Tag: نومبر وفیات

  • فٹ بال کے عظیم کھلاڑی میرا ڈونا اور ’ہینڈ آف گاڈ‘!

    فٹ بال کے عظیم کھلاڑی میرا ڈونا اور ’ہینڈ آف گاڈ‘!

    فٹ بال کی تاریخ میں میرا ڈونا ایسے غیر معمولی باصلاحیت اور جوشیلے کھلاڑی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، جس نے اپنے مداحوں کو حیران اور حریف ٹیم کے کھلاڑیوں کو پریشان رکھا جب کہ خود ان کی ذات اور نجی زندگی کو مسائل اور مشکلات نے گھیرے رکھا۔

    فٹ بال کے بے مثال کھلاڑی میرا ڈونا کھیل کے میدان میں اپنی شان دار کارکردگی، اپنے حیرت انگیز اور پُرجوش انداز کے سبب شائقین میں‌ بے حد مقبول ہوئے، لیکن ان کی شخصیت اور کیریئر بدنامی اور تنازع سے بھی دوچار ہوا۔

    اس عظیم کھلاڑی نے زندگی کی 60 بہاریں دیکھیں‌۔ وہ 25 نومبر 2020ء کو ارجنٹائن کے دارُالحکومت بیونس آئرس میں واقع اپنی رہائش گاہ پر دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے تھے۔ تاہم بعد میں اس موت کو اُن کے معالج کی کوتاہی کا نتیجہ بتایا گیا۔ ایک خاتون نے اس عظیم کھلاڑی پر جنسی زیادتی کا الزام بھی عائد کردیا۔ یوں اپنی زندگی میں دنیا کے سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والے کھلاڑی میرا ڈونا اپنی موت کے بعد بھی زیرِ بحث رہے۔

    فٹ بال کی تاریخ میں ان کا ایک متنازع گول ’ہینڈ آف گاڈ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بعد میں وہ نشے کی لت میں‌ پڑ گئے اور ذاتی زندگی بھی بحران کی زد میں‌ رہی۔

    میرا ڈونا 1960ء میں ارجنٹینا، بیونس آئرس کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام ڈی ایگو ارمانڈو میرا ڈونا تھا جو اپنی جسمانی پُھرتی اور کھیلوں میں دل چسپی کے سبب فٹ بال کے سپر اسٹار بنے۔

    میرا ڈونا نے کم عمری ہی سے فٹ بال کے کھیل میں حیرت انگیز صلاحیت اور مہارت کا مظاہرہ کرکے لاس سیبلیوٹاس کی یوتھ ٹیم کی کپتانی کا اعزاز اپنے نام کر لیا تھا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کو لگاتار مقابلوں میں ناقابلِ شکست بنائے رکھا اور محض‌ 16 سال کے تھے جب بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئے۔

    فٹ بال کی دنیا کا یہ عظیم کھلاڑی دوسرے کھلاڑیوں کی طرح لمبا چوڑا نہیں تھا بلکہ ان کا قد صرف پانچ فٹ، پانچ انچ تھا۔ میرا ڈونا کو فٹ بال سے عشق تھا جس نے وہ پھرتی، تیز رفتاری، گیند پر کنٹرول اور اسے خوبی سے پاس کرنے کے ساتھ موقع پاتے ہی گول کرنے کی صلاحیت نے کام یاب ترین کھلاڑی بنا دیا تھا۔

    1986ء میں وہ اپنے ملک کے لیے میکسیکو میں منعقدہ فٹبال ورلڈ کپ سے حریف ٹیم سے فتح چھین کر لائے تھے اور اس کے چار برس بعد دوبارہ اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچایا تھا۔ اسی عظیم مقابلے کے کوارٹر فائنل میں ایک ایسا تنازع بھی سامنے آیا جس نے ان کی زندگی کو متاثر کیا۔ انھوں نے انگلینڈ کے گول کے قریب حریف گول کیپر کے ساتھ ہوا میں اچھل کر فٹبال کو مکّا مارا اور گول کر دیا۔ یہی وہ مشہور متنازع گول ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا۔ لیکن کے چند منٹ بعد ہی انھوں نے ایک حیران کُن گول بھی کیا جسے ’صدی کا سب سے شان دار گول‘ قرار دیا گیا۔

