Tag: نومبر وفیات

  • جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

    جون ایلیا کو اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کا مقبول شاعر تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن وہ بطور شاعر اور نثر نگار بھی اپنے منفرد لب و لہجے اور طرزِ بیان کی وجہ سے اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جون ایلیا اپنے ہی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

    آج جون ایلیا کی برسی ہے جنھیں شاعری میں روایت کا باغی اور بے باک شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے اشعار میں وہ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ تو اُن کو نہیں رہا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

    حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
    ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

    ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

    میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
    میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
    اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
    بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے روز یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر اور انشائیہ نگار تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ جون ایلیا زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں، "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

    جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصغر نقوی ان کا نام رکھا گیا لیکن قلمی نام سے شہرت پائی۔ وہ جس گھرانے کے فرد تھے اس میں سب علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال لوگ تھے۔ جون ایلیا کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے۔ ایک بھائی رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر اور صحافی گزرے ہیں۔ جون صاحب کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک ہر موضوع پر بات کی جاتی تھی۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید کے عنوان سے شایع ہوا جس کا پیش لفظ اس قدر مقبول ہوا کہ ان کے مداح آج بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جون ایلیا رومان پرور انسان تھے اور ان کی خیالی محبوباؤں سے الفت اور کلفت کا سلسلہ سخن میں‌‌ ڈھلتا رہا۔ جون ایلیا اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں: "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    معروف کالم نگار اور مصنفہ زاہدہ حنا ان کی شریکِ سفر رہیں۔ ان کی تین اولادیں ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

  • عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    عوامی شاعر رسول حمزہ توف جو دنیا بھر میں داغستان کی پہچان بنے

    یہ تذکرہ اُس شخصیت کا ہے جس کی وجہِ شہرت تو ادب ہے، لیکن اس کی ادب سے وابستگی اور فن و تخلیق کا محرک ایک عجیب اور دل چسپ واقعہ ہے۔ یہ 1934ء کی بات ہے جب داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد گاؤں کا ہر بچّہ، بڑا بوڑھا حیران پریشان تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ یہ منظر دیکھا یا اس کے بارے میں سنا تھا۔ ان میں رسول حمزہ توف بھی شامل تھے۔ اس وقت وہ گیارہ سال کے تھے۔ چند روز بعد حمزہ توف نے اس سنسنی خیز واقعے پر ایک نظم لکھ دی اور یہیں سے ان کی شاعری کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ داغستان کے عوامی شاعر مشہور ہوئے۔

