Tag: نومبر وفیات

  • بالی وڈ کے نام وَر فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کا تذکرہ

    بالی وڈ کے نام وَر فلم ساز اور ہدایت کار بی آر چوپڑا کا تذکرہ

    بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ستون مانا جاتا تھا۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور فلم انڈسٹری کے لیے عام روش سے ہٹ کر کئی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پانچ نومبر 2008ء کو 94 برس کی عمر میں بی آر چوپڑا نے اس دنیا سے اپنا ناتا ہمیشہ کے لیے توڑ لیا۔

    1914ء میں شہر لدھیانہ میں پیدا ہونے والے بلدیو راج نے لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا، لیکن تقسیمِ ہند کے کے بعد دہلی ہجرت کر گئے اور وہاں سے ممبئی منتقل ہوئے۔

    بلدیو راج چوپڑا کا بچپن اور جوانی لاہور میں گزری۔ انھوں‌ نے انگریزی ماہ نامے میں فلموں پر تبصرے لکھنے شروع کیے اور صحافت کا آغاز کیا۔ ادب کی تعلیم نے انھیں تخلیقی شعور دیا اور وہ کہانیوں اور فلمی اسکرپٹ کی کم زوری اور خامیوں پر تبصرہ کرکے ایک فلمی نقّاد کے طور پر سامنے آئے۔ ممبئی ہجرت کے بعد انھوں نے خود کو ایک منفرد فلم ساز اور باکمال ہدایت کار کی حیثیت سے منوایا۔

    فلم نگری میں‌ ان کی آمد ایک صحافی کے طور پر ہوئی تھی، لیکن 1955ء میں انھوں نے اپنی قسمت آزمائی اور ایک فلم کمپنی بی آر فلمز کے نام سے شروع کی۔ وہ تخلیقی ذہن اور متنوع شخصیت کے مالک تھے اور اسی لیے انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کرنے کی کوشش کی۔ ان کی اسی انفرادیت اور روایت شکنی نے انھیں باکمال و نام ور بنا دیا۔ انھوں نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور انھوں نے اداکاری بھی کی۔

    بی آر چوپڑا نے 1949ء میں فلم ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا اور یہ فلم فلاپ رہی۔1951ء میں فلم ’افسانہ‘ کے لیے ہدایت کاری کی اور یہ فلم کام یاب رہی۔ 1955ء میں بی آر فلمز کے بینر تلے انھوں نے سب سے پہلے ’نیا دور‘ بنائی جسے ناظرین نے کافی سراہا اور فلم نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ان کی زیادہ تر فلموں میں‌ سماج کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ انھوں نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا۔ نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ وہ فلم ’گھر‘ میں اداکار کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔ یہ تمام اپنے وقت کی کام یاب ترین فلمیں ثابت ہوئیں۔

    ہندوستان کے معروف ترین فلم ساز و ہدایت کار بی آر چوپڑا کے دل سے لاہور کی یادیں کبھی محو نہ ہو سکیں۔ چوپڑہ صاحب کی ابتدائی زندگی کا احوال وہ یوں بتاتے ہیں کہ ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘

    بی آر چوپڑہ کو 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے تھے۔

  • ‘جراسک پارک’ کے مصنّف مائیکل کرشٹن کا تذکرہ

    ‘جراسک پارک’ کے مصنّف مائیکل کرشٹن کا تذکرہ

    ہالی وڈ یا دنیا کے کسی بھی ملک کی فلم انڈسٹری میں جہاں بڑوں کے لیے مختلف اہم اور سنجیدہ موضوعات کے ساتھ مزاحیہ فلمیں بنائی جاتی ہیں، وہیں بچّوں کے لیے بھی خاص طور پر مزاحیہ اور تفریحی فلمیں یا ڈرامے بنائے جاتے ہیں، لیکن ایسی فلمیں بہت کم ہیں، جو بیک وقت بچّوں اور بڑوں کی تفریح کا سامان کریں اور انھیں اپنا گرویدہ بنا لیں۔

    جراسک پارک وہ فلم ہے جس نے 1993ء میں امریکا کے سنیما گھروں میں‌ دھوم مچا دی تھی اور دنیا بھر میں بچّوں کے ساتھ بڑے بھی اس فلم سے بہت محظوظ ہوئے۔

    ہالی وڈ کی سائنس فکشن اور ایکشن فلم جراسک پارک نے وہ کام یابیاں سمیٹیں کہ پروڈکشن کمپنی نے اس پر ایک اور سیریز بنائی اور پھر یہ سلسلہ پانچ سیریز تک پہنچ گیا۔

