Tag: نومبر فوتیدگی

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر اثنائے گفتگو، تقریر اور تحریر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے سنایا اور لکھا جاتا ہے۔ اس شعر کے خالق محشر بدایونی ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی نے 9 نومبر 1994ء دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔

    4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں محشرؔ تخلّص کیا اور بدایوں کی نسبت کو اپنے اس تخلّص سے جوڑ کر محشر بدایونی کہلائے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے فن و شوق کو جاری رکھنے اور معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنائے گئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کیا تو جلد ہی شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے کلام کے سبب پہچان بنالی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    انھوں نے کراچی میں‌ وفات پائی اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    پروفیسر کرّار حسین علم و آگاہی کا دبستان تھے۔ پاکستان میں دہائیوں تک عقل و خرد کے موتی رولنے والی اس بے مثل شخصیت سے جہانِ فکر و فن کی کئی ممتاز اور نمایاں شخصیات نے تعلیم اور راہ نمائی حاصل کی۔ پروفیسر کرّار حسین نے7 نومبر 1999ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔

    1911 ء میں انھون نے راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم ایک انگریزی اسکول سے حاصل کی اور گھر پر قرآن پڑھا۔ کرّار حسین نے 1925ء میں میٹرک اور 1927ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ وہ ذہین طالبِ علم اور شروع ہی سے غور و فکر کے عادی رہے۔ کتب بینی کا شوق تھا اور مطالعہ نے انھیں‌ سیاست کی طرف بھی مائل کیا۔ یہی وجہ ہے تھی کہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں طلبہ تنظیم اور سیاست میں نہایت فعال رہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ تقریری مقابلوں، ذہنی آزمائش اور مقابلۂ مضمون نویسی میں وہ اپنا نام ضرور لکھواتے تھے۔ انگریزی، اُردو ادب، تاریخ، فلسفہ، مذہب اور معاشرتی مسائل ان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات تھے، جب کہ فارسی ادبیات میں ازحد دل چسپی تھی۔

    آگرہ کے ’’سینٹ جونز کالج‘‘ میں داخلہ لینے کے بعد ہاسٹل میں رہے جہاں کرّار حُسین کا اکثر وقت تعلیمی مصروفیات کے ساتھ مطالعہ اور سماجی مسائل میں‌ غؤر و فکر کرتے ہوئے گزرنے لگا۔ اسی زمانے میں سیاسی محاذ پر فرنگی راج کے خلاف تحریکیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ وہ ’خاکسار تحریک‘‘ سے وابستہ ہوگئے، لیکن یہ وابستگی طویل عرصے تک برقرا نہ رہ سکی۔

    1932ء میں کرّار حسین نے میرٹھ کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے سال اسی کالج میں انگریزی ادب کے استاد بن کر تدریسی سفر کا‌ آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ متعدد کالجوں اور جامعات سے وابستہ ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تدریس ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصّہ تھا۔

    خاکسار تحریک سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی اور اردو زبان کے دو پرچوں کا اجرا کیا۔ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور فکری شعور و تجربات کی روشنی میں ان پرچوں میں‌ مضامین لکھتے رہے اور وہ وقت آیا جب سرکار نے ان پرچوں کے اجرا کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ دونوں پرچے مالی مسائل کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ ساتھ ہی کرّار حُسین کو ناپسندیدہ قرار دے کر داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    یہاں اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے اور پھر اِسی کالج میں وائس پرنسپل کے طور پر تعینات رہے۔ 1955-67ء تک میرپور خاص، خیر پور اور کوئٹہ میں مختلف کالجوں میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد میں‌ کراچی واپس آئے اور جامعہ مِلّیہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ 1977ء سے 1999ء تک کراچی میں ’’اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔

    پروفیسر کرّار حُسین رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اپنی انکساری و سادہ دلی کے ساتھ ایک نہایت شفیق استاد کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی شخصیت میں جہان و معانی کی دنیا آباد تھی۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی اور غالب: سب اچھا کہیں جسے شامل ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔

