Tag: نیب ترامیم کیس

  • نیب ترامیم کیس :  جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا ، جس میں انھوں نے کہا فیصلے سے متفق ہوں لیکن وجوہات کی توثیق پر خود کو قائل نہیں کرسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی نے نیب ترامیم کیس میں اضافی نوٹ جاری کردیا، اضافی نوٹ بائیس صفحات پر مشتمل ہے۔

    اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فیصلے سے متفق ہوں لیکن وجوہات کی توثیق پر خود کو قائل نہیں کرسکا۔

    جسٹس حسن اظہر کا کہنا تھا کہ فیصلے میں اصل مدعے پر خاطر خواہ جواز فراہم نہیں کیا گیا اور فیصلے میں سابق ججز کے حوالے سے غیر مناسب ریمارکس دیے گئے،عدالتی وقار کا تقاضا ہے کہ اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔

    اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ تنقید کا محور قانونی اصول ہوں نا کہ فیصلہ لکھنے والوں کی تضحیک کی جائے، عدالتی وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کی اپنی الگ وجوہات تحریر کررہا ہوں۔

    جسٹس حسن اظہر نے مزید کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت انٹرا کورٹ اپیل روایتی اپیلوں سے منفرد ہے،سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل اپنے ہی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کیلئے ہے،سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کسی ماتحت عدالت کےفیصلے کیخلاف نہیں ہوتی،انٹرا کورٹ اپیل سننے والے بینچ کو مقدمے کے حقائق کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔

  • نیب ترامیم کیس :  بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

    نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

    اسلام آباد: نیب ترامیم کیس میں بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سےمتعلق حکومتی اپیلوں پر سماعت شروع ہوگئے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

    جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بینچ کا حصہ ہیں

    بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔

    اپیل کنندہ زوہیراحمد صدیقی کےوکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرادیں، کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں ؟

    وکیل نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کوسپورٹ کرتاہوں، جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپنا رہے ہیں تو ،فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل اپنے ہیں، تحریری معروضات میں عدالتی فیصلےکےمختلف نکات کی نشاندہی کی ، میں نے سپریم کورٹ فیصلےپر اپنے دلائل تحریر کئے ہیں۔

    عدالتی معاون اور بانی پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا ، خواجہ حارث اصل مقدمےمیں بانی پی ٹی آئی کے وکیل تھے تاہم اپیلوں میں خواجہ حارث کو سپریم کورٹ کی جانب سے معاونت کیلئےبلایاگیا۔

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ؟ تو خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سےبتاچکا، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔

    جسٹس جمال مند و خیل نے سوال کیانیب کی کارروائی کیلئےعوام کا اختیار کتنا ہے،میری سمجھ کےمطابق توکوئی بھی شہری شکایت درج کرسکتاہے،یہ اختیار نیب کاہے پتہ کریں کرپشن ہوئی یانہیں؟

    چیف جسٹس نے استفسار کیا نیب آرڈیننس کب آیا؟ وکیل نے بتایا کہ یہ 1999میں آیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نام لیں نہ وہ کسی کا دور تھا؟خواجہ حارث نے کہا کہ پرویز مشرف کا دور تھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کوسسٹم سے باہرکرناچاہتےتھے؟ وکیل نے بتایا کہ پرویزمشرف سے پہلےبھی احتساب بیورو موجود تھا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کااختیار کیوں رکھاگیا ، غیرمنتخب پبلک آفس ہولڈرپرکیوں نیب کااختیارنہیں رکھاگیا؟ چیف جسٹس نے بھی پوچھا کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟

    وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کیاتھا، بینچ پراورانٹرا کورٹ اپیلوں کےقابل سماعت ہونےپردلائل دوں گا ،سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار نیب ترامیم سےکون سےبنیادی حقوق متاثرہوئےہیں، کیا آپ کو نیب پرمکمل اعتمادہے ، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل دوں گا کہ اقلیتی رائے درست نہ تھی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے مزید استفسار کیا کیاآپ 90دنوں میں نیب ریمانڈسےمطمئن ہیں ، کیاآپ 500 ملین سےکم کرپشن پربھی نیب کارروائی کےحامی ہیں تو وکیل کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم اس لئےکی گئیں کیونکہ مخصوص سیاسی رہنمااسوقت سلاخوں کےپیچھےتھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے صرف سیاستدانوں کو نیب دائرہ اختیارمیں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سےبالاترہے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم مخصوص شخصیات کیلئےتھیں پبلک آفس ہولڈر صرف سیاستدان نہیں، عوامی نمائندوں کےاحتساب سےمرادصرف منتخب نمائندوں کااحتساب نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کسی محکمے میں کرپشن ہوتی ہے تو ذمہ دار پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے، منتخب نمائندے کےپاس پبلک فنڈزتقسیم کا اختیار کہاں ہوتاہےکوئی مثال بتائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے کوئی منتخب نمائندہ یاوزیرمتعلقہ سیکریٹری کی سمری کےبغیر منظوری نہیں دیتا ، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں کوئی ایسا بیان تونہیں دینا چاہتاکہ سیاستدان کرپٹ ہوتا ہے۔

    جسٹس جمال نے سوال کیا کیاسیکریٹری سمری میں لکھ دے یہ چیز رولز کیخلاف ہے تووزیر منظوری دےسکتاہے؟ تو خواجہ حارث نے کہا کہ وزیر منظوری نہیں دیتا مگر اس کے باوجود کرپشن ہوتی ہے، پراپرٹی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنےہیں تو جسٹس جمال مند و خیل کا کہنا تھا کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں دلائل میں تین گھنٹے سےزیادہ وقت لوں گا اور بتاؤں گا نیب ترامیم کا معاملہ بنیادی حقوق سےکیسے جڑا ہے، درخواست گزار کی مرضی سےمتعلق بینظیر کیس میں طے تھا ، درخواست گزار کی مرضی ہے وہ مفاد عامہ پر ہائیکورٹ یاسپریم کورٹ سےرجوع کرے، دونوں فورمز پر ایک ساتھ درخواست دائر کرنےپر پابندی ہے،بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ آنے پراعتراض نہیں بنتا تھا, چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست پھر کس نےدائرکی تھی۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست ہائیکورٹ بار نے دائر کی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس ہائیکورٹ کا ریکارڈ آگیا ہے وہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے ،شعیب شاہین نے حامد خان کےذریعے درخواست دائر کر رکھی ہے، شعیب شاہین نے ہائیکورٹ سے یہ کہہ کر التوا لیا تھا کہ ہمارا کیس اب سپریم کورٹ میں ہے۔

    جس پر عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ حامد خان کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا، سپریم کورٹ میں درخواست جون2022   میں دائر کرچکے ہیں ، ہائیکورٹ میں درخواست جولائی میں دائر ہوئی ، پبلک آفس ہولڈر صرف سیاستدان ہی نہیں ہوتے، کرپشن منتخب نمائندے نہیں بلکہ پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کرتا ہے، معذرت چاہتا ہوں میں اس سے متفق نہیں، سیاستدان کرپٹ نہیں ہوتے یہ تو سلیپنگ اسٹیٹمنٹ ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ نیب قانون سے سیاست دانوں کو نکال دیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے اعلیٰ حکام میں انکار کرنے کی جرات ہونی چاہئے، ہم زخم کو ٹھیک کرنے کیلئے بنیادٹھیک کریں گے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں دلائل کیلئے ایک سال لیں گے تو معذرت ہے، تحریری دستاویزپڑھنے کےبجائے آپکے دلائل سننا چاہتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے دلائل کےلئے تین گھنٹے کا وقت چاہئے، آپ کہتے ہیں میں 30منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ 30منٹ میں دلائل مکمل کرلیں۔

    عدالتی معاون نے کہا کہ میری رائےمیں جسٹس منصورعلی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجر قانون کے خلاف کیس کوپہلے لگایاجاناچاہئےتھا، باہر جاکرکیمرےپرگالیاں دیتےہیں،گالیاں دیناتوآسان کام ہے۔

