Tag: نیرنگ خیال

  • ایم ڈی تاثیر کے کمرے کا نقشہ

    ایم ڈی تاثیر کے کمرے کا نقشہ

    بچپن کے بعد میں تاثیر سے دوبارہ ملا تو 1930ء کے دن تھے۔ یہ وہ دن تھے جب تاثیر صاحب بارود خانے والے کمرے میں براجتے تھے۔

    اس کمرے کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی میز اور اس کے پیھے ایک کرسی خود ان کے لیے مخصوص تھی۔ کمرے میں اِدھر اُدھر، زیادہ تر کتابوں اور تصویروں کے لیے اور کم تَر ملاقاتیوں کے لیے، نشست کا انتظام تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تاثیر صاحب ملاقاتیوں کی آمد سے خوش نہ ہوتے تھے۔ لیکن کمرے کا مجموعی نقشہ ایسا ضرور تھا کہ کتابیں اور تصویریں اس پر چھائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

    یہاں تاثیر سے میری ملاقاتیں میرے دوست ممتاز حسن کی رفاقت کے سہارے شروع ہوئیں۔ بالعموم ہم دونوں مل کر تاثیر کے پاس جاتے اور گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ ہمارے لیے یہاں سب سے بڑی کشش یقیناً تاثیر صاحب کی بذلہ سنجی اور ذہانت تھی، لیکن کچھ اور چیزیں بھی ہمیں بار بار اور کشاں کشاں یہاں لاتی تھیں۔ اس کمرے میں چغتائی کی تصویریں کثرت سے ملتی تھیں۔ یہاں مغربی موسیقی کے لاجواب ریکارڈ سننے میں آتے تھے۔ لاہور کے ادیبوں سے ملاقات ہوتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ”لذیذ“ کتاب، مثلاً فرینک ہیرس کی خود نوشت سوانح عمری، پڑھنے کو مل جاتی تھی۔

    اس ہنگامے کے درمیان تاثیر صاحب فراست و ظرافت اور فراغت و عیش کا دیوتا بنے بیٹھے رہتے تھے۔ یہیں وہ چونے منڈی کے چٹپٹے کباب اور بیٹہوون کے آسمانی سرود سے بیک وقت لذّت اندوز ہوتے تھے۔ ”نیرنگِ خیال“ کے اختراعات نے یہیں جنم لیا، ”کارواں“ یہیں سے جاری ہوا، دورِ شباب کی نظمیں اور تنقیدیں یہیں قلم بند ہوئیں، بے شمار کتابیں یہیں پڑھی گئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقبل کے متعلق منصوبے یہیں باندھے گئے۔

    (تذکرہ از قلم پروفیسر حمید احمد خاں)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    آج شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ آزاد اردو زبان کے نام ور انشا پرداز، نقّاد، شاعر، مؤرخ اور اخبار نویس تھے۔ ان کی کتاب آبِ حیات کلاسیکی دور کے ادب اور شخصیات کا منفرد تذکرہ اور تنقید ہے جس کا خوب شہرہ ہوا۔ اسی طرح نیرنگِ خیال بھی آزاد کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے۔

    دہلی، آزاد کا وطن تھا جہاں انھوں‌ نے 1830ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑا کام کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران انھیں‌‌ گولی مار دی گئی۔ والد کی موت آزاد کو مشکلات پیش آئیں‌ اور وہ ہجرت کے بعد لاہور چلے آئے تھے۔

    محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پہنچنے والے آزاد نے محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انھیں سرکار نے شمسُ العلما کا خطاب عطا کیا۔

    آزاد نے اردو ادب میں‌ جدید تذکرہ نگاری کے ساتھ مختلف اصناف میں‌ اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو متعارف کروایا۔ انھوں نے لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع بھی روشن کی اور شعرا کو نظم کی طرف مائل کیا۔ آزاد کو جہاں ان کی ادبی خدمات کے سبب بہت پذیرائی ملی، وہیں‌ بعد میں آنے والوں نے ان کی تنقید اور تذکرہ نگاری کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ تاہم آزاد نے کئی اہم اور قابل ذکر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی ادبی خدمات اور مقام و مرتبے کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانیِ تحریکِ جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہرِ تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلٰی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامیِ اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔“

    زندگی کی مشکلات کے ساتھ انھیں کئی صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ان کی بیٹی کی موت کا المیّہ بھی شامل تھا اور اس کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ یہ حالت وفات تک برقرار رہی۔

    آزاد نے 22 جنوری 1910ء کو وفات پائی۔ انھیں‌ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سخن دانِ فارس، دربارِ اکبری، سیرِ ایران، جامع القواعد، نگارستان فارس، قصصِ ہند اور نگارستان شامل ہیں۔