Tag: نیب کیسز

  • ’نیب کیسز کھلنےکی دیر ہے، پھر کوئی ایک وزیر بھی پاکستان میں نہیں ہوگا‘

    ’نیب کیسز کھلنےکی دیر ہے، پھر کوئی ایک وزیر بھی پاکستان میں نہیں ہوگا‘

    کراچی (27 جولائی 2025): ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما فاروق ستار کا کہنا ہے کہ نیب کیسز کھلنے کی دیر ہے پھر کوئی ایک وزیر پاکستان میں نہیں ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب پر نیب کے کیسز بنے ہوئے ہیں۔ صرف یہ کیسز کھلنے کی دیر ہے، پھر کوئی ایک وزیر پاکستان میں نظر نہیں آئے گا۔

    فاروق ستار کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کراچی کو اپنانے کو تیار ہی نہیں، آپ کا رویہ بتا رہا ہے کہ کراچی سندھ کا حصہ نہیں۔ لوگوں کو دیوار سے لگا کر سندھ کو کیوں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ابھی میٹرک کا امتحانی نتیجہ آنے والا ہے پھر کوئی نئی کہانی شروع ہوگی۔

    ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ کورنگی میں 6 ماہ میں ڈکیتی اور بد امنی کی وجہ سے 50 شہری جان سے جا چکے۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی لاتعلقی پر سخت مذمت کرتے ہیں۔

    فاروق ستار نے انتظامیہ پر مافیا کے ساتھ مل کر ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکوؤں نے شہری سے موبائل چھینا اور اس کے بعد گولی چلا کر زندگی کا خاتمہ بھی کر دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے میئر شپ بھی چھینی ہوئی ہے جب کہ میئر کراچی کہتے ہیں کہ ٹاؤن ہماری ذمہ داری نہیں۔ تو کیا مرتضیٰ وہاب کی ذمہ داری صرف پارک بنانا ہے۔

    ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ لیاری واقعہ کی آڑ میں کراچی کی عمارتوں کو زبردستی مخدوش فہرست میں ڈال کر لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے ان عمارتوں کو نوٹس دے دیا گیا ہے۔

  • چیئرمین پی ٹی آئی کے نیب کیسز میں بھی جیل ٹرائل کا فیصلہ

    چیئرمین پی ٹی آئی کے نیب کیسز میں بھی جیل ٹرائل کا فیصلہ

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی کے نیب کیسز میں بھی جیل ٹرائل کافیصلہ کرلیا گیا، احتساب عدالت اڈیالہ جیل میں ہی توشہ خانہ نیب اور 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیسز کی سماعت کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق توشہ خانہ نیب تحقیقات اور ایک سونوے ملین پاؤنڈکرپشن کیس میں اہم پیشرفت سامنے آگئی، چیئرمین پی ٹی آئی کے نیب کیسز میں بھی جیل ٹرائل کا فیصلہ کر لیا گیا۔

    اس حوالے سے وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس میں کہا ہے کہ احتساب عدالت اڈیالہ جیل میں ہی توشہ خانہ نیب اور 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیسز کی سماعت کرے گی۔

    گذشتہ روز سائفرکیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت قائم خصوصی عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہی ہوگا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی کا ٹرائل یکم دسمبرسے جیل میں ہوگا، عوام،میڈیا،ملزمان کے پانچ پانچ فیملی ممبرز کو آنے کی اجازت ہوگی، یس کی سماعت جمعے سے اڈیالہ جیل میں شروع ہوگی۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ پولیس رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو خطرہ کم نہیں ہوا، جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں مقدمے کی سماعت کیس کیلئے محفوظ ہے نہ ملزمان کیلئے محفوظ ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر عدالت کا انحصار ملزمان کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں کرنے پرہے، ٹرائل اوپن جیل میں ہوگا۔ سماعت میں شریک ہونےوالے تمام افرادکو خصوصی اجازت لینی پڑے گی۔

  • سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تبادلے روک دیے

    سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تبادلے روک دیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عدالتوں میں جاری کیسز میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے مداخلت پر از خود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت کرتے ہوئے آج عدالت نے اہم حکم جاری کر دیا ہے۔

    کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت، ہائی پروفائل اور نیب کیسز میں تفتیشی افسران کے تبادلے روک دیے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے ایف آئی اے، نیب پراسیکویشن اور تفتیشی ریکارڈ سیل کرنے کا بھی حکم جاری کر دیا ہے، نیز نیب اور ایف آئی اے کو حکم دیا گیا ہے کہ تا حکم ثانی وہ کوئی بھی کیس عدالتی فورم سے واپس نہ لیں۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ای سی ایل میں شامل، نکالے گئے تمام نام اور طریقہ کار کی تفصیل پیش کی جائے، اور پراسیکیوشن سے متعلقہ 6 ہفتے میں کی گئی تقرریوں اور تبادلوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔

    کیس کی مزید سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، پراسیکیوٹرز، ایڈووکیٹ جنرل، او رہیڈ آف پراسیکیوشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے از خود نوٹس کی سماعت آئندہ ہفتے کے جمعے تک ملتوی کر دی۔

    قبل ازیں، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں یہ مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ہم پراسیکیوشن کو ہٹانے کا معاملہ جاننا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں، ڈاکٹر رضوان کو تبدیل کیا گیا، اور بعد میں ان کا ہارٹ اٹیک ہوا، عدالت کو ان معاملات پر تشویش ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا اخباری تراشے ہیں ای سی ایل سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ہم ان معاملات کو بھی جاننا چاہتے ہیں، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ایک ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے، یہ کارروائی فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت کے دوران کہا ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ انھیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا کہ جو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے والا ہے، اس کے مقدمے میں پیش نہ ہوں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے، اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اس پر ہمیں تشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا، آپ تعاون کریں۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے کہا ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینی پڑتی ہے، سیکڑوں لوگوں کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ چیف جسٹس نے کہا ہماری تشویش صرف انصاف فراہمی کے لیے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، اس لیے ہم کسی قسم کی تعریف اور تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جواب دہ ہیں۔