Tag: نپولین

  • ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    جرمن فلسفی ہیگل (1770ء- 1831ء) اپنے وقت کے ان اہم فلسفیوں میں تھا جس نے اپنے خیالات و افکار کی بنیاد پر ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ برائی کے بارے میں اسی کی دلیل یہ ہے کہ یہ عیسائی مذہب میں Original Sin کی پیداوار ہے۔ اس لیے اس کا اثر انسان کی پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ دوسرے وہ برائی کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

    ہیگل نے اپنے زمانے میں فرانسیسی انقلاب اور اس کے اثرات کو دیکھا اور بعد میں اس نے نیپولین کی فتوحات اور اس کی شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جس وقت نیپولین نے Jena کی جنگ میں پروشیا کو شکست دی تھی اس کے بعد وہ شہر میں جب فاتح کے طور پر داخل ہوا تو ہیگل اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کررہا تھا جب اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے نپولین کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو کہا کہ روحِ عصر گھوڑے پر سوار ہے "world spirit on horseback”

    ہیگل Original Sin سے انکار کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا اور اس کے بہکانے پر آدم نے علم کے درخت کے پھل کو کھایا۔ ہیگل کے نزدیک یہ پوری کہانی بے معنی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ روشن خیالی دور کے دانشور بھی اس کے قائل نہیں تھے کہ برائی Original Sin کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی اور ارادے کے بغیر Original Sin کا شکار ہوجاتا ہے اور کیا وہ اس سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔ اس کے خیال میں Original Sin انسان کی زندگی پر چھایا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر کوئی تخلیق نہیں کرسکتا۔

    ہیگل اس بات پر زور دیتا ہے کہ تاریخ کے ذریعے ہم اپنے ماحول اور اپنے ذہن کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو مرحلہ وار تحقیق کی جانب لے جاتی ہے۔ جس سے ذہنی طور پر فہم اور آگاہی پیدا ہوتی ہے۔

    تاریخ واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے ذہن کو بناتی ہے۔ ہیگل تاریخ میں جدلیاتی عمل کا ذکر کرتا ہے یعنی ابتدا میں کوئی ایک خیال (Thesis) ہوتا ہے پھر جب اس پر تنقید ہوتی ہے تو یہ Thesis، اینٹی Thesis میں تبدیل ہو جاتا ہے، پھر Thesis اینٹی Thesis مل کر Synthesis ہوجاتے ہیں۔ اس جدلیاتی عمل کے ذریعے تاریخ آگے کی جانب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہیگل تاریخ کی ترقی کے لیے تصادم یا Conflict کو ضروری سمجھتا ہے کیوں کہ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو تاریخی عمل کو تیز کرتا ہے۔

    ہیگل تاریخ میں شخصیتوں کے کردار کو بھی اہمیت دیتا ہے جو تاریخ کو بناتی بھی ہیں اور اسے تباہ و برباد بھی کر دیتی ہے۔ اگرچہ یہ شخصیتیں اپنی دانست میں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی ذہانت، قابلیت، اور دانشمندی کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں۔ ہیگل کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ناسمجھی ہے۔ اس کی مثال وہ سکندر، سیزر اور نپولین سے لیتا ہے لیکن ہیگل کے نزدیک یہ بذاتِ خود کچھ نہیں تھے بلکہ نیچر ان سے کام لے رہی تھی جب انہوں نے نیچر کے منصوبوں کو پورا کر لیا تو پھر ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جب سکندر نے ایران اور عراق کو فتح کرلیا تو اب مزید فتوحات کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ جوانی ہی میں مرگیا۔ جولیس سیزر نے جب گال اور انگلینڈ فتح کر لیا اور تاحیات ڈکٹیٹر ہوگیا تو نیچر کو اس کی ضرورت نہیں رہی اور اسے قتل کردیا گیا۔ یہی صورت حال نپولین کی تھی جس نے یورپ کو فتح کیا اور وہاں تبدیلیاں لائیں لیکن جب نیچر کا یہ مشن پورا ہوگیا تو اس کی بقیہ زندگی سیٹ ہیلنا میں قیدی کی حیثیت سے گزری۔ اس مثال کو ہم تاریخ کی دوسری بڑی شخصیتوں پر بھی دے سکتے ہیں۔ ہیگل کے نزدیک یہ سب تاریخ کے مہرے تھے، ایک خاص ماحول کی پیداوار تھے اور جب ان کا کردار ختم ہوگیا تو ان کو تاریخی عمل سے نکال دیا گیا۔

