Tag: نیلسن منڈیلا

  • نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد اکثریت کھو دی

    نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد اکثریت کھو دی

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی جماعت نے 30 سال بعد انتخابات میں اکثریت کھو دی۔

    تفصیلات کے مطابق نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جس افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) پارٹی نے جنوبی افریقہ کو نسل پرستی سے آزاد کروایا تھا، تیس سال بعد اس نے تاریخی انتخابی نتیجے میں اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دی ہے۔

    بدھ کے انتخابات میں ایک عرصے سے غالب رہنے والی اے این سی کو تقریباً 40 فی صد ووٹ ملے ہیں، اس لیے حکومت بنانے کے لیے اسے اپوزیشن کی 3 بڑی پارٹیوں میں سے کسی ایک سے اتحاد کرنا ہوگا، اس کے بعد ہی ملک کے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔

    سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی، ڈیموکریٹک الائنس کو 21 فی صد ووٹ ملے ہیں جب کہ سابق صدر جیکب زوما کی پارٹی کو 14 فی صد ووٹ ملے، انتخابات میں 50 سے زیادہ سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا۔

    حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس نتیجے کو گہری غربت اور عدم مساوات سے نبرد آزما ملک کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے، مرکزی اپوزیشن لیڈر جان اسٹین ہیوسن نے کہا کہ جنوبی افریقہ کو بچانے کا طریقہ اے این سی کی اکثریت کو توڑنا ہے اور ہم نے ایسا کیا ہے۔

  • ہینلے کی بیماری اور نیلسن منڈیلا کی پسندیدہ نظم

    ہینلے کی بیماری اور نیلسن منڈیلا کی پسندیدہ نظم

    جب اس کی عمر 14 برس ہوئی تو معالجوں نے بتایا کہ اسے ہڈیوں کی ٹی بی ہے اور زندگی بچانے کے لیے اس کی ٹانگ کاٹنا ضروری ہے۔ سترہ برس کی عمر میں اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ کرب و ملال کی اس کیفیت میں اس نے ایک نظم کہی جو آج برسوں بعد بھی زندہ ہے۔

    یہ تذکرہ ہے، انگریز شاعر ولیم ارنسٹ ہینلے (William Ernest Henley) اور ان کی مشہورِ زمانہ نظم Invictus کا! لیکن اس نظم کا ایک اور حوالہ بھی ہے۔

    اپنی کرب ناک بیماری سے لڑتے ہوئے مایوسی میں گھرے ہینلے نے خود کو حوصلہ دینے کے لیے یہ اشعار کہے تھے اور افریقا کے ایک سپوت نے، جو انسانیت کے جسم میں زہر کی طرح سرائیت کرنے والے "نسلی تعصب” کے خلاف لڑرہا تھا، اسی نظم کو اپنی جدوجہد کا ترانہ بنا لیا۔

    یہ باہمت نیلسن منڈیلا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے دورِ اسیری میں وہ یہ نظم اپنے جیل کے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں لندن کے ایک اوپیرا گروپ نے ان کی آواز میں یہ نظم ریکارڈ کرکے اس کی باقاعدہ دُھن تیار کی اور منڈیلا کی زندگی پر بننے والی ہالی ووڈ کی ایک فلم کا نام بھی اسی نظم کے عنوان پر رکھا گیا۔

    اس عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس نظم کا آزاد اور تاثراتی ترجمہ پیش خدمت ہے۔ منڈیلا کی یہ پسندیدہ نظم ان کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کی تصویر کشی کرتی ہے اور ساتھ ہی ان کی یادوں سے جڑی ایک یاد ہے، ملاحظہ فرمائیں!