    یہاں ہم جراسک پارک سیریز کی پہلی فلم کا تذکرہ کرتے ہوئے 2008ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے مائیکل کرشٹن کی یاد تازہ کریں گے جن کے ناول سے متاثر ہو کر یہ فلم بنائی گئی تھی۔

    مائیکل کرشٹن دورِ حاضر کے مقبول ترین سائنس فکشن رائٹرز میں سے تھے۔ مائیکل کرشٹن ایک سائنس دان، ڈاکٹر، اسکرین رائٹر اور فلم میکر تھے، لیکن ان کی شہرت کی اصل وجہ ان کے ٹیکنو تھرلر ناول تھے۔ ان کا مشہورِ زمانہ ناول جراسک پارک 1990 میں شائع ہوا تھا۔ ان کے مشہور ناولوں میں جراسک پارک، لاسٹ والڈ، ایئر فریم اور ایڈرومیڈا اسٹرین شامل ہیں۔ ڈکیتی کے ایک مشہور واقعے پر ان کا ناول دی ٹرین روبری بھی پسند کیا گیا۔

    مائیکل کرشٹن نے 1942ء میں آنکھ کھولی۔ وہ امریکا کے ان مصنّفین میں سے ایک ہیں‌ جن کی کتابوں کی دنیا بھر میں ریکارڈ فروخت ہوئی اور کئی مشہور ترین فلموں کا اسکرپٹ ان کی کہانیوں سے متاثر ہو کر لکھا گیا یا وہ ان کے ناولوں پر مبنی ہیں۔

    وہ ایسے منفرد تخلیق کار تھے جن کے زیادہ تر ناول اور کہانیاں سائنس فکشن اور ٹیکنالوجی پر مبنی تھیں۔ انھوں نے انسانوں کی ذہانت، اس کی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں کسی وجہ سے ناکامی پر پیدا ہونے والی صورتِ حال میں اپنے کرداروں کو نہایت سنسنی خیز، خوف ناک اور مشکلات حالات سے لڑتے ہوئے دکھایا ہے۔

    سائنس اور طبّ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مائیکل کرشٹن نے اپنے شعبے میں ملازمت اختیار کرنے کے بجائے خود کو مصنّف کے طور پر منوایا اور ابتدائی زمانے میں قلمی نام سے لکھنے لگے، انھوں نے لگ بھگ 26 ناول اور کہانیاں تخلیق کیں۔ وہ صرف لکھنے تک محدود نہیں رہے بلکہ فلم اور ٹیلی ویژن انڈسٹری سے بھی ناتا جوڑا جہاں مائیکل کرشٹن کو فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر کام کرتے دیکھا گیا۔

    دنیا بھر میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے والی فلم جراسک پارک نے کئی بڑے اعزازات اپنے نام کیے تھے، جن میں 3 آسکر بھی شامل ہیں۔ مائیکل کرشٹن کا یہ غیر مطبوعہ ناول فلم ساز کی نظر میں‌ کیسے آیا، اس کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز ان کی ملاقات فلم ڈائریکٹر اسٹیون اسپلبرگ سے ہوئی اور اسی ملاقات میں مائیکل کی ایک غیر مطبوعہ کہانی کا ذکر چھڑ گیا جسے پڑھنے کے بعد فلم ساز نے معروف پروڈکشن کمپنی یونیورسل پیکچرز کو اس کے بارے میں بتایا اور ایک معاہدہ کرکے مائیکل کرشٹن سے جراسک پارک کے حقوق خرید لیے۔

    جراسک پارک وہ ناول تھا جس پر فلم پہلے بنی اور بعد میں‌ یہ ناول کی شکل میں‌ شایع ہوا۔

  • نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    نوبل انعام یافتہ ادیب اور نقّاد جارج برنارڈ شا کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے نوبل انعام یافتہ ڈراما نویس، ناول نگار اور نقّاد جارج برنارڈ شا نے 2 نومبر 1950ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج اس مفکّر، عورتوں کے حقوق کے زبردست حامی اور تھیٹر کی تاریخ کی نام وَر شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    جارج برنارڈ شا آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1856ء ہے، وہ 15 سال کی عمر میں لندن آیا اور پھر لندن کا ہو کر رہ گیا۔ اس کا باپ شرابی تھا، لیکن ماں‌ موسیقی کے فن میں‌ طاق تھی اور خوب صورت آواز کی مالک تھی۔ اس نے اپنے شرابی شوہر کو چھوڑ دیا اور بچّوں کے ساتھ لندن چلی گئی جہاں گھر چلانے کے لیے لوگوں کو موسیقی سکھانا اور اوپیرا میں گیت گانا شروع کردیا۔ یوں‌ برنارڈ شا کو بھی فنونِ لطیفہ، ادب اور موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوا تاہم وہ لکھنے لکھانے میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہوئے ذہانت سے بہت کچھ سیکھا اور کتابوں سے دوستی نے اس کا علم بڑھایا جو بعد میں اس کے کام آیا۔

