Tag: نومبر وفیات

  • جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    شکیب جلالی نے 1966ء میں آج ہی کے دن ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی تھی۔ ان کی عمر 32 برس تھی۔

    شکیب کی ذاتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ان کی والدہ کی خود کشی تھی اور یہ منظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب وہ دس سال کے تھے، ان کی والدہ نے بریلی شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    کم سِن سیّد حسن رضوی کے ذہن کے پردے پر اُس دردناک دن کے قیامت خیز منظر کی فلم سی چلتی رہتی تھی جس نے انھیں شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا کردیا۔ وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور ایک دن غیرطبعی موت کو گلے لگا لیا۔ وہ لاہور کے ایک ذہنی امراض کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوگئے تھے اور کہتے ہیں کہ اسی غم اور مسائل کے سبب ان کی والدہ نے خود کُشی کرلی تھی۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھنے والے شکیب کے والد نے اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شعری افق پر ابھرنے والے نوجوان شاعروں میں شکیب جلالی کو ان کے جداگانہ شعری اسلوب نے ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا، لیکن اپنے اشعار سے دلوں میں‌ آتشِ عشق بھڑکاتے اور جذبات میں سوز و گداز پیدا کرتے اس شاعر کو انہی ہم عصروں نے نظرانداز بھی کیا۔ تاہم وہ بہت کم وقت میں اپنی جگہ اور مقام بنانے میں کام یاب رہے۔

    خودکُشی کے بعد شکیب کا کلام احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو شکیب تخلّص اختیار کرلیا اور اسی سے پہچانے گئے۔ شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔

    سیّد حسن رضوی نے میٹرک بدایوں سے کیا تھا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز تک تعلیم حاصل کی۔ وہ ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔

    شکیب نے ابتدائی دور میں چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور ان کی بندش کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں ایک محکمہ میں ملازمت ملی، لیکن وہ ذہنی الجھنوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمیشہ ناآسودہ اور پریشان رہے۔ ان کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہی رہی اور سرگودھا میں‌ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے خود انھیں بھی شعرا کے درمیان امتیاز اور مقبولیت بخشی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں ان کی موت کے چند سال بعد شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں شعرا اور تمام ادبی حلقوں کو متوجہ کیا، وہیں باذوق قارئین نے انھیں زبردست پذیرائی دی۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے۔

    ان کے چند اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے، سَر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتّہ دکھائی دیتا ہے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

  • مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    دنیا ول ڈیورانٹ کو فلسفی اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنی تحریر کردہ اُن کی کتابوں کی وجہ سے پہچانا گیا جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتی ہیں۔

    انگریزی زبان میں لکھی گئی ول ڈیورانٹ کی کتابوں‌ کے اردو تراجم کی بدولت بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم اور مطالعہ کے شوقین افراد اس کے نام اور کام سے واقف ہوئے۔

    ول ڈیورانٹ پر اعتراضات بھی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا کہ اس کی کتابوں نے قارئین کی بڑی تعداد میں تہذیبوں کے بارے میں جاننے اور فلسفے کو پڑھنے کا شوق پیدا کیا۔

    اس مشہور مفکّر اور مؤرخ کی ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدن و فلسفہ پر مبنی تحریروں کو اس حوالے سے مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا طرزِ بیان خاصا مختلف ہے، اپنی کتاب ‘ گریٹ مائنڈز اینڈ آئیڈیاز آف آل ٹائمز’ میں اس نے ہندوستان سے متعلق ابواب میں بہترین زبان برتی ہے۔ اس نے تشبیہات، استعاروں اور تلمیحات سے کام لے کر اپنی تحریر کو پُر اثر بنایا ہے۔ مصنّف نے مذکورہ کتاب میں ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدّن اور فلسفہ کا قبل از مسیح سے بعد از مسیح مفصّل تاریخی جائزہ لیا ہے۔

    ول ڈیورانٹ کی اہم اور مشہور ترین تصانیف میں ’اسٹوری آف فلاسفی‘ اور ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ شامل ہیں۔

    اردو میں اس کی کتابوں کا ترجمہ عابد علی عابد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اجمل، ظفرُالحسن پیرزادہ اور طیّب رشید و دیگر نے کیا۔ ’اسٹوری آف سویلائیزیشن‘ ول ڈیورانٹ کی 11 جلدوں‌ پر مبنی کتاب ہے جسے اس کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔

    اس کا پورا نام ول ڈیورانٹ نارتھ ایڈمز تھا جس نے میساچوسٹس، امریکا میں 5 نومبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ 11 جلدوں میں انسانی تہذیب و تمدّن کے جس سفر کو اس نے کتاب کی شکل دی، وہ اس کا ایک کارنامہ قرار پایا اور 1968ء میں پلٹزر پرائز اور 1977ء میں صدارتی تمغا برائے آزادی اس مصنّف کے نام کیا گیا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد ول ڈیورانٹ نیو جرسی شہر کے کالج میں‌ داخل ہوا اور گریجویشن کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا۔ وہ متعدد زبانیں‌ سیکھ چکا تھا اور نیو جرسی کی یونیورسٹی میں لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور جیومیٹری پڑھانے پر مامور ہوا۔ 1913ء میں شادی کے بعد نوکری چھوڑ کر یورپ کے دورے پر نکل گيا اور بعد ازاں ایک گرجے میں لیکچرز دینے لگا۔

    فلسفہ اور تاریخ اس کا محبوب موضوع تھے۔ ول ڈیورانٹ نے 1917ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی زمانے میں اس نے پہلی کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا، "فلسفہ اور سماجی مسائل۔” ول ڈیورانٹ کا خیال تھا کہ فلسفہ میں سماجی مسائل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی دیگر کتب منتقلی (Transition) 1927، فلسفہ کی عمارت (The Mansions of Philosophy) 1929، زندگی کی تشریح (Interpretations of Life) 1970 میں شایع ہوئیں۔

    وہ 7 نومبر 1981ء کو 96 سال کی عمر میں چل بسا تھا۔

  • معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    نام وَر پاکستانی گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    اے نیّر 17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیّر تھا اور وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں‌ بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پسِ پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیّر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے متعدد انٹرویوز میں‌ بتایا کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘ یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور 66 سال کی عمر میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

  • اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

    اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
    میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

    7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    مصری خان جمالی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔

    وہ اپنے وقت کے مقبول سازندے تھے جو 1980ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آج مصری خان جمالی کا یومِ وفات ہے۔

    1921ء میں سندھ کے مشہور شہر جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے مصری خان جمالی نے نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اپنے کاروبار اور اسی کام کے دوران انھیں اس مقامی طور پر بنائے جانے والے ساز میں وہ کشش محسوس ہوئی جس نے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں‌ ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔

    الغوزہ بانسری نما وہ ساز تھا جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی اب ماضی بن چکا ہے اور اس کے ماہر سازندے اب دنیا میں نہیں‌ رہے۔

    مصری خان جمالی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔

    مصری خان جمالی نے اپنی دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔ 1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    انھیں نواب شاہ کے قبرستان حاجی نصیر میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر اثنائے گفتگو، تقریر اور تحریر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے سنایا اور لکھا جاتا ہے۔ اس شعر کے خالق محشر بدایونی ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی نے 9 نومبر 1994ء دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔

    4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں محشرؔ تخلّص کیا اور بدایوں کی نسبت کو اپنے اس تخلّص سے جوڑ کر محشر بدایونی کہلائے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے فن و شوق کو جاری رکھنے اور معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنائے گئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کیا تو جلد ہی شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے کلام کے سبب پہچان بنالی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    انھوں نے کراچی میں‌ وفات پائی اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے

  • پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1980ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے درپن نے بڑے پردے پر ہیرو کے طور پر کام یابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کیریکٹر اور سپورٹنگ رول بھی ادا کیے۔

    درپن 1928ء کو اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عشرت عباس تھا اور فلم نگری میں انھوں نے درپن کے نام سے پہچان بنائی اور شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارت کی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ پاکستان واپسی پر درپن نے کئی کام یاب فلموں میں کام کیا، جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    بطور ہیرو ان کی آخری کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    درپن نے بہترین اداکار کے زمرے میں دو نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔ اداکاری کے علاوہ انھوں نے خود کو فلم ساز کے طور پر بھی آزمایا اور بالم، گلفام، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے فلمیں بنائیں۔

    وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔

  • مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    مقبول شاعر اور ڈرامہ نویس عدیم ہاشمی کی برسی

    جدید اردو شاعری میں عدیم ہاشمی کو مقبول شعرا میں‌ شمار کیا جاتا ہے جن کے سادہ و دل کش انداز کو پڑھنے والوں نے بہت سراہا۔ آج عدیم ہاشمی کا یومِ وفات ہے۔ وہ2001ء میں وفات پاگئے تھے۔