    گاؤں میں ہوائی جہاز کا یوں اترنا وہاں کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن رسول حمزہ توف اس گاؤں کے واحد باسی تھے جس نے اس واقعے کے بعد اپنے تخیّل کی اڑان بھر کر روسی اور مقامی ادب میں نام و مقام بنایا۔ یہ علاقہ اس زمانے میں روس کے زیرِ اثر تھا۔ رسول حمزہ توف ایک عوامی شاعر ہی نہیں خوب صورت نثر نگار اور بہترین مترجم کی حیثیت سے بھی علمی و ادبی حلقوں‌ میں مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، مگر عوام میں ان کی وجہِ مقبولیت ان کی شاعری ہے۔ رسول حمزہ توف 2003ء میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رسول حمزہ توف نے 8 ستمبر 1923ء کو اس وقت کے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے۔ وہ اکثر جانور چراتے ہوئے کوئی گیت گاتے جاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے تھے۔ رسول حمزہ توف کبھی ان کے ساتھ جاتے تو گیت سنتے رہتے۔ یہیں سے ان میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو رسول حمزہ توف کے لیے شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    داغستان کی سرحد پر جنگ کی وجہ سے رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ کچھ عرصہ منقطع رہنے کے بعد 1945ء میں دوبارہ جڑ گیا اور اب وہ ماسکو میں داخلہ لے چکے تھے۔ 1950ء میں فارغ التحصیل ہوئے اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی۔ ان کے درمیان حمزہ توف کی فکر اور فن پر نکھار آیا۔ رسول حمزہ توف نے تخلیقی سفر جاری رکھا اور اس عرصے میں ان کے چند شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ اس کی وجہ رسول حمزہ توف کے رزمیہ اور قومی گیت تھے، جن میں وہ اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ زمانہ ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ حب الوطنی کا بیان ایسا جادوئی تھا کہ وہ عوامی سطح پر بہت مقبول ہوگئے۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے جب کہ حب الوطنی ان کے اشعار کا مستقل رنگ ہے۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر داغستان کی پہچان بن گئے۔ کہتے ہیں‌ کہ رسول حمزہ توف ہی تھے جن کی وجہ سے اس ملک کو دنیا نے جاننا شروع کیا۔ روسی حکومت نے اس شاعر اور ادیب کو 1952ء میں ”اسٹالن انعام“ جب کہ 1963ء میں ”لینن پیس پرائز“ دیا اور اگلے سال ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ سے نوازا۔ 2014 ء میں رسول حمزہ توف سے موسوم ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر طبع زاد کام اور تراجم پر بھی متعدد کتابیں شایع ہوئیں انھوں نے عالمی ادب کا اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیا اور یہ معیاری تراجم ہیں۔ ”میرا داغستان“ ان کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جسے جدید عالمی ادبیات کی فہرست میں‌ شمار کیا گیا۔ یہ سوویت یونین کے داغستان کو جس اسلوب میں پیش کرتی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اپنی زمین سے بے حد محبت، ولولہ انگیز نظمیں، زندگی کو پیش کرنے کا فن کارانہ انداز، انوکھے اور فکر انگیز خیالات، آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز، چھوٹی چھوٹی مقامی کہانیاں، کہاوتیں اس کتاب کا حسن ہیں۔ اور ناقدین کے مطابق اس کتاب کا سب سے بڑا کارنامہ اسے آوار زبان میں پیش کرنا ہے جو صرف پانچ، چھ لاکھ لوگوں کی زبان تھی۔

  • ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ کا نام بارہویں صدی عیسوی کے عظیم فلسفی، مفکّر اور شاعر کے طور پر اسلامی دنیا میں مشہور ہے اور اپنی تصانیف کی بدولت دنیا بھر میں ایک عالم فاضل شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ابنِ عربی کو شیخِ اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