    جسٹس جمال نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت نےپریکٹس اینڈ پروسیجرکیس پر جلدسماعت کی درخواست دی، اٹارنی جنرل نےبتایا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا اورحکم امتناع دیا گیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے انصاف ناصرف ہوناچاہئے بلکہ انصاف ہوتاہوا نظر بھی آنا چاہئے، اگرمیں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، دنیا کی رینکنگ میں پاکستان کانمبر اسی وجہ سےگراوٹ کاشکار ہے، اس طرح کےحکم امتناع سےخرابیاں پیدا ہوتی ہیں، میری رائے ہے کہ قانون معطل نہیں ہوسکتا،نیب ترامیم اتنی خطرناک تھی تواسے معطل کردیتے۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں درخواست شعیب شاہین نےبطورصدرباردائرکی تھی، چیف جسٹس نے سوال کیا شعیب شاہین ٹی وی پر تو بات کرتےہیں یہاں آ کر ہمیں بھی جواب دیں نا؟ مرکزی کیس میں سپریم کورٹ نے53 سماعتیں کی شعیب شاہین ایک دن نہیں آئے، ٹی وی کیمرہ یہاں لگادیں تو لمبی لمبی تنقیدکریں گے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے خواجہ صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں جبکہ چیف جسٹس کا عدالتی معاون سے کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا وجہ بتائیں، خواجہ حارث نے بتایا کہ جسٹس منصورعلی شاہ کےنوٹ میں یہ نقطہ طےہوچکا،پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں زیرالتوادرخواست کوواپس لگانےکی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟باہر کیمرے پر جاکرگالیاں دینگے یہاں آکرہمارے سامنےتنقیدکریں نا؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطلی کے بعد اس ایکٹ کاکیس کیوں نہ سنا گیا؟ نیب ترامیم والا کیس چلانے میں ہی جلدی کیوں کی گئی؟شاید انہی حربوں کی وجہ سے ہماری عدلیہ کی رینکنگ نیچے ہے؟ کیا نیب ترمیم کو کیس کے دوران معطل کیا گیا تھا۔

    عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ نیب ترمیم کو کیس کےدوران معطل نہیں کیاگیاتھا تو چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو تو معطل کردیاتھامیری رائےمیں قانون معطل نہیں ہوسکتا، 53سماعتوں تک ترامیم زندہ رہیں، پارلیمنٹ کے قانون کومعطل کرناپارلیمنٹ کی توہین ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کے قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نےعدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا،باہر جاکر بڑےشیربنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہئے۔

    مزید پڑھیں : بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    گزشتہ روز سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے متعلق کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کیا تھا۔

    جس میں کہا گیا تھا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ کیس کی کارروائی براہ راست نشرکرنے کی درخواست منظورکی جاتی ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ کےلئے براہ راست نشرکرنا ضروری ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہنا تھا کہ کیس کی 31 اکتوبر 2023 اوررواں سال14 مئی کی سماعت براہ راست نشرہوئی، بانی پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا تھا کہ نیب ترامیم کیس کی پہلے براہ راست نشر ہوچکا ہے ، پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد184تین کے مقدمات بنچ ون سےلائیودکھائے گئے۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق نیب ترامیم کیس میں اپیل بھی 184 تین کے کیس کیخلاف ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کوجب پھانسی دی گئی وہ عام قیدی نہیں تھیں ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عام قیدی نہیں تھے۔

  • بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر اختلافی نوٹ میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں، وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کردیا۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ کیس کی کارروائی براہ راست نشرکرنے کی درخواست منظورکی جاتی ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ کےلئے براہ راست نشرکرنا ضروری ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کیس کی 31 اکتوبر 2023 اوررواں سال14 مئی کی سماعت براہ راست نشرہوئی، بانی پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، بانی پی ٹی آئی کو براہ راست دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس کی پہلے براہ راست نشر ہوچکا ہے ، پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد184تین کے مقدمات بنچ ون سےلائیودکھائے گئے۔

