Tag: نومبر وفیات

  • اشتیاق احمد کا تذکرہ جن کے ناولوں کے کردار ذہنوں‌ پر نقش ہوگئے

    اشتیاق احمد کا تذکرہ جن کے ناولوں کے کردار ذہنوں‌ پر نقش ہوگئے

    جاسوسی ادب میں اشتیاق احمد کا نام ان قلم کاروں‌ میں شامل ہے جو بچّوں اور بڑوں میں‌ یکساں‌ مقبول تھے۔ ان کی جاسوسی کہانیوں کے کردار ہر دل عزیز ثابت ہوئے۔ اشتیاق احمد نے آٹھ سو ناول تحریر کیے اور افسانے بھی لکھے۔

    چند دہائیوں قبل آج کی طرح بامقصد تفریح و معلومات یا وقت گزاری کے لیے نہ تو ہر ایک کو تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت میسّر تھی، اور نہ ہی موبائل فون جن پر بچّے اور نوجوان من پسند ویڈیو، آڈیو دیکھتے سنتے اور تحریری مواد سے لطف اندوز ہوتے۔ ماہ وار رسائل اور ناول ہی اس دور میں بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کے ساتھ تفریح کا بڑا ذریعہ تھے۔ اشتیاق احمد نے بھی اپنے ناولوں کو معیاری تفریح کا وسیلہ بنایا اور جاسوسی ناول نگار کے طور پر شہرت حاصل کی۔ وہ 17 نومبر 2015ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

    اشتیاق احمد 5 اگست 1944ء کو بھارتی ریاست پانی پت میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان جھنگ میں آکر آباد ہوا۔ ان کی پہلی کہانی 1960ء میں ہفت روزہ ’قندیل‘ میں چھپی جس کا عنوان “بڑا قد” تھا جب کہ ان کے پہلے ناول کا نام” پیکٹ کا راز“ تھا۔

    انھوں‌ نے بچّوں کی کہانیاں بھی لکھیں، افسانے بھی اور نوجوانوں اور بڑوں کو اپنے جاسوسی ناولوں کا گرویدہ بنایا۔ انسپکٹر جمشید، انسپکٹر کامران اور شوکی سیریز کے ناولوں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کے تخلیق کردہ یہ کردار کسی واردات اور واقعے کی کھوج، معمّے کو حل کرنے اور سراغ رسی کے ماہر تھے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔

    جاسوسی ناول نگار اور ادیب اشتیاق احمد کراچی میں منعقدہ ایک کتب میلے میں شرکت کے بعد اپنے شہر لوٹنے کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر موجود تھے جہاں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 71 برس تھی۔

    اشتیاق احمد نے سی مون کی واپسی، چائے کا بھکاری، جھیل کی موت، جیرال کا منصوبہ جیسے کئی ناول تخلیق کیے جنھیں‌ قارئین کی بڑی تعداد نے پڑھا اور پسند کیا۔ انہی ناولوں کے ولن جیرال، سلاٹر، رے راٹا اور سی مون وغیرہ بھی قارئین کے ذہنوں‌ پر نقش ہیں۔

  • پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے معروف موسیقار استاد واحد حسین کی برسی

    پاکستان کے نام ور موسیقار استاد واحد حسین 19 نومبر 2004ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد واحد حسین خان صاحب 1923ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا۔ وہ ایسے ماحول میں‌ پروان چڑھے جہاں‌ راگ راگنیوں اور گائیکی کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ ان کا موسیقی کی طرف راغب ہونا فطری تھا۔ واحد حسین کے والد استاد الطاف حسین خان صاحب بھی اپنے زمانے کے مشہور موسیقار تھے جب کہ بھائیوں نے بھی موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنایا اور بڑا نام و مقام پیدا کیا۔

    واحد حسین بھی بڑے ہوئے تو اپنے والد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ موسیقی کے رموز سیکھنے کے بعد وہ اپنے بھائیوں استاد عظمت حسین خان اور استاد ولایت حسین خان صاحب کے ساتھ محافل اور موسیقی پر منعقدہ کانفرنسوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ انھوں نے اس فن میں اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا اور نام ور ہوئے۔

    1964ء میں ان کے والد کی وفات ہوگئی اور واحد حسین اپنے بھائی استاد ممتاز حسین خان کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے۔ استاد واحد حسین خان نے پربھوداس اور واحد رنگ کے قلمی نام سے متعدد بندشیں بھی مرتّب کی تھیں۔

  • ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

    ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

    ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

    یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

    آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

    ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

    ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

    اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

    ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

    اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

    ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
    سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

    ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

  • نام وَر عالم، محقّق اور سوانح نگار علاّمہ شبلی نعمانی کی برسی

    نام وَر عالم، محقّق اور سوانح نگار علاّمہ شبلی نعمانی کی برسی

    علاّمہ شبلی نعمانی کے اسلوبِ نگارش کا یہی طرّۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے خشک اور بے کیف موضوعات میں بھی انشا پردازی سے ایسی شان پیدا کردی کہ اُن کی تحریریں دلآویز اور دل نشیں اور اثر انگیز ہوگئیں۔

    انھیں اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے شبلی نعمانی ایک مؤرخ، محقّق، ادیب اور شاعر تھے۔ سیرت و سوانح نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ وہ ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی تصانیف اور ندوۃُ العلما کے قیام کی کوششوں کے سبب ہندوستان میں بڑی شہرت ملی۔ دارُالمصنّفین، شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو علّامہ شبلی نعمانی کا خواب تھا، لیکن وہ اس کی عملی صورت دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے چلے گئے۔ وہ اعظم گڑھ میں آسودۂ خاک ہیں۔ 18 نومبر 1914ء کو جہانِ علم و ادب کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ آج شبلی نعمانی کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ حضرت امام ابو حنیفہ کی نسبت کو اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز جانتے ہوئے انھوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھا۔ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تربیت نہایت عمدہ ماحول میں ہوئی اور اپنے دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔

    شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علما سے فارسی، عربی حدیث و فقہ اور دیگر اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد ایک ملازمت اختیار کی اور بعد میں وکالت کا پیشہ اپنایا، لیکن ناکام رہے اور پھر علی گڑھ میں سر سیّد کے کالج میں عربی کے معلّم کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں وہ سرسیّد کے بہت قریب آگئے اور یہیں سے شبلی کی کام یابیوں کا سفر شروع ہوا۔

    علاّمہ شبلی کے دل میں حمیّتِ اسلامی کا جو دریا موجزن تھا، اُس سے مغلوب ہوکر انھوں نے ’المامون‘، ’الفاروق‘، ’سیرۃ النبی‘ جیسی بلند پایہ کتب تصنیف کیں، سرسیّد احمد خان اور دیگر اہلِ علم و فن کی صحبت نے شبلی کی فکر کو وسعت دی اور ان کے ذوق کو نکھارا اور وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    شبلیؔ نے اس زمانے میں‌ مغربی تہذیب اور یورپ کے کارناموں کا شور سننے والوں کو تاریخِ اسلام کے تاب ناک پہلوؤں سے متعارف کرایا اور انھیں ان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں عالمِ اسلام کی نام وَر شخصیات کی سیرت و سواںح، علم و فنون کے تذکرے کو کتابی شکل میں جامع و مستند معلومات کے ساتھ اپنے سحر انگیز اسلوب میں قارئین تک پہنچایا۔

    سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن شبلی کی زندگی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعرُ العجم، موازنۂ انیس و دبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔

  • ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    1962ء میں ’دی گولڈن نوٹ بک‘ منظرِعام پر آیا تو تحریکِ نسواں کے حامیوں نے اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ ناول حقوقِ‌ نسواں اور اس حوالے سے بلند ہونے والی ہر آواز کا نمایاں حوالہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن ڈورِس لیسنگ جو اس ناول کی خالق تھیں، اس کے برعکس فکر اور سوچ رکھتی تھیں۔ انھیں 2007ء میں‌ ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ناول کی مصنّفہ ‌نے کبھی اپنے معاشرے میں عورتوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی، اور حقوق و آزادی کے حوالے سے ان کی کام یابیوں کو کسی ایسی تحریک اور حقوقِ‌ نسواں‌ کے نعروں کا ثمر نہیں سمجھا۔

    ڈورِس لیسنگ نے 2003ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو حقوقِ نسواں کی تحریک اس کی وجہ نہیں بلکہ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس حوالے سے کمیٹیاں بنانا، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، عوام کے منتخب کردہ افراد کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے جو ایک کٹھن اور سست رفتار عمل ہو گا، لیکن اِسی طرح منزل مل سکتی ہے۔‘‘

    آج ڈورس لیسنگ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2013ء میں چل بسی تھیں۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والی اس مصنّفہ نے اپنی فکر، نظریہ اور تخیلقات کے سبب دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