    میرا ڈونا کو شراب اور کوکین کے بہت زیادہ استعمال کے باعث دماغی اور جسمانی صحّت کے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا وزن بھی بڑھ گیا تھا اور 2004ء میں بھی انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ میرا ڈونا نے مٹاپے سے نجات کے لیے گیسٹرک بائی پاس سرجری کروانے کے بعد نشّے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش بھی کی اور اس کے لیے کیوبا میں وقت گزارتے رہے۔

    2008ء میں انھیں ارجنٹائن کی قومی ٹیم کا منیجر نام زد کیا گیا، لیکن ایک مقابلے میں جرمنی سے شکست کے بعد انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    انھوں نے ارجنٹائن کے لیے 91 میچ کھیلے۔ اپنے کیریئر میں301 گول کیے تھے۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    اسلام اور تحریکِ خلافت کے متوالوں، برصغیر میں آزادی کی لازوال جدوجہد کے دوران ہر قسم کی قربانیاں دینے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا شوکت علی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ مولانا شوکت علی کو ان کی وفات کے بعد آج ہی کے دن 1938ء میں دہلی میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

    مولانا شوکت علی 10 مارچ 1873ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ وہ محمد علی جوہر کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کو برصغیر میں بی امّاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو اسلامیانِ ہند کی راہ نما اور نہایت دین دار اور ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کو دینِ مبین اور حق و صداقت کے راستے میں جان کی پروا نہ کرنے کا درس دیا اور خود بھی تحریکِ آزادی کے لیے میدانِ عمل میں اتریں۔ مولانا شوکت علی نے 1895ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور سرکاری ملازمت اختیار کی۔ تاہم 1913ء میں یہ ملازمت ترک کرکے انجمنِ خدام کعبہ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔

    1919ء میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ اسی دوران انھوں نے گاندھی جی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کی ایک نئی تاریخ رقم کی، تاہم جلد ہی گاندھی کی حمایت سے دست بردار ہوگئے اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے۔

    1937ء میں برطانوی ہند میں مولانا شوکت علی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے 26 نومبر 1938ء کو وفات پائی۔

  • کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    دنیا فیدل کاسترو کو ایک باغی اور ایسے انقلابی کے طور پر جانتی ہے جو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے۔ وہ طویل عرصے تک اپنے وطن کے سربراہ رہے۔

    فیدل الیہاندرو کاسترو کا سنِ‌ پیدائش 1926ء ہے۔ وہ کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ جاگیردار گھرانے کے فرد تھے اور عیش و آرام کی ہر سہولت انھیں میسّر تھی، لیکن وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور امتیاز اور لوگوں کے مصائب اور مفلسی کو دیکھ کر باغی ہوگئے اور انقلابی سوچ نے انھیں گھر بار اور ہر سہولت کو چھوڑ کر جدوجہد شروع کرنے پر آمادہ کرلیا۔

    اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا اقتدار عوام کی مشکلات بڑھاتا جارہا تھا اور ملک میں بدعنوانی اور عدم مساوات کے ساتھ ایسی فضا بن گئی تھی جس میں گرفت اور سزا صرف عوام کا مقدّر بن رہی تھی۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی اسمگلنگ کا کوئی علاج نہ تھا بلکہ کیوبا ایسے کاموں کا گڑھ بن گیا تھا۔

    کاسترو نے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور ایسے ساتھی اکٹھے کیے جو سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کردی۔ 1953ء میں انھیں بتیستا حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی سربراہی کرنے پر جیل جانا پڑا لیکن دو سال بعد عام معافی کے تحت رہا ہوگئے۔

    فیدل کاسترو نے 1956 حکومت کے خلاف عظیم باغی اور گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کے ساتھ مل کر ایک بار پھر مقصد کے حصول کے لیے اپنی لڑائی کا آغاز کیا اور 1959 میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کیوبا کے وزیر اعظم بنے۔

    1960 میں کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا جو دراصل امریکا کی ملکیت تھے۔ اس پر امریکا نے کیوبا پر تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ انھیں قتل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن وہ ہر بار بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے۔

