کراچی: سندھ پبلک سروس کمیشن کے افسران کے خلاف کیس میں ہائیکورٹ نے افسران کے خلاف نیب انکوائری پر اظہار برہمی کیا ہے، اور عدالت نے حکام کو 2 روز میں انکوائری سے متعلق دستاویز پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایس پی ایس سی افسران کو موصول نوٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے، بتایا جائے کس قانون کے تحت ملزمان کو تحقیقات کے لیے نوٹس بھیجا گیا۔
جج نے کہا نیب کا کال اپ نوٹس سوشل میڈیا پر ناچ رہا تھا، بظاہر ایسا لگتا ہے ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن افسران کا میڈیا ٹرائل کر رہا ہے، کال اپ نوٹس کی زبان دیکھیں تو لگتا ہے ملزمان کو بغیر ٹرائل 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے، نوٹس ملنے کے بعد تو لوگ پریشان ہیں کہ انھیں بغیر ٹرائل سزا ہو گئی۔
عدالت نے کہا ہم چیئرمین نیب سے پوچھتے ہیں کہ 2018 کی شکایت پر 2025 میں کیسے تحقیقات ہو رہی ہیں؟ لگتا ہے نیب تحقیقات کرنے کا اہل ہی نہیں ہے، ایک انکوائری کو مکمل کرنے میں 7 برس لگتے ہیں؟ بتایا جائے کہ نیب انکوائری میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ قانون کے مطابق نیب کو 6 ماہ میں انکوائری مکمل کرنی ہوتی ہے، عدالت نے کہا لیکن آپ چھ ماہ کے بجائے چھ سال میں بھی انکوائری نہیں کر سکے ہیں، ہم خود کو ریمارکس دینے سے روک رہے ہیں، کبھی نوٹس جاری کیا جاتا ہے، کبھی نوٹس گم ہو جاتا ہے،کیوں نہ چیئرمین نیب کو تمام تفتیشی افسران کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیں؟
سندھ ہائیکورٹ نے کہا نیب 2025 میں نوٹس پر ہی چل رہا ہے، نیب تو تقرریوں سے متعلق تحقیقات کر ہی نہیں سکتا، تفتیشی افسر نے کہا نیب تقرریوں اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے معاملے پر تحقیقات کر سکتا ہے، جج نے کہا ملزمان کے خلاف شواہد ہوتے تو ہم ابھی ریفرنس دائر کرنے کا کہہ دیتے، آئی او نے بتایا کہ ممبر ایس پی ایس سی کے خلاف اس لیے تحقیقات کر رہے ہیں کہ افسران کے اپنے ہی لوگوں کو بھرتی کیا گیا، قانون نیب کو اس معاملے کی تحقیقات کی اجازت دیتا ہے۔
عدالت نے کہا ایک ادارے پر بھروسہ کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہتا، اگر اس معاملے میں کرپشن ہوئی تو ہم نیب کو سپورٹ کریں گے، لیکن نیب کو کسی کو ہراساں نہیں کرنے دیں گے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ مختلف اداروں کو خطوط لکھے گئے ہیں، ملزمان کی پراپرٹی و دیگر ریکارڈ کے حصول میں وقت لگ رہا ہے، جج نے کہا نیب اور ایف بی آر شناختی کارڈ نمبر سے تمام ریکارڈ حاصل کر لیتا ہے، آئی او نے کہا یہ وائٹ کالر کرائم ہے، تحقیقات کے لیے وقت دیا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ نے اس کیس میں درخواست کی مزید سماعت 24 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