  • تحریکِ پاکستان کے بے لوث کارکن اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص شمسُ الحسن کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے بے لوث کارکن اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص شمسُ الحسن کی برسی

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک تھے جنھیں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ ان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوئے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا اور فرمایا: ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔

    آزادی کی تحریک کے اس ممتاز رکن کا نام سیّد شمسُ الحسن تھا جنھوں نے 1892ء میں بریلی میں آنکھ کھولی۔ بریلی اور آگرہ میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 1909ء میں جب مسلم لیگ نے ادارہ روزگار ایمپلائمنٹ قائم کیا تو وہ مسلم لیگ کے سیکرٹری وزیر حسن کے دفتر سے منسلک ہو گئے۔ جولائی 1914ء میں آفس سیکرٹری بنے۔ 1919ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو شمسُ الحسن کی ان سے رفاقت اور رابطہ بڑھ گیا۔ 1914ء سے 1947ء تک وہ مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث، پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے انھیں اہم ذمہ داریاں سونپیں۔

    قیامِ پاکستان سے چند روز قبل قائدِ اعظم نے دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر شمسُ الحسن کو بلوا کر اپنے ذاتی خطوط، مسلم لیگ کا ریکارڈ اور دوسری دستاویزات ان کے سپرد کیں جنھیں‌ بعد میں 98 جلدوں میں مرتّب کیا گیا۔ یہی جلدیں ”شمسُ الحسن کلیکشن“ کہلاتی ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔

    انھوں نے 7 نومبر 1981ء کو وفات پائی۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے بعد از مرگ ان کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا گیا۔

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی کو عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبے میں ممتاز شباب کیرانوی ایک ادیب، کہانی نویس اور شاعر کی حیثیت سے بھی قابلِ ذکر اور نمایاں ہوئے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفر نگر (اُترپردیش ) کا معروف قصبہ ہے جہاں‌ 1925ء میں نذیر احمد نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر آنکھ کھولی۔ بعد میں‌ انھیں ہندوستان بھر میں شباب کیرانوی کے نام سے جانا گیا۔

    شباب کیرانوی نے پندرہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور اسکول بھی جاتے رہے۔ دورانِ تعلیم انھیں شاعری کا شوق ہوگیا اور اپنا تخلّص ’’شباب‘‘ رکھا اور اپنے شہر کی نسبت کیرانوی کا اضافہ کرلیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے دیگر افراد سمیت ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوئے۔

    شباب کیرانوی نے فلم ’’جلن‘‘ سے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور اس حوالے سے اپنے فن و تخلیق کی صلاحیتوں کا اظہار بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی و مکالمہ نویس کیا۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت ان کی کام یاب ترین فلموں میں شامل ہوگئیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے بھی موج شباب اور بازار صدا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت اور باکمال فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے عروج کے دنوں میں لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وفات کے بعد انھیں اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر کم عمر یا نوجوان ہی کیا بڑے بھی ششدر رہ گئے۔ رسول حمزہ توف کی عمر اس وقت محض 11 برس تھی۔

    یوں‌ تو یہ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن ہوائی جہاز کی اس ہنگامی لینڈنگ سے رسول حمزہ توف کے تخیّل کی اُس پرواز کا آغاز ہوا جس نے انھیں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر بنا دیا۔ انھوں‌ نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی اور یوں ان کا شعری سفر ہوا۔

    رسول حمزہ توف نے روسی ادب میں‌ بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر مشہور ہوئے اور نثر نگار، مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں‌ میں ممتاز رہے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے بھی لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، لیکن ان کی شناخت اور عوامی سطح پر مقبولیت بطور شاعر برقرار رہی۔

    رسول حمزہ توف نے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں 8 ستمبر 1923ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے جو اکثر جانور چراتے ہوئے گیت گاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ رسول حمزہ توف یہ سب سنتے رہتے اور بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک زمانے میں داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑی، تو رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ انھوں‌ نے رزمیہ اور قومی گیت بھی لکھے، اور اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے کے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فکر و فن کو نکھارا اور تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اسی عرصے میں یکے بعد دیگرے ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ عالم ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ وہ جادو تھا جس نے ہر خاص و عام کو اپنے سحر میں‌ جکڑ لیا اور ان کے گیتوں‌ نے انھیں‌ عوامی سطح پر زبردست مقبولیت اور پذیرائی عطا کی۔