    1960 میں انھوں نے بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کرلیا۔ فیدل کی تمام زندگی گویا محاذ پر گزری۔ لیکن ایک وقت آیا جب کیوبا کے عوام بدترین حالات سے دوچار ہوئے اور جہاں انھیں چاہنے والے موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر منظرِ عام سے ہٹ گئے تھے۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی اور سابق صدر اور کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ نے 2016 میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان کے نام ور فلمی ہدایت کار فرید احمد کی زندگی کا سفر 25 نومبر 1993ء کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    فن اور فلم نگری سے ان کی شناسائی بہت پرانی تھی۔ انھوں نے اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ فرید احمد کے والد نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کئی کام یاب اور یادگار فلمیں‌ بنائی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگرچہ ان کی دو ہی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں، لیکن انھیں بھی پاکستانی فلمی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یوں کیمرے اور فلمی پردے سے فرید احمد خاصے مانوس تھے۔

    انھوں نے اپنے والد کی طرح پاکستان میں فلمی صنعت سے وابستگی اختیار کی اور بطور ہدایت کار نام بنایا اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں۔ فرید احمد نے امریکا سے فلم ڈائریکشن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔

    فلمی صنعت میں ان کی دو شادیاں اور طلاق بھی موضوعِ بحث بنی تھیں، کیوں کہ ان کی شریکِ‌ سفر بھی جہانِ فن و اداکاری سے وابستہ اور مشہور تھیں۔ انھوں نے پہلی شادی ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ ثمینہ احمد سے کی تھی اور ان کی دوسری شادی شمیم آرا سے ہوئی تھی۔ شمیم آرا سے ان کا بندھن محض چند دن بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار نے جان پہچان، عندلیب، انگارے، بندگی، زیب النساء، سہاگ اور خواب اور زندگی جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

  • اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    افسانوی ادب بالخصوص تاریخی ناول نگاری کے لیے ایم اسلم کا نام اردو کے مشہور و معروف تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر بھی تھے۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ خیر خواہ و مخیّر شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں‌ انھیں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے ایم اسلم کو عزیز رکھا اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو سنوارا۔ ان کی تربیت میں اقبال کا کردار اہم رہا۔ ایم اسلم کو نثر نگاری کی جانب کی طرف متوجہ کرنے والے علاّمہ اقبال ہی تھے۔

    ایم اسلم نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے اور جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی خاص شناخت بن گئی۔

    ان کے افسانوں اور ناولوں میں رومان، حقیقت، حزن و طرب نمایاں ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے اور روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    ایم اسلم کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروسِ غربت، معرکۂ بدر، فتح مکّہ، صبحِ احد، جوئے خون، بنتِ حرم، فتنۂ تاتار، رقصِ ابلیس، مرزا جی کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے افسانوں کے مجموعے صدا بہ صحرا، نغمۂ حیات اور گنہگار کے نام سے شایع ہوئے۔

    ایم اسلم نے انگریزی سے تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ اردو کے اس مشہور ادیب اور شاعر نے 23 نومبر 1983ء کو وفات پائی۔

  • سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور متعدد قابلِ قدر کتابوں کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا آج یومِ وفات ہے۔

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی تحریر کے سبب ہم عصروں میں ممتاز ہونے والی شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ اسلامیانِ ہند میں اپنی مذہبی اور دینی خدمات کے سبب بھی قابلِ احترام ہستی کا درجہ رکھتے تھے اور آج بھی ان کا نام و مرتبہ قائم ہے۔

    ہندوستان کے مشہور عالم، ادیب اور شاعر علّامہ شبلی نعمانی کے اس قابل و باصلاحیت شاگرد کا سب سے بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی پر وہ جلدیں‌ ہیں‌ جن پر شبلی نعمانی نے کام کا آغاز کیا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہ دو جلدیں ہی لکھ سکے۔ 1914ء میں ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سیّد سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے نہایت تحقیق کی ضرورت تھی اور اس کام کو بلاشبہ سیّد سلیمان ندوی نے خوبی سے ادا کیا۔ وہ دارُالمصنّفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃُ العلما میں داخلہ لیا جہاں وہ علاّمہ شبلی نعمانی کے شاگرد اور خاص رفیق بنے۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے سیّد سلیمان ندوی کی بھی شخصیت کی تعمیر اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃُ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے تاریخ و تذکرہ نگاری پر عرب و ہند کے تعلقات، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، مقالات سلیمان، خیّام، دروس الادب، خطباتِ مدراس نامی کتب تصنیف کیں۔

