہ پنجابی فلموں کے ایک مقبول اداکار تھے۔

    اقبال حسن کی مشہور فلموں میں یار مستانے، سر دھڑ دی بازی، وحشی جٹ، طوفان، گوگا شیر، وحشی گجر، شیرتے دلیر، دو نشان، سر اچے سرداراں دے، میری غیرت تیری عزت، ہتھکڑی ،ایمان تے فرنگی، بغاوت، سجن دشمن، مرزا جٹ، شامل ہیں۔

  • جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    شکیب جلالی نے 1966ء میں آج ہی کے دن ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی تھی۔ ان کی عمر 32 برس تھی۔

    شکیب کی ذاتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ان کی والدہ کی خود کشی تھی اور یہ منظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب وہ دس سال کے تھے، ان کی والدہ نے بریلی شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    کم سِن سیّد حسن رضوی کے ذہن کے پردے پر اُس دردناک دن کے قیامت خیز منظر کی فلم سی چلتی رہتی تھی جس نے انھیں شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا کردیا۔ وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور ایک دن غیرطبعی موت کو گلے لگا لیا۔ وہ لاہور کے ایک ذہنی امراض کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوگئے تھے اور کہتے ہیں کہ اسی غم اور مسائل کے سبب ان کی والدہ نے خود کُشی کرلی تھی۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھنے والے شکیب کے والد نے اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شعری افق پر ابھرنے والے نوجوان شاعروں میں شکیب جلالی کو ان کے جداگانہ شعری اسلوب نے ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا، لیکن اپنے اشعار سے دلوں میں‌ آتشِ عشق بھڑکاتے اور جذبات میں سوز و گداز پیدا کرتے اس شاعر کو انہی ہم عصروں نے نظرانداز بھی کیا۔ تاہم وہ بہت کم وقت میں اپنی جگہ اور مقام بنانے میں کام یاب رہے۔

    خودکُشی کے بعد شکیب کا کلام احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو شکیب تخلّص اختیار کرلیا اور اسی سے پہچانے گئے۔ شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔

    سیّد حسن رضوی نے میٹرک بدایوں سے کیا تھا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز تک تعلیم حاصل کی۔ وہ ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔

    شکیب نے ابتدائی دور میں چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور ان کی بندش کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں ایک محکمہ میں ملازمت ملی، لیکن وہ ذہنی الجھنوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمیشہ ناآسودہ اور پریشان رہے۔ ان کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہی رہی اور سرگودھا میں‌ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے خود انھیں بھی شعرا کے درمیان امتیاز اور مقبولیت بخشی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں ان کی موت کے چند سال بعد شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں شعرا اور تمام ادبی حلقوں کو متوجہ کیا، وہیں باذوق قارئین نے انھیں زبردست پذیرائی دی۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے۔

    ان کے چند اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے، سَر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتّہ دکھائی دیتا ہے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

  • مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    دنیا ول ڈیورانٹ کو فلسفی اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنی تحریر کردہ اُن کی کتابوں کی وجہ سے پہچانا گیا جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتی ہیں۔

    انگریزی زبان میں لکھی گئی ول ڈیورانٹ کی کتابوں‌ کے اردو تراجم کی بدولت بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم اور مطالعہ کے شوقین افراد اس کے نام اور کام سے واقف ہوئے۔

    ول ڈیورانٹ پر اعتراضات بھی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا کہ اس کی کتابوں نے قارئین کی بڑی تعداد میں تہذیبوں کے بارے میں جاننے اور فلسفے کو پڑھنے کا شوق پیدا کیا۔