    اختلافی نوٹ میں مزید کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس میں اپیل بھی 184 تین کے کیس کیخلاف ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کوجب پھانسی دی گئی وہ عام قیدی نہیں تھیں ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عام قیدی نہیں تھے۔

    جسٹس اطہر نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم کیخلاف نیب اختیار کاغلط استعمال کرتارہا،سابق وزرائےاعظم کی عوامی نمائندہ ہونے پر تذلیل ،ہراساں کیا گیا۔

    مزید پڑھیں : نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی بھی عام قیدی نہیں ہیں، لاکھوں لوگ ان کےپیروکارہیں، حالیہ عام انتخابات کےنتائج اس کاثبوت ہیں ، ایس او پیز کا نہ بننا کیس براہ راست نشر کرنے میں رکاوٹ نہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے قمر باجوہ کو ایک انٹرویو میں سپرکنگ قرار دیا اور کہا قمرجاوید باجوہ نیب کو کنٹرول کر رہے تھے جبکہ نواز شریف نے کہا پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا تھا۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ نے ان بیانات کی تصدیق بھی کی اور سیاست میں مداخلت کوتسلیم کیا، نیب کو سیاسی انجینئرنگ، مخالفین کو ہراساں اور نیچا دکھانےکیلئےاستعمال کیاگیا ، ناقدین،سیاسی مخالفین کی گرفتاریاں ،تذلیل کی گئیں اور نیب کا نشانہ بنے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی ، چیف جسٹس فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے درخوست مسترد کی جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سےاختلاف کیا تھا۔

  • نیب ترامیم کیس: بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی، مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم

    نیب ترامیم کیس: بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی، مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل بینچ ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔

    بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، ایڈووکیٹ جنرل کےپی نے سماعت براہ راست دکھانے کی استدعا کی۔

    جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں ہے، آخری سماعت پرتو آپ نے ایسی درخواست نہیں دی۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا اسےختم کریں اوربیٹھ جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ کیس براہ راست دکھانا چاہیے کہ منفی تاثر نہ جائے۔

    سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق بینچ مشاورت کیلئے اٹھ کرچلاگیا، نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

    وقفے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کردی۔

    عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا اور خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔

    حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے خواجہ حارث جب ملنا چاہیں مل سکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پچاس لوگ ساتھ لے کرنہ جائیں، ایک دو وکیل جب چاہیں مل سکتےہیں۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تو اٹارنی جنرل نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے،اب آئندہ سماعت پر فاروق ایچ نائک ایک گھنٹہ دلائل دیں گے جبکہ خواجہ حارث نے دلائل کیلئے تین گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔

    سماعت کے آخرمیں بانی پی ٹی آئی اورچیف جسٹس کےدرمیان مکالمہ ہوا، چیف جسٹس کا کہنا تھا آئندہ سماعت کیلئے تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کریں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

  • نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق  نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی ، سپریم کورٹ نے درخواست 1-4 کے تناسب سے مسترد کی۔

    چیف جسٹس فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے درخوست مسترد کی جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سےاختلاف کیا۔

    سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں ہے، آخری سماعت پرتو آپ نے ایسی درخواست نہیں دی۔

    مزید پڑھیں : نیب ترامیم کیس: بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا اسے ختم کریں اوربیٹھ جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ کیس براہ راست دکھانا چاہیے کہ منفی تاثر نہ جائے۔

    بعد ازاں سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق بینچ مشاورت کیلئے اٹھ کر چلا گیا تھا۔

  • نیب ترامیم کیس کی سماعت :  بانی پی ٹی آئی  آج پھر  ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے

    نیب ترامیم کیس کی سماعت : بانی پی ٹی آئی آج پھر ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے

    اسلام آباد : نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت میں آج بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پرسماعت آج ہو گی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کےذریعےعدالت میں پیش ہوں گے، کے پی حکومت نے مقدمہ براہ راست نشرکرنے کی درخواست کی ہے۔