    22 اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان میں مقیم ایک برطانوی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی بچّی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ یہ ہندوستان پر برطانوی راج کا زمانہ تھا۔ بعد میں یہ کنبہ ایران سے نقل مکانی کر کے برطانیہ کی ایک افریقی نو آبادی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) چلا گیا۔

    ڈورس لیسنگ ایک بیدار مغز خاتون تھیں۔ مطالعے کے سبب وہ غور و فکر کی عادی ہوگئی تھیں اور قوّتِ مشاہدہ نے انھیں حسّاس و باشعور بنا دیا تھا۔ افریقا میں انھوں‌ نے بدترین نسلی امتیاز اور اُس معاشرے میں‌ ہر سطح پر روایتی سوچ اور پستی کا مظاہرہ دیکھا اور وہاں‌ پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں‌ کئی برس تک رہوڈیشیا اور جنوبی افریقا کے سفر کی اجازت نہیں‌ تھی۔

    بیس سال کی عمر میں رہوڈیشیا میں‌ ڈورس لیسنگ نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کرلی، جس سے اُن کے دو بچّے ہوئے، لیکن بعد میں جرمنی سے جلاوطن ایک یہودی کی شریکِ سفر بنیں جو رہوڈیشیا میں مقیم تھا۔ یہ تعلق بھی 1949ء تک برقرار رہ سکا۔ ڈورس لیسنگ نے اس سے طلاق لے لی اور اپنے بیٹے پیٹر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئیں اور وہیں باقی ماندہ زندگی بسر کی۔

    وہ اپنا پہلا ناول افریقا سے مسوّدے کی شکل میں برطانیہ ساتھ لائیں۔ اس کا نام تھا ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ جس کی کہانی ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوع تعلق پر بُنی گئی تھی۔ تاہم اُن کا پہلا ناول ’’افریقی المیہ‘‘ 1950ء میں چھپا اور بعد کے برسوں میں ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔

    چند سال قبل برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو نے اس ناول نگار کے بارے میں خفیہ معلومات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال تک ان کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ کیوں‌ کہ وہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے کے علاوہ نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بھی متحرک رہی تھیں۔ اس حوالے سے برطانوی انٹیلی جنس نے 1964ء تک ان کی نگرانی کی تھی۔

    وہ متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نام زد ہوئیں‌، لیکن اپنی تخلیقات پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی ڈورس لیسنگ کو اس کا سزاوار نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چھے عشروں پر محیط رہا جس میں ان کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقا کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ’میموائرز آف اے سروائیور‘ اور ’دی سمر بیفور دی ڈارک بھی ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔

  • معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کا تذکرہ

    آج اردو اور فارسی کے معروف شاعر اور ماہرِ اقبالیات اسد ملتانی کی برسی ہے۔ وہ 1959ء میں خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ اسد ملتانی سول سرونٹ تھے۔

    وہ 1902ء میں متحدہ ہندوستان کے اُس وقت کے ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ محمد اسد خان نے 1924ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ملتان میں اسلامیہ ہائی اسکول میں بطور انگلش ٹیچر مامور ہوئے۔ وہ علم و ادب کے رسیا اور شائق تھے اور اسی زمانے میں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ملتان ہی سے روزنامہ’’ شمس ‘‘ کا اجراء بھی کیا اور مطبعُ الشّمس قائم کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے ”ندائے افغان” نکالا تھا۔

    1926ء میں اسد ملتانی نے انڈین پبلک سروس کمیشن سے منتخب ہوکر وائسرائے ہند کے پولیٹیکل آفس میں تقرری حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں دہلی اور شملہ میں قیام رہا۔ پاکستان بننے کے بعد دارُالحکومت کراچی میں اسسٹنٹ سیکرٹری بن کر آفس سنبھالا اور ڈپٹی سیکرٹری خارجہ کے عہدے تک پہنچے۔

    1955 میں ریٹائرمنٹ لے کر ملتان آبسے اور یہاں علمی و ادبی مشاغل میں مصروف رہے۔ اسد ملتانی راولپنڈی میں حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر گئے تھے۔ انھیں ملتان میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    اردو کے اس قادرُ الکلام شاعر کے شعری مجموعوں میں مشارق، مرثیہ اقبال اور تحفہ حرم شامل ہیں جب کہ اقبالیات کے موضوع پر اقبالیاتِ اسد ملتانی شائع ہوچکی ہے۔

  • معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    معروف ادیب اور نقّاد پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات

    آج اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر وقار عظیم کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1976ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملےتھے۔

    وہ افسانوی ادب کے اوّلین نقّاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وقار عظیم کو اردو کا پہلا “غالب پروفیسر” بھی مقرر کیا گیا تھا۔ یہ تخصیص و مقام ثابت کرتا ہے کہ وہ اردو ادب میں نثر و نظم کے کلاسیکی اور جدید دور کے ایک ایسے نکتہ بیں و رمز شناس تھے جن کی رائے معتبر اور مستند تھی۔

    وقار عظیم محقّق اور مترجم بھی تھے جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنے وسیع مطالعے اور علمی استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف موضوعات پر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ انھوں‌ نے متعدد کتب یادگار چھوڑیں جو علم و ادب کی دنیا کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان میں نثر اور نظم کی مختلف اصناف ہیں‌ جن پر انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام سپردِ‌ قلم کیا۔

    ان کا پورا نام سیّد وقار عظیم تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1910ء کو الٰہ آباد (یو پی) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا اور بعد میں الٰہ آباد یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ دہلی میں‌ تدریسی فرائض انجام دیے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی جریدے “آج کل” کی ادارت سنبھالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1949ء میں لاہور چلے آئے اور نقوش کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ 1950ء میں اورینٹل کالج لاہور میں اردو کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا جو 1970ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انھوں‌ نے اقبال اکیڈمی اور مختلف ادبی مجالس اور انجمنوں‌ اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    اردو ادب کو سید وقار عظیم نے کئی علمی و ادبی تحریروں سمیت اہم موضوعات پر تصانیف سے مالا مال کیا۔ ان میں‌ افسانہ نگار، داستان سے افسانے تک، نیا افسانہ، ہماری داستانیں، فن اور فن کار، ہمارے افسانے، شرح اندر سبھا، اقبال بطور شاعر، فلسفی اور اقبالیات کا تنقیدی جائزہ سرفہرست ہیں۔

    وہ لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے معروف اداکار شفیع محمد شاہ کی برسی

    دھیمے لب و لہجے، مگر رعب دار شخصیت کے مالک شفیع محمد شاہ نے پاکستان ٹیلی وژن ڈراموں میں اپنی لاجواب اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے اور خود کو ورسٹائل فن کار بھی ثابت کیا۔ آج شفیع محمد شاہ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 17 نومبر 2007ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    شفیع محمد شاہ نے اردو اور سندھی فلموں میں بھی کردار نبھائے، لیکن پاکستان بھر میں انھیں ٹیلی ویژن ڈراموں کی بدولت مقبولیت ملی۔ ان کے کئی ڈرامے یادگار ثابت ہوئے۔

    1948ء میں کنڈیارو میں پیدا ہونے والے شفیع محمد شاہ نے سندھ یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ایک زرعی بینک میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن وہ بطور اداکار کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کی آواز میں‌ خاص قسم کی مٹھاس، نرمی اور لہجے میں وہ دھیما پن تھا جس میں ایک جاذبیت اور کشش تھی۔ ان کا یہی انداز اور لب و لہجہ انھیں ریڈیو پاکستان تک لے گیا جہاں وہ صدا کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگے۔

    فن کار کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کرنے کے بعد شفیع محمد شاہ نے ملازمت ترک کی اور لاہور چلے گئے جہاں اداکار محمد علی نے فلم کورا کاغذ میں ایک کردار دلوا دیا۔ اسی زمانے میں ٹیلی وژن کے نہایت قابل اور نام ور پروڈیوسر شہزاد خلیل نے انھیں اپنے ڈرامے اڑتا آسمان میں‌ ایک کردار کی پیش کش کی اور یوں ٹی وی کے ناظرین سے ان کا تعارف ہوا۔ انھوں نے لاہور میں قیام کے دوران چند فلموں میں کام کیا اور پھر کراچی آگئے۔

    شفیع محمد شاہ کو سیریل تیسرا کنارا اور آنچ سے ملک بھر میں شہرت ملی۔ آنچ وہ ڈرامہ ثابت ہوا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی اور وہ ہر دل عزیز فن کار بن گئے۔

    ٹیلی وژن ڈراموں کے مقبول ترین ڈراموں آنچ، چاند گرہن، جنگل، دائرے، تپش، کالا پل، ماروی میں‌ شفیع محمد شاہ نے اپنے کرداروں میں‌‌ حقیقت کا رنگ بھرا اور ناظرین کے دل جیتے۔

