Tag: نیب ترامیم کیس

  • سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق آج منگل کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ درخواست گزار اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں اور ان کی نمائندگی نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا بانی پی ٹی آئی کا خط پہلے ہمارے نوٹس میں نہیں لایا گیا، پہلے بتایا جاتا تو اس حوالے سے مشاورت کر کے انتظامات کرتے، بانی پی ٹی آئی اس کیس میں فریق ہیں، ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر حاضری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ کب تک انتظامات کرلیں گے؟ اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ایک اپیل وفاق کی ہے، دوسری اپیل پرائیویٹ ہے، متاثرہ فرد ہی اپیل دائر کر سکتا ہے، وفاق کیسے متاثرہ فریق ہے؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا وفاقی حکومت کی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا اس لیے ہم متاثرہ فریق ہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں اصول طے کیا کہ فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہو سکتی، عدالت متاثرہ فریق کی تشریح کر چکی کہ حکومت متاثرہ فریق نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر کوئی مرکزی کیس میں فریق ہے تو وہ متاثرہ ہوتا ہے، جس کے خلاف بھی فیصلہ ہو اسے اپیل کا حق ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کسٹمز ایکٹ کیس میں عدالت قرار دے چکی کہ کوئی متاثرہ فریق نہیں ہو سکتا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ کسٹمز کے کیس میں اپیل ایک افسر نے دائر کی تھی، کیا وفاق کو حق نہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا دفاع کر سکے؟ نیب ترامیم سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا تھا، چیف جسٹس نے کہا مناسب ہوگا آپ اپنے بنیادی نکات ہمیں لکھوا دیں، بنیادی نکات عدالتی حکم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی تک پہنچ جائیں گے تاکہ وہ جواب دے سکیں، کیوں کہ اس وقت وہ آپ کے دلائل نہیں سن رہے۔

  • نیب ترامیم کیس : جسٹس منصورعلی شاہ کا  اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس مین جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ، جسٹس منصورعلی شاہ نے نوٹ میں لکھا کہ قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا، جس میں کہا ہے کہ عدلیہ قانون سازی کاتب جائزہ لےسکتی ہےجب انسانی حقوق سےمتصادم ہو، قانون سازی جانچناپارلیمنٹ،جمہوریت کونیچا دکھانےکےمترادف ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ درخواست میں نہیں کہ عوامی عہدہ رکھنےوالوں کافوجداری قوانین پراحتساب کیسےبنیادی حق ہے، نیب ترامیم کیس میں درخواست گزارکے بنیادی حقوق کا مؤقف غیریقینی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکامؤقف تسلیم کیاتوپارلیمان کیلئےکسی بھی موضوع پرقانون سازی مشکل ہوگی، پارلیمان کی جانب سےقوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں، اداروں میں توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اداروں میں احترام کا تعلق قائم ہو۔

    اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں عدلیہ کوایگزیکٹویامقننہ کےمخالف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، عدلیہ کوتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیےجب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو، درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ آرٹیکل8ٹوکےتحت درخواست میرٹس لیس ہونےکی وجہ سےخارج کرتاہوں، سمجھنا ہوگابنیادی حقوق کی ضمانت ترقی پسند،لبرل ،متحرک نقطہ نظر سے آئین میں دی گئی، بنیادی حقوق کا یہ مطلب نہیں ججز کوان الفاظ ،تاثرات کوکوئی مصنوعی معنی دینےکی آزادی ہے۔

    نوٹ میں مزید کہا گیا کہ بنیادی حقوق پرآئینی رہنمائی معروضی معیار سےہونی چاہیےنہ کہ جھکاؤ، موضوع کی بنیاد پر، پارلیمان جو قانون بنا سکتی ہے اسے واپس بھی لےسکتی ہے، متعدد سوالات کےباوجود درخواست گزار نہیں بتا سکا کون ساآئینی بنیادی حق ختم یا کم کیا گیا۔

     

     

  • نیب ترامیم کیس  کے فیصلے پر نگراں وزیراعظم  کا ردعمل آگیا

    نیب ترامیم کیس کے فیصلے پر نگراں وزیراعظم کا ردعمل آگیا

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس کے فیصلے پر نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے وزارت قانون کے مؤقف کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا شیئرکریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سپریم کورٹ کے نیب ترامیم کیس میں فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم کیس پر وزارت قانون کے مؤقف کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا شیئر کریں گے۔

    انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت ہر کسی کیلئے قانون برابر ہے، ہماری پوری کوشش ہو گی نیک نیتی سے کام کریں۔

    انتخابات کی تاریخ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اگرانتخابات کی تاریخ کااعلان میں کروں گا توغیرقانونی کام کرونگا، آپ ہی ہمیں غیرقانونی کام کی طرف راغب کرینگے توکیا جواب دوں.

    انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کسی چھوٹی یا بڑی مچھلی کو نہیں جانتا ،میں صرف قانون کی مچھلی کو جانتا ہوں۔

    نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہمارے ایجنڈےکی ٹاپ لسٹ میں ہے، نیشنل ایکشن پلان کےتحت ہماری ایپکس کمیٹی ریوائوہوئی ہیں، ملٹری اورسویلین لااینڈفورسمنٹ کی جانب سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وی لاگ ایسا پلیٹ فارم ہے،جو بہت زیادہ پاپولر ہوگیا ہے، ایسی کوئی چیزنہیں کہ پالیسیزکےحوالےسےسوالات نہ اٹھائے گئے ہوں، ہمارے خطے میں ہم رہ رہے ہیں سب سے زیادہ آزادی اظہار رائے پاکستان میں ہے، کئی ٹاک شو دیکھتا ہوں، جس میں حکومت پر تنقید ہوتی ہے، بہت سی تنقید پر ہمیں اتفاق نہیں ہوتا مگر وہ پھر بھی آن ایئر ہوتی ہیں۔

  • سپریم کورٹ  میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ آج سوا 12بجے  سنایا جائے گا

    سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ آج سوا 12بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ آج سوا 12بجے سنایا جائے گا، نیب ترمیم کے خلاف فیصلہ 5 ستمبرکومحفوظ کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ آج سوا 12بجے سنایا جائے گا، کاز لسٹ جاری کردی گئی۔

    سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے نیب ترمیم کیخلاف درخواست دائرکی گئی تھی ، جس پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے نیب ترمیم کے خلاف فیصلہ 5 ستمبرکومحفوظ کیا تھا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، سپریم کورٹ میں50سےزائدسماعتیں کی گئیں۔

    چیف جسٹس نے ریماکس دیئے تھے کہ وقت کی کمی کے باعث مختصر اور سویٹ فیصلہ جلد سنائیں گے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا تھا کہ ریفرنس واپسی کی وجوہات سےاندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے، کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پرآچکا ہے، نیب قانون کے سیکشن تئیس میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سےپہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کوبھیجنے کا کوئی اختیار ہے؟ بظاہرکسی رکن اسمبلی کا کیس دوسری عدالت منتقل نہیں ہوا۔

    یاد رہے سماعتوں کے دوران نیب نے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والے ملزمان کی تفصیلات اور رواں سال ان ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تفصیلات سامنے آئیں تھیں۔

    عدالت عظمیٰ میں نیب کی جانب سے جمع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رواں سال 30 اگست تک 12 ریفرنس نیب عدالتوں سے منتقل ہوئے۔ ان ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں جب کہ خورشید انور جمالی، منظور قادر کاکا، خواجہ انور مجید کے نیب مقدمات منتقل ہوئے۔

    واضح رہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے نیب ترامیم کیخلاف آئینی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کر رکھی ہے، جس میں عدالت عظمیٰ سے اختیارات سے تجاوز کو جائز قرار دینے کی کوشش ناکام بنانےکی اور نیب قوانین میں ترامیم کو خلاف آئین قرار دیکر فوری طور پر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی، جس میں وفاق پاکستان اور نیب کو بھی فریق بنایا گیا۔

    چیئرمین پی ٹی آئی نے معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو اٹھاتے ہوئے درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ترامیم کرنے والوں نے اپنی ذات کو بچانے کیلئے نیب قانون کا حلیہ ہی بدل دیا گیا ہے ان ترامیم کے بعد بیرون ملک سے آئے شواہد عدالت میں قابل قبول نہیں ہونگے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ نیب قانون کے سیکشن 2،4،5، 6،14، 15، 21، 23، 25 اور 26 میں ترامیم آئین کے منافی ہیں، ترامیم آرٹیکل 9،14،24 ،25 اور 19 اے کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، اس لیے استدعا کی جاتی ہے کہ نیب قانون میں کی گئی یہ تمام ترامیم کالعدم قرار دی جائیں۔

  • نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ ،  مختصر اورسویٹ  فیصلہ جلد  سنائیں گے، چیف جسٹس

    نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ ، مختصر اورسویٹ فیصلہ جلد سنائیں گے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریماکس دیئے وقت کی کمی کے باعث مختصر اور سویٹ فیصلہ جلد سنائیں گے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی، خواجہ حارث نے بتایا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التوامقدمات کو واپس کردیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ترامیم میں ایسی کوئی شق ہے جس سےمقدمات دوسرےفورمزکوبھجوائے جائیں ؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا تو خواجہ حارث نے بتایا کہ پہلے تحقیقات پھرجائزےکے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائےجائیں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واپس ہونے والے مقدمات کےمستقبل سےمتعلق کسی کو معلوم نہیں، نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمزپر بھی جائیں گے ؟ کیا نیب کےپاس مقدمات دوسرے فورمز کوبھیجنےکا کوئی اختیار ہے ؟

    جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کےپاس نہیں ، مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیارنہیں کیا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کےدفتر میں قتل ہوگا تومعاملہ متعلقہ فورم پرجائے گا، مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں ، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے، دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس پرضرور پوچھیں گے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں، اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرا دوں گا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نے نہیں آنا تھا عدالت کو بتا دیتے، اٹارنی جنرل کے نہ آنے کا معلوم ہوتا تو معمول کے مقدمات کی سماعت کرتے اٹارنی جنرل کی وجہ سے صبح ساڑھے9بجےکیس مقرر کیا تھا۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ابھی تک نیب مقدمات واپس ہونے سے تمام افراد گھرہی گئے ، یہ بھی کہاگیا نیب ترامیم وہی ہیں جن کی تجویزپی ٹی آئی دور میں دی گئی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کےکنڈکٹ سے لینا دینا نہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔

    وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے نے بتایا کہ کہا گیا کہ نیب ترامیم سے میں ذاتی طور پر فائدہ اٹھا چکا ہوں، میں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانا ہوتا تو اسی قانون کیخلاف نہ کھڑا ہوتا، چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے مگرنیب کو بتا دیا فائدہ نہیں اٹھائیں گے، نیب کو جمع کرایا گیا بیان بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے زیرالتواتحقیقات ،انکوائریزترامیم کے بعد سردخانے میں جاچکی ہیں، تحقیقات منتقلی کا مکینزم بننےتک عوام کے حقوق براہ راست متاثرہوں گے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ منتخب نمائندوں کو بھی 62 ون ایف کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، منتخب نمائندے اپنے اختیارات بطور امین استعمال کرتے ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے، جس پروکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پرسزائیں موجودہیں تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سزائیں سول افسران ،عوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، خواجہ حارث نے مزید کہا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے کرپشن پر فوجداری سزا نہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل209کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جج برطرف ہو جائے تو نیب کو کارروئی کرنی چاہیے۔3

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اثاثےکرپشن کی نذرہوں،ا سمگلنگ یاسرمایہ کی غیر قانونی منتقلی اور کارروائی ہونی چاہئیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنایا ریاست کی ذمہ داری ہے، ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی افسران سے متعلق نیب قانون کی توثیق سپریم کورٹ ماضی میں کر چکی،ججز کے حوالے سے نیب قانون مکمل خاموش ہے، ریٹائرڈ ججز کیخلاف شکایات کے ازالے کیلئےکوئی فورم موجود نہیں، ججز ریٹائرمنٹ کےبعد6 ماہ تک فیصلے تحریرکرتےرہتے ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ قانون سازوں نے جن اقدامات کوجرم قرار دیا انہیں اب ختم کر دیا توکیا ہوگا؟ قانون سازوں کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونےدیں۔

    سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سےمتعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائےگا، معاونت پرتمام وکلا کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کردی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہونے کی وجہ سے آج پیش نہ سکے، پیش نہ ہونے پر اٹارنی جنرل معزرت خواہ ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث مختصر اور سویٹ فیصلہ دیں گے، ریفرنس واپسی کی وجوہات سےاندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے، کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پرآچکا ہے، نیب قانون کے سیکشن تئیس میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سےپہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کوبھیجنے کا کوئی اختیار ہے؟ بظاہرکسی رکن اسمبلی کا کیس دوسری عدالت منتقل نہیں ہوا۔

  • نیب ترامیم کیس : جسٹس منصور علی شاہ  کا نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں جاری نوٹ جاری کر دیا، جس میں کہا کہ فریقین کو موقع دینا چاہتا ہوں کہ بینچ کی قانونی حیثیت پر معاونت کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کےخلاف کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کا2 صفحات پر مشتمل نوٹ بھی شامل ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے نیب ترامیم کیس میں جاری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت 3 رکنی کمیٹی بینچزتشکیل دینے کی مجاز ہے، 16مئی کی سماعت سے قبل بھی چیف جسٹس کو بینچ پر تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔

    نوٹ میں کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی آئندہ تاریخ مقرر نہیں جبکہ نیب ترمیمی کیس مقرر ہوگیا، فریقین کو موقع دینا چاہتا ہوں کہ بینچ کی قانونی حیثیت پر معاونت کریں اور پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلہ یا بطور متبادل فل کورٹ میں سے تشکیل دیا جائے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا اطلاق 184/3 کےتمام زیرالتوامقدمات پر ہوتا ہے، معلوم ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو 8 رکنی بینچ معطل کر چکا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی معطلی کا حکم محض عبوری نوعیت کا ہے۔

    نوٹ کے مطابق قانون درست قرار پایا تو اس کا اطلاق نفاذ کی تاریخ سے ہوگا نہ کہ عدالتی فیصلے کے دن سے،پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی قرار پایا تو نیب کیس سننے والا بینچ غیر قانونی تصور ہوگا، میری رائے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلے تک184/3 کے مقدمات نہ سنے جائیں۔

    سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے16مئی کےعدالتی سوالات کےتحریری جوابات جمع کرائے، وفاقی حکومت کےوکیل نے نیب ترامیم کے خلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی، بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکمنامہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

    حکمنامے میں کہنا تھا کہ کیس کی تیزسماعت کیلئے وفاقی حکومت وکیل کو جواب جمع کرانے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، 29اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