Tag: نیب

  • نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    اسلام آباد: برا ڈشیٹ کیس میں ایک اور انکشاف ہوا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہم خط منظر عام پر آیا ہے، جس نے نیب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کے لیے 28.7 ملین ڈالرز نکال لیے گئے، اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود تھے، بقیہ 2.55 ملین ڈالرز راتوں رات بھیج دیے گئے۔

    سوال یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چندگھنٹے میں 2.55 ملین ڈالرز کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی پر آگاہ کیا؟

    اس سلسلے میں پاکستانی ہائی کمیشن کا اہم خط منظر عام پر آیا ہے، یہ خط ہائی کمیشن نے نیب، دفتر خارجہ، اٹارنی جنرل اور فنانس ڈویژن کو 30 دسمبر 2020 کو بذریعہ فیکس پاکستان بھیجا تھا۔

    براڈ شیٹ‌ کیس، 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے پر چیئرمین نیب طلب

    خط میں کہا گیا تھا کہ یو بی ایل نے براڈ شیٹ کو ادائیگی کے لیے ہمیں خبردار کیا ہے، ہم بینک کو بتا چکے ہیں کہ یک طرفہ ادائیگی پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، بینک کو یہ بھی بتایا گیا کہ براڈ شیٹ کو یک طرفہ ادائیگی سے تعلقات متاثر ہوں گے، ہم نے ایف سی ڈی او کو بھی لکھ دیا کہ معاملہ برطانوی حکام کے سامنے اٹھائیں۔

    پاکستانی ہائی کمیشن نے خط میں لکھا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق ہمیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے، استثنیٰ کے تحت بینک اکاؤنٹس کسی صورت بغیر اجازت استعمال نہیں ہو سکتے، دوسری طرف عدالتی حکم پر نیب کی جانب سے 28.7 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جانی ہے، جب کہ پاکستانی ہائی کمیشن کا یہ بینک اکاؤنٹ نیب کے زیر استعمال ہے۔

    خط میں کہا گیا کہ نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود ہیں، عدالتی حکم کے مطابق ادا کی جانے والی رقم میں 2.55 ملین ڈالرز کم ہیں، نیب سے درخواست ہے کہ 2.55 ملین ڈالرز فوری اکاؤنٹ میں منتقل کرے، اگر نیب نے پیسے نہ بھیجے تو حکومت کو قانونی اور مالی معاملات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    جاننا چاہتے ہیں براڈشیٹ کو مزید تحقیقات سےکس نےروکا؟ وزیراعظم

    خط میں ہائی کمیشن نے بتایا کہ 31 دسمبر کو پاکستانی اکاؤنٹ سے عدالتی حکم پر 28.7 ملین ڈالر نکال لیے گئے تھے۔

    تاہم اس سارے معاملے میں اہم سوالات یہ ہیں کہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چند گھنٹے میں مزید 2.55 ملین ڈالر کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی کے بارے میں آگاہ کیا تھا؟

    اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف کا کہنا ہے کہ جس براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا وہ 2007 میں ختم ہو گئی تھی، 2008 میں ایک نئی براڈ شیٹ کمپنی رجسٹرڈ ہوئی جس نے کلیم کیا، حکومت پاکستان نے اس کا جواب بھی دیا، دراصل نئی براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا نہ وہ کلیم کر سکتی تھی۔

    انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 2008 میں نئی رجسٹرڈ کمپنی کو حکومت نے کسی جگہ چیلنج کیا؟ جب کہ براڈ شیٹ کیس کے دوران وزارت خزانہ اور خارجہ میں خطوط موجود ہیں، خطوط میں مسلسل کہا گیا کہ اکاؤنٹس میں اتنا پیسہ رکھیں جتنا استعمال میں ہو۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے برطانوی نجی فرم براڈ شیٹ کو 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے 18 جنوری کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں چیئرمین نیب کو طلب کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کے سی ای او کیوے موسوی نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف، آصف زرداری، بے نظیر بھٹو اور دیگر کے اثاثوں کا پتا لگانے کے لیے براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، تاہم نواز شریف کی جلا وطنی اور انتخابات کے بعد 2003 میں حکومت نے کمپنی سے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔

    اپنے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ آصف زرداری نے اپنے ملک پاکستان کا نام بدنام کیا، ہم نے جن جائیدادوں کا سراغ لگایا آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں انھیں بحال کرایا، پیغام یہ تھا کہ جائیدادوں سے متعلق مزید تفتیش نہ کی جائے، ہمیں کہا گیا کہ 25 ملین ڈالرز لے لو اور معاملہ ختم کر دو، انجم ڈار سے اس سلسلے میں ملاقات بھی ہوئی، جس کا گواہ موجود ہے، اس نے 25 ملین ڈالرز کی پیش کش کی۔

  • نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا

    نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا

    لاہور: نیب نے خواجہ آصف کی 10بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ اور شئیرز کا پتا لگالیا ، جس میں بتایا گیا کہ خواجہ آصف نے 2010 سے 2020 تک سرمایہ کاری کی اور شیئرخریدے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کےخلاف تحقیقاتی رپورٹ احتساب عدالت میں جمع کرادی ، جس میں بتایا گیا ہے کہ نیب نےخواجہ آصف کی 10 بڑی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ،شئیرزکاپتا لگالیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ نیب نے پرائیویٹ بروکرسے خواجہ آصف کے شئیرز کی تفصیلات حاصل کیں، جس کے مطابق خواجہ آصف کےآئی ٹی کی ایک کمپنی میں ایک کروڑ سے زائد کے شئیرز، 3 بینکوں میں ایک کروڑ16لاکھ سے زائد کے شئیرز اور سوئی سدرن گیس پائپ لائنزمیں 77لاکھ سے زائد کے شیئرہیں۔

    نیب نے بتایا  کہ خواجہ  آصف اینگروکارپوریشن اورنیشنل ریفائنری لمیٹڈ میں 9 لاکھ 34 ہزارکے شیئر ، نجی فارماسیوٹیکل کمپنی میں 4 لاکھ 42 ہزاراورنجی کمپنی میں   7 لاکھ سے زائد شیئر کے مالک ہیں، خواجہ آصف نے2010 سے 2020 تک سرمایہ کاری کی اور شیئرخریدے۔

    مزید پڑھیں : کشمالہ طارق کو کروڑوں کی ادائیگی، خواجہ آصف مہربان؟

    یاد رہے اس سے قبل نیب نے خواجہ آصف کی جانب سے کشمالہ طارق کو ادائیگیوں کے شواہد حاصل کئے تھے ، خواجہ آصف نےکشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں 12کروڑ روپے منتقل کیے، کشمالہ طارق کو ادائیگیاں خواجہ آصف کے فرنٹ مین نے کیں۔

    نیب کے مطابق خواجہ آصف کےفرنٹ مین نےجنوری 2015 میں7کروڑ جمع کرائے، جب کہ کشمالہ طارق نے مئی 2015 میں 5 بار ایک ایک کروڑ روپے نکلوائے، کشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں ستمبر2015میں 5کروڑ آن لائن جمع ہوئے جس کے بعد انہوں نے مارچ2016 میں 3کروڑ روپے نکلوائے، کشمالہ طارق نے اگست 2016 میں 4 کروڑ روپےنکلوائے۔

  • نیب نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا

    نیب نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا

    اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، نیب نے سلیم مانڈوی والا کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کیس، اور ریفرنس میں ملزم نامزد کر دیا ہے۔

    سلیم مانڈوی والا پر سرکاری پلاٹس عبدالغنی مجید کو بیچنے کا الزام ہے، نیب کے مطابق انھوں نے سرکاری پلاٹس عبدالغنی مجیدکو بیچنے میں اعجاز ہارون کی سہولت کاری اور معاونت کی۔

    نیب کا کہنا ہے کہ سلیم مانڈوی والا نے پلاٹس بیچ کر فرنٹ مین کے نام پر جعلی شیئر خریدے، اس ریفرنس میں ندیم مانڈوی والا، اعجاز ہارون، عبدالغنی مجید اور طارق محمود کو بھی ملزمان نامزد کیا گیا ہے۔

    ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ اعجاز ہارون کو الاٹمنٹس کے بدلے رقوم جعلی اکاؤنٹس سے ملیں، اعجاز ہارون نے کڈنی ہلز فلک نما میں پلاٹس کی بیک ڈیٹ فائلیں تیار کیں، جب کہ سلیم مانڈوی والا نے پلاٹس فروخت کرنے میں اعجاز ہارون کی معاونت کی، حصے میں ملی رقم سے سلیم مانڈوی والا نے ایک بے نامی کے نام پر پلاٹ خریدا، پھر یہ پلاٹ بیچ کر دوسرے فرنٹ مین کے نام پر بے نامی شیئرز خریدے گئے۔

    ریفرنس کے مطابق کڈنی ہلز پلاٹس کی فروخت کے بدلے میں رقم جعلی اکاؤنٹس سے آئی تھی، سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون کو 14 کروڑ جعلی اکاؤنٹس سے ملے، سلیم مانڈوی والا اور ندیم نے رقم سے منگلاویو کمپنی کے شیئرز خریدے، یہ شیئرز بے نامی طارق محمود کے نام پر خریدے گئے۔

    سلیم مانڈوی والا نے ریفرنس پر رد عمل میں کہا ہے کہ میری خواہش تھی کہ نیب ریفرنس دائر کرے، ریفرنس کے خلاف میں ڈٹ کر مقابلہ کروں گا، اپنا مؤقف اب عدالت میں پیش کروں گا۔

    واضح رہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نیب کے خلاف ایوان میں قرارداد اور تحریک التوا پیش کرنے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوئے ہیں، حالاں کہ حکومت کی جانب سے نیب کے سلسلے میں خصوصی کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی آ چکی ہے۔

    گزشتہ روز ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا اور اپوزیشن کے نیب سے متعلق تحفظات کے بارے میں چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں اہم بیٹھک ہوئی تھی جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین، مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور قائد ایوان شہزاد وسیم شریک ہوئے تھے۔

    سلیم مانڈوی والا نے اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نیب کے خلاف قرارداد اور تحریک التوا کے فیصلے پر قائم ہیں۔

  • اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں: چیئرمین نیب

    اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں: چیئرمین نیب

    اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں۔

    ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے آج کہا کہ ملک میں غربت، افلاس، صحت اور تعلیم کی زبوں حالی کی ایک وجہ منی لانڈرنگ ہے۔

    انھوں نے کہا اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جس کے ٹھوس شواہد ہیں، آٹا، چینی اسکینڈل کی تحقیقات کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

    چیئرمین نیب نے کہا قائد اعظم نے رشوت ستانی اور اقربا پروری کو بڑا مسئلہ قرار دیا تھا، نیب وائٹ کالر کرائمز اور اسٹریٹ کرائمز میں فرق ہے۔

    محکمہ خزانہ سندھ میں کھربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف، رپورٹ چیئرمین نیب کو ارسال

    انھوں نے کہا مضاربہ کیس میں معصوم لوگوں کو لوٹاگیا، لوگوں کو بھاری منافع کی لالچ دے کر عمر بھر کی جمع پونجی لوٹی گئی، مضاربہ کیس میں مفتی احسان اور ساتھیوں کو 10 سال کی سزا اور 10 ارب کا جرمانہ ہوا۔

    واضح رہے کہ چیئرمین نیب اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے درمیان ان دنوں پارلیمنٹیرینز کے خلاف نیب تحقیقات کے حوالے سے کشمکش چل رہی ہے، سلیم مانڈوی والا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مجھ پر الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے بے نامی ٹرانزکشن کی ہے، جب کہ میں نے اپنی فیملی کی مدد کے لیے منگلا کور کی زمین کے لیے ٹرانزیکشن کی تھی، ہم سینیٹ کی کمیٹی میں ان الزامات کی تحقیقات کریں گے۔

  • 11 اموات نیب کی نہیں، جوڈیشل تحویل میں ہوئیں: شہزاد اکبر

    11 اموات نیب کی نہیں، جوڈیشل تحویل میں ہوئیں: شہزاد اکبر

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 11 اموات جوڈیشل کسٹڈی میں ہوئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شہزاد اکبر نے نیب کے خلاف الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کی تحویل میں 13 اموات کا حوالہ دیاگیا، لیکن 11 اموات جوڈیشل تحویل میں ہوئی ہیں۔