    برنارڈ شا لندن گیا تو اس کی جیب خالی تھی۔ اس نے لائبریریوں اور میوزیم میں وقت گزارا، علمی و ادبی مباحث میں‌ شریک رہا، اور پھر ایک دن سوچا کہ وہ ناول لکھ سکتا ہے۔ اس نے ناول لکھے، لیکن مایوسی اس کا مقدر بنی اور کسی نے اسے نہ سراہا، تب موسیقی کا فن اس کے کام آیا جو اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔ اسی زمانے میں‌ وہ کالم نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور موسیقی سے متعلق مضامین اور تبصرے کرنے لگا۔

    برنارڈ شا 1892ء تک مختلف اخباروں میں تبصرہ نگار، نقّاد اور مبصّر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اس نے لندن کے مشہور اخبارات میں موسیقی پر کالم لکھے اور ادبی فن پاروں پر تبصرے کرنے لگا۔ اس کے قلم اور فقرے کی کاٹ بہت تیز تھی۔ بعد میں اس نے ڈرامے لکھنے کی طرف دھیان دیا۔

    اس کی پہلی تخلیق جو نیم خود نوشت کہی گئی "امیچوریٹی” کے نام سے شایع ہوئی جسے ابتدا میں لندن کے تمام پبلشروں نے شایع کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد چار ناول بھی مسترد کر دیے گئے۔ لیکن وہ ایک زبردست نقّاد اور ڈرامہ نویس کے طور پر تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوا۔ اس کی تخلیقات کا دنیا کی متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اس کے تحریر کردہ ڈراموں کو تھیٹر کے شائقین میں زبردست پذیرائی ملی۔

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    معروف سارنگی نواز استاد حامد حسین خان کی برسی

    سارنگی وہ ساز ہے جس کے ماہر برطانوی دور اور تقسیم کے بعد پاک
    و ہند میں روایتی دھنوں میں مقبول شاعری سے عوام کو محظوظ کرتے رہے۔ کئی سارنگی نوازوں نے موسیقی کی سنگت میں بڑا نام پیدا کیا جن میں سے ایک استاد حامد حسین خان بھی ہیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    استاد حامد حسین خان کا شمار پاکستان کے معروف سارنگی نوازوں میں‌ ہوتا ہے۔ وہ 2 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ دورِ جدید میں سارنگی جیسے ساز اور اس کے بنانے اور بجانے والے دونوں ہی اب ماضی کی ایک یاد بن چکے ہیں۔ سارنگی ایک کمان سے بجنے والا اور چھوٹی گردن کا تانتل ساز ہے جو ہندوستانی کلاسیکی سنگیت کا خوب صورت حصّہ رہا ہے۔

    پاکستان میں استاد حامد حسین خان نے اس ساز پر کئی سال تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد پائی۔ ان کا تعلق مراد آباد سے تھا۔ استاد حامد حسین خان 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد عرصہ دراز تک ریاست رام پور کے دربار سے وابستہ رہے اور موسیقی کے حوالے سے ان کا خاندان مشہور تھا۔

    استاد حامد حسین خان نے موسیقی کی تعلیم اپنے نانا استاد حیدر بخش خان اور اپنے والد استاد عابد حسین خان سے حاصل کی جب کہ سارنگی کی تربیت اپنے ماموں استاد علی جان خان سے لی۔

    استاد حامد حسین خان آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ وہ نہایت عمدگی سے سارنگی بجانے کے لیے مشہور تھے اور بڑی مہارت سے سنگت میں دوسرے فن کاروں کا ساتھ دیتے تھے۔

    انھوں نے ہندوستان، پاکستان کے علاوہ بیرونَ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین سے داد و تحسین سمیٹی۔