    ابنِ عربیؒ کا پورا نام محیُ الدّین محمد بن علی ابنِ عربی تھا اور اکثر اس کے ساتھ الحاتمی الطائی الاندلسی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ابنِ عربی حاتم طائی کی نسل میں سے تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1165ء ہے تاہم اس پر اختلاف بھی ہے۔ تاریخ کی کتب میں ان کا وطن اندلس (اسپین) اور آبائی شہر مرسیا لکھا ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ اشبیلیہ منتقل ہوگئے تھے، وہیں ابنِ عربیؒ نے تعلیم پائی اور عنفوانِ شباب کو پہنچے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن عربی نے اندلس سے شمالی افریقہ، مصر، عرب، شام، عراق، یروشلم، ترکی تک سفر کیے تھے۔ اشبیلیہ نقل مکانی کے بعد انھیں اپنے وقت کے جیّد علما اور عظیم شخصیات کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے تصوف، فقہ اور دیگر مروّجہ دینی اور دنیاوی علوم سیکھنے کے علاوہ صوفیا کی صحبت میں وقت گزارا۔ مؤرخین کے مطابق 30 برس کی عمر میں پہلی بار اندلس سے باہر قدم رکھا اور تیونس میں ابوالقاسم بن قسی کی کتاب’’ خلع النعلین‘‘ کا درس لیا۔ ابو محمّد عبد العزیز بن ابوبکر القریشی سے ملے اور پھر ایک برس تک ابو محمّد عبداللہ بن خمیس الکنانی کے پاس رہے۔ والد کی وفات پر اشبيليہ واپس آگئے، مگر کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر سفر پر نکل گئے اور اِس بار بھی اُن کی منزل شمالی افریقا تھی۔ وہ فاس (موجودہ مراکش کا ایک شہر) جا پہنچے، جہاں قیام کے دوران روحانیت کا تجربہ ہوا اپنے ان اسفار اور مختلف ممالک میں قیام کے دوران ابن عربی نے فلسفہ، حکمت و منطق، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، نجوم وغیرہ کا علم اور تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھیں ادب اور بعض دیگر علوم وفنون بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ فاس کے سفر میں‌ والدہ، بیوی اور بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ وہاں اپنی بہنوں کی شادی کی اور والدہ کے وہیں وفات پا جانے کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔ دو سال وہاں مقیم رہے اور پھر مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد دوبارہ مکّہ لوٹ گئے۔ ایک سال تک وہاں قیام کیا، پھر ایشیائے کوچک (اناطولیہ، موجودہ ترکی) چلے گئے۔ سلجوق ریاست کے پایۂ تخت قونیا میں وہاں کے سلطان نے ان کی بہت عزّت افزائی کی۔ وہاں سے آپؒ بغداد چلے گئے۔ 620 ہجری میں ابنِ عربی نے دمشق میں اقامت اختیار کی اور آخری سانس تک وہیں رہے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت تھے۔ انھوں نے ایک معرکہ آرا کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی جو تیس سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔ آج ابنِ عربی کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کہتے ہیں کہ متعدد تصانیف کا کوئی نشان نہیں‌ ملا۔ انھیں عربی نظم و نثر پر یکساں عبور حاصل تھا۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر بڑی دسترس اور کمال قدرت تھی۔

    ابنِ عربی نے آج ہی کے دن 1240ء میں وفات پائی۔ ان کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبلِ قاسیون کے دامن میں ہے اور انہی کی مناسبت سے اسے محلّہ ابنِ عربی کہتے ہیں۔

    ان کی دو کتب فتوحاتِ مکیہ اور نصوص الحکم ہر دور میں درس و تدریس کے حوالے سے اہم رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں ابنِ عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ تیرھویں صدی عیسوی ہی میں یورپ میں ان پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا اور پچھلے کئی برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین اور مشرقی علما و حکما خاص طور پر ابنِ عربی کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔

    ایّوبی اور سلجوق حکم ران حضرت ابنِ عربی کے معتقد تھے۔ صلاح الدّین ایّوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے دوستانہ تعلقات تھے، جب کہ صلاح الدّین ایوبی کے نواسے، امیر عبد العزیز بھی آپؒ سے بہت عزّت و احترام سے پیش آتے تھے۔ ایّوبی حاکم، الملک العادل نے آپؒ کو قاہرہ میں دشمنوں سے بچایا۔ سلجوق سلطان، علاء الدّین کیقباد آپؒ کا مرید تھا۔ تاہم، آپؒ اِن تعلقات کو اسلامی تعلیمات کی اشاعت، مسلم حکومتوں کی مضبوطی اور عام افراد کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے، کبھی ذاتی فوائد حاصل کیے۔

    ابنِ عربیؒ کی کتب کی تعداد 800 تک بیان کی جاتی ہے۔ تاہم وہ اپنے زمانے میں اور بعد کے برسوں میں بھی علماء اور قرآن و سنت کے پابند دینی طبقات میں اپنے دینی فلسفے، بعض نظریات کی وجہ سے متنازع بھی رہے۔ اس کی ایک وجہ ابن عربی کا اسلوب خاصا فلسفیانہ اور دقیق اصطلاحات پر مشتمل ہونا ہے اور ان کے نظریات عام مسلمانوں کی عقل اور فہم سے ماورا تھے، اور اس کا فائدہ ابن عربی کے مخالفین اور حاسدین نے بھی اٹھایا اور عام لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کی ہدایت کی۔ انھوں نے ذات و صفاتِ باری تعالیٰ، عرش و کرسی، ملائکہ، انبیائے کرام، جنّت، دوزخ، تخلیقِ کائنات سمیت متعدد ایسے عنوانات پر اظہار خیال کیا جو علماء کے نزدیک متنازع ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابنِ عربیؒ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے باقاعدہ وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔

  • محشر بدایونی کا تذکرہ جن کے متعدد اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے

    محشر بدایونی کا تذکرہ جن کے متعدد اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر تحریر و تقریر میں یا کسی مباحثے کے دوران اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے برتا جاتا ہے۔ یہ محشر بدایونی کا وہ شعر ہے جو ضرب المثل بنا۔ محشر بدایونی 9 نومبر 1994ء کو انتقال کر گئے تھے۔

    بدایوں کئی علمی و ادبی شخصیات کا شہر رہا ہے اور محشر بھی 4 مئی 1922ء کو بدایوں‌ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ متحدہ ہندوستان کے اس شہر میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں وہ محشرؔ کے تخلّص اور بدایوں کی نسبت سے محشر بدایونی مشہور ہوئے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے شوق کو جاری رکھتے ہوئے معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرکے اپنی پہچان بطور شاعر بنائی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔ کراچی میں‌ وفات پانے والے محشر بدایونی سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    اردو کے اس معروف شاعر کا ایک مشہور شعر ہے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    اگست 1944ء میں پیرس کے عوام نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی قیادت فرانس کی آزادی کے متوالے راہ نما اور وہ مزاحمت کار کر رہے تھے جنھیں‌ پیرس کی عورتوں اور پادریوں کی حمایت اور ان کا ساتھ بھی حاصل تھا۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کی اتحادی افواج نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیرس میں بڑے پیمانے پر قید وبند کے سلسلے کے ساتھ قتل و غارت گری ہوئی، لیکن عظیم قوم پرست راہ نما چارلس ڈیگال کی قیادت میں‌ فرانسیسی عوام نے اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگ لڑی اور کام یاب ہوئے۔

    سٹی ہال کے باہر ڈیگال نے کہا تھا کہ ’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘

    چارلس ڈیگال نے روپوشی اختیار کی، جلا وطنی کاٹی اور وطن سے دور رہے، لیکن اپنے عوام اور فوج کو متحد و منظّم کرکے اس خواب کو پورا کر دکھایا جس کے لیے انھوں نے کئی قربانیاں‌ دی تھیں اور جب پیرس آزاد ہوا تب فرانسیسیوں کا یہ محبوب لیڈر وطن لوٹا جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے اپنا مشہورِ زمانہ خطاب کیا۔ ڈیگال نے مزاحمت کاروں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں اور دوسرے جاں‌ نثار فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    ڈیگال کو 1958ء میں ملک کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے 9 نومبر 1970ء کو وفات پائی۔ چارلس ڈیگال نے فرانس میں 22 نومبر 1890ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلق ایک رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ ڈیگال کے والد تاریخ اور ادب کے پروفیسر تھے۔

    چارلس ڈیگال کا شمار ان قوم پرست قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی میں‌ دنیا سے اپنے عزم و استقلال کو منوایا۔ انھیں بہترین فرانسیسی جنرل اور قوم کے مدبّر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد ڈیگال نے بڑی ذہانت اور حکمتِ‌ عملی سے کام لیا اور اپنی فوج اور عوام سے رابطہ برقرار رکھا، ان کے پیغامات فرانس کے عوام تک پہنچتے جن میں‌ وہ عوامی اتحاد کو سڑکوں پر نکلنے اور فرانسیسی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال فرانس میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی افراتفری اور جنگ کے زمانے میں جب انتشار اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی افواج نے فرانس پر اپنا تسلط جمانا چاہا اور وہاں‌ جرمن نواز حکومت قائم ہوگئی تو ڈیگال نے جنگ کا اعلان کردیا۔