    ہیگل تاریخ میں حادثات کی اہمیت کا بھی قائل ہے۔ یہ حادثات نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے زمانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تیرہویں صدی کا پلیگ ہے جس نے یورپ کی چالیس فیصد آبادی کو ختم کر دیا تھا مگر اسی کے نتیجے میں یورپ میں Reformation کی تحریکیں ابھریں۔ سائنس طب اور سماجی علوم میں نئے خیالات پیدا ہوئے لہٰذا ہر حادثہ چاہے وہ قحط ہو، زلزلہ ہو اور سیلاب ہو وہ تاریخ کے عمل کو تبدیل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں۔
    تاریخ کا یہ بھی کام ہے کہ وہ پختہ اور آزاد ذہن کو پیدا کرے تاکہ افراد اس دنیا کو سنبھالنے کی ذمے داری لیں۔ اس دنیا میں انسان نے جو اذیتیں برداشت کیں ہیں اور جو تکالیف اٹھائی ہیں ان سے سبق سیکھے۔

    (معروف اسکالر اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف "عہدِ حاضر: تاریخ کے تناظر میں ” سے انتخاب)

  • 200 سال قبل جنگ میں ہلاک سپاہیوں کی آخری رسومات ادا

    200 سال قبل جنگ میں ہلاک سپاہیوں کی آخری رسومات ادا

    ماسکو: ماضی کے معروف فرانسيسی جنرل نپولين کے دور ميں سنہ 1812 ميں لڑی گئی ايک جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے فرانسيسی اور روسی فوجيوں کی آخری رسومات دوبارہ ماسکو میں ادا کی گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مغربی روس کے چھوٹے سے شہر ويازما ميں 13 فروری کے روز 126 افراد کی آخری رسومات ادا کی گئيں۔

    تابوتوں ميں 120 فرانسيسی اور روسی فوجیوں سميت 3 عورتوں اور 3 نوجوانوں کی باقيات تھيں، ماسکو سے لگ بھگ 200 کلو ميٹر مغرب کی طرف واقع اس شہر ميں منفی 15 ڈگری سينٹی گريڈ درجہ حرارت اور سخت برفباری ميں ملٹری بينڈ نے ترانہ بجايا اور فوجيوں نے پوری عقيدت اور احترام کے ساتھ مرنے والوں کو سپرد خاک کيا۔

    تفہن کے بعد انہیں توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔

    یہ افراد سنہ 1812 کی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے اور انيسويں صدی کے ان روسی اور فرانسيسی فوجيوں کو علامتی طور پر دوبارہ سپرد خاک کيا گيا ہے۔

    ان تمام افراد کی ہلاکت فرانسيسی فوجی کمانڈر نپولين بونا پارٹ کے ماسکو سے پسپائی کے بعد واپسی کے وقت، 3 نومبر سنہ 1812 کو جنگ ويازما ميں ہوئی تھی۔ يہ اس وقت کی بات ہے جب روس سے نپولين کی فوج کی پسپائی ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔

    روسی اور فرانسيسی ماہرين آثار قديمہ کو جنگ ويازما ميں ہلاک ہونے والے ان فوجيوں کی باقيات سن 2019 ميں ايک اجتماعی قبر سے ملی تھيں۔ ان ميں سے 120 فوجی تھے، 3 عورتيں زخميوں کو طبی امداد فراہم کرنے والی کارکن تھیں اور 3 نوجوان ڈھول پيٹنے والے تھے۔