  • علمِ عروض کے موجد، ماہرِ‌ موسیقی و لغت خلیل بن احمد کا یومِ وفات

    علمِ عروض کے موجد، ماہرِ‌ موسیقی و لغت خلیل بن احمد کا یومِ وفات

    خلیل بن احمد کو علمِ عروض کا بانی اور موجد کہا جاتا ہے۔ وہ ماہرِ موسیقی و لغت بھی مشہور ہیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عروض، شاعری سے متعلق ایک ایسا علم ہے جس سے کسی شاعر کے کلام کی موزونیت یا اس کے وزن میں ہونے کو جانچا جاتا ہے۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے۔ خلیل بن احمد نے اس میں پانچ دائرے اور پندرہ بحریں اختراع کیں جو آج بھی عربی، فارسی اور اردو شاعری میں استعمال ہوتی ہیں۔

    انھیں‌ علمِ موسیقی سے بھی کامل واقفیت تھی اور وہ سنسکرت زبان سے آشنا تھے۔ خلیل بن احمد نے اپنی صلاحیتوں اور ان علوم کی مدد سے علمِ عروض وضع کیا تھا۔

    تاریخ‌ کے صفحات میں‌ ان کا پورا نام ابو عبد الرحمٰن خلیل ابن احمد الفراھیدی البصری لکھا گیا ہے جن کے یومِ پیدائش اور سنِ وفات میں اختلاف ہے، تاہم زیادہ تر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں‌ کہ وہ 718ء میں‌ عمان میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 790ء کو وفات پائی۔

    انھیں‌ ماہرِ لغت و موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق وہ عجمی النسل تھے۔ مشہور عربی مؤرخ جارج زیدان نے لکھا کہ ہے وہ ایرانی شہزادوں کی نسل سے تھے اور ان کے جدّ کو شہنشاہِ ایران نے یمن بھیجا تھا۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ بصرہ میں گزرا اور وفات کے بعد وہیں دفن کیے گئے۔

  • برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    آج معروف ادیب، قادرُ الکلام شاعر، ڈراما نویس، ناول نگار اور انشا پرداز پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ان کی اردو زبان کی ترقّی کے لیے پُرخلوص خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں اردو کا عاشق کہا گیا۔ دتاتریہ کیفی دہلوی شان دار شخصیت کے مالک تھے، ان کی گفتگو، تقریر اور تحریر نہایت شستہ اور شائستہ تھی۔

    معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے ان کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    ان کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔

  • لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے ممتاز نغمہ نگار تنویر نقوی کی برسی ہے۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

    آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے جیسے کئی گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں جن کے خالق تنویر نقوی تھے۔

    نغمہ نگار تنویر نقوی 6 فروری 1919ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ انھوں نے فلمی دنیا میں تنویر نقوی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ 15 سال کے تھے جب شاعری کا آغاز کیا اور 1938ء میں اپنی پہلی فلم ‘شاعر’ کے لیے گیت لکھے۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا، جہاں تنویر نقوی نے تقریباً آٹھ سال تک گیت نگاری کی۔

    ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی نوا نقوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ 1940ء میں تنویر نقوی کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ اسی کی اشاعت کے بعد انھوں نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا جہاں کئی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور نام کمایا۔

    قیام پاکستان سے قبل انھوں‌ نے فلم ‘انمول گھڑی’ کے لیے نغمات تحریر کیے تھے جن میں ان کی وجہِ شہرت بننے والا نغمہ آواز دے کہاں ہے بھی شامل تھا۔ یہ اس دور کا سب سے زیادہ مقبول ہونے والا گیت تھا، جس کے بعد ان کے دو نغمات آجا میری برباد محبت کے سہارے اور جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ پاکستان میں تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر لازوال شہرت پائی، جس میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار یا مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں اور دل کا دِیا جلایا نے مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔

    اسی طرح 1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی جس کا گیت رقص میں ہے سارا جہاں بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے سمیت متعدد فلموں کے گیتوں نے تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار ثابت کیا۔ انھیں فلم و ادب کی دنیا کے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    1965ء کی جنگ میں نشر ہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو اور چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے بھی ان کے ناقابلِ‌ فراموش نغمات میں سرفہرست ہیں۔

    تنویر نقوی نے فلموں کے لیے متعدد خوب صورت نعتیں بھی لکھیں جن میں ‘نورِ اسلام’ کی ایک نعت نہایت مشہور ہوئی اور یہ کلام آج بھی بے انتہا مقبول ہے۔ یہ نعت آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ ان کا یہ کلام ہر محفل میں پڑھا گیا اور سوالی گلی گلی پھر کر اسے بلند آواز سے پڑھتے اور لوگوں سے نذرانے وصول کرتے تھے۔

    تنویر نقوی نے خوب صورت گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