    مزید پڑھیں : نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    گزشتہ سماعت پربانی پی ٹی آئی ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوئے تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے، مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کرفیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکےبینچ اسکے خلاف بناکردیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔

    واضح رہے بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کوچیلنج کیا تھا، جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر کالعدم قرار دیا، بعد ازاں تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نےانٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔

    سپریم کورٹ نے عوامی عہدہ رکھنے والے سیاستدانوں کے کرپشن کیسز سات روز کے اندر دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا جہاں سے یہ روکے گئے تھے۔

  • ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں،  جسٹس اطہر من اللہ

    ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیئے کہ ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سےمکالمہ آپ کہیں جا رہےہیں تو خواجہ حارث نے جواب دیا میں ادھر ہی ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ مرکزی درخواست گزاربھی کہیں نہیں جا رہےکیونکہ وہ اڈیالہ میں قیدہیں، جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایساکہنے والےدرحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہ ایساہو رہا ہےاورنہ ہی ایسا ہونا چاہیے، عدالت نے آئندہ سماعت پربھی بانی پی ٹی آئی کو ویڈیولنک کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگا۔

  • نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    اسلام آباد : نیب ترایم کیس میں بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوگیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کر پیش

    بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیاگیا، نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف اپیلوں پر سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ سماعت براہ راست دکھانے کا فیصلہ کرے گا۔

    اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کےکورٹ روم میں وکلا کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی؟ کیا نیب ترامیم کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر التوا ہے؟

    چیف جسٹس نے سوال کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا جی بالکل ویڈیو لنک چل رہا ہے۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کل میں نے چیک کیا تھا، درخواست اب تک زیر التوا ہے۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کرموجود ہیں، خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

    بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے استفسار

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تمام وکلاسے سینئر ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پر سماعتوں کاحکم نامہ طلب

    وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواہے، جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے اسلام آبادہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پرسماعتوں کاحکم نامہ طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں ، مخدوم علی خان صاحب اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔

    یب ترامیم کیس کی بانی پی ٹی آئی کے سابقہ وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے ، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی ، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں اور کہا کہ 19جولائی 2022 کو درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری ہوئے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ تو وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔

    چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا، کیا آپ نے کیس کو طول دیا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 1999میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارشل لا کے فوری بعدایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیاتھا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے تعجب کی بات ہےکہ نیب ترامیم کیس 53  سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا، مخدوم علی خان آپ کیس میں موجودتھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔

    مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا ؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نےاس سوال کاجواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکرکیا تھا۔

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ کر سنایا

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پرہم دو ججز نے ناقابل سماعت کردیاتھا ، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التواہےاس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ بار نے جو الیکشن کافیصلہ دیا اس کے خلاف انٹراکورٹ حکم جاری نہیں ہواتھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس کا جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ

    چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمے میں کہا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12  دن میں الیکشن کرادیئے، آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یابدقسمتی سے میں نہیں تھا۔

    بانی پی ٹی آئی کی اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت

    بانی پی ٹی آئی نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلایا اور اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت کی ، جس پر ویڈیو لنک پر پولیس اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔

    وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ بینظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں، ہائیکورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا، ہم نے کیس ناقابل سماعت ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا تھا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جس نےباتیں کرنی ہیں وہ کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ سر عدالتی کارروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی ، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، چیف جسٹس کا سوال

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ کب ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، وکیل مخدوم نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعدکافی سماعتیں ہوئیں۔

    دوران سماعت ایک وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں تو وکیل کا کہنا تھا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجرمعطل کرنادرست تھایاغلط ،اس عدالت کے حکم سےمعطل تھا۔

    مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے ، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا بھی کہنا تھا کہ قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے، مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کرفیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکےبینچ اسکے خلاف بناکردیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرناکیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اچھا تھا یا برا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوعدالت نے معطل کر رکھا تھا، ایکٹ معطل ہونے کے  سبب کمیٹی کاوجود نہیں تھا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرپررائے دی ، انھوں نے رائےدی پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کئےبغیر نیب کیس پرکارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بطور سینئرترین جج یہ نقطہ اٹھایاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائرکرسکتا ہے اوروہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈپروسیجر کےتحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتاہے متاثرہ فریق بھی لاسکتاہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھربل پاس کرنیوالے  حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتےہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے اور قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، قانون معطل کرنے کے بجائے روزانہ سن کر فیصلہ کرنا چاہے تھا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022کے فالو اپ پر2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔

    بانی پی ٹی آئی نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھارہے ہیں تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجودہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سےجواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے، مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگرآرڈیننس لائے، نیب ترامیم کامعاملہ پارلیمانی تنازع تھاجسےسپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سےمعاملہ سپریم کورٹ لایاگیا۔

    عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل پرکوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلےکیخلاف ووٹ دےسکتا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا گتھا کہ اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے۔

    مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئےکوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔

    آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔

    پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، آئین پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، صدر اور آرڈیننس دونوں ہی پارلیمان کوجواب دہ ہیں، آرڈیننس منظوری کیلئے پارلیمان کو ہی بھیجا جاتا ہے۔

    اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، چیف جسٹس

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، پارلیمان بعد میں مسترد کر دے تب بھی گاڑی توخریدی جا چکی ہوگی۔

    بعد ازاں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پرسماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

  • بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ، تحقیقات شروع

    بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ، تحقیقات شروع

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے زریعے پیش ہونے والے بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    عمران خان وائرل

     

    سپریم کورٹ پولیس نے بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی تصویرکمرہ عدالت کےبائیں جانب بیٹھےافرادمیں سےکسی نےبنائی، کمرہ عدالت کی بائیں جانب موجود افراد سےپوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔

    پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ کمرہ عدالت میں جانیوالے افراد کی تلاشی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

    دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ رہنما پی ٹی آئی شوکت بسرا نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی تصویر انھوں نے بنائی ہیں۔

    خیال رہے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے، بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں موجود ہیں اور حکومتی وکیل دلائل دے رہے ہیں۔

    اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی بڑی تعدادسپریم کورٹ میں موجود ہے،  فیصل جاوید،اعظم سواتی ،شبلی فراز ،علی محمد خان ، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خانم اور عظمی خانم ، نعیم حیدرپنجوتھا،بابراعوان،فیصل چوہدری ،بیرسٹر علی ظفر کمرہ عدالت میں ہیں۔

  • بانی پی ٹی آئی آج  ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    بانی پی ٹی آئی آج ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    اسلام آباد : بانی پی ٹی آئی آج نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

    سماعت ساڑھے11بجےکمرہ عدالت نمبرایک میں ہوگی، جس میں بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔

    جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی وڈیو لنک سے پیشی کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔

    اڈیالہ جیل انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کو وڈیو لنک کے ذریعے پیشی سے متعلق آگاہ کردیا، سپریم کورٹ عملے اور جیل اتھارٹیزکے مابین وڈیو لنک کنکشن سے متعلق رابط بھی کیاگیا، بانی پی ٹی آئی کی پیشی سے قبل وڈیو لنک کا ٹیسٹ بھی کیا جائے گا۔

    نیب ترامیم کیس میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی وڈیو لنک کے ذریعے دن 11:30 بجے پیش ہوں گے، گزشتہ روز وہ   وکیل خواجہ حارث،انتظار پنجوتھاجیل میں ملاقات کرچکےہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی  کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ درخواست گزار اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں اور ان کی نمائندگی نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف کے بانی کا خط پہلے ہمارے نوٹس میں نہیں لایا گیا، پہلے بتایا جاتا تو اس حوالے سے مشاورت کر کے انتظامات کرتے، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اس کیس میں فریق ہیں، ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، اس لیے ان کی ویڈیو لنک پر حاضری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