    اس اداکار نے سیاست کی دنیا میں بھی قدم رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ٹکٹ پر انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصّہ لیا، لیکن کام یاب نہ ہوسکے۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا اور بعد از مرگ شفیع محمد شاہ کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا۔

  • یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی عکس بندی کررہے تھے اسٹوڈیو میں قوّالی کا منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ وہاں ایک اسکول کی چند طالبات بھی موجود تھیں جن میں خورشید اختر بھی شامل تھی۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔

    شوکت حسین رضوی نے خورشید اختر کو قوّالی میں شامل کرلیا۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے ہندوستان بھر میں زبردست کام یابی سمیٹی اور وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اسی فلم نے خورشید اختر کو شیاما کے نام سے بڑے پردے پر نام و مقام بنانے کا موقع دیا۔

    شیاما نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت پائی۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے فلم نگری میں‌ بحیثیت اداکارہ خوب شہرت پائی۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا اور بعد میں وہ اسی نام سے جانی گئیں۔

    شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں اپنے اعتماد اور ذہانت کے سبب فلم سازوں کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ ان میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آرپار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء کی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    شیاما کی ایک کام یاب ترین فلم ضیا سرحدی کی ‘ہم لوگ’ تھی جو سال 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت سراہا گیا۔ اداکارہ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ انھوں نے 82 سال کی عمر پائی اور 14 نومبر 2017ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

  • زینت بیگم: فلمی صنعت کی ایک بھولی بسری آواز

    زینت بیگم: فلمی صنعت کی ایک بھولی بسری آواز

    زینت بیگم کی وجہِ شہرت ان کی کلاسیکی گائیکی ہے، لیکن فلمی دنیا میں‌ انھوں نے اداکاری کے فن اور ہدایت کاری کے شعبے میں‌ بھی خود کو آزمایا۔

    وہ 1920ء یا 1931ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق طوائف گھرانے سے تھا جس میں ناچ گانا بھی معمول کی بات تھی۔ اس ماحول کی پروردہ زینت بیگم کو موسیقی لگاؤ اور گلوکاری کا شوق ہوا تو کسی نے اعتراض نہ کیا۔ وہ کلاسیکی موسیقی سیکھنے کے بعد فلم نگری سے وابستہ ہوگئیں۔

    یہ 1944ء کی بات ہے جب زینت بیگم کا خاندان لاہور سے ممبئی منتقل ہوا۔ اس زمانے میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیات اور تخلیق کاروں کی اکثریت وہاں پہنچ چکی تھی۔ زینت بیگم 1937ء میں لاہور میں پس پردہ گلوکاری کا آغاز کرچکی تھیں۔ انھیں مشہور کلاسیکی موسیقار پنڈت امر ناتھ نے فن کی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔

    1942ء میں انھوں نے پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ اپنی آواز دی تھی۔ یہ گوویند رام کی پنجابی فلم منگتی تھی جس کے لیے زینت بیگم نے گیت گائے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ ہندی زبان میں زینت بیگم کی اوّلین فلم نشانی بھی اسی سال کی یادگار ہے۔ 1944ء میں انھوں نے فلم پنچھی کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ممبئی میں متعدد موسیقاروں کے ساتھ زینت بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور کئی گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے اپنے وقت نام ور موسیقاروں جن میں پنڈت حُسن لال بھگت رام، ماسٹر غلام حیدر، پنڈت گوبند رام شامل ہیں، کے ساتھ کام کیا۔

    وہ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں رہیں اور 1951ء کی ہندوستانی فلم مکھڑا کے لیے پس پردہ گلوکاری کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئیں۔ یہاں چند برس تک انھوں نے فلم انڈسٹری کے لیے گیت گائے اور ہیر نامی فلم میں سہتی کا کردار بھی ادا کیا۔

    زینت بیگم نے 12 نومبر 1966ء کو لاہور میں‌ وفات پائی۔ فلم کے علاوہ انھوں نے ریڈیو کے لیے بھی اپنی آواز میں متعدد گیت ریکارڈ کروائے تھے جنھیں سامعین نے بہت پسند کیا۔ پنچھی، شالیمار، شہر سے دور جیسی فلموں کے لیے ان کی آواز میں‌ گانے اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے تھے۔