    اس مشہور مفکّر اور مؤرخ کی ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدن و فلسفہ پر مبنی تحریروں کو اس حوالے سے مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا طرزِ بیان خاصا مختلف ہے، اپنی کتاب ‘ گریٹ مائنڈز اینڈ آئیڈیاز آف آل ٹائمز’ میں اس نے ہندوستان سے متعلق ابواب میں بہترین زبان برتی ہے۔ اس نے تشبیہات، استعاروں اور تلمیحات سے کام لے کر اپنی تحریر کو پُر اثر بنایا ہے۔ مصنّف نے مذکورہ کتاب میں ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدّن اور فلسفہ کا قبل از مسیح سے بعد از مسیح مفصّل تاریخی جائزہ لیا ہے۔

    ول ڈیورانٹ کی اہم اور مشہور ترین تصانیف میں ’اسٹوری آف فلاسفی‘ اور ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ شامل ہیں۔

    اردو میں اس کی کتابوں کا ترجمہ عابد علی عابد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اجمل، ظفرُالحسن پیرزادہ اور طیّب رشید و دیگر نے کیا۔ ’اسٹوری آف سویلائیزیشن‘ ول ڈیورانٹ کی 11 جلدوں‌ پر مبنی کتاب ہے جسے اس کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔

    اس کا پورا نام ول ڈیورانٹ نارتھ ایڈمز تھا جس نے میساچوسٹس، امریکا میں 5 نومبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ 11 جلدوں میں انسانی تہذیب و تمدّن کے جس سفر کو اس نے کتاب کی شکل دی، وہ اس کا ایک کارنامہ قرار پایا اور 1968ء میں پلٹزر پرائز اور 1977ء میں صدارتی تمغا برائے آزادی اس مصنّف کے نام کیا گیا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد ول ڈیورانٹ نیو جرسی شہر کے کالج میں‌ داخل ہوا اور گریجویشن کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا۔ وہ متعدد زبانیں‌ سیکھ چکا تھا اور نیو جرسی کی یونیورسٹی میں لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور جیومیٹری پڑھانے پر مامور ہوا۔ 1913ء میں شادی کے بعد نوکری چھوڑ کر یورپ کے دورے پر نکل گيا اور بعد ازاں ایک گرجے میں لیکچرز دینے لگا۔

    فلسفہ اور تاریخ اس کا محبوب موضوع تھے۔ ول ڈیورانٹ نے 1917ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی زمانے میں اس نے پہلی کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا، "فلسفہ اور سماجی مسائل۔” ول ڈیورانٹ کا خیال تھا کہ فلسفہ میں سماجی مسائل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی دیگر کتب منتقلی (Transition) 1927، فلسفہ کی عمارت (The Mansions of Philosophy) 1929، زندگی کی تشریح (Interpretations of Life) 1970 میں شایع ہوئیں۔

    وہ 7 نومبر 1981ء کو 96 سال کی عمر میں چل بسا تھا۔

  • این جی مَجُمدار کا تذکرہ جنھیں سندھ کے علاقے جوہی میں گولی مار دی گئی تھی

    این جی مَجُمدار کا تذکرہ جنھیں سندھ کے علاقے جوہی میں گولی مار دی گئی تھی

    سندھ میں ہزاروں سال قدیم تہذیب اور آثار کی دریافت کے حوالے سے این جی مَجُمدار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ متحدہ ہندوستان کے اس ماہرِ آثارِ قدیمہ کو 1938ء میں آج ہی کے دن ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے قریب پہاڑی سلسلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

    وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے۔ این جی مَجُمدار کا پورا نام نینی گوپال مجمدار تھا۔ انھوں نے 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم کیا اور فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

    این جی مجمدار کی وجہِ شہرت اُس وقت کے صوبہ سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے زمانے کے 62 آثارِ قدیمہ کی دریافت اور ان مقامات سے متعلق تحقیقی کتاب ایکسپلوریشنس اِن سندھ ہے۔

    انھیں 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی سال کلکتہ میں اسٹنٹ سپریٹنڈنٹ مقرر کردیا گیا۔ انھوں‌ نے کئی سال ہندوستان کے قدیم مقامات اور تہذیبی آثار کی دریافت اور ان پر تحقیق کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے اپنی قابلیت کے ساتھ محنت و لگن سے اپنے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ اسی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے این جی مجمدار کو 1938ء میں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے موہن جودڑو میں کھدائی اور تلاش و تحقیق کے کام میں‌ سَر جان مارشل کی بھی مدد کی۔

