Tag: نیلام گھر

  • جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

    آج طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک بے مثال کام کیا اور ان کے منفرد اندازِ میزبانی نے پروگرام کے شائقین کو ان کا پرستار بنا دیا۔ پچھلے سال 17 جون کو طارق عزیز نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    علم و ادب، فنونِ لطیفہ بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں طارق عزیز کی خاص پہچان ان کی منفرد آواز اور شستہ و شائستہ لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو تھا۔ نیلام گھر نے انھیں ہفت آسمان مقبولیت دی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے اس معلوماتی اور ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ وہ اپنے پروگرام کا آغاز مخصوص انداز میں اس جملے سے کرتے، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے پروگرام کے حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کو بھی مدنظر رکھا۔ وہ حاضر باش اور طباع تھے اور اکثر اس طرح‌ شوخیِ اظہار سے کام لیتے کہ سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

    چار دہائیوں تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو ’بزمِ طارق عزیز‘ ہی کا نام دے دیا گیا تھا۔

    طارق عزیز ایسے فن کار تھے جو علم دوست اور شائقِ مطالعہ بھی تھے، وہ مختلف موضوعات پر جامع اور مدلّل طریقے سے اظہارِ خیال کرتے اور ان کی گفتگو سے علمیت، قابلیت اور ذہانت جھلکتی تھی۔ برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کوئی مشہور قول سنانا یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہلِ محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

    طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    انھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، ہار گیا انسان میں بھی انھیں‌ بطور اداکار دیکھا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    لاہور میں انتقال کرجانے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

    1992ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • طارق عزیز: سفرِ زیست اور کمالِ فن پر مختصر نظر

    طارق عزیز: سفرِ زیست اور کمالِ فن پر مختصر نظر

    علم دوست، شائقِ مطالعہ، قوی حافظے اور زبان و بیان کی صحت کے ساتھ جامع اور مدلل گفتگو کے عادی اور کسی موضوع پر بات چیت کے دوران اپنی علمیت، قابلیت اور مطالعے کا نہایت خوبی سے اظہار کرنے والے طارق عزیز نے حفظِ مراتب کا بھی خیال رکھا۔ ایک نسل ہے جو ان کی معترف، ان کی پرستار اور مشتاق ہے۔

    طارق عزیز کی منفرد آواز اور مخصوص لب و لہجے نے ذہنی آزمائش کے ایک پروگرام کو چار دہائیوں تک نہ صرف ناظرین میں مقبول بنائے رکھا بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے میزبانی میں کمالِ فن کی ایک مثال قائم کی۔ پروگرام پیش کرنے کا ڈھب، میزبانی کا انداز گویا انہی سے مخصوص ہے۔

    ان کی جامع و پُر لطف گفتگو، برمحل حوالہ، موقع بہ موقع کسی مشہور قول یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہل محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ذہانت اور علم میں ممتاز اس فن کار کو ہمہ جہت کہا جائے تو کیا غلط ہو گاکہ شعروسخن کی محفل ہو، عام معلومات، کوئی خاص موضوع ہو یا کسی حوالے سے رائے کا اظہار مقصود ہو طارق عزیز نے اپنے مطالعے، تجربے اور مشاہدے کو یوں سامنے رکھا کہ سب ان کے قائل ہوگئے۔

    معروف کمپیئر، اداکار، ادیب اور شاعر طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    پاکستان میں کئی دہائیوں پر مشتمل ان کے فنی سفر میں "نیلام گھر” جیسے مقبول ترین پروگرام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نیلام گھر ذہنی آزمائش کا وہ پروگرام تھا جس نے برسوں ناظرین کو اپنے سحر میں گرفتار رکھا اور یہ سب طارق عزیز کے منفرد اور مخصوص انداز کی بدولت تھا۔

    نیلام گھر کے یہ میزبان اسٹیج پر آمد کے بعد اپنے مخصوص انداز اور منفرد آواز میں جب فقرہ ادا کرتے "دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام” تو گویا دلوں میں اتر جاتے۔ اسی طرح حاضرین سے سوال کرنے کے بعد جب جواب لینے ان کی نشست پر پہنچتے اور درست جواب ملتا تو اعلان کرتے، "جواب درست ہے۔” ان کی یہ صدا ہمارے ذہنوں‌ پر نقش ہے۔ چھوٹے بڑے انعامات کے علاوہ نیلام گھر میں‌ معلوماتی مقابلہ جیتنے والوں نے موٹر سائیکل، کار اور کیش پرائز بھی اپنے نام کیے۔

    سنجیدہ و متین طارق عزیز اپنے پروگرام کے دوران حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کا سامان بھی کرتے۔ وہ‌ حاضر باش اور طباع تو تھے ہی، اکثر اپنے شو میں شرکا کے ساتھ ظرافت اور شوخیِ اظہار سے بھی کام لیتے اور سبھی کو ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کردیتے۔

    طارق عزیز 1964 میں لاہور سے پی ٹی وی کے میزبان کے طور پر سامنے آئے اور 1975 میں ان کا شو "نیلام گھر” شروع ہوا جسے بعد میں "بزم طارق عزیز” کا نام ہی دے دیا گیا۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    پاکستان میں طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کی میزبانی کے علاوہ ٹی وی اور فلموں کے لیے بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، کٹار اور ہار گیا انسان بھی مشہور اور قابل ذکر فلمیں ہیں۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوا۔ طارق عزیز نے اردو میں بھی شاعری کی اور اس زبان میں بھی خوب کلام کہا۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

    آج وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ہیں۔ لاہور میں انتقال کرنے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