    شہزاد اکبر نے کہا اسد منیر کو نیب نے اپنی تحویل میں نہیں لیا تھا، نیب تحویل میں صرف 2 اموات ہوئیں، آغا سجاد اور ظفر اقبال کی۔

    انھوں نے کہا پاناما پر فیصلہ ہو چکا ہے، سابق وزیر داخلہ نے کیس بنا کر بھیجے تھے، پی ٹی آئی نے کیسز کو روکا نہیں، چلنے دیا، مجھے کہا گیا کہ میڈیا پر نہ بتائیں۔

    اپوزیشن کی 34 ترامیم میں کیا تھا؟ شہزاد اکبر نے کچا چٹھا کھول دیا

    معاون خصوصی نے سینیٹ میں نیب سے متعلق قوانین پڑھ کر سنائے اور کہا کہ نیب قانون کے تحت کسی کی گرفتاری کی منظوری چیئرمین نیب دیتا ہے، کوئی گرفتار ہو تو نیب کو اسے ثابت کرنا ہوتا ہے، احتساب کا قانون یا ادارہ ہونا عالمی ضرورت بھی ہے، نیب کے قوانین کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

    شہزاد اکبر نے کہا نیب قوانین اپنے مقصد کے لیے ختم نہیں کر سکتے، منی لانڈرنگ سے متعلق تحقیقات نیب قانون کا حصہ ہونا چاہیے، ہم کہتے ہیں احتساب سب کا ہونا چاہیے، اپوزیشن والے کہتے ہیں 1999 کے بعد احتساب ہونا چاہیے، اور 1 ارب سے کم رقم کی کرپشن کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا کوئی قانون ایک شخص کے لیے بنایا جائے گا تو کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا، مہذب معاشرے میں کوئی ادارہ بلاتا ہے تو جلوس لے کر نہیں جاتے، آپ سے اگر احتساب کی بات کی جائے گی تو وہ سیاسی انتقام نہیں۔

    شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ نیب نے 2 سالوں میں 399 ارب روپے کی ریکارڈ ریکوری کی ہے، اور 27 ماہ میں 227 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔

  • نیب نے 714 ارب روپے برآمد کیے: چیئرمین

    نیب نے 714 ارب روپے برآمد کیے: چیئرمین

    اسلام آباد: قومی ادارہ احتساب (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب نے احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 714 ارب روپے برآمد کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارہ احتساب (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب پاکستان کو بدعنوانی سے پاک بنانے کے لیے پرعزم ہے، نیب کا ایمان بدعنوانی سے پاک پاکستان ہے۔

    چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب افسران بدعنوان عناصر کے خلاف اپنی کوششوں کو دوگنا کریں، نیب بزنس کمیونٹی کا بہت احترام کرتا ہے۔ نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروہ یا شخص سے کوئی تعلق نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ادارے کی وفاداری صرف ریاست پاکستان سے ہے، نیب کی ذمہ داری کرپشن کا خاتمہ اور لوٹی گئی رقم کی واپسی ہے اور ادارہ احتساب سب کے لیے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔

    چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ نیب کی اولین ترجیح ہے، احتساب سب کے لیے کی پالیسی کے تحت 714 ارب روپے برآمد کر لیے۔

  • نیب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتہائی احترام کرتا ہے: ترجمان نیب

    نیب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتہائی احترام کرتا ہے: ترجمان نیب

    اسلام آباد: قومی احتساب بیورو کے ترجمان نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے بیان پر رد عمل میں کہا ہے کہ نیب کا ادارہ سلیم مانڈوی والا کا انتہائی احترام کرتا ہے۔

    ترجمان نیب نے ایک بیان میں سلیم مانڈوی والا کا الزام بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیب تمام پارلیمنٹرین کا بے حداحترام کرتا ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے بے بنیاد الزام کا جواب آئین و قانون کے مطابق دیاجائے گا۔

    واضح رہے کہ آج اسلام آباد میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے میڈیا سےگفتگو میں کہا کہ نیب انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے،چینی سفیر نے بھی کہا تھا کہ نیب کا کردار ختم ہونے تک کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔

    قبل ازیں، انھوں نے اسلام آباد کے ایوان صنعت و تجارت میں خطاب میں کہا کہ نیب کا شکار ہونے والوں کی روزانہ کوئی نہ کوئی کال موصول ہوتی ہے، لوگ نیب کی وجہ سے امریکا اور یورپ چلےگئے، اب ہم نے نیب پر پوزیشن لے لی ہے، کسی صورت کاروباری طبقے کو نیب کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔

    سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ نیب کرپشن روکنے کے لیے بنا تھا، نیب کو اب بندکرنا پڑے گا، حکومت بزنس کمیونٹی کے مسائل حل نہیں کر رہی، کاروباری طبقے کے لیے موقع ہے کہ وہ کھڑے ہو جائیں۔

    انھوں نے کہا شہزاد اکبر اب پارلیمنٹرین کو بتائیں گے کہ پارلیمنٹ کیسے چلتی ہے، وہ اپنا کام کریں اور پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت بند کریں۔

    ڈپٹی چیئرمین نے خطاب میں کہا کہ سرمایہ کار اپنے مسائل سینیٹ کو بھیجیں، نیب کو عفریت بنا دیاگیا ہے اسے اب بند کرنا ہوگا۔

  • جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں نیب کی ایک اور کامیابی

    جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں نیب کی ایک اور کامیابی

    اسلام آباد: جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں نیب نے ایک اور کامیابی حاصل کر لی، ایک اور ملزم پلی بارگین کے لیے تیار ہو گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملزم احسان الہٰی نے پلی بارگین کے لیے درخواست دائر کر دی، ملزم پر سرکاری زمین غیر قانونی طور پر الاٹ کروانے کا الزام ہے۔

    ملزم نے سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کے لیے رشوت دی تھی۔

    ادھر احتساب عدالت نے آدم خان جوکھیو اور لال محمد کی پلی بارگین کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں، عدالت نے کراچی میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر الاٹیز سے جعل سازی کے ریفرنس میں ملزمان آدم خان جوکھیو اور لال محمد کی پلی بارگین درخواستوں پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواستیں مسترد کر دیں۔

    سابق گورنر کے بیٹے نے نیب سے پلی بارگین کرلی

    عدالت کا کہنا تھا متاثرین سے سیٹلمنٹ کیے بغیر پلی بارگین نہیں کی جا سکتی، 1992 سے پلاٹوں کا انتظار کرنے والوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پلی بارگین سے پہلے تمام الاٹینز سے سیٹلمنٹ کی جائے، اگر متاثرین سے سیٹلمنٹ کامیاب ہو تو پلی بارگین ہو سکتی ہے۔

    عدالت نے ملزمان کی پلی بارگین کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا سیٹلمنٹ کے بعد ملزمان پلی بارگین کی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

  • نیب اجلاس: متعدد افراد کے خلاف ریفرنسز و تحقیقات کی منظوری

    نیب اجلاس: متعدد افراد کے خلاف ریفرنسز و تحقیقات کی منظوری

    اسلام آباد: قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں 2 ریفرنسز، 8 انویسٹی گیشنز اور 15 انکوائریز کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں 2 ریفرنسز کی منظوری دی گئی۔

    نیب اجلاس میں عمران علی یوسف اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی، مذکورہ کیس میں سرکاری افسران کی ملی بھگت سے سرکاری فنڈز ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیے گئے اور قومی خزانے کو 49 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔

    دوسرا ریفرنس سابق رکن بورڈ آف ریونیو کوئٹہ سرور جاوید کے خلاف منظور کیا گیا، ریفرنس میں سابق سینئر رکن بورڈ آف ریونیو شہباز خان مندو خیل اور دلشاد اختر بھی نامزد ہیں۔

    دوسرے ریفرنس میں ملزمان پر غیر قانونی طور پر سرکاری زمین دلشاد اختر کے نام الاٹ کرنے کا الزام ہے، غیر قانونی الاٹمنٹ سے قومی خزانے کو 6 کروڑ 48 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

    نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں 8 انوسٹی گیشنز اور 15 انکوائریز کی منظوری دی گئی، مسلم لیگ ن کے مدثر قیوم نہرا اور ایم این اے اظہر قیوم نہرا کے خلاف انوسٹی گیشن کی منظوری دی گئی۔

    علاوہ ازیں محمد آصف بلال سابق ڈائریکٹر فوڈ پنچاب، احمد شیر ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ خوراک پنجاب، بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ اور دیگر، بلوچستان انٹیگریٹڈ واٹر ریسورس مینجمنٹ پراجیکٹ کوئٹہہ، پی ڈی اے میں حاجی ظریف کنٹریکٹر ضلع موسیٰ خیل، ریونیو ڈپارٹمنٹ ضلع نوشکی کی انتظامیہ، ڈی ایچ کیو ہاسپٹل ڈیرہ غازی خان کے افسران و اہلکار اور عبد اللہ شوگر ملز لمیٹڈ دیپال پور لاہور کے خلاف تحقیقات کی منظوری دی گئی۔

    نیب کے اجلاس میں سیف الملوک کھوکھر، سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک، ثنا اللہ زہری، اکبر درانی اور سابق سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ کوئٹہ کے خلاف انکوائریز کی منظوری دی گئی۔

    نیب اجلاس میں پبلک لمیٹڈ کمپنیز پنجاب کے چیف ایگزیکٹوز، سابق وزیر تعلیم رحیم زیارت، ایم پی اے جمعہ خان، سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری نصیب اللہ بازئی، طارق مرتضیٰ میسرز سٹار ٹیک ٹریڈرز، سابق ایم پی اے اعجاز احمد اچلانہ، رئیس ابراہیم خلیل، ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں، سابق چیئرمین ریلویز عارف عظیم، جنرل مینیجر گیپکو محسن رضا، سابق اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر ریونیو گجرات رانی حفصہ کنول، اختر حسین، سبینہ سیماب، شہناز قمر، مقصود احمد، احسن سرور بٹ اور دیگر کے خلاف بھی انکوائریز کی منظوری دی گئی۔

  • سابق چیئرمین ایف بی آر کے خلاف نیب تحقیقات میں تیزی

    سابق چیئرمین ایف بی آر کے خلاف نیب تحقیقات میں تیزی

    کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین سلمان صدیق اور سابق ایڈیشنل کلکٹر کسٹم افسر کو دوسرا نوٹس بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کسٹمز کے آن لائن کلیئرنس پراجیکٹ میں گھپلوں کے معاملے میں نیب تحقیقات میں تیزی آ گئی ہے، نیب کمبائن انوسٹی گیشن ٹیم نے سابق چیئرمین ایف بی آر اور سابق ایڈیشنل کلکٹر کسٹم افسر عاشر عظیم کو تحقیقات کے لیے طلبی کا دوسرا نوٹس بھیج دیا ہے۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ کسٹم کلیئرنس پراجیکٹ میں غیر قانونی ادائیگیوں پر سابق چیئرمین ایف بی آر اور سابق کسٹم آفیسر کو طلب کیا گیا ہے، سلمان صدیق کو یکم دسمبر اور عاشر عظیم کو 2 دسمبر کو طلب کیا گیا تھا تاہم نہ وہ پیش ہوئے نہ جواب جمع کرایا۔

    ذرایع کے مطابق سابق چیئرمین ایف بی آر پر کسٹم کے کلیئرنس سسٹم ’کیئر پائلٹ پروجیکٹ‘ کے لیے غیر قانونی ادائیگی کا الزام ہے، پروجیکٹ کے تحت سسٹم کبھی نہیں لگایا گیا اور ایجیلٹی نامی کمپنی کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کی گئی۔

    ذرایع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیب کی کمبائن انویسٹی گیشن ٹیم قومی خزانے سے ایک کروڑ 11 لاکھ 25 ہزار ڈالر کی غیر قانونی ادائیگی کے الزام کی تحقیقات کر رہی ہے۔

    کیس کی تحقیقات کے لیے نیب کی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم اب تک کسٹم کے سابقہ اور موجودہ 50 سے زائد افسران کے بیانات ریکارڈ کر چکی ہے۔