    انھوں نے 1950ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ یہاں بھی اپنے مذہبی و علمی مشاغل جاری رکھے اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تعلیماتِ اسلامی بورڈ کا صدر مقرر کیا گیا۔ سیّد سلیمان ندوی نے کراچی میں 22 نومبر 1953ء کو وفات پائی۔

  • شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    آج پاکستان کی ایک نہایت عالم فاضل اور قابل شخصیت ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا یومِ وفات ہے۔ 1958ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے عمر بن داؤد پوتہ کو ماہرِ تعلیم، محقّق، معلّم، ماہرِ لسانیات اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ سندھ میں‌ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور شمسُ العلما کا خطاب پایا۔ ان کا تعلق سیہون، دادو کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ عمر بن محمد داؤد پوتہ نے 25 مارچ 1896ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شان دار رہا۔ انھوں نے ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    1917ء میں سندھ مدرستہُ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں انھوں نے سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومتِ ہند نے انھیں اسکالر شپ پر انگلستان بھیج دیا۔ وہاں ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    انگلستان سے وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ میں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جن میں سندھ مدرستہُ الاسلام کی پرنسپل شپ بھی شامل تھی۔ 1939ء میں صوبۂ سندھ میں محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری عمل میں آئی اور برطانوی سرکار نے 1941ء میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں انگریز حکومت کی جانب سے یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور تواریخ ’’چچ نامہ‘‘ اور’’ تاریخ معصومی‘‘ کی ترتیب ہے۔ انھوں‌ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں 28 کتب یادگار چھوڑیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ ‌خاک کیا گیا۔

  • فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    ایم اسماعیل نے تقسیمِ ہند سے قبل بننے والی فلموں سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ آزادی کے بعد جب پاکستان میں فلمی صنعت کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے یہاں اپنی اداکاری سے بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ ایم اسماعیل نے انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں‌ دیں۔ آج اس معروف اداکار کی برسی ہے۔

    فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے 22 نومبر 1975ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق اندرونِ بھاٹی گیٹ، لاہور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو علم و فنون کا دلدادہ اور خطّاطی کے فن کے لیے مشہور تھا۔ ایم اسماعیل 6 اگست 1902ء کو پیدا ہوئے۔ خطّاطی اور مصوّری کا شوق اور اس میں‌ کمال و مہارت انھیں گویا ورثے میں‌ ملی تھی۔ وہ خوش نویسی اور اسکیچ بناتے تھے۔

    ایم اسماعیل جس محلّے میں رہتے تھے، وہیں اپنے وقت کے نام وَر فلم ساز اے آر کاردار بھی رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے خوب رُو اور جاذبِ نظر ایم اسماعیل کو فلم نگری میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ان کے کہنے پر ایم اسماعیل نے بمبئی کا رخ کیا جو متحدہ ہندوستان میں اس وقت فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ وہاں انھیں‌ چند فلموں‌ میں کام کرنے کا موقع ملا اور شوق پورا ہونے کے ساتھ انھوں نے بہت کچھ سیکھا بھی۔ تاہم جب لاہور میں فلمیں بننے لگیں تو ایم اسماعیل یہیں‌ چلے آئے اور فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنائی۔

    ایم اسماعیل کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، آوارہ رقاصہ اور ہیر رانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ لوک داستانوں اور تاریخی کرداروں پر مبنی فلموں میں انھوں نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کے دل جیتے۔ فلم ہیر رانجھا میں اس اداکار نے کیدو کا مشہور کردار نبھایا تھا۔

    ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو انھیں یہی کردار حورِ پنجاب اور ہیر سیال نامی فلموں میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایم اسماعیل نے خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں جیسی کام یاب فلموں میں اداکاری کی جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا اور اس اداکار کو بڑی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے پنجابی فلموں کے ساتھ اردو فلموں‌ میں بھی اداکاری کی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور فطری اداکاری کے ساتھ اپنی تیکھی آواز کے لیے بھی مشہور تھے۔

    ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے مجموعی طور پر 156 فلموں میں‌ کام کیا تھا۔ ایم اسماعیل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو اور کام یاب ولن اسلم پرویز کا تذکرہ

    پاکستانی فلموں کے مقبول ہیرو اور کام یاب ولن اسلم پرویز کا تذکرہ

    1950ء میں‌ پاکستانی فلمی صنعت کو اسلم پرویز کی شکل میں ایک مقبول ہیرو ہی نہیں‌ کام یاب ولن بھی ملا جس نے ہر روپ میں بے مثال اداکاری کی اور ان کی فلموں کو شائقین میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسلم پرویز نے اپنے فنی سفر کا آغاز فلم ‘‘قاتل’’ سے کیا تھا۔

    1984ء میں آج ہی کے دن پاکستان میں بڑے پردے کا یہ اداکار اپنے مداحوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا تھا۔ ان کی موت کار کے ایک حادثے کا نتیجہ تھی جس میں زخمی ہونے کے بعد اسلم پرویز چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ دوبارہ زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکے۔ اسلم پرویز ایک فلم کی شوٹنگ کے بعد ساتھی فن کار اقبال حسن کے ساتھ کار میں گھر لوٹ رہے تھے جب سڑک پر یہ حادثہ پیش آیا۔ ان کے ساتھی فن کار موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسلم پرویز کو اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا نے معروف فلم ساز آغا جی اے گل سے ملوایا تھا جنھوں نے فلم قاتل کے لیے اس نئے چہرے کو آزمایا اور کام یابی ان کا مقدّر بنی۔ پہلی بار اسلم پرویز نے ہیرو کے روپ میں کیمرے کا سامنا کیا تھا، لیکن اپنی صلاحیتوں کی بدولت شائقین کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہے اور شہرت و مقبولیت حاصل کی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے ابتدائی دور کا یہ باکمال اداکار بہ طور ہیرو فلم پاٹے خان، کوئل، شیخ چلی، چھومنتر، نیند اور عشق پر زور نہیں میں نظر آیا اور بعد میں سلور اسکرین پر ولن کے روپ میں بھی بے مثال اداکاری کی اور خود کو منوانے میں کام یاب رہے۔

    تین سو سے زائد فلمیں کرنے والے اسلم پرویز کو ورسٹائل اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • پیپلز پارٹی کے وفادار سیاست دان امین فہیم شاعر بھی تھے

    پیپلز پارٹی کے وفادار سیاست دان امین فہیم شاعر بھی تھے

    مخدوم امین فہیم رومی، شاہ عبدُاللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے شیدا و پرستار تھے۔ وہ ان بزرگوں کے فلسفۂ حیات اور شاعری سے بے حد متاثر تھے اور کہتے تھے کہ انہی کے کلام نے انھیں محبّت اور وفا کرنا سکھایا ہے۔ آج مخدوم امین فہیم کی برسی ہے۔

    21 نومبر 2015ء کو کراچی میں‌ وفات پانے والے امین فہیم سندھ کی سروری جماعت کے روحانی پیشوا بھی تھے جس کے سندھ بھر میں مریدین اور عقیدت مند موجود ہیں۔

    بلاشبہ مخدوم خاندان نے سندھ کے شہر ہالا کو روحانی اور سیاسی پہچان دی اور سیاست کے علاوہ اس خاندان کی شخصیات کو سماجی کاموں اور بالخصوص علم و ادب سے اپنے شغف اور تخلیقی کاموں کے سبب امتیاز حاصل ہوا۔

    مخدوم امین فہیم بھی شاعر تھے جن کے دو مجموعہ ہائے کلام زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور قارئین تک پہنچے۔ انھیں دھیمے مزاج کا مالک اور ایک غیر متنازع شخصیت مانا جاتا تھا، جن کا سیاسی کیریئر بے داغ رہا، لیکن بے نظیر بھٹو کی الم ناک موت کے بعد امین فہیم کو بعض الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور سیاسی میدان میں مخدوم خاندان کے پیپلز پارٹی سے فاصلے بھی بڑھ گئے۔