    ابتدا میں انھیں اور مزاحمت کاروں کو شکست ہوئی لیکن ڈیگال کا اصرار تھا کہ فرانس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی آزاد اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ وہ ایسے زبردست قوم پرست راہ نما تھے جنھوں نے قومی مفاد کے لیے کسی کی پروا نہ کی۔ اس زمانے میں ان کی برطانیہ اور امریکا سے محاذ آرائی بھی ہوئی، لیکن ڈیگال اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔

    چارلس ڈیگال کا ایک اور کارنامہ آزادی کے بعد 1945ء میں فرانس کو اقوامِ متحدہ کی مستقل نشست پر براجمان کروانا تھا۔ جنگ کے بعد وہ فرانس کی عبوری حکومت میں‌ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، مگر سیاسی تنازعات کی وجہ سے 1946ء میں‌ مستعفی ہوگئے۔ تاہم 1947ء میں‌ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں‌ یہ جماعت انتشار کا شکار ہو کر کم زور پڑگئی تھی، لیکن اپنی وفات تک ڈیگال فرانس کے عوام کی حمایت اور ان کی محبوبیت سے محروم نہیں ہوئے۔

    چارلس ڈیگال دیانت داری اور عزم و استقلال کا پیکر تھے جو دنیا بھر میں قوم پرستوں کے لیے مثالی راہ نما بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرانس کے مشہور فلسفی سارتر نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی حمایت کی تو ڈیگال پر اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا، لیکن اس راہ نما نے کہا کہ فرانس سارتر ہے اور سارتر فرانس ہے، یہ نہیں‌ ہوسکتا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔

    ڈیگال سمجھتے تھے کہ فرانس کی حکومت اور قوم کو کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں‌ کرنا چاہیے، کیوں‌ کہ وہ خود ایک بڑی طاقت ہیں۔ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کی تعمیرِ نو میں‌ زبردست کردار ادا کیا۔ ہر سال آنجہانی چارلس ڈیگال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد پیرس میں ان کے مقبرے پر حاضری دیتی ہے۔

  • بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کے دورِ صدارت کو اُن کی خارجہ پالیسی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کے41 ویں صدر تھے۔ ان کے دور میں مشرقی یورپ میں کمیونزم دَم توڑ رہا تھا اور روسی ریاستوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔

    جارج ہربرٹ واکر بُش جو بش سینئر مشہور ہیں، ان کی قیادت میں حکومتی پالیسیوں نے دنیا کو امریکا پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ بش سینئر کا دورِ صدارت 1989ء سے 1993ء تک رہا۔ بعد میں ان کے بیٹے بش جونیئر بھی امریکا کے صدر بنے۔

    30 نومبر 2018ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پانے والے بش سینئر کے دور میں‌ آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم بھی کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن عرب دنیا میں‌ تیل کی دولت سے مالا مال اور چھوٹے سے آزاد ملک کویت کے شہریوں کو تحفظ دینے اور وہاں پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یہ جنگ لڑی تھی۔

    آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم 40 دن جاری رہا جس کے بعد عراقی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے امریکا نے کویت کی آزادی کی جنگ کہا، لیکن اس سے قبل واشنگٹن میں عراقی قبضے کے دوران امریکا کی جانب سے اس محاذ کو کھولنے پر سیاسی تنازع جاری رہا تھا۔ عرب گروپوں میں عراق کے قبضے کو ختم کرانے پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا اور امریکی حملے سے چند دن قبل ہی صدام حسین نے کویت سے مشروط انخلا کا اعلان کیا تھا، لیکن صدر بش نے کانگریس سے جنگ کی منظوری لے لی اور جنگ شروع ہوگئی۔