    ان کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے۔ حب الوطنی ان کے شعر کا مستقل رنگ ہے، جس نے انھیں عوام کا محبوب شاعر بنا دیا۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں علم و ادب کے نام وروں‌ کو متاثر کیا اور انہی کے طفیل داغستان کو دنیا نے جانا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر تخلیقات اور تراجم کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو انھوں‌ نے عالمی ادب سے اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیں۔ ان کے یہ تراجم مستند اور معیاری ہیں۔

    رسول حمزہ توف کو حکومتِ روس کی جانب سے ”اسٹالن انعام“ ( 1952ء)، ”لینن پیس پرائز“( 1963ء)، ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ (1964ء) سے نوازا گیا اور 2014 ء میں ان کے نام سے منسوب ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    یہ عوامی شاعر زندگی کی 80 بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 3 نومبر 2003ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔

  • یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

    مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بنا دیا تھا۔ اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والے اس شاعر کے منفرد طرزِ فکر اور اندازِ بیان نے کئی نظم نگاروں کو متاثر کیا، لیکن ان کی ذات کثرتِ مے نوشی، رنگین مزاجی اور بعض قبیح عادات کے سبب نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا جی نے 1949ء میں آج ہی کے دن ممبئی میں وفات پائی۔

    صرف 38 سال جینے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا اور یوں میرا جی نے تعلیم و تربیت کے مراحل بھی مختلف شہروں طے کیے۔

    نثاءُ اللہ ڈار کے والد نے لاہور میں اقامت اختیار کی تو میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی اس کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے عشق میں انھوں نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق میں ناکام رہا اور بعد کے برسوں میں وہ عشق اور ہوس میں تمیز کیے بغیر نجانے کتنی زلفوں کے اسیر ہوئے اور رسوائیاں اپنے نام کرتے رہے۔ یہ بدنامیاں ایک طرف حلیہ بھی ان کا ایسا تھا کہ نفیس طبیعت پر ان کا ساتھ گراں گزرتا۔ خاکہ نگاروں نے لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی ظاہری حالت، اور شخصی کم زوریوں کو ان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے خوب موضوع بنایا ہے، لیکن اس سے میرا جی کی فنی عظمت کم نہیں‌ ہوتی۔

    میرا جی کو شروع ہی سے مطالعہ کا شوق اور علم و ادب سے لگاؤ رہا۔ طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری شروع کر دی اور علم و ادب سے شغف کے سبب وہ معروف اور قابلِ‌ ذکر رسالے ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے مضامین لکھنے کا آغاز کیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو میرا جی کی طبع زاد تخلیقات اور تنقیدی مضامین بھی رسالے میں شایع ہونے لگے اور ادیبوں اور باذوق قارئین کی توجہ حاصل کی۔

    جب میرا جی نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ہند پر برطانیہ کا تسلط تھا اور ہندوستان آزادی کی لڑائی میں لڑ رہا تھا۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور اردو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت میرا جی نے حلقہ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی۔

    ڈاکٹر انور سدید نے میرا جی کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

    1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی عرصلے میں انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

    میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی اور نئی روایت قائم کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ اردو شاعری میں‌ ان کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

    ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

    سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔

    میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

    اردو زبان کے مشہور شاعر اور جدید نظم کے بانی میرا جی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
    کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

    کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
    کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

    کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
    من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

    اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
    دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

    ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
    ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

    سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
    لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

  • معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    ریشماں کی آواز نہایت درد انگیز اور پُر سوز تھی۔ انھیں بلبلِ صحرا بھی کہا گیا۔ آج پاکستان کی اس مشہور لوک گلوکارہ کی برسی ہے۔ ریشماں 2013ء میں اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی تھیں۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔ انھیں گلے کے سرطان کا مرض لاحق تھا۔ ریشماں کی پیدائش کا سال 1947ء تھا۔ وہ راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تعلق رکھتی تھیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا۔ ریشماں نے کم عمری میں صوفیانہ کلام گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ بارہ برس کی ایک بچّی کو ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر سنا اور اسے ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ یوں ریشماں پاکستان بھر میں لوک گلوکارہ کے طور پر متعارف ہوئیں اور بعد کے برسوں میں مقبولیت حاصل کی۔

    ”چار دناں دا پیار او ربّا، بڑی لمبی جدائی“ وہ گیت ہے جس نے ریشماں کو ملک ہی نہیں سرحد پار بھی شہرت اور پہچان دی۔

    ریشماں نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے گانا شروع کر دیا۔ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی مقبولیت سرحد پار بھی پہنچی اور معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے اپنی فلم کے لیے ان کی آواز میں‌ گانا ریکارڈ کروایا۔ یوں ریشماں نے فلم ’ہیرو‘ کا گانا ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی پاک و ہند میں مقبول ہے اور نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں ’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔

    اس لوک گلوکارہ کو ستارۂ امیتاز اور لیجنڈز آف پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

  • نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے نوبل انعام یافتہ ڈراما نویس، ناول نگار اور نقّاد جارج برنارڈ شا نے 2 نومبر 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اس مفکّر، عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی اور تھیٹر کی تاریخ کی نام وَر شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    جارج برنارڈ شا آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1856ء ہے، وہ 15 سال کی عمر میں لندن آیا اور پھر لندن کا ہو کر رہ گیا۔ اس کا باپ شرابی تھا، لیکن ماں‌ موسیقی کے فن میں‌ طاق تھی اور خوب صورت آواز کی مالک تھی۔ اس نے اپنے شرابی شوہر کو چھوڑ دیا اور بچّوں کے ساتھ لندن چلی گئی جہاں گھر چلانے کے لیے لوگوں کو موسیقی سکھانا اور اوپیرا میں گیت گانا شروع کردیا۔ یوں‌ برنارڈ شا کو بھی فنونِ لطیفہ، ادب اور موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا تاہم وہ لکھنے لکھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہوئے ذہانت سے بہت کچھ سیکھا اور کتابوں سے دوستی نے اس کا علم بڑھایا جو بعد میں اس کے کام آیا۔

    برنارڈ شا لندن گیا تو اس کی جیب خالی تھی۔ اس نے لائبریریوں اور میوزیم میں وقت گزارا، علمی و ادبی مباحث میں‌ شریک رہا، اور پھر ایک دن سوچا کہ وہ ناول لکھ سکتا ہے۔ اس نے ناول لکھے، لیکن مایوسی اس کا مقدر بنی اور کسی نے اسے نہ سراہا، تب موسیقی کا فن اس کے کام آیا جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔ اسی زمانے میں‌ وہ کالم نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور موسیقی سے متعلق مضامین اور تبصرے کرنے لگا۔

    برنارڈ شا 1892ء تک مختلف اخباروں میں تبصرہ نگار، نقّاد اور مبصّر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اس نے لندن کے مشہور اخبارات میں موسیقی پر کالم لکھے اور ادبی فن پاروں پر تبصرے کرنے لگا۔ اس کے قلم اور فقرے کی کاٹ بہت تیز تھی۔ بعد میں اس نے ڈرامے لکھنے کی طرف دھیان دیا۔

    اس کی پہلی تخلیق جو نیم خود نوشت کہی گئی "امیچوریٹی” کے نام سے شایع ہوئی جسے ابتدا میں لندن کے تمام پبلشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد چار ناول بھی مسترد کر دیے گئے۔ لیکن وہ ایک زبردست نقّاد اور ڈرامہ نویس کے طور پر تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوا۔ اس کی تخلیقات کا دنیا کی متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اس کے تحریر کردہ ڈراموں کو تھیٹر کے شائقین میں زبردست پذیرائی ملی۔

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