    عدیم ہاشمی نے شاعر کے علاوہ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی شہرت حاصل کی جب کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو بے انتہا مقبولیت ملی۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ان کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ’’آغوش‘‘ آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں‌ محفوظ ہے جس کے اداکاروں‌ کو بھی بہت شہرت اور پذیرائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان بھر میں‌ ٹیلی وژن کے ناظرین میں مقبول ہونے والے ڈرامہ سیریز گیسٹ ہاؤس کی بھی چند کہانیاں ان کی تحریر کردہ تھیں۔

    عدیم ہاشمی کا اصل نام فصیح الدّین تھا۔ وہ یکم اگست 1946ء کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئے اور فیصل آباد میں زندگی کا ابتدائی عرصہ گزارا۔ بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ اس دوران ان کا شعری سفر شروع ہوگیا اور لاہور آنے کے بعد ان کا کلام ادبی جریدوں میں باقاعدگی سے چھپنے لگا۔ عدیم ہاشمی نے متعدد گیت بھی لکھے جو ریڈیو اور ٹی وی پر پیش کیے گئے۔

    ان کی کتابیں ’’ترکش‘، ’مکالمہ‘، ’چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے‘، ’فاصلے ایسے بھی ہوں گے‘ کے نام سے شایع ہوئیں‌۔

    عدیم ہاشمی امریکا کے شہر شکاگو میں مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔ ان کی یہ مشہور غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

    وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
    میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

    میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
    ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا

    آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
    تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا

    یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
    آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

    سیکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
    ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

    یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا

  • شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی: پاکستانی فلمی صنعت کی ایک عہد ساز شخصیت

    شباب کیرانوی کو عہد ساز شخصیت کہا جاتا ہے۔ پاکستانی فلموں کی ترقّی و ترویج میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

    فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبے میں ممتاز شباب کیرانوی ایک ادیب، کہانی نویس اور شاعر کی حیثیت سے بھی قابلِ ذکر اور نمایاں ہوئے۔ 5 نومبر 1982ء کو شباب کیرانوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    کیرانہ انڈیا کے مشہور ضلع مظفر نگر (اُترپردیش ) کا معروف قصبہ ہے جہاں‌ 1925ء میں نذیر احمد نے ایک محنت کش حافظ محمد اسماعیل کے گھر آنکھ کھولی۔ بعد میں‌ انھیں ہندوستان بھر میں شباب کیرانوی کے نام سے جانا گیا۔

    شباب کیرانوی نے پندرہ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور اسکول بھی جاتے رہے۔ دورانِ تعلیم انھیں شاعری کا شوق ہوگیا اور اپنا تخلّص ’’شباب‘‘ رکھا اور اپنے شہر کی نسبت کیرانوی کا اضافہ کرلیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے دیگر افراد سمیت ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہاں معروف شاعر علامہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد ہوئے۔

    شباب کیرانوی نے فلم ’’جلن‘‘ سے اپنا فلمی سفر شروع کیا اور اس حوالے سے اپنے فن و تخلیق کی صلاحیتوں کا اظہار بہ طور فلم ساز، نغمہ نگار، کہانی و مکالمہ نویس کیا۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ثریا، مہتاب، ماں کے آنسو، شکریہ، عورت کا پیار، فیشن، آئینہ، تمہی ہو محبوب مرے، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، آئینہ اور صورت، انسان اور فرشتہ، وعدے کی زنجیراور میرا نام ہے محبت ان کی کام یاب ترین فلموں میں شامل ہوگئیں۔

    شباب کیرانوی نے بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نگار کے زمرے میں‌ دو نگار ایوارڈز اپنے نام کیے جب کہ ان کی متعدد فلموں نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے بھی موج شباب اور بازار صدا کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    شباب کیرانوی کی بدولت فلمی صنعت کو کئی باصلاحیت اور باکمال فن کار ملے جن میں‌ کمال، بابرہ شریف، غلام محی الدین، ننھا، عالیہ، علی اعجاز، انجمن، فرح جلال، جمشید انصاری اور طلعت حسین کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    پاکستان میں‌ فلمی صنعت کے عروج کے دنوں میں لاہور میں‌ ان کا اسٹوڈیو شباب اسٹوڈیوز کے نام سے مشہور تھا۔ وفات کے بعد انھیں اسی اسٹوڈیو کے احاطے میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