    بش سینئر کے دور کے اس آپریشن نے عرب خطّے اور دنیا پر دور رَس اثرات مرتب کیے جب کہ دوسری جانب عظیم روس بکھرنے کو تھا اور امریکا دنیا کی قیادت کے لیے تیّار۔

    ریپبلکن پارٹی کے بش سینئر کو امریکا کا کام یاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا، لیکن اپنے دورِ‌ حکومت میں بالخصوص کام یاب خارجہ پالیسیوں کے باوجود انھیں 1992ء کے صدارتی انتخابات میں‌ بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔ اس کا ایک سبب بش سینئر کے دور میں ابتر داخلی معاشی صورتِ حال تھی۔

    کویت کی آزادی کی جنگ کے بعد امریکی عوام میں ان کی مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، لیکن چند سال گزرنے کے بعد کویت عراق تنازع میں امریکا کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، کیوں کہ آپریشن صرف کویت سے عراقی افواج کی بے دخلی تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکا نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

    1924ء میں پیدا ہونے والے بش سینئر کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ بعد میں ان کا خاندان ٹیکساس منتقل ہوگیا جہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    ان کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک اپنے آبائی علاقے کی نشست پر سینیٹر بھی رہے تھے۔ بش سینئر 1964ء میں ریپبلکن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ٹیکساس میں تیل اور پیٹرول کے بڑے تاجر تھے۔

    بش سینئر نے 941ء میں امریکی بحری اڈّے پرل ہاربر پر جاپانی فضائیہ کے حملے کے بعد خود کو بحریہ میں رضا کار کے طور پر پیش کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں فضائیہ کا حصّہ بنے۔ انھوں نے باربرا پیئرس سے شادی کی تھی۔

    جارج ڈبلیو بش امریکا کے صدر بننے سے قبل رونالڈ ریگن کے دور میں آٹھ سال تک نائب صدر بھی رہے۔ یوں وہ عملی سیاست اور منصب و اختیار کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔

    1976ء میں جارج بش سینئر سینٹرل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک سال تک خدمات انجام دیں جب کہ 1971ء سے 1973ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں امریکا کے مندوب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید میں کمال اور اس بنیاد پر عالمِ‌ اسلام میں بڑی عزّت و مرتبہ اور پذیرائی حاصل کرنے والوں میں سَر زمینِ مصر کے شیخ قاری عبدُالباسط محمد عبدالصّمد کا نام بھی شامل ہے۔ انھیں قدرت نے بے مثال آواز اور دل پذیر لحن سے نوازا تھا۔

    آج فنِ قرأت میں عالمی شہرت یافتہ قاری عبدالباسط کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں ’’سفیرِ قرآن، صوتُ المکّہ، صوتُ الجنّتہ‘‘ اور ’’لحنِ طلائی‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    قاری عبدالباسط 30 نومبر 1988ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ 1970ء کی دہائی میں انھوں نے تین عالمی مقابلوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ انھوں‌ نے دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان تنظیموں اور غیر مسلم اسکالروں کی دعوت پر روحانی اجتماعات کے دوران کلامِ پاک کی تلاوت کی اور لوگوں کو سحر زدہ کردیا۔ مسلمان ہی نہیں‌ غیر مسلم بھی ان کی قرأت سن کر وجد و سرور کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے تھے۔ انھوں نے کئی ممالک کے سربراہان اور اہم حکومتی عہدے داروں کے سامنے قرآن کی آیات کی تلاوت کی۔

    وہ 1927ء میں جنوبی مصر کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد عبدالصمد ایک دینی شخصیت تھے۔ قاری عبدالباسط اپنے دور کے مقبول ترین قاری شیخ محمد رفاض کی تلاوت سے بے حد متاثر تھے۔ وہ انھیں سنتے اور کلامِ پاک ان کی عظمت اور ان کی آواز کی شیرینی کے قائل ہوجاتے۔ انھوں نے بھی تلاوتِ قرآن کو معمول بنایا اور فنِ قرأت میں کمال حاصل کرتے چلے گئے۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ حفظ قرآن کے ساتھ قاری بنیں‌ گے۔