    ان سب کی دوبارہ تدفين کا مقصد محض علامتی تھا، تعميراتی کام کے دوران جب يہ قبر دريافت ہوئی، تو پہلے سمجھا گيا کہ يہ دوسری عالمی جنگ کے دور کی کوئی اجتماعی قبر ہے۔

    تاہم فوجيوں کی جسمانی باقيات اور ان کی وردیوں پر لگے بٹنوں سے پتا چلا کہ ان کا تعلق فرانسيسی فوج کی 30 ویں اور روسی فوج کی 55 ويں انفنٹری سے تھا اور وہ سب ويازما کی جنگ ميں مارے جانے والے افراد تھے۔

    مذکورہ تقریب میں پرنس يوآخم مورات بھی شریک ہوئے جن کا تعلق نپولين کے سب سے مشہور مارشل کے خاندان سے تھا۔

  • نپولین کے تاج میں نصب سونے کا پتہ نیلام کرنے کا اعلان

    نپولین کے تاج میں نصب سونے کا پتہ نیلام کرنے کا اعلان

    پیرس: مشہور فرانسیسی سپہ سالار اور شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کے تاج میں نصب سونے سے بنا ہوا پتہ نیلام کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

    اپنے پستہ قد کی وجہ سے مشہور اس عظیم سپہ سالار نے بے شمار جنگوں میں فتح حاصل کی۔ فوج کے ایک معمولی افسر سے لے کر اس پر ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے پورے فرانس اور آس پاس کی دیگر ریاستوں پر اپنی حکومت قائم کرلی، اور خود کو شہنشاہ کا خطاب دے ڈالا۔

    سنہ 1804 میں پیرس کے نوٹرے ڈیم کیتھڈرل میں پوپ کی موجودگی میں نپولین نے خود ہی اپنی تاج پوشی کی اور خود کو شہنشاہ اور اپنے خاندان کو شاہی خاندان قرار دے ڈالا۔

    وہ دراصل رومی شہنشاہیت سے بے حد متاثر تھا اور اس کا تاج بھی مشہور رومی جرنیل جولیس سیزر سے مشابہ تھا۔

    نپولین نے اپنی تاج پوشی کے وقت جو تاج پہنا وہ بہت بھاری بھرکم اور وزنی تھا۔ تاج میں سونے سے بنے ہوئے 44 بڑے پتے جبکہ 12 چھوٹے پتے سجائے گئے تھے۔

    اس وقت اس تاج کو 8 ہزار فرانکس (فرانسیسی کرنسی) میں بنایا گیا تھا جو اس وقت ایک کثیر ترین رقم تھی۔ اسی طرح تاج کو جس ڈبے میں رکھا جاتا تھا جو 13 سو فرانک میں بنوایا گیا۔

    نپولین نے جب تاج کے وزنی ہونے کی شکایت کی تو تاج میں سے 6 بڑے سونے کے پتوں کو نکال دیا گیا۔ جس سنار نے تاج میں یہ تبدیلی کی بعد ازاں اس نے یہ 6 پتے اپنی 6 بیٹیوں کو تحفتاً دے دیے۔

    نپولین کی واٹر لو میں ہزیمت ناک شکست اور اسے قید کردیے جانے کے بعد اس کا تاج تو پگھلا دیا گیا، تاہم سنار کے پاس تاج میں سے نکالے گئے پتے محفوظ تھے۔

    فرانسیسی نیلام گھر اوسینٹ کا کہنا ہے کہ یہ پتہ اسی سنار کے خاندان سے حاصل کیا گیا ہے، اور بقیہ پتوں کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ ان کا کیا کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: نپولین کی پسندیدہ ٹوپی نیلام

    نیلام گھر کو امید ہے کہ 19 نومبر کو نیلام کیا جانے والا یہ پتہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ یوروز میں نیلام ہوگا۔

    اوسینٹ نیلام گھر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نپولین کی بیگم جوزفین کا ایک سچے موتیوں کا ہار بھی موجود ہے اور اسے بھی وہ جلد نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