    ناقابلِ شکست
    اس رات سے پرے، جو مجھے گھیرے ہوئے ہے
    اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک، کسی کھائی کے مانند سیاہ ہے
    میں خداوندانِ دہر کا شکر گزار ہوں، ان سب عطاؤں کے لیے
    جو میری ناقابلِ تسخیر روح پر کی گئیں
    جب بھی مجھے حالات نے اپنی گرفت میں جکڑا
    نہ تو میں گھبرایا اور نہ بَین کیا
    مقدر کی پیہم ضربوں تلے
    میرا سَر خون آلود ہے مگر جُھکا نہیں
    اس جائے قہر و ملال سے بھی سِوا
    خوف کے دھندلے سائے
    اور زِیاں کاری کی نذر ہوتے برسوں نے مجھے
    بے خوف پایا اور آئندہ بھی ایسا ہی پائیں گے
    اب اس کی کیا پروا کہ راستے کتنے دشوار ہیں
    یا راہیں کتنی پُر پیچ ہیں
    میں اپنی قسمت کا خود مختار ہوں
    میں اپنی کشتیِ روح کا آپ ملاح ہوں

    (تحریر و ترجمہ رانا محمد آصف)

  • قانون کی تعلیم ان شخصیات نے بھی حاصل کی تھی!

    قانون کی تعلیم ان شخصیات نے بھی حاصل کی تھی!

    یہ تصویر تو ہمارے ملک کے شہر لاہور کی ہے جہاں کالے کوٹ والے احتجاج کی غرض‌ سے سڑک پر نظر آرہے ہیں. مگر یہاں ہم دنیا کی ان مشہور شخصیات کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جنھوں‌ نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت اور دیگر شعبوں‌ میں‌ نمایاں‌ خدمات انجام دیں‌ اور اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کیا.

    نیلسن منڈیلا
    دنیا بھر میں نسلی امتیاز اور مساوات کے لیے جدوجہد کرنے کے حوالے سے مشہور نیلسن منڈیلا بھی قانون کے طالبِ علم رہے۔ انھوں نے جوہانسبرگ میں وکالت کی تعلیم مکمل کی۔ نیلسن منڈیلا نے افریقی نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے نسل پرستی کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور آج دنیا بھر میں‌ حقوقَ انسانی کی جدوجہد اور اس راستے میں صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے انھیں‌ عزت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    فیدل کاسترو
    فیدل کاسترو کو دنیا ایک کمیونسٹ راہ نما اور کیوبا میں انقلاب کے سربراہ کے طور پر جانتی ہے۔ فیدل کاسترو نے یونیورسٹی آف ہوانا سے قانون کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد انھوں نے اپنے سیاسی اور فکری راہ نمائی کے سفر کا آغاز کیا۔ 1926 کو کیوبا میں پیدا ہونے والے فیدل کو طویل جدوجہد کے بعد ملک کا صدر چنا گیا۔

    ہلیری کلنٹن
    امریکی خاتونِ اول اور اہم ریاستی عہدوں پر خدمات انجام دینے والی ہلیری کلنٹن کو دنیا ایک قانون داں کی حیثیت سے بھی جانتی ہے۔ وکالت کے شعبے میں سرگرم رہنے والی ہلیری کلنٹن نے اس شعبے میں رہتے ہوئے صنفی امتیاز کے خاتمے اور تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔1947 میں پیدا ہونے والی ہلیری ان دنوں عورتوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے سرگرم ہیں۔

    بارک اوباما
    امریکی ریاست ہوائی میں 1961 میں پیدا ہونے والے بارک اوباما نے کولمبیا یونیورسٹی اور ہارورڈ کے مدرسۂ قانون سے اس مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ بارک اوباما امریکا کے صدر رہے ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے شکاگو میں سماجی کاموں کے ذریعے شناخت بنائی اور پھر بہ طور وکیل کام کیا.

    مشیل اوباما
    مشیل اوباما نے بھی ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور امریکا میں ایک وکیل کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی شریکِ حیات ہیں اور امریکی خاتونِ اول بھی رہ چکی ہیں۔ 1964 میں پیدا ہونے والی مشیل اوباما امریکا اور دنیا بھر میں عورتوں کو انصاف اور تحفظ دینے کے لیے قانونی خدمات کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں۔

    گاندھی
    4 ستمبر 1888 کو مہاتما گاندھی نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے اور بیرسٹر بننے کے لیے برطانیہ گئے اور یونیورسٹی کالج آف لندن کا حصّہ بنے۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جنوبی افریقا چلے گئے جہاں 1893 میں پریٹوریا میں مقیم مسلم ہندوستانی تاجروں کے قانونی نمائندے کے طور پر کام کیا۔ جنوبی افریقا میں وکالت کے دوران گاندھی نے ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کی۔

  • روشن فکر اور اجلے کردار والا وہ سیاہ فام آج کے دن ہم سے بچھڑ گیا تھا!