    انھوں‌ نے علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید سیکھنا شروع کیا اور بالخصوص رمضان المبارک میں بڑی مساجد میں ان کی قرأت میں تروایح ادا کی جانے لگی۔ ان کے استاد اور سرپرست، شیخ محمد سالم نے بھی ان کی تربیت اور حوصلہ افزائی کی اور وہ مصر بھر میں مشہور ہوگئے۔

    1950ء میں قاری عبدُالباسط کی عمر صرف 23 برس تھی جب قاہرہ کی مسجدِ سیّدہ زینب میں منعقدہ ایک بڑی محفلِ قرأت میں انھوں‌ نے سورۃ غاشیہ کی تلاوت کی جس پر وہاں موجود تمام لوگ دَم بخود رہ گئے۔ فرطِ جذبات اور عالمِ سرشاری میں لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ گئے اور ہر طرف سبحان اللہ کی صدا بلند ہونے لگی جس کے بعد قاری عبدُالباسط کی کام یابیوں اور مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔

    1951ء سے ریڈیو پر ان کی قرأت نشر ہونے لگی اور اگلے سال وہ قاہرہ کی جامع مسجد امام الشافعیؒ کے قاری مقرر کردیے گئے۔ بعد میں عرب ممالک سے انھیں‌ دعوت دے کر قرأت سننے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انھیں مسجدُ الحرام اور مسجدِ نبوی میں تلاوت کا شرف حاصل ہوا اور سعودی حکومت نے ’’صوتُ المکّہ‘‘ کا خطاب دیا۔

    عمر کے آخری حصّے میں قاری عبدُالباسط ذیابیطس اور جگر کے عوارض کے باعث کم زور ہوگئے تھے۔ اور ایک کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد 61 برس کی عمر میں وفات پائی۔ قاری عبدُالباسط دو مرتبہ پاکستان بھی تشریف لائے تھے اور پہلی مرتبہ کراچی میں‌ ’’عالمی محفلِ حسنِ قرأت‘‘ میں شریک ہوئے جب کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل دوسری بار ناسازئ طبع کے باوجود بادشاہی مسجد لاہور میں ان کی قرأت سنی گئی تھی۔

  • یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، شان دار مکالمہ نویس بھی تھے۔ وہ 20 سال کے تھے جب گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی جہاں شعروسخن کے شائق فیاض ہاشمی کو اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کی رفاقت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور ملازمت کا تجربہ انھیں فلم نگری تک لے گیا جہاں نغمہ نگار کے طور پر انھوں‌ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ اس کام یابی کی ایک وجہ ان کا موسیقی کا شوق اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی تھی۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد ’’انوکھی‘‘ کے گیت لکھے جن میں‌ سے ایک ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے لیے ان سے گیت لکھوائے جاتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    یہ گیت ایس بی جون کی آواز میں‌ آج بھی مقبول ہے اور یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بنا۔ فیاض ہاشمی کے کئی فلمی نغمات زباں زدِ عام ہوئے اور ان کے گانے والوں کو بھی لازوال شہرت ملی۔

    اس فلمی گیت نگار نے اسکرپٹ بھی لکھے اور اپنے زرخیز ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں‌ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ انھوں نے 24 فلموں کے لیے کہانی اور مکالمہ نویسی کی۔

    فیاض ہاشمی نے ’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت نگاری کی۔ 1968ء میں فلمی گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ پر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ان کا لکھا ہوا وہ گیت تھا جسے کئی گلوکاروں نے گایا اور اس کے بول زبان زدِ عام ہوئے۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور تخلیقی جوہر انھیں‌ ورثے میں ملا تھا۔ فیاض ہاشمی نے 29 نومبر 2011ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔

    فیاض ہاشمی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