    امین فہیم کے والد مخدوم محمد زمان طالبُ المولیٰ ایک وضع دار اور بااصول انسان تھے۔ وہ شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی متعدد تصانیف شایع ہوئیں۔ مخدوم خاندان شروع ہی سے اپنے وقت کے ایک کامل بزرگ حضرت لطفُ اللہ مخدوم نوح صدیقی سہروردیؒ کا ارادت مند رہا اور طالبُ المولیٰ ان بزرگ کے روحانی سلسلے کے سولہویں سجادہ نشین بنے۔ وہ 1993ء میں وفات پاگئے تھے اور امین فہیم سروری جماعت کے روحانی پیشوا چنے گئے۔

    ہالا کی روحانی اور سماجی شخصیت طالبِ المولیٰ کا سیاسی سفر پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریب آئے جس میں کئی مرتبہ قیادت سے اختلاف اور ناراض بھی ہوئے، مگر ان کا خاندان ہر موقع پر پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا۔ پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی اسی "روایت” کو امین فہیم نے بھی نبھایا، لیکن محترمہ کے بعد ان کے اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت سے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔

    پی پی پی کے ساتھ اپنے سیاسی سفر میں مخدوم امین فہیم تین مرتبہ وزراتِ عظمیٰ کی کرسی کے قریب پہنچے، لیکن کبھی سیاسی وفاداری تو کبھی پارٹی قیادت کی وجہ سے وہ اس کرسی پر براجمان نہ ہو سکے۔ ملک میں‌ ضیاءُ الحق کے دور میں انھیں اس منصب کی پیشکش ہوئی، اور پرویز مشرف نے بھی انھیں یہ آفر کی، لیکن مخدوم خاندان نے اسے دونوں بار مسترد کردیا تھا۔

    بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد بھی وزارتِ‌ عظمیٰ کے منصب کے لیے مخدوم امین فہیم کا نام لیا جارہا تھا، لیکن پارٹی کی قیادت نے مخدوم یوسف رضا گیلانی کو اس منصب کے لیے نام زد کیا۔

    پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور مخدوم خاندان میں‌ اختلافات اور دوریوں کے عرصہ میں مخدوم امین فہیم کی شخصیت متنازع بن رہی اور ان پر یہ الزامات لگائے گئے کہ وہ بے نظیر کی شہادت سے پہلے اور بعد میں پرویز مشرف سے رابطے میں رہے اور ان کی قیادت میں پارٹی میں‌ فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ایسا کوئی بلاک سامنے نہیں‌ آیا۔

    مخدوم امین فہیم 4 اگست 1939ء کو ہالا میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں‌ پیپلز پارٹی کا پہلا کنونشن منعقد کیا گیا تھا۔ 1958ء انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1970ء میں‌ عملی سیاست میں قدم رکھا۔ مخدوم امین فہیم نے چار شادیاں کی تھیں۔

    وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار ٹھٹھہ سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد مسلسل عام انتخابات میں کام یابی ان کا مقدّر بنتی رہی۔ وہ پارٹی کے اُن راہ نماؤں میں سے تھے جو غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے کسی انتخابی عمل کا حصّہ نہیں‌ بنے اور ہر پیشکش ٹھکرا دی۔

    جب بے نظیر بھٹو ملک سے باہر خود ساختہ جلا وطنی کے دن کاٹ رہی تھیں، تو اس زمانے میں پاکستان میں سیاست دانوں اور ہر قسم کے رابطے اور اہم معاملات کی ذمہ داری مخدوم امین فہیم پر عائد تھی جو اُن کی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اُن پر محترمہ کے اعتماد کا بھی مظہر تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز رجسٹرڈ ہوئی تو اس کی قیادت بھی مخدوم امین فہیم کو سونپی گئی تھی۔

    سیاست، روحانیت کے ساتھ علم و ادب سے وابستہ امین فہیم کے دادا بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے جن کی دو اولادیں بھی ادیب اور شاعر ہوئیں، اور انہی میں‌ سے ایک امین فہیم کے والد تھے۔ مخدوم امین فہیم نے شاعری میں اپنے والد سے اصلاح لی۔

    امین فہیم نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کے 1988ء سے 1990ء تک کے اوّلین دورِ حکومت میں مواصلات جب کہ 1994ء سے 1996ء تک حکومتی دور میں ہاؤسنگ اینڈ پبلک ورکس کی وزارت سنبھالی۔