    روشن فکر اور اجلے کردار والا وہ سیاہ فام آج کے دن ہم سے بچھڑ گیا تھا!

    وہ روشن اور اجلے کردار کا مالک تھا۔ مساوات اور امن کا داعی تھا۔ دنیا کو تعصب اور نفرت سے پاک کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے ہر محاذ پر ڈٹ گیا۔

    اس مقصد کے لیے اس نے صعوبتیں جھیلیں، جوانی کو اسیری کی نذر کر دیا، اس امید کے ساتھ کہ دن نکلے گا اور نسل پرستی، غلامی کے بازوئے بے رحم سے قوم آزاد ہو گی۔ تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اس نے اپنے افکار کی شمع جلائے رکھی اور وہ وقت بھی آیا جس کے لیے جدوجہد اور انتظار میں اس نے اپنی عمر گزار دی تھی۔

    یہ نیلسن منڈیلا کا تذکرہ ہے جو جنوبی افریقا کے پہلے جمہوری اور سیاہ فام صدر تھے۔ 1994 سے 1999 تک اس عہدے پر فائز رہنے والا یہ عظیم راہ نما اور مدبر پانچ دسمبر کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا تھا۔

    نیلسن منڈیلا کے لیے اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کے باوجود اپنے خواب کی تکمیل آسان تو ثابت نہیں ہوئی۔ تاہم وہ حکومت میں رہ کر جنوبی افریقا کو نسل پرستی سے آزاد کروانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اس سے قبل نسلی امتیاز کے خلاف مہمات کے دوران کئی بار گرفتار ہوئے۔ ریاست کا تختہ الٹنے کی سازش میں 27 سال قیدِ تنہائی کاٹی اور 1990 میں انھیں رہائی نصیب ہوئی۔

    طویل جدوجہد اور سختیاں برداشت کرنے کے بعد انھیں زبردست عوامی حمایت کے ساتھ اقتدار ملا تھا۔ نیلسن منڈیلا صرف جنوبی افریقا کے عوام کے مقبول ترین لیڈر نہیں تھے بلکہ انھیں دنیا بھر میں باضمیر اور کلمۂ حق بلند کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا نے نیلسن منڈیا کی نسلی امتیاز کے خاتمے کی کوششوں، امن اور مساوات کے لیے جدوجہد کو تسلیم کیا اور نوبیل انعام ان کے نام کیا۔

    نیلسن منڈیلا کا سنِ پیدائش 1918 ہے۔ وہ جنوبی افریقا کے ایک دیہی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ افریقا میں قبائل اور برادری نظام خاصا مستحکم ہے۔ نیلسن منڈیلا مديبا قبیلے کے فرد تھے۔ وہ دس سال کے تھے جب ان کے والد کی وفات ہوئی اور وہ قبیلے کے سربراہ کی نگرانی میں پلے بڑھے۔

    خوش مزاج اور نرم خُو نیلسن منڈیلا کے کردار کی خوش بُو، ان کے افکار کی روشنی آج بھی دنیا کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان کی شخصیت کا سحر شاید کبھی نہ ٹوٹ سکے۔

    نیلسن منڈیلا کی زندگی کی کہانی، انسانوں کے لیے عظیم جدوجہد کی داستان یقیناً کئی نسلوں کے لیے راہ نما ثابت ہو گی اور دنیا کی نئی قیادت کے لیے درست سمت کا تعین کرے گی۔

  • نیلسن منڈیلا کا دن: کبھی نہ گرنا عظمت نہیں، گرنے کے بعد اٹھنا عظمت ہے

    نیلسن منڈیلا کا دن: کبھی نہ گرنا عظمت نہیں، گرنے کے بعد اٹھنا عظمت ہے

    آج دنیا بھر میں جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کا دن منایا جارہا ہے، یہ دن ہر سال ان کے یوم پیدائش کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ آج منڈیلا کا 101 واں یوم پیدائش ہے۔

    رنگ اور نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ میں طویل جدوجہد کرنے والے قابل احترام رہنما نیلسن منڈیلا کے یوم پیدائش پر ان کا عالمی دن منانے کا فیصلہ، اقوام متحدہ نے سنہ 2009 میں کیا تھا۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو ترغیب دینا ہے کہ وہ اپنے آس پاس موجود افراد کی مدد کریں۔

    سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔

    یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا۔ ’آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں‘۔

    آج اس عظیم رہنما کے عالمی دن کے موقع پر یقیناً آپ ان کے زندگی بدل دینے والے اقوال پڑھنا چاہیں گے۔

    زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے۔

    والدین کے لیے ایک کامیاب اولاد سے بہتر کوئی انعام نہیں۔

    آپ اس وقت تک اس قوم کی اخلاقی حالت کے بارے میں نہیں جان سکتے جب تک آپ وہاں کی جیلوں میں وقت نہ گزار لیں۔ کسی قوم کی شناخت اس کے اس رویے سے نہیں ہوتی جو وہ اپنے اعلیٰ طبقے کے ساتھ روا رکھتا ہے، بلکہ اس رویے سے ہوتی ہے جو وہ اپنے نچلے طبقے سے اپناتا ہے۔

    زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا۔

    ہمیشہ پیچھے سے رہنمائی کرو۔ دوسروں کو یہ باور کرواؤ کہ رہنما وہ ہیں۔

    جب تک کوئی کام نہ کرلیا جائے تب تک وہ ناممکن محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، اس کے بعد وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا۔

    باہمت لوگ امن کے لیے کبھی بھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے۔

    امن کا نوبیل انعام پانے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے 27 قیمتی سال قید میں گزارے۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے جب دل چاہے چہل قدمی کرلینا یا قریبی دکان تک جانا اور اخبار خرید لینا‘۔

    جیل سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے کہا، ’جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جارہا تھا، تب میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑ دیا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا‘۔

    موت کے بارے میں منڈیلا کا خیال تھا، ’موت ناگزیر ہے۔ جب کوئی شخص اس ذمہ داری کو پورا کرلیتا ہے جو قدرت نے اس کی قوم اور لوگوں کی بہتری کے لیے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے، تب وہ سکون سے مرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔ اب میں ابدیت کی زندگی میں سکون سے سو سکتا ہوں‘۔

    آزادی اور حقوق کی علامت اور بیسویں صدی کی قد آور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا 5 دسمبر سنہ 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

  • نیلسن منڈیلا کے عالمی دن پر ان کے خوبصورت اقوال پڑھیں

    نیلسن منڈیلا کے عالمی دن پر ان کے خوبصورت اقوال پڑھیں

    جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر آج دنیا بھر میں ان کا دن منایا جارہا ہے۔

    رنگ اور نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ میں طویل جدوجہد کرنے والے قابل احترام رہنما نیلسن منڈیلا کی سالگرہ کے دن کو نیلسن منڈیلا کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے سنہ 2009 میں کیا تھا۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو ترغیب دینا ہے کہ وہ اپنے آس پاس موجود افراد کی مدد کریں۔

    سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔

    یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا، ’آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں‘۔

    آج اس عظیم رہنما کے عالمی دن کے موقع پر یقیناً آپ ان کے زندگی بدل دینے والے اقوال پڑھنا چاہیں گے۔

    زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے۔

    والدین کے لیے ایک کامیاب اولاد سے بہتر کوئی انعام نہیں۔

    آپ اس وقت تک اس قوم کی اخلاقی حالت کے بارے میں نہیں جان سکتے جب تک آپ وہاں کی جیلوں میں وقت نہ گزار لیں۔ کسی قوم کی شناخت اس کے اس رویے سے نہیں ہوتی جو وہ اپنے اعلیٰ طبقے کے ساتھ روا رکھتا ہے، بلکہ اس رویے سے ہوتی ہے جو وہ اپنے نچلے طبقے سے اپناتا ہے۔

    زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا۔

    ہمیشہ پیچھے سے رہنمائی کرو۔ دوسروں کو یہ باور کرواؤ کہ رہنما وہ ہیں۔

    جب تک کوئی کام نہ کرلیا جائے تب تک وہ ناممکن محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، اس کے بعد وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا۔

    باہمت لوگ امن کے لیے کبھی بھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے۔

    امن کا نوبیل انعام پانے والے نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے 27 قیمتی سال قید میں گزارے۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جیسے جب دل چاہے چہل قدمی کرلینا یا قریبی دکان تک جانا اور اخبار خرید لینا‘۔

