Tag: نیس

  • فرانسیسی پولیس نے ساحل سمندر پر خاتون کے کپڑے اتروا لیے

    فرانسیسی پولیس نے ساحل سمندر پر خاتون کے کپڑے اتروا لیے

    پیرس: فرانس کے شہر نیس کے ساحل پر پولیس نے برکنی پہننے کے شبہ میں ایک خاتون کو زبردستی اس کے لباس کا کچھ حصہ اتارنے پر مجبور کردیا۔ واقعہ نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا۔

    اب سے دو دن قبل فرانس میں ’باپردہ‘ بکنی ’برکنی‘ پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جس کے بعد پولیس کی جانب سے یہ اقدام دیکھنے میں آیا۔ برکنی حال ہی میں متعارف کروایا جانے والا ایک باپردہ سوئمنگ لباس ہے جسے مسلمان طبقوں کی جانب سے بے حد پذیرائی ملی۔

    nice-5

    اس کی مقبولیت میں اضافہ کے بعد غیر مسلم خواتین کی جانب سے بھی اس کی خریداری دیکھی گئی جس کے بعد فرانس میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔

    اس پابندی کی توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ لباس صرف ایک طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طبقہ کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا اور یوں یہ لباس شدت پسندی کے جذبات کے فروغ کی علامت کے طور پر لیا جانے لگا۔

    جرمنی میں برقعے اور نقاب پر پابندی کا فیصلہ *

    اسی پابندی کے پیش نظر نیس کے ساحل پر پولیس اہلکاروں کو پورے لباس میں موجود ایک خاتون پر برکنی پہننے کا گمان ہوا اور انہوں نے زبردستی اس کے لباس کا کچھ حصہ اتروا دیا۔

    پولیس کی جانب سے خاتون پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور اسے ’روشن خیالی کے اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔

    nice-2

    nice-4

    خاتون کے ساتھ ان کی بیٹی بھی موجود تھی جو اپنی والدہ کو پولیس کے نرغے میں گھرا دیکھ کر رونے لگی۔

    بعد ازاں ایک عینی شاہد نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں موجود لوگوں کا ردعمل منفی تھا۔ ’لوگوں نے خاتون کے لیے ’گھر جاؤ‘ کی آوازیں کسیں، کچھ نے پولیس کے لیے تالیاں بھی بجائیں‘۔

    پیرس حملوں کے بعد مسلمانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ *

    واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سوال اٹھا دیا کہ کیا ایک سیکولر ملک میں لوگوں کو لباس بھی حکومت کی بنائی پالیسی کے مطابق پہننا ہوگا؟

    لوگوں نے اسے شخصی آزادی پر قدغن کے مترادف قرار دیتے ہوئے پولیس کے اقدام کی مذمت کی۔

    واضح رہے کہ 2015 میں پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں مقیم مسلمان حکومت اور عام لوگوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا شکار ہیں اور انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حملوں میں 137 افراد مارے گئے تھے۔

    اس کے بعد بھی یورپ کے کئی شہروں بشمول برسلز، نیس اور اورلینڈو میں دہشت گردانہ حملہ ہوئے جس نے دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔

  • نیس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کرلی،پانچ افراد گرفتار

    نیس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کرلی،پانچ افراد گرفتار

    پیرس: فرانس کے جنوبی شہر نیس میں جمعرات کی شب قومی دن کی تقریبات کے موقع پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کر لی.

    تفصیلات کے مطابق فرانس کے جنوبی شہر میں جمعرات کی شپ قومی دن کی تقریبات کے موقع پر حملہ آور نے تیز رفتار ٹرک شرکا پر چڑھادیا،جس سے87افرادجان کی بازی ہار گئےاور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے.

    پیرس میں پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق87افراد کو ہلاک کرنے والے شخص سے تعلق رکھنے کے شبہے میں پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے،ان میں حملہ آور کی سابقہ بیوی بھی شامل ہے.

    دولت اسلامیہ کی جانب سے استعمال کی جانے والی خبر رساں ایجنسی میں کہا گیا ہے کہ نیس کا حملہ اس نے کیا ہے.

    شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ حملہ اس اعلان کے بعد کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان ممالک کو نشانہ بنایا جائے جو عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہیں.

    یاد رہے کہ ملک بھر میں پہلے ہی ایک لاکھ 20 ہزار پولیس اور فوجی اہلکار تعینات ہیں،12000 اضافی نفری میں 9000 ملٹری پولیس افسران شامل ہیں جبکہ آگے چل کر مزید 3000 پولیس افسران بھی شامل کیے جائیں گے.

    محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے87افراد میں 10 بچے شامل ہیں، جبکہ زخمی ہونے والے 303 افراد میں سے 121 اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں،جن میں 30 بچے شامل ہیں،زخمیوں میں سے 26 کو انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا ہے.

    واضح رہے کہ حملہ آور 31 سالہ احمد لحوائج بوہلال نیس کا ہی رہائشی ہیں اور پولیس نے حملہ آور کے فلیٹ کی تلاشی بھی لی ہے.