    این جی مجمدار نے سندھ میں مختلف مقامات پر کئی تاریخی آثار دریافت کیے تھے۔اس ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ نے پرانے دور کے مختلف ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں پر لکھے گئے اپنے مقالے پر گریفتھ یادگاری انعام بھی حاصل کیا تھا۔

    11 نومبر 1938ء کو جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے حملہ کرکے این جی مجمدار کو گولی مار دی تھی۔ اس زمانے میں‌ عام لوگوں کے ذہن میں تصور تھا کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے اور اس زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں جن کی باقیات کو ماہرینِ آثار کھود کر نکال لیتے ہیں، اور اس طرح ان کی بے حرمتی ہوتی ہے جب کہ زمین سے خزانہ اور قیمتی اشیا بھی برآمد ہوتی ہیں جنھیں یہ لوگ چرا لیتے ہیں۔

    ایکسپلوریشنس ان سندھ این جی مجمدار کی انگریزی زبان میں تحریر کردہ وہ کتاب ہے جو سندھ کے کئی قدیم مقامات سے واقف کراتی اور اس میں‌ تفصیلی تحقیقی بحث شامل ہے۔ اس کتاب میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور دیگر مقامات اور دریافت کیے گئے ٹیلوں اور اشیا سے متعلق تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

  • اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

    اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
    میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

    7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    آج استاد شاعر حیدر دہلوی برسی ہے۔ ان کا تعلق شعرا کی اُس نسل سے تھا جن کی اصلاح و تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ غزل کے علاوہ کلاسیکی دور کی شاعری میں خمریات کا موضوع بہت پُرلطف رہا ہے۔ حیدر دہلوی اس کی مضمون بندی میں کمال رکھتے تھے اور اسی سبب خیّامُ الہند کہلائے۔

    اردو شاعری میں استاد کا درجہ پانے والے حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور جلد ہی ان کی شہرت ہندوستان بھر میں‌ پھیل گئی۔

    حیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ 10 نومبر 1958ء کو اسی شہر میں حیدر دہلوی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    حیدر دہلوی نے اپنی شاعری میں‌ خمریات کے موضوع کو اپنے تخیّل اور کمالِ فن سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اردو ادب اور شعرا کے مستند اور مشہور تذکروں میں آیا ہے کہ خمریات کے موضوع پر ان کے اشعار خوب صورت و نادر تشبیہات، لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کے ساتھ معنویت سے بھرپور ہیں۔

    ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ استاد حیدر دہلوی کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

    عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یک سَر
    ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے

  • شہرۂ آفاق اردو ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے خالق خواجہ معین الدّین کی برسی

    شہرۂ آفاق اردو ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے خالق خواجہ معین الدّین کی برسی

    تعلیمِ بالغاں، مرزا غالب بندر روڈ پر اور لال قلعے سے لالوکھیت جیسے متعدد مقبول اور یادگار ڈراموں کے خالق خواجہ معین الدّین 1971ء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    اردو‌ کے اس ممتاز ڈرامہ نویس اور تمثیل نگار نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت بلاشبہ شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے جب کہ ان کے تحریر کردہ کھیل ملک بھر میں اسٹیج پر پیش کیے گئے اور نہایت کام یاب ثابت ہوئے۔

    خواجہ معین الدّین نے اپنے ڈراموں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام لینے کی کوشش کی اور سیاسی و سماجی برائیوں کو کمال خوبی اور ظریفانہ انداز سے اس طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ ان کے ہر مکالمے اور منظر پر ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ کراچی میں مختلف مقامات پر ان کے ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ ان کے کھیل اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اسٹیج کیے گئے۔