    جیل سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے کہا، ’جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جارہا تھا، تب میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑ دیا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا‘۔

    موت کے بارے میں منڈیلا کا خیال تھا، ’موت ناگزیر ہے۔ جب کوئی شخص اس ذمہ داری کو پورا کرلیتا ہے جو قدرت نے اس کی قوم اور لوگوں کی بہتری کے لیے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے، تب وہ سکون سے مرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔ اب میں ابدیت کی زندگی میں سکون سے سو سکتا ہوں‘۔

    آزادی اور حقوق کی علامت اور بیسویں صدی کی قد آور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا 5 دسمبر سنہ 2013 کو 95 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنوبی افریقہ: ممتاز سیاسی کارکن اور نیلسن منڈیلا کی سابق اہلیہ ونی منڈیلا انتقال کر گئیں

    جنوبی افریقہ: ممتاز سیاسی کارکن اور نیلسن منڈیلا کی سابق اہلیہ ونی منڈیلا انتقال کر گئیں

    کیپ ٹائون: جنوبی افریقہ میں‌ نسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی شہرت یافتہ سیاسی و سماجی کارکن ونی منڈیلا انتقال کر گئیں.

    تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی اہلیہ ونی منڈیلا کا انتقال ہوگیا، ان کی عمر 81 برس تھی، ان کے اسسٹنٹ نے ان کی موت کی تصدیق کی.

    وہ طویل عرصے سے علیل تھیں، سال کے آغاز میں‌ انھیں اسپتال میں‌ داخل کروایا گیا، مگر علاج کے باوجود ان کی طبعیت نہیں‌ سنبھل سکی.

    ان کا پورا نام ونی ودکیزیلا منڈیلا تھا، وہ 1936 میں ایسٹرن کیپ میں پیدا ہوئیں، 1950 کی دہائی میں ان کی ملاقات نیلسن منڈیلا سے ہوئی.

    اس زمانے میں‌ نیلسن منڈیلا ایک سماجی کارکن کے طور پر کام کر رہے تھے، انھوں‌ نے اپنے شوہر کے ساتھ نسل پرستی کے خلاف طویل جدوجہد کی.

    ان کی اور نیلسن منڈیلا کی شادی 38 برس قائم رہی، جس کا بڑا عشرہ نیلسن منڈیلا نے جیل میں‌ گزارا. طلاق کے بعد بھی انھوں نے اپنے نام کے ساتھ منڈیلا کا استعمال ترک نہیں‌ کیا.

    انھیں جنوبی افریقہ میں‌ آزادی اور حقوق انسانی کی علم بردار کے طور پر دیکھا جاتا تھا، البتہ بعد کے برسوں میں‌ ان پر سیاسی الزامات عائد کیے گئے اور قانونی معاملات کا سامنا کرنا پڑا.


    نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین


    نیلسن منڈیلا کا دن: زندگی بدل دینے والے اقوال


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    جوہانسبرگ : جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق نسلی تعصب کےخلاف جدوجہد کی علامت آنجہانی نیلسن منڈیلا کی آج چوتھی برسی جنوبی افریقہ سے دنیا بھر میں منائی گئی اور ذبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن انسانیت کے فکر و فلسفہ کے فروغ کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا.

    سرکاری سطح پر مرکزی تقریب میں افکار نیلسن منڈیلا سے سجی محفل میں ان کی زندگی اور جدوجہد پر سیر ھاصل گفتگو کی گئی اور مرحوم کی جدوجہد کو نسلی تعصب کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا گیا.

    جنوبی افریقہ کے عوام نے اپنے ہر دلعزیز قائد اور مسیحا کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا اور نیلسن منڈیلا کی قد آور تصاویر کے سامنے شمعیں روشن کیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا.

    مخالف، عظیم انقلابی، بابائے جمہوریت آنجہانی نیلسن منڈیلا 1918 میں جنوبی افریقہ میں پیداہوئے اور سیاہ فام لوگوں کوغلامی سے نجات دلانے کیلئے جدو جہد کا آغاز کیا اس وقت سیاہ فام قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان سے تیسرے درجے کے شہری سے بھی برتر سلوک کیا جاتا تھا.

    نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کے خلاف نسلی تعصب اور ناروا سلوک کے خلاف اور جائز حقوق کے لیے کم سنی سے ہی جدوجہد شروع کی اور کچھ عرصہ مسلح جدوجہد بھی کی بعد ازاں انہوں نے سیاسی محاز سنبھالا جس کی پاداش میں انہوں نے مسلسل اٹھائیس سال جیل میں گزارے لیکن اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے.

    بلآخر نیلسن منڈیلا کی جدو جہد رنگ لے آئی اور نیلسن منڈیلا کی طویل پرامن جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور سیاہ فام کو سفید فام لوگوں کے برابر حقوق حاصل ہوئے اور انہیں غلامی کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی جس کا سہرہ صرف اور صرف نیلسن منڈیلا کو جاتا ہے.

    نیلسن منڈیلا کی انہی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا چنانچہ 1993 میں انہیں سب سے بڑے ایوارڈ امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا وہ 95 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اس درخشان عہد کا اختتام ہوا جس کی روشنی رہتی دنیا تک جگمگاتی رہے گی.

  • نیلسن منڈیلا ایوارڈ پاکستانی خاتون تبسم عدنان کے نام

    نیلسن منڈیلا ایوارڈ پاکستانی خاتون تبسم عدنان کے نام

    پاکستانی خاتون تبسم عدنان کو خواتین کے حقوق کے لیے انتھک جدوجہد پر کولمبیا میں نیلسن منڈیلا ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    بلند حوصلہ اور ہر مشکل کو زیر کرنے کا عزم پاکستانی خواتین کو دنیا بھر میں نمایاں مقام دلا رہا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کے بعد سوات کی ایک اور بیٹی نے اپنے کام سے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا۔

    tabassum-adnan-post2

    تبسم عدنان کو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے پر نیلسن منڈیلا ایوارڈ 2016 سے نوازا گیا۔ عدنان تبسم نے اپنا ایوارڈ پاکستان کے نام کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک کے عوام کی شکر گزار ہیں جن کی بھرپور حمایت اور تعاون سے وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ بطور پاکستانی خاتون نیلسن منڈیلا ایوارڈ حاصل کرنے پر فخر ہے۔

    تبسم عدنان سوات میں ’خوندے جرگہ‘ کے نام سے تنظیم چلا رہی ہیں جو صرف خواتین پر مشتمل جرگے کی ایک قسم ہے۔ یہ جرگہ ہفتے میں ایک بار اپنی میٹنگ کرتا ہے جس میں خواتین کے مختلف مسائل جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے۔ اس جرگے نے سوات کے کچھ علاقوں میں خواتین کے ووٹ کے حق کے حوالے سے بھی مہم چلائی۔ جرگہ تشدد کا شکار خواتین کو قانونی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔

    tabassum-adnan-post1

    13 تیرہ سال کی عمر میں بیاہی جانے والی تبسم عدنان 20 سال تک اپنے شوہر کی جانب سے ذہنی و جسمانی تشدد برداشت کرتی رہی۔ 20 سال بعد اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی لیکن بدلے میں اسے اپنے بچے اور گھر چھوڑنے پڑے۔

    تبسم عدنان 2015 میں سیکریٹری آف اسٹیٹس انٹرنیشنل ویمن آف کریج کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکی ہیں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تبسم عدنان کو ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد دی اور ان کی بہادری پر فخر کا اظہار کیا۔

  • جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی کی تقریب

    جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی کی تقریب

    جوہانسبرگ :جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی کے موقع پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جوہانسبرگ میں تقریب کا اہتمام کیا گیا ۔

    غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق نیلسن منڈیلا کی پہلی برسی پر ان کے چاہنے والے جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا فاونڈیشن کے دفتر میں جمع ہوئے، جہاں دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات وصول ہوئے۔ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی علامت نیلسن مینڈٰلا کی کے لئے سیکڑوں افراد نے تعزیتی پیغامات ریکارڈ بھی کرائے۔

    نیلسن مینڈٰیلا کو سرکاری طور پرخراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے آبائی قصبے میں تین منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی، نیلسن مینڈیلا کا گذشتہ سال پچانوے سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