Tag: نہ

  • ایران ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھے، جان بولٹن

    ایران ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھے، جان بولٹن

    واشنگٹن : امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکا کی جانب سے تحمل اور تدبر کے مظاہرے کو اس کی کم زوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔

    غیرملکی خبررساں دارے کے مطابق امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا ایران سے متعلق یہ سخت بیان فقط تہران حکومت ہی کے لیے تنبیہ نہیں بلکہ خطے میں امریکی اتحادی ممالک کے لیے یقین دہانی بھی ہے کہ امریکا خلیج کے خطے کے استحکام کا عزم رکھتا ہے۔

    امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے تحمل اور تدبر کے مظاہرے کو اس کی کم زوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے،ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے کے بعد امریکی صدر نے ایران کے خلاف طے شدہ اہداف پر حملوں کا حکم دیا تھا، تاہم بعد میں یہ ہدایات آخری لمحات میں واپس لے لی گئیں۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ اور بن سلمان کا ٹیلی فونک رابطہ، ایرانی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال

    واضح رہے کہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا، ایک روز قبل ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دے کر واپس لیا جس کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی۔

    امریکا نے ایران پر دباؤ بڑھانے کے لیے مشرق وسطیٰ میں بحری بیڑے اور 1500 فوجی تعینات کر رکھے ہیں جبکہ مزید ایک ہزار اہلکاروں کو بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

    واضح رہے کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حکم دیا تھا لیکن حملے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا۔

    امریکی اخبار کا کہنا تھا امریکی طیارے فضاؤں میں آگئےتھے اور بحری جہازوں نے پوزیشن لےلی تھی تاہم آپریشن کے آغاز سے چندگھنٹے قبل ہی صدرٹرمپ نے حملے کا فیصلہ اچانک واپس لے لیا۔

    یہ بھی پڑھیں: ایران نے امریکی ڈرون گرا کر بہت بڑی غلطی کی، ٹرمپ کا ردعمل

    اس سے قبل ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران نے امریکی ڈرون گرا کر بہت بڑی غلطی کی۔

  • ایران پر حملہ ضروری ہے امریکا تاخیر نہ کرے، سعودی اخبار کا مطالبہ

    ایران پر حملہ ضروری ہے امریکا تاخیر نہ کرے، سعودی اخبار کا مطالبہ

    ریاض : سعودی خبر رساں ادارے نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران پر پابندیوں کے واضح نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے، اس لیے حملے ضروری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے حکومت نواز خبر رساں ادارے ’عرب نیوز‘ نے اپنے ایک اداریے میں امریکا سے ایران پر سرجیکل حملے شروع کر دینے کا مطالبہ کیا ہے اورلکھا ہے کہ ایران پر پابندیوں کے واضح نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے، اس لیے حملے ضروری ہیں۔

    سعودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کو ایرانی دھمکیوں کے تناظر میں ایسے حملے ضروری ہو گئے ہیں۔ اخبار نے ان حملوں کو موجودہ کشیدہ صورت حال میں منطقی قدم قرار دیا۔

    اخبار کے مطابق امریکا نے شام کی کیمیائی ہتھیار سازی کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر پہلے ہی مثال قائم کر دی تھی۔

    اداریے میں کہا گیا کہ ایران پر پابندیوں کے واضح نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے، اس لیے حملے ضروری ہیں۔ سعودی اخبار سعودی حکومت کے ریسرچ اور مارکیٹنگ گروپ کا حصہ ہے۔

    خیال رہے کہ امریکا سرکار کی جانب سے گزشتہ دنوں ایران پر پابندیوں کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دستوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے.

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں‌ عسکری اشتعال انگیزی کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ امریکا ایک برس قبل ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔

    یاد رہے کہ ایرانی وزیر دفاع میجر جنرل امیر حاتمی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران کسی بھی نوعیت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اعلی ترین دفاعی عسکری استعداد کا حامل ہے۔

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