    تعلیمِ‌ بالغاں کی بات کی جائے تو اسے پاکستان کا پہلا کلاسک ڈرامہ قرار دیا گیا۔ یہ اپنے فنِ تحریر، موضوع اور اداکاری کے سبب ریکارڈ ساز ڈرامہ ثابت ہوا۔ خواجہ معین الدّین کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، جو گہوارہ علم و ادب، آرٹ اور فنون کے لیے مشہور رہا ہے۔ 1924ء کو دکن کے متموّل گھرانے میں آنکھ کھولنے والے خواجہ معین الدین نے جامعہ عثمانیہ سے 1946ء میں بی اے کی سند حاصل کی اور تخلیقی سفر دکن ریڈیو سے شروع کیا۔ وہ شروع ہی سے ڈرامے اور خاکہ نویسی کی طرف مائل تھے۔ وہ زرخیز ذہن کے مالک تھے جنھیں طنز و مزاح کے ساتھ باریک بیں اور ایسا لکھاری کہا جاتا ہے جو سماج پر گہری نظر رکھتے تھے، انھوں نے تقسیم کے بعد کراچی ہجرت کی اور یہاں‌ بھی اپنے فن میں عروج و مقام حاصل کیا۔

    خواجہ معین الدّین جامعہ کراچی سے اُردو میں ایم اے کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ اسی زمانے میں ڈرامہ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ 1951ء میں خواجہ معین الدین نے صدائے کشمیر لکھا۔ یہ پلے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کا ترجمان تھا۔ 1952ء میں ڈرامہ ’’لال قلعے سے لالو کھیت‘‘ لکھا۔ یہ کراچی کی سماجی، معاشرتی اور تہذیبی عروج و زوال کے پس منظر میں تھا۔ 1954ء میں ان کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اسٹیج پر پیش ہوا اور اس نے اردو ادب اور تمثیل نگاری میں تاریخ رقم کی۔

    اردو کے اس ممتاز ڈرامہ نویس نے اپنے تجربات، مشاہدات اور مطالعے کو کہانی اور کرداروں کی مدد سے لاجواب بنا دیا۔ ان ڈراموں اپنے وقت کے باکمال اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور خواجہ صاحب کے ڈراموں کو لازوال و بے مثال بنا دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے خواجہ معین الدّین کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    ماسٹر غلام حیدر کو رجحان ساز موسیقار تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 9 نومبر 1953ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے اس مشہور موسیقار ہی نے پہلی بار پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں کا حصّہ بنایا تھا۔

    ماسٹر غلام حیدر کا تعلق سندھ کے شہر حیدر آباد سے تھا۔ وہ 1906ء میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ہارمونیم بجانے میں‌ دل چسپی تھی۔ اسی ساز کی بدولت وہ سُر تال اور موسیقی کی طرف راغب ہوئے اور یہ شوق انھیں لاہور لے گیا جہاں وہ ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ وہ اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور ماہر سازندوں کے میل جول کے سبب موسیقی کے فن کی باریکیوں سے واقف ہوتے چلے گئے اور 1932ء میں ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی سے وابستگی کے بعد انھیں اپنے وقت کے باکمال اور ماہر موسیقاروں استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے ان کے فن و کمال کو نکھارنے میں مدد دی۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔

    ماسٹر غلام حیدر کو پرفارمنس کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنے اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ 1933ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے اپنی فلم سورگ کی سیڑھی کے لیے ماسٹر غلام حیدر کی خدمات حاصل کیں اور یوں اس ان کا فلمی سفر شروع ہوا جسے فلم گل بکاؤلی کی موسیقی نے شہرت سے ہم کنار کیا اور انھیں لاہور کے نگار خانوں میں‌ بھی کام ملا۔ ان کی موسیقی یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان جیسی فلموں میں شامل کی گئی۔

    1944ء میں ماسٹر غلام حیدر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں ہمایوں، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں واپس لاہور آگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے فلم بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ماسٹر غلام حیدر کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

    وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

    سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

    اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

    محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

    محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

    تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

    انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

    محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

    انